حبیب الرحمن

236
لوگوں کو منظم زندگی گزار نے کے لیے بتادیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور ان میں جو اولی الامر ہوں ان کی اطاعت فرض ہے اِلاّ یہ کہ کوئی اولی الامر عوام کو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کوئی حکم دے۔ اپنے سے بڑوں کا ادب و احترام بھی سکھایا گیا اور بڑوں کے لیے یہ بات لازم قرار دی گئی کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کا خیال رکھیں۔ ہر قسم کی دھوکا دہی، جعل سازی، مکر، جھوٹ اور فریب کی ممانعت کردی گئی، ہر بات میں ایمانداری کو اپنانے کا حکم دیا گیا۔ منافقت کو ناپسند کیا گیا، کسی کو اذیت پہنچانے کے متعلق سخت عذاب کی خبر دے دی گئی، حق اور انصاف بغیر کسی امتیاز کے فراہم کرنے کو کہا گیا۔ تہمت لگانے والے کے لیے کڑی سزائیں رکھی گئیں، عدالت میں چرب زبانی کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی کہ اگر وہ اس دنیا میں سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں ان کی سخت پکڑ ہوگی، انصاف سہل اور بنا اجرت دیا جانے کا حکم دیا گیا۔ یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی گئی۔ چوروں، ڈاکوؤں کے ہاتھ کاٹنے کا حکم سنایا گیا۔ زانی کو پتھر مار مارکر مار دینے کا کہا گیا۔ جو رزق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس کو اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے کی تلقین کی گئی۔ اور مختلف مدات سے حاصل ہونے والی رقوم کو کس طرح اور کن کن پر خرچ کرنا ہے اس کی بھی وضاحت کردی گئی۔ امانت میں خیانت سے روکا گیا۔ غصے کو حرام قرار دیا گیا۔ پیار، محبت، صبر اور تحمل کا درس دیا گیا۔ سوار کو سلام میں پہل کرنے کی ہدایت دی گئی۔ شادی لازمی قرار دے کر زنا کا راستہ روکا گیا۔ حسب ضرورت ایک سے زائد شادیاں کرنے کی اجازت دی گئی تاکہ زنا کا مزید راستہ روکا جاسکے۔ زائد شادی کی صورت میں ہر طرح کے عدل و انصاف کو لازمی قرار دیا گیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت جزوِلاینفک بنادی گئی۔ حقوق اللہ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن حقوق العباد سے اجتناب یا غفلت کو ناقابلِ معافی جرم گنا گیا تاآنکہ جس کے حقوق کسی دوسرے فرد سے متاثر ہوئے ہوں ان کے درمیان معافی تلافی نہ ہوجائے۔ جائداد کی تقسیم میں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کو شامل کرکے ہر قسم کی جاہلانہ روایت کے بت کو پاش پاش کردیا گیا۔ قطع رحمی کو حرام اور صلہ رحمی کو حلال قرار دیا گیا۔ معاشرے میں رہنے کے اصول سکھائے گئے، اونچی آواز کے ساتھ بولنا ناپسندیدہ قرار پایا اور دھیمے لہجے کو پسند کیا گیا۔ ہر معاملے میں نظم و ضبط کو اولیت دی گئی۔ دو افراد بھی ہوں تو وہ اپنے اندر ایک کو امیر بنالیں۔ پاکیزگی آدھا ایمان قرار پائی۔ جسم، لباس، رہنے سہنے کی جگہ، گھر، گلیاں، بازار، شہر، گاؤں اور ملک کو صاف رکھنے کا حکم آیا۔ روح، دل و دماغ سب کی پاکیزگی مسلمان ہونے سے مشروط کردی گئی۔ خوشگوار زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا، یہاں تک کہ اگر میاں بیوی کے لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے گھر اور پھر خاندان اور پھر محلے پڑوس کا ماحول خراب ہوتا ہو تو ہر دو فریق کو الگ ہونے کا اختیار بھی دے دیا گیا، اور دونوں کے لیے علیحدگی کا طریقہ کار بھی سمجھا دیا گیا۔ باپ کی شان اور رتبہ اپنی جگہ، لیکن ماں کے مرتبے اور شان کو ہر مرتبے اور شان سے ارفع و اعلیٰ کرکے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی۔ بیٹی کو رحمت کہا گیا تو بیٹے کو نعمت۔ یاد رہے کہ نعمت کا حساب ہوتا ہے لیکن رحمت کا حساب نہیں لیا جاتا۔ ہر انسان کا ہر انسان پر، ہر رشتے کا ہر رشتے پر، حاکم کا رعایا پر اور رعایا کا حاکم پر کیا حق ہے اور ان کے ایک دوسرے پر کیا حقوق اور کیا فرائض ہیں، ان سب کا ذکر کردیا گیا۔ کسی پیشے کو برا نہیں کہا گیا (حلال میں سے)، اور کسی پیشے کو اختیار کرنے سے نہیں روکا گیا۔
معاشرتی برائیوں سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے۔ کسی کی عیب جوئی کرنا، برے برے القابات سے ایک دوسرے کو پکارنا، کسی کے پیٹھ پیچھے اُس کی برائی کسی اور سے کرنا، چغلی کھانا، کسی کی تضحیک کرنا، کسی کو حقارت سے دیکھنا، کسی کی خوشامد کرنا، کسی کے راز کو کسی دوسرے تک منتقل کرنا، کسی کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کے لیے آگے نہ بڑھنا، کسی کے راستے میں روڑے اٹکانا خواہ محاورتاً یا حقیقتاً، کسی سے نفرت رکھنا، کسی سے دشمنی میں اتنا آگے بڑھ جانا کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پامال کردینے کے مترادف ہو، راہ چلتے ہوئے اپنے ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں کو اپنے قابو میں نہ رکھنا، بازاروں میں بے جا گھومنا پھرنا، آوارہ گردی کرنا، اپنی زندگی کو بلامقصد گزارنا، لغو اور فضول قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینا، منہ سے مغلظات بکنا، ایک دوسرے کی کھوج میں رہنا، کسی کی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا، لوگوں کو غلط مشورے دینا، لوگوں کی راہ زنی کرنا، ان کو سیدھے راستے سے بھٹکانا، کسی قسم کی مالی منفعت سے دور رکھنا، گھروں میں تاک جھانک کرنا، وعدہ کرکے توڑ دینا، اڑوس پڑوس کو ناخوش رکھنا، بچوں کو ڈرا دھمکا کے رکھنا، خواتین سے امتیازی سلوک کرنا، والدین کا احترام نہ کرنا، بزرگوں کا قطعاً خیال نہ کرنا، اہلِ محلہ کے کام نہ آنا۔۔۔ یہ اور اسی قسم کی بے شمار خرابیوں کو اپنے اندر پال پال کر اتنا تندرست و توانا کرلینا کہ خود دوسروں کے لیے آزارِ جان بن جانا اسلام کی تعلیمات کے یکسر خلاف اور لائقِ تعزیر عمل ہے۔
اسلام ملک کے حاکم کو ملک کے خادم کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی بھی ریاست کا اصل حاکمِ اعلیٰ اللہ ہی ہے کوئی انسان نہیں، اور اصل میں اللہ ہی حاکمیت کے لائق ہے اور کوئی حاکمیت کے لائق ہے ہی نہیں۔ اسلام کا بنیادی فلسفۂ ریاست ہی یہ ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ صرف اور صرف اللہ کی ہے، انسان اس کا نائب ہے اور وہ اس بات کا پابند ہے کہ اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں پر اللہ کے قانون کو نافذ کرے۔ اسی لحاظ سے وہ خلیفۂ وقت کے خلاف کسی بھی بغاوت کو پسند نہیں کرتا تاآنکہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے بنائے ہوئے قانون سے بغاوت کی جانب لے جائے۔ یہی وہ درس ہے جس کی تعلیم حضرت ابوبکر صدیقؓ، خلیفۂ اول نے یہ کہہ کر دی تھی کہ لوگو! اگر میں تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کوئی حکم دوں تو بے شک اس کو نہ ماننا۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس ایک بات کے سوا کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کو جواز بناکر کسی بھی ’’خلیفہ‘‘ کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا جائے۔ اس کے برعکس ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اور جس نظام زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں وہاں حاکم اعلیٰ عوام ہیں اور منتخب ہونے والا نام نہاد ’’خلیفہ‘‘ اللہ کے بجائے عوام کے آگے نہ صرف جوابدہ ہوتا ہے بلکہ وہ مجبور ہے کہ اپنے آپ کو، ملک کے قانون اور آئین کو عوام کی مرضی اور منشا کے مطابق ترتیب دے، کیونکہ وہ عوام کی مرضی سے منتخب ہوا ہے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو عوام کے غیظ و غضب کا سیلاب اسے تنکے کی مانند بہا لے جائے گا۔
الحمدللہ، ہم مسلمان ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم اسلام اور اس کی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔۔۔ اور سب دکھوں سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ہم اپنے ہی ملک میں، جس کو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا، جس کو کبھی پاکستان کہا جاتا تھا اور اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جاتا ہے، اسلام کے نام پر کسی تحریک کو چلانے، اسلام کا نام لینے اور اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے کو جرم خیال کرتے ہیں، اور ہم سب نے جمہوریت میں ہی اسلام کی بقا ڈھونڈ لی ہے۔ جب ہمارا عالم یہ ہو تو ہم اس کرۂ ارض پر پھیلی وسیع و عریض دنیا میں دیگر اسلامی (مسلمانوں کے) ممالک کے متعلق کیا خیال کرسکتے ہیں!
ہم جن اقدار کی بات کرتے ہیں اُن میں سے کوئی بھی قدر، روایت اور رسم ایسی نہیں جس کا تعلق اسلام سے ہو۔ بے شک ان میں سے بے شمار اقدار و روایات، رسوم و رواج ایسے ضرور ہوں گے جن کو اسلام ناپسند نہ کرتا ہو، لیکن یہ بات طے ہے کہ ہم اسلام سے فاصلے بڑھا چکے ہیں اور بہت دوری پر جا کھڑے ہوئے ہیں۔
اسلام مردوں سے کہتا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھو، مگر ہم میں سے ایک بھاری اکثریت کی آنکھیں گلیوں، بازاروں اور شادی بیاہ کی محفلوں میں بڑی بے باکی سے تلاش و جستجو میں مشغول نظر آتی ہیں۔ خواتین کا بھی عالم ان نگاہ بازوں سے کوئی مختلف نظر نہیں آتا، وہ بھی گڈے گڑیوں کی طرح سج سجاکے گلیوں، بازاروں اور شادی بیاہ کے مواقع پر پریوں کے سے انداز میں دعوتِ نظارا دیتی پھر رہی ہوتی ہیں۔
ہمارا کھانا بے شک حلال اشیا کا ہی ہوتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ جو کھانا ہم کھا رہے ہیں وہ حلال آمدنی کا بھی ہے یا نہیں؟ اشیا تو ساری حلال ہی ہیں، ان کا ذائقہ بھی بہت خوب ہے اور ان کو پیش کرنے کا انداز بھی اسلامی ہے، لیکن اگر یہ سب کچھ اُس آمدنی سے خریدا گیا ہے جس میں حرام کی آمدنی کا پیوند لگ گیا ہے تو کیا وہ حلال ہی کہلائے گا؟ اسی طرح ہمارا پہننا، اوڑھنا، خرید و فروخت کرنا اور نیک کاموں میں اپنا سرمایہ لگانا کیا اسلامی کہلائے گا؟ کیا ان باتوں پر بھی بھی ہمارا دھیان گیا ہے؟
پرانی روایات، قدر یا رسوم و رواج ہی ہماری ثقافت نہیں جس کو فروغ دینے کے چرچے ہمارا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا دن رات کرتا نظر آتا ہے۔ کیونکہ یہ ساری کی ساری قدریں، رسوم اور رواج ہمارے قبیلہ جاتی اور علاقائی ہیں۔ بے شک اس میں سارے کے سارے ایسے بھی نہیں جن پر اسلام کوئی قدغن لگاتا ہو، لیکن ان سب کو اسلامی قرار دینا بھی درست نہیں۔
یہ لڈیاں، یہ بھنگڑے، یہ خٹک ڈانس جیسے الفاظ خود اس بات کی وضاحت کر رہے ہیں کہ ہم کس کس تہذیب کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
خوشی کے مواقع پر اللہ کا شکر ادا کرنا، سجدۂ شکر بجا لانا۔۔۔ اور فتح و کامرانی ملنے پر قربانی کرنے جیسے عمل کو ترک کرکے ہم ہوہا، ہلڑبازی کرنے لگیں، خوب پٹاخے اور پھلجھڑیاں چھوڑیں اور گاڑیوں کے سائیلنسر نکال کر شور شر سے آسمان سر پر اٹھا کر یہ سمجھیں کہ ہم اللہ کو راضی اور خوش کررہے ہیں تو شیطان تو ایسے اعمال سے ضرور محظوظ ہوتا ہوگا لیکن رحمان کسی طور بھی راضی نہیں ہو سکتا۔
آج کل میڈیا جس انداز میں اپنے پروگرام پیش کر رہا ہے تو کیا اس کا تعلق اسلامی تعلیمات سے ہے؟ اللہ خواتین سے کہتا ہے کہ تمہارا بناؤ سنگھار صرف اور صرف شوہروں کے لیے ہے لیکن سارے مارننگ شوزمیں خواتین جس جس انداز میں سج دھج اور بن سنور کر آتی ہیں کیا وہ اسلام کی اقدار ہیں؟ اسلام کہتا ہے کہ اپنی زینت کو چھپا کر رکھو، اپنے چہروں کو اپنی اوڑھنیوں سے ڈھانپ لو، یہاں تک کہ اپنے پاؤں بھی زمین پر اس زور سے نہ مارو کہ تمہاری زینتیں ظاہر ہوں۔۔۔ تو کیا ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں یہی قدریں پیش کی جارہی ہیں؟ نہیں، بلکہ اس کے برعکس خواتین بن سنور کر آتی ہیں، اوڑھنیوں کا تصور تک ان کے انداز میں نہیں پایا جاتا، لباس بھی ستر پوشی کر تے نظر نہیں آتے، بال چڑیلوں کی مانند کھلے ہوئے ہوتے ہیں، ناچ گانا، مٹکنا جھٹکنا سبھی کچھ پیش کیا جا رہا ہوتا ہے۔
اسلام نے مخلوطیت کو سخت ناپسند کیا ہے لیکن میڈیا کو شاید اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی بھی پروگرام ہو، کوئی بھی ٹاک شو ہو، کوئی بھی ڈراما ہو۔۔۔ سب کے سب ڈرامے بازی کرتے نظر آتے ہیں اور وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور اسلام کی تعلیمات کے ساتھ۔۔۔ اور ہمارے ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ کو اس پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ نہ قانون ساز ادارے، نہ عدلیہ اور نہ ’’سالار‘‘ ان ساری اسلامی اقدار کی بیخ کنی پر کسی ناگواری کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
(جاری ہے)

 

حصہ