وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے50نئے ہسپتال قائم کرنے کا اعلان فرمایا ہے۔ وہ مریضوں کی بے کسی اور علاج کی عدم فراہمی کا ذکر کرتے ہوئے اَشک بار بھی ہوگئے۔ کسی نہ کسی شکل میں 30سال اقتدار میں رہنے کے بعد اگر آج انھیں اس ملک کے بے کس عوام کی صحت کے بارے میں کچھ فکر لاحق ہوئی ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ چند اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا نے ان پر جو ’مگرمچھ کے آنسوؤں‘ کی پھبتی کَسی ہے، وہ صحافتی آداب کے منافی ہے۔ اسے ’دیر آید درست آید‘ سمجھنا چاہیے۔
ہم پورے ادب سے یہ ضرور عرض کریں گے کہ نئے ہسپتال بھی آپ ضرور قائم کریں، مگر جو سرکاری ہسپتال اس وقت موجود ہیں، کچھ توجہ ان کی طرف بھی دیں، تاکہ وہ ایسے ہسپتال بن سکیں جو مریضوں کو فی الحقیقت بروقت اور صحیح علاج کی سہولت فراہم کرسکیں۔ اس وقت حال یہ ہے کہ بیش تر سرکاری ہسپتال نام کے ہسپتال ہیں۔ نہ وہاں علاج کی ضروری سہولتیں میسر ہیں، نہ صفائی ستھرائی کا کوئی خیال ہے، نہ مناسب اور تجربہ کار ڈاکٹر موجود ہیں اور جو ڈاکٹر ہیں ان میں ایک تعداد ایسے افراد کی بھی ہے، جو ڈاکٹر کم اور قصاب زیادہ ہیں۔ دوائیاں میسر نہیں اور جو ہیں وہ جعلی!
کرپشن کا دور دورہ ہے۔ اہلیت اور خدمت مفقود ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز اپنی ترقی کے مسئلے پر پریشان ہیں اور بڑوں کے رویّے کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ اس احتجاج میں ہرحد کو پھاندنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سینیرڈاکٹروں میں شفقت اور بزرگی کا فقدان ہے۔ اس کش مکش میں جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، وہ بے چارہ مریض ہے۔ ہم درخواست کریں گے کہ وزیراعظم جہاں صحت کے شعبے کے لیے ضروری وسائل فراہم کریں، وہیں علاج معالجے کے پورے نظام اور خصوصیت سے موجود ہسپتالوں اور بنیادی صحت کے مراکز کو بہتر اور مو?ثر بنانے پر توجہ دیں۔ ان تمام اخراجات کو آہنی ہاتھوں سے روکیں جو عیاشیوں کی نذر ہو رہے ہیں اور نئے ہسپتال قائم ضرور کریں، لیکن اس سے زیادہ اہمیت موجود ہسپتالوں کو بہتر بنانے کو اولیت دیں۔
آج ہسپتالوں کا کیا حال ہے اس کے بارے میں ہم دو معروف صحافیوں کے کالم سے چند اقتباس دیتے ہیں، جو صرف اس ایک ہفتے میں دو موقر اخبارات میں شائع ہوئے۔یہ ایک آئینہ ہے، جس میں صحت کی موجودہ کیفیت کی اصلی تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔
رؤف کلاسرا روزنامہ دنیا ( 26اکتوبر) میں ’سابق نیک نام افسر میجر عامر پر کیا گزری‘ بیان کرتے ہیں:
’’میجر صاحب ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ خیریت پوچھنے گیا تو حیرت کا پہاڑ مجھ پر آگرا۔ ان کے بیٹے نے بتایا کہ چند دن پہلے بابا کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ وہ انھیں اسلام آباد کے بڑے ہسپتال ’پمز‘ لے کر گئے۔ وی آئی پی روم لیا مگر24گھنٹوں تک کوئی ڈاکٹر چیک اَپ کے لیے نہ آیا۔ فریج کھولا تو اس کی بہت بْری حالت تھی، واش روم کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب۔ جو صاحب ’پمز‘ کے سربراہ ہیں، وہ ایک بڑے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔24گھنٹے گزرنے کے بعد بابا کی طبیعت بگڑنی شروع ہوئی تو ان کی چھوٹی بہن نے والد کے دوست ملک ریاض کو فون کیا کہ انکل بابا کی طبیعت بگڑگئی ہے اور ہسپتال میں انھیں اٹینڈ کرنے والا کوئی نہیں۔ ملک ریاض آئے اور انھیں پرائیویٹ ہسپتال لے گئے، جہاں ان کی طبیعت بہتر ہورہی ہے۔ پرائیویٹ ہسپتال میں آپ کی زندگی بچ سکتی ہے، سرکاری ہسپتال میں آپ صرف مرنے کا انتظار کریں۔ اگر میجرعامر صاحب جیسا نام وَر اور وسیع تعلقات رکھنے والا انسان بھی سرکاری ہسپتال سے بھاگ جائے اور پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے پر مجبور ہو، تو کیا وزیراعظم کے رحیم یارخاں میں غریبوں کا علاج نہ ہونے پر بہائے گئے آنسوؤں کو ہمیں سنجیدگی سے لینا چاہیے؟‘‘
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ڈائرکٹر نیوز اور معروف صحافی سرور منیر راؤ نے اپنی آپ بیتی نواے وقت (23اکتوبر) میں ’وزیراعظم آب دیدہ!‘ کے عنوان سے لکھی ہے، جس پر پوری قوم جتنی بھی شرم سار ہو، کم ہے:
’’ربِّ کریم نے میری بیٹی کو سات سال بعد عیدالاضحی سے تین دن قبل اولادِ نرینہ سے نوازا۔ بچہ جب پانچ دن کا ہوا تو اسے یرقان کی وجہ سے ایک نجی ہسپتال کے چائلڈ اسپیشلسٹ کو دکھایا، اس نے کچھ ضروری ٹیسٹ لکھے۔ ان ٹیسٹ رپورٹوں سے پتا چلا کہ یرقان بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر نے تجویز کیا کہ کسی بھی چلڈرن ہسپتال میں لے جائیں، کیونکہ بچے کا خون تبدیل کرنا ہوگا۔ اسی دوران رات کے 11 بج چکے تھے۔ ہم اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال ’پمز‘ کے شعبۂ اطفال پہنچے۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے انتہائی اخلاق سے ہمیں کہا کہ: ’’واقعی بچے کا خون تبدیل ہونا ضروری ہے، لیکن ہم آپ کی مدد کرنے سے اس لیے قاصر ہیں کہ بچوں کی ICU (نرسری) میں مزید کوئی جگہ نہیں‘‘۔ واقعی وہاں ایک ایک baby incubator میں تین تین بچے تھے۔ ڈاکٹرصاحب نے ہمیں کہا: ’’آپ تبدیلیِ خون کے لیے کسی نجی ہسپتال میں نہ جایئے گا، بہتر ہے کہ آپ راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کے بچوں کے شعبے میں چلے جائیں۔ ہم فوری وہاں پہنچے۔ اتفاق سے ہولی فیملی ہسپتال کے شعبۂ اطفال کے انچارج ڈاکٹر صاحب شناسا تھے۔ انھوں نے ایک ڈاکٹر کو فون پر ہدایت کی کہ وہ خصوصی توجہ دیں۔ ہولی فیملی کے ڈاکٹروں اور عملے نے بھرپور تعاون کیا لیکن کیا کیا جائے کہ جہاں ’آوے کا آوا‘ ہی بگڑا ہو، وہاں کیا ہوسکتا ہے؟ بچے کو خون دینے کے لیے ڈونر بھی ہمارا اپنا بھتیجا تھا، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ڈیوٹی پر موجود نرسیں اور ڈاکٹر بچے کی vein یعنی نس تلاش نہ کرسکے۔ بار بار جسم کو Prick [سیخ زدن] کرنے کی وجہ سے پانچ دن کا بچہ شدید تکلیف میں تھا۔ اس کی نڈھال حالت کو دیکھتے ہوئے جب میں نے احتجاج کیا تو انھوں نے بتایا کہ: ’’عید کی چھٹیوں کی وجہ سے ہماری تربیت یافتہ نرس چھٹی پر ہے۔ اس لیے ہمارے پاس اب دوراستے ہیں کہ یا تو آپ بچے کو بے نظیر بھٹو ہسپتال لے جائیں، اگر وہاں تربیت یافتہ نرس موجود ہے تو وہاں سے Cannula (کینولایعنی خون کی بڑی ورید میں بڑی سوئی لگانا)لگوا کر یہاں واپس لے آئیں، تاکہ ہم بچے کو خون لگاسکیں۔ دوسری صورت میں صبح 10بجے تک انتظار کریں، آپریشن تھیٹر میں چھوٹے سے آپریشن کے بعد Cannula لگا دیا جائے گا‘‘۔
’’بچے کی تشویش ناک حالت کے پیش نظر ہم نے اسے بے نظیر بھٹو ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے بے نظیر بھٹو ہسپتال فون کر کے ہمیں رابطہ نمبر دے دیا۔ اس طرح ہم وہاں پہنچے۔ اگر یہاں سے وہاں فون نہ کیا ہوتا تو شاید ہمیں وہاں کوئی لفٹ نہ ملتی۔ خوش قسمتی سے وہاں موجود عملے نے کینولا لگا دیا اور ہم واپس ہولی فیملی آئے۔ اس وقت رات کے ۳بج چکے تھے۔ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک بچے کو کینولا لگوانے کے عمل میں چار گھنٹے صرف ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور بچہ خون کی تبدیلی کے بعد کافی بہتر ہوگیا۔ اگلے روز اس کا یرقان کنٹرول میں تھا۔ بچے کو نرسری سے پرائیویٹ روم میں شفٹ کر دیا گیا۔ ہسپتال کی نرسری کے باہر داخلی ہال میں نومولود بچوں کی سیکڑوں مائیں اور متعلقہ افراد فرش پر بیٹھے تھے۔ وقفے وقفے سے 20،20ماؤں کو نرسری کے اندر بلوا کر بچوں کو دودھ پلوایا جاتا تھا۔ ایک سے10 دن کی زچہ مائیں اپنی تکلیف اور حالت بھول کر، پریشان حال اپنی اپنی باری کی منتظر تھیں۔ ان کی جسمانی کیفیت کی منظرکشی انتہائی دل خراش ہے۔ مدر فیڈنگ کے لیے کوئی باضابطہ و باعزت جگہ مجھے نظر نہ آئی۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک دن بعد آپ بچے کو گھر لے جاسکتے ہیں۔ اگلے روز بچے کی حالت بہتر ہونے کے بجاے خراب ہونے لگی۔ بچے کے دل کی دھڑکن کافی تیز ہوگئی۔ بارہا لگا کہ اس کا سانس بھی اْکھڑ رہا ہے۔ بچے کو دوبارہ نرسری لے گئے۔ میں بھی ساتھ ہی گیا۔ ہولی فیملی ہسپتال کی نرسری دیکھ کر مَیں پریشان ہوگیا۔ اس روز وہاں ایک ایک’بے بی انکوبیٹر‘ میں تین تین اور چار چار نومولود بچے تھے۔ مریض بچوں کی تعداد 200کے لگ بھگ تھی۔ ڈیوٹی پر صرف دو نرسیں اور ایک ڈاکٹر صاحب تھے۔ انھوں نے بچے کو ایک ’انکوبیٹر‘ میں ڈالا، جس میں پہلے ہی تین بچے تھے۔ ایک بچے کا کینولا دوسرے بچے کے منہ میں جارہا تھا۔ مختلف بیماریوں کی تخصیص کیے بغیر، بچوں کو جہاں جگہ تھی وہاں رکھ دیا جاتا۔ میں حیران اور پریشان یہ منظردیکھ رہاتھا۔ نرسری کے فرش پر آلودہ اشیا بھی بکھری پڑی تھیں۔ ڈاکٹر نے میرے نواسے کو چیک کرنے کے بعد نرس سے کہا: ’’بچے کا بلڈٹیسٹ کے لیے نکالیں‘‘۔ میرے سامنے انھوں نے بچے کو ’انکوبیٹر‘ سے نکال کر ساتھ رکھی میز پر لٹایا۔دس منٹ تک کوشش کے باوجود نرس خون کا نمونہ لینے میں ناکام رہی۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا اور صورتِ حال بتائی۔
’’ڈاکٹر صاحب موقعے پر آئے تو پتا چلا کہ: ’’بچوں کا خون نکالنے کے لیے مخصوص بٹرفلائی نرسری میں ختم ہوچکے ہیں، اس لیے وہ بڑی سوئی والی بٹرفلائی سے کوششیں کر رہی ہے۔ ہمیں ضروری سہولتیں ہی میسر نہ ہوں تو ہم علاج کیسے کریں گے۔ ہماری بھی کوئی نہیں سنتا۔200 سے300 نومولود بچوں کی ایمرجنسی کے لیے سٹاف بہت کم ہے۔صفائی کا عملہ بھی اپنی مرضی کرتا ہے۔ ضروری ادویات اور ایمرجنسی کا ساما ن پورا نہیں ہوتا، اس لیے مریض کے لواحقین کو سامان لانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ آپ بھی باہر میڈیکل سٹور سے بٹرفلائی منگوا دیں‘‘، جو ہم اگلے ہی لمحے لے آئے۔ اس سے بھی خون کا نمونہ لینے میں نرس کامیاب نہ ہورہی تھی۔ اسی اثنا میں مَیں نے جب بچے کے پاؤں کی جانب دیکھا تو دومکوڑے نرسری کی ٹیبل پر بچے کے پاؤں کے ساتھ لگے خون سے چمٹے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً فیصلہ کیا کہ بچے کو یہاں رکھنا مزید بیماریوں میں مبتلا کرنے کے مصداق ہے۔ میں ڈیوٹی ڈاکٹر کے پاس گیا اور درخواست کی: ’’براہِ مہربانی مجھے بتایئے کہ مَیں بچے کو کہاں لے جاؤں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ: ’’بے نظیربھٹو ہسپتال کی نرسری کا حال ہم سے مختلف نہیں۔ ’پمز‘ قدرے بہتر ہے لیکن وہاں بھی آپ کو سہولتیں نہیں ملیں گی۔ چھوٹے پرائیویٹ کلینکس میں توبچوں کی نرسری نہ ہونے کے برابر ہے۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال نے حال ہی میں بچوں کی نرسری شروع کی ہے۔ وہ بہتر ہے لیکن بہت مہنگا۔ اگر آپ اخراجات برداشت کرسکتے ہیں تو وہاں لے جائیں‘‘۔ بچے کی زندگی بچانے کی خاطر ہم فوراً شفا انٹرنیشنل پہنچے۔بچوں کی ایمرجنسی میں تو یوں لگا کہ شاید بچے میں دم ہی نہ ہو۔ انھوں نے فوراً بچے کو ’خصوصی انکوبیٹر‘ میں ڈالا اور کہا: ’’دْعا کریں اللہ اسے زندگی عطا کرے، بچے کی حالت تشویش ناک ہے‘‘۔ شکرالحمدللہ، چند منٹ بعد بچے نے حرکت شروع کی۔ انھوں نے ضروری چیک اَپ کے بعد بچے کو فوری طور پر بچوں کی نرسری کیالگ کمرے میں منتقل کیا اور کہا کہ: ’’بچہ ہولی فیملی ہسپتال سے کئی قسم کے انفیکشن لے آیا ہے، اس لیے اسے الگ رکھنا لازم ہے‘‘۔ اگلے دن مختلف رپورٹس آنے پر پتا چلا کہ بچے کے خون میں انفیکشن ہے۔ ۰۱روز تک بچے کا انتہائی نگہداشت میں علاج ہوا۔ تقریباً 2 لاکھ روپے کا بل ادا کر کے ہم بچے کو واپس گھر لائے تو ڈاکٹر نے کہا:’’ گھر پر اسے مزید 15دن تک صبح و شام انجکشن لگیں گے‘‘۔
یہ دل خراش داستان خود بتا رہی ہے کہ موجودہ ہسپتالوں میں کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ نئے ہسپتا ل ضرور قائم کریں، لیکن موجودہ ہسپتال جن کے قیام پر کروڑوں روپے لگے ہوئے ہیں اور جن کو چلانے پر اب اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں، خدارا انھیں صحیح معنوں میں ہسپتال بنانے کی طرف بھی توجہ دیں۔ اگر ایسے ہی کچھ اور سفید ہاتھی آپ نے زمین پر کھڑے کر دیے تو اس سے کسی کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔