ڈاکٹر محمد اقبال خلیل

215

ری پبلکن امیدوار ڈونلڈٹرمپ انتخاب جیتتے ہی متنازع بن گئے اور اُن کے خلاف بڑے پیمانے پر امریکا میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو بالکل نئی بات ہے۔ اس سے پہلے کسی بھی امریکی صدر کے انتخاب پر عوامی احتجاج نہیں ہوا۔ دونوں پارٹیوں کے صدور وقتاً فوقتاً منتخب ہوتے رہتے ہیں، لیکن لوگ انتخابی نتائج تسلیم کرلیتے ہیں۔ لیکن اِس بار ایسا نہیں ہے اور عام لوگ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ کئی لوگوں نے تو انتخابی نتائج سنتے ہی اپنے ٹی وی سیٹ توڑ ڈالے اور اس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیوز چلنے کے بعد اس کو’’ٹی وی توڑ‘‘ انتخابات کا نام دیا گیا۔ احتجاج کا ایک اور منفرد انداز اُن لاکھوں امریکیوں کا تھا جنہوں نے اپنی امریکی شہریت ہی ختم کرنے کا اعلان کردیا اور کینیڈا، نیوزی لینڈ اور دیگر یورپی ممالک کو امیگریشن کے لیے آن لائن درخواستیں دے ڈالیں۔ جمہوری ممالک میں اتنا شدید ردعمل اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ امریکا کے تمام بڑے شہروں میں نومنتخب صدر کے خلاف زبردست مظاہرے ہورہے ہیں جو خود بھی امریکا میں انوکھا عمل ہے۔ مظاہرین مشتعل ہیں۔ آنسو گیس بھی چل رہی ہے، گرفتاریاں ہورہی ہیں اور پولیس کا لاٹھی چارج بھی۔ ٹی وی اسکرین پر یہ سب کچھ دکھایا جارہا ہے۔
اس عوامی ردعمل کی اصل وجہ ڈونلڈ ٹرمپ خود ہیں۔ انہوں نے انتخاب جیتنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے امریکا میں قوم پرستی اور مذہبی منافرت پیدا کی۔ اس طرح امریکا کے آزاد معاشرے میں نفرت کی دیواریں کھڑی کرکے قوم کو تقسیم کردیا۔ حب الوطنی کے نام پر اپنی ہی قوم میں سیاہ و سفید کی تقسیم کردی۔ لاطینی امریکی باشندوں کو ہدف بنایا گیا۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگایا گیا۔ غرض یہ کہ سفید فام ووٹروں کے اندر عصبیت کا جذبہ پیدا کرکے اُن سے ووٹ حاصل کیے گئے۔ اس طرح وہ انتخاب تو جیت گئے، وہ بھی تیکنیکی بنیاد پر۔ ہیلری کلنٹن نے مجموعی طور پر ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ ووٹ لیے لیکن ریاستی الیکٹورل ووٹ کی بنیاد پر وہ ہارگئیں۔ اس لیے ہیلری کلنٹن کے حامی اور آزاد عنصر جس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، وہ ٹرمپ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹرمپ نے صرف سفید فام ووٹوں ہی کے حصول کے لیے کوشش نہیں کی بلکہ کئی اور طبقات کو بھی اپنے ساتھ ملایا اور اس میں ہندو ووٹ بھی شامل ہیں۔
آج کل فیس بُک پر ٹرمپ کی ایک وڈیو چل رہی ہے جس میں ایک بڑے کنونشن سینٹر میں بھارتی ہندو جمع ہیں اور ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اُن سے خطاب کررہے ہیں جس میں وہ اُن کو یقین دلا رہے ہیں کہ اگر میں صدرِ امریکا منتخب ہوا تو صدارتی محل وائٹ ہاؤس میں ان کا ایک دوست ہوگا، بلکہ بہترین دوست ہوگا، مجھے ہندوؤں سے محبت ہے اور مجھے انڈیا سے محبت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں بھی ہندو ہوں۔ صرف اس کی کسر رہ گئی تھی، باقی سب کچھ انہوں نے کہہ دیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف وہ تارکین وطن کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں، ان کو ملک سے نکالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، اپنے عہدِ صدارت کے پہلے 100دنوں کے اقدامات میں 30 لاکھ تارکین وطن کو ملک سے نکالنے کا اعلان کررہے ہیں جبکہ ان میں سے ایک طبقے پر جس کا تعلق ہندوستان سے ہے، اپنی محبت نچھاور کررہے ہیں اور ان کے لیے اپنے قلبی جذبات کا اظہار کررہے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ 70سالہ کھرب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کوئی پاگل شخص نہیں ہیں۔ وہ جو کچھ کررہے یا کہہ رہے ہیں وہ ایک انتخابی حکمت عملی کے تحت ہے جس کا مقصد ووٹ حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے امریکی صدارتی انتخاب جیتنے کے لیے سرمایہ کاری کی اور بغیر کسی سیاسی پس منظر کے تمام سیاست دانوں کو مات دے دی۔ اب امریکی لاکھ اپنا سر پیٹیں، رونا دھونا کریں، لیکن وہ کرسئ صدارت پر قبضہ جما چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ہندوؤں سے یہ اظہارِ یکجہتی یکطرفہ نہیں تھا، بلکہ ہندوستان میں موجود انتہا پسند ہندو تنظیموں نے بھی کھل کر ان کا ساتھ دیا اور ان کی امریکی ہندوؤں میں قائم شاخوں کے ذریعے انہیں ووٹ بھی دیا۔
بھارت کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا اظہارِ محبت اور پاکستان کے حوالے سے ان کی مخاصمت کا اظہار بھی دورانِ مہم سامنے آچکا ہے، اور اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ آنے والے دور میں پاکستان کو ایک ایسی امریکی انتظامیہ سے واسطہ پڑے گا جس کا سربراہ اس کا مخالف ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صاف الفاظ میں پاکستان کو ایک خطرناک ملک قرار دے چکے ہیں۔ کئی انٹرویوز میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور اس کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو شمالی کوریا کی طرح ایک بدمعاش ملک قرار دیا اور کہا کہ اس کی ایٹمی طاقت دنیا کے لیے بہت خطرناک ہے جس کا تدارک بہت ضروری ہے۔
پاکستان کو قابو کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت سے مدد لینے کا عندیہ بھی ظاہر کیا ہے۔ جب کہ بھارت پاکستان کا پڑوسی اور دیرینہ دشمن ملک ہے اور اس کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کو مجبوراً ایٹمی صلاحیت حاصل کرنا پڑی ہے۔ ایک دور ایسا بھی رہا ہے کہ امریکا کی ری پبلکن پارٹی روایتی طور پر پاکستان کی حامی سمجھی جاتی تھی، جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی بھارت نواز کہلاتی تھی۔ روس کے ساتھ سرد جنگ کے دور میں پاکستان امریکا کا حلیف تھا اور بھارت روسی کیمپ میں ہوتا تھا۔ پاکستان کو امریکی امداد اور اسلحہ ملتا تھا جب کہ ہندوستان کو روس سے اسلحہ ملتا تھا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ اب تک پاکستان کو اسلحہ یا لڑاکا طیاروں کے مقابلے میں بھارت پر فوقیت حاصل تھی۔ اس وقت بھی پاکستان کے پاس F-16 لڑاکا طیارے موجود ہیں، جب کہ بھارت کے پاس نہیں۔ رونالڈ ریگن کے دور میں جب امریکا اور روس کے درمیان کشمکش عروج پر تھی، اُس وقت پاکستان کمیونسٹوں کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال ہورہا تھا۔ ریگن کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا۔
لیکن اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ اب بھارت امریکا کے پسندیدہ ممالک میں شامل ہوچکا ہے اور پاکستان ایک ناقابلِ اعتبار حلیف ملک کے طور پر گردانا جاتا ہے، اور امریکا افغانستان میں اپنی عسکری ناکامیوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ حالانکہ افغانستان ایک ایسا محاذِ جنگ ہے جس میں دوسپر طاقتیں ہزیمت سے دوچار ہوچکی ہیں اور اب تیسری طاقت امریکا کی باری ہے جس نے تاریخ سے سبق لینے کے بجائے خود تجربہ کرنا چاہا ہے اور اپنی بھاری بھرکم فوجی قوت اور جدید ترین و مہلک ترین اسلحہ کے ساتھ اس دلدل میں کود چکا ہے جس سے نکلنے کے لیے اب ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور الزام پاکستان پر دھر رہا ہے۔
موجودہ ڈیموکریٹک حکومت نے صدر بارک اوباما کی قیادت میں بھارت سے تعلقات بہتر کیے ہیں۔ بارک اوباما نے بھارت کا دورہ کیا ہے جب کہ پاکستان نہیں آئے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ کیا ہے اور اس کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کی ہے۔ امریکا کی بھارت نواز حکمت عملی میں ایک بڑا عنصر چین کی مخالفت ہے۔ یعنی وہ چین کے مقابلے کے لیے بھارت کو کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہندوپاک کشیدہ تعلقات کے پیش نظر اس کا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے اور وہ براہِ راست اس امریکی حکمت عملی کا شکار بنے گا۔ یہی بھارت ہے جس نے پاکستان کو F-16 طیارے دینے کی سخت مخالفت کی اور بالآخر اس سودے کو ختم کرانے میں کامیاب ہوا جو امریکا اور پاکستان کے درمیان 10سال پہلے طے ہوچکا تھا اور پاکستان نے معاوضے کی ایک متعین رقم بھی امریکا کو ادا کردی تھی۔ امریکا پاکستان کو دہشت گردی کے مقابلے کے لیے طیارے دینا چاہ رہا تھا، جب کہ بھارت کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان ان کو بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔
اب بھارت کا پاکستان کے خلاف پسندیدہ ہدف اس کی ایٹمی صلاحیت ہے جس کو وہ ہر قیمت پر اس کے ہاتھ سے چھیننا چاہتا ہے، اور اِس کام کے لیے وہ امریکا کو استعمال کررہا ہے۔ جب اس سال کے شروع میں پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا امریکا کا سرکاری دورہ تھا تو اس موقع پر بھارت نے اپنی لابنگ کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکا کو یہ باور کرایا کہ وہ اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ وہ اپنی ایٹمی استعداد کو محدود کرنے کا اعلان کرے۔ چنانچہ واشنگٹن سے اسلام آباد کو امریکا اور پاکستان کے قائدین کی ملاقات کے حوالے سے مشترکہ اعلامیہ کا جو ڈرافٹ بھیجا گیا اس میں پاکستان کی جانب سے یہ یقین دہانی شامل تھی کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو محدود کرے گا۔ اس سے پہلے بھی بارہا امریکا یہ کوشش کرچکا تھا اور اس کام کے لیے مختلف اصطلاحات کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ کبھی Freezing یعنی منجمد کرنے کی بات ہوتی رہی، پھر Capping یعنی ٹوپی پہنانے یا ڈھکن ڈھالنے کا لفظ استعمال ہوتا رہا۔ اب Contain یعنی محدود کرنے کا مطالبہ تھا۔
امریکی حکومت کے اس مطالبے نے اسلام آباد میں ایک کھلبلی مچا دی اور حکومت، وزارتِ خارجہ اور عسکری ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ ظاہر ہے کسی بھی پاکستانی قیادت کے لیے نیوکلےئر پروگرام پر سودے بازی کرنا ممکن نہیں۔ پاکستانی قوم کسی بھی قیمت پر اس کے لیے تیار نہیں ہوسکتی۔ 1998ء میں بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے جو ایٹمی دھماکے کیے تھے اُس وقت بھی پوری پاکستانی قوم اور امتِ مسلمہ پاکستانی قیادت کی پشت پر کھڑی تھی۔ اب اتفاق سے اسی قیادت کو ایک نئی صورت حال سے نبرد آزما ہونا تھا، چنانچہ پاکستانی قیادت کی جانب سے امریکی قیادت کو پیغام دے دیا گیا کہ ہمارے لیے اعلامیہ کی اس شق کا اعلان ممکن نہیں ہے۔ چونکہ میاں صاحب کو دورے کی دعوت خود امریکی صدر نے دی تھی اور اس اختلاف کا نتیجہ اس دورے کی منسوخی کی صورت میں نکل سکتا تھا اس لیے امریکی انتظامیہ نے گھٹنے ٹیک دیے اور اعلامیہ سے یہ نکتہ خارج کردیا گیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اعتراض کیا ہے اور اس بناء پر پاکستان کو خطرناک ملک قرار دیا ہے تو یہ کوئی نہیں بات نہیں ہے۔ اس کام کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کی کوئی مدد لیں گے، یہ بھی واضح نہیں۔ اگر بھارت کی مرضی چلتی تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم ہوچکا ہوتا۔ اس نے کئی بار کہوٹہ پلانٹ پر بمباری کا بھی پروگرام بنایا ہے لیکن پاکستان کی جانب سے سخت ردعمل کے ڈر سے ایسا نہ کرسکا۔ کہوٹہ بھارتی سرحد سے فضائی حدود میں ایک منٹ کے فاصلے پر ہے لیکن اس کے باوجود اُس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اسے ہدف بنا سکے۔ حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر سنگھ مودی کی بڑھکوں میں آکر بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیکس کے جو دعوے کیے، ان کا حشر نشر بھی سب کے سامنے ہے۔ اب بھی بھارتی فوج کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر گولہ باری میں مصروف ہے جس سے مقامی آبادی کا جانی و مالی نقصان ہورہا ہے اور پاکستانی فوج کے جوان شہید ہورہے ہیں، لیکن پاکستانی فوج نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے اور پاکستان سے کہیں بڑھ کر بھارت کا نقصان ہوا ہے، اس کے باوجود بھارتی قیادت اپنے جنگی جنون میں دیوانگی کا شکار ہے۔ یہی حال دنیا کے بلند ترین جنگی محاذ سیاچین گلیشیر کا ہے جہاں انتہائی نامساعد حالات میں دونوں فوجیں آمنے سامنے ہیں، لیکن بھارتی فوج کو پاکستان پر سبقت حاصل نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے خلاف بھارتی کارڈ اگر کھیلنے جارہے ہیں تو وہ کس طرح اس کو نئے انداز سے استعمال کرکے پاکستان کو زچ کرسکتے ہیں، اس کا پتا مستقبل ہی میں چلے گا۔ امریکا کا ایک اور ممکنہ اقدام پاکستانی باشندوں کو امریکی ویزوں کی فراہمی میں کمی ہوسکتی ہے۔ اس کا اعلان بھی ٹرمپ کرچکے ہیں کہ وہ ایسے ممالک سے امیگریشن نہیں ہونے دیں گے جو دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان ممالک میں کون شامل ہے اس کا تو انہوں نے ذکر نہیں کیا لیکن اگر اس میں

حصہ