دریچے

214

159سلمانوں کے لیے فتح ایران کی سب سے بڑی جنگ، جنگِ قادسیہ تھی۔ ایران کی طرف سے اس جنگ میں ان کا سپہ سالار رستم شریک تھا۔ رستم کا نام سب نے ہی سن رکھا ہے۔ یہ جنگ مدائن کے باہر قادسیہ کے میدانوں میں لڑی گئی۔ بعض روایات کے مطابق رستم اپنی فوجی طاقت مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہونے کے با وجود بھی مسلمانوں سے جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ تاریخ سے روایت ہے کہ اس نے کوئی خواب دیکھا تھا، جس کے بعد وہ تذبذب کا شکار تھا۔
خیر پہلے دن ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر رستم قادسیہ کے میدان میں مسلمانوں کی فوج کے سامنے اُترا۔ اس نے اپنا ایک ایلچی حضرت سعدؓ کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ آپ اپنا کوئی معتمد بھیجیں، میں مصالحانہ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت سعدؓ نے ربعی بن عامر کو مسلمانوں کی جانب سے بھیجا۔ ربعی بن عامر گھوڑا دوڑاتے ہوئے ایرانیوں کے لشکر میں داخل ہوئے، اس سے قبل رستم اپنے لشکر کو قوت اور شان و شوکت کا مظاہرہ کرنے کا حکم دے چکا تھا، چناں چہ ربعی کے راستے میں ایرانی فوج کے ہاتھی اور پیادہ فوج کھڑی تھی۔ پڑاؤ کے درمیان ایک شامیانے کو حریر اور اطلس کے پردوں اور موتیوں سے سجایا گیا تھا۔ شامیانے کے درمیان رستم کا سنہری تخت تھا، جس کے اوپر چھتر کو سونے اور ہیرے کی جھالروں سے سجایا گیا تھا۔ فرش پر بیش قیمت قالین تھے اور ان پر گاؤ تکیے لگے تھے، جن پر زربفت کے غلاف چڑھائے گئے تھے۔
یہ ایک عظیم سلطنت کے ظاہری ساز و سامان کی نمائش تھی، لیکن ربعی جس شان سے آئے، انہیں دیکھنے والے دم بخود رہ گئے۔ ان کا لباس موٹا اور کُھردرا تھا۔ ان کی زرّہ ایران کے ایک ادنیٰ سپاہی کے قابل بھی نہ تھی۔ ان کی تلوار کی نیام پر چیتھڑے بندھے ہوئے تھے۔ وہ گھوڑا دوڑاتے ہوئے شامیانے تک پہنچ کر اُترے، پھر اپنے نیزے سے قالین کے سرے میں سُوراخ کیا اور اپنے گھوڑے کی لگام اس میں اٹکانے کے بعد اپنے نیزے کی انی ٹیکتے اور قالین میں سُوراخ کرتے تخت کے قریب پہنچ کر اس کے سامنے نیزہ گاڑا اور تخت پر رستم کے برابر آکر بیٹھ گئے۔ رستم کے آدمیوں نے ان کو تخت سے اُتارنے اور ان کے ہتھیار چھیننے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا: ’’میں تمہاری دعوت پر یہاں آیا ہوں۔ ہمارے مذہب میں اس بات کی اجازت نہیں کہ کوئی تخت پر خدا بن کے بیٹھے اور دوسرے بندے اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوں۔ اگر تم کو میرا یہاں بیٹھنا گوارا نہیں تو میں چلا جاتا ہوں‘‘۔
رستم نے اپنے آدمیوں کو منع کیا اور وہ دور ہٹ گئے۔
ربعی کے دل میں کوئی خیال آیا، وہ تخت سے اُترے اور اپنے خنجر سے قالین کا ایک ٹکڑا کاٹا اور زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا: ’’میں اللہ کی قدرتی زمین کو اس مصنوعی زمین پر ترجیح دیتا ہوں۔ اس کے بعد ان کے اور رستم کے درمیان نوک جھونک جاری رہی۔
جب وہ باہر نکلے تو ایک افسر نے کہا: ’’تم ان چیتھڑے لگی نیاموں کے ساتھ ایران فتح کرو گے؟‘‘
ربعی نے جواب دیا: ’’تم نے صرف نیام دیکھی ہے تلوار نہیں۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے تلوار باہر نکال لی اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں بجلی کوند گئی۔ اس کے بعد ایک سپاہی نے اپنی ڈھال پیش کی اور کہا: کیا تم اسے کاٹ سکتے ہو؟ اس کے بعد ربعی کی تلوار میں جنبش ہوئی اور سپاہی کی ڈھال کے پرخچے اڑ گئے۔ ربعی گھوڑے پر سوار ہوگئے اور یہ کہہ کر اسلامی لشکر کی جانب پلٹ گئے کہ میں میدانِ جنگ میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔۔۔ اور واقعی مسلمانوں نے میدانِ جنگ میں ایرانیوں کو مایوس نہیں کیا۔
nn

حصہ