13160(ام اور زمانہ نزول (سید مہرالدین افضل

201

اس سورہ کا نام اَعراف اس لیے ہے کہ اس میں اَعراف کا ذکر آیا ہے۔ ’’اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ کے درمیان ایک دیوار ہوگی جس کی بلندیوں پر کچھ لوگ ہوں گے جن کے اعمال نہ اتنے اچھے ہوں گے کہ جنت میں بھیج دیے جائیں، اور نہ ہی اتنے خراب ہوں گے کہ جہنم میں ڈال دیے جائیں۔ یہ اپنے رب کی رحمت کے امیدوار ہوں گے‘‘۔
یہ سورہ مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئی، جب کہ اہلِ مکہ کو دعوت دیتے ہوئے بارہ سال کا طویل عرصہ ہوچکا تھا۔۔۔ مکہ نے اپنے ہیرے، موتی اور لعل اسلام کے حوالے کردیے، جو باقی بچے ہیں اُن کی ہٹ دھرمی اور مخالفانہ ضد اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے بنارہے ہیں۔ یہ وہ حد ہے جو انہیں عذاب اور تباہی کے قریب لے آئی ہے۔ نظریے اور اعلیٰ کردار سے متاثر ہونے والے صاحبانِ دل و دماغ ایمان لے آئے، اب وہ باقی رہ گئے جو صرف طاقت کی زبان جانتے ہیں، اس کے لیے فتح مکہ ضروری ہے، جس کے لیے ہجرت لازم ہے۔ یثرب نے دعوت کے لیے اپنے دل کے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہجرت ہونے والی ہے۔
مرکزی مضمون:
اس سورہ کا مرکزی مضمون رسالت پر ایمان ہے۔ لوگوں کو فائنل نوٹس دیا گیا ہے تاکہ وہ غفلت کی نیند سے جاگیں، اس لیے ان کو یہ بتایا جارہا ہے کہ جو طرزعمل تم نے محمدؐکے مقابلے میں اختیار کیا ہوا ہے ایسا ہی رویہ تم سے پہلے کی قومیں اپنے پیغمبروں کے مقابلے میں اختیار کرکے بہت برا انجام دیکھ چکی ہیں۔ اس سلسلے میں سیدنا نوحؑ ، سیدنا ہودؑ ، سیدنا صالحؑ ، سیدنا لوطؑ ، سیدنا شعیبؑ کی قوموں کا ذکر کیا گیا ہے۔۔۔ جتنی قوموں کا ذکر ہے، سب سے اہلِ مکہ واقف تھے۔ ان کے عروج اور زوال کی داستانیں وہاں عام تھیں، اور ہر قوم کا قصہ اُس معاملے پر پورا پورا فٹ ہوتا ہے جو اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا۔ ہر قصے میں ایک فریق نبی ہے جس کی تعلیم، جس کی دعوت، جس کی نصیحت و خیر خواہی، اور جس کی ساری باتیں سب کی سب وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں۔ اور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی عقیدے کی گمراہیاں، جس کی اخلاقی خرابیاں، جس کی جاہلانہ ہٹ دھرمیاں، جس کے سرداروں کا تکبر، جس کے منکروں کا اپنی برائیوں پر اصرار، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاحِ حال کا جو موقع تمہیں دیا جارہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہوکر کھو دیا تو آخرکار تمہیں بھی اسی تباہی و بربادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصے میں آتی رہی ہے۔ انسانی تاریخ پکار پکار کر یہ کہہ رہی ہے کہ افراد کی زندگیوں میں بھی، اور اقوام کی زندگیوں میں بھی، جب کسی کی غلط کاریوں کا پیمانہ لبریز ہوچکتا ہے اور وہ اپنی مہلت کی حد کو پہنچ جاتا ہے تو پھر خدا کی گرفت اچانک اسے آپکڑتی ہے، اور ایک مرتبہ پکڑ میں آجانے کے بعد چھٹکارے کا کوئی راستہ اسے نہیں ملتا۔ ہمارے لیے پیغام یہ ہے کہ جب تاریخ کے دوران میں ایک دو دفعہ نہیں سینکڑوں اور ہزاروں مرتبہ یہی کچھ ہوچکا ہے تو آخر کیا ضروری ہے کہ انسان اسی غلطی کو بار بار دہرائے اور ہوش میں آنے کے لیے اُسی آخری وقت کا انتظار کرتا رہے جب ہوش میں آنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
دیگر مضامین:
اس سورہ میں اہلِ کتاب سے بھی خطاب کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سیدنا موسیٰؑ کا ذکر تفصیل سے آیا ہے جس میں واضح کردیا گیا ہے کہ پیغمبر پر ایمان لانے کے بعد اُس کے ساتھ منافقانہ روش اختیار کرنے، اور سمع و طاعت کا عہد استوار کرنے کے بعد اُسے توڑ دینے، اور حق اور باطل کی تمیز سے واقف ہوجانے کے بعد باطل پرستی میں ڈوبے رہنے کا انجام کیا ہے۔ سورہ کے آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو حکمتِ تبلیغ کے متعلق چند اہم ہدایات دی گئی ہیں اور خصوصیت کے ساتھ انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ مخالفین کی اشتعال انگیزیوں اور چیرہ دستیوں کے مقابلے میں صبر و ضبط سے کام لیں اور جذبات کے ہیجان میں مبتلا ہوکر کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اصل مقصد کو نقصان پہنچانے والا ہو۔
داعی کے لیے ہدایت:
آیت نمبر 2 میں ارشاد ہوا: ’’پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو۔ اس کے اُتارنے کی غرض یہ ہے کہ تم اس کے ذریعے سے منکرین کو ڈراؤ‘‘۔
مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکر داعی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے نہیں، بلکہ وہ کسی جھجک اور خوف کے بغیر لوگوں تک دعوت پہنچا دے۔۔۔ اور اس بات کی کچھ پروا نہ کرے کہ مخالفین اس کا کیسا ریسپانس دیں گے۔ وہ بگڑتے ہیں، بگڑیں۔ مذاق اُڑاتے ہیں، اُڑائیں۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، بنائیں۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں، ہوجائیں۔ تم بے کھٹکے اِس پیغام کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا باک نہ کرو۔
اللہ کی ہدایت:
آیت نمبر 3 میں ارشاد ہوا: ’’لوگو، جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو‘‘۔
انسان کو دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے جس ہدایت و رہنمائی کی ضرورت ہے، اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنے وجود کی غرض و غایت سمجھنے کے لیے جو علم اُسے درکار ہے، اور اپنے اخلاق، تہذیب، معاشرت اور تمدن کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے لیے جن اصولوں کا وہ محتاج ہے، اُن سب کے لیے اُسے صرف اللہ رب العالمین کو اپنا رہنما تسلیم کرنا چاہیے اور صرف اُسی ہدایت کی پیروی اختیار کرنی چاہیے جو اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے بھیجی ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے رہنما کی طرف ہدایت کے لیے رجوع کرنا اور اپنے آپ کو اُس کی رہنمائی کے حوالے کردینا انسان کے لیے بنیادی طور پر ایک غلط طریق کار ہے جس کا نتیجہ ہمیشہ تباہی کی صورت میں نکلا ہے اور ہمیشہ تباہی کی صورت ہی میں نکلے گا۔
دنیاوی عذاب کی حقیقت:
آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوا: ’’کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کردیا۔ اُن پر ہمارا عذاب اچانک رات کے وقت ٹوٹ پڑا، یا دن دہاڑے ایسے وقت آیا جب کہ وہ آرام کررہے تھے‘‘۔
بدکار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہے وہ ان کے جرائم کی پوری سزا نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو دندناتا پھر رہا تھا، اچانک گرفتار کرلیا جائے، اور مزید ظلم وفساد کے مواقع اُس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھری پڑی ہے، اور یہ نظیریں اس بات کی ایک کھلی علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بے مہار کی طرح چھوڑ نہیں دیا گیا ہے کہ جو چاہے، جب تک چاہے، کرتا پھرے۔۔۔ بلکہ اوپر کوئی طاقت ہے جو ایک خاص حد تک اُسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے۔۔۔ اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔ یہ تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ جو فرماں روا اس کائنات پر حکومت کررہا ہے اُس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب اِن سارے مجرموں پر عدالت قائم ہوگی اور ان سے ان کے اعمال کی بازپرس کی جائے گی۔۔۔ گویا اس دنیوی عذاب کا باربار واقع ہونا آخرت کی بازپرس کے یقیناًواقع ہونے پر ایک دلیل ہے۔
آخرت میں پکڑ کی بنیاد:
آیت نمبر 6 میں ارشاد ہوا: ’’پس یہ ضرور ہوکر رہنا ہے کہ ہم اُن لوگوں سے بازپرس کریں، جن کی طرف ہم نے پیغمبر بھیجے ہیں، اور پیغمبروں سے بھی پوچھیں کہ انہوں نے پیغام رسانی کا فرض کہاں تک انجام دیا اور انہیں اس کا کیا جواب ملا۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کی بازپرس سراسر رسالت ہی کی بنیاد پر ہوگی۔ ایک طرف پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے نوع انسانی تک خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے کیا کچھ کیا۔ دوسری طرف جن لوگوں تک رسولوں کا پیغام پہنچا اُن سے سوال کیا جائے گا کہ اس پیغام کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔۔۔ اور وہ اپنے کفر و انکار اور فسق ونافرمانی کے لیے کوئی حجّت نہ پیش کرسکیں گے اور ان کا انجام اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ حسرت وندامت کے ساتھ ہاتھ مَلتے ہوئے جہنم کی راہ لیں۔
جن لوگوں تک دعوت نہ پہنچی اُن کا کیا ہوگا؟
آیت نمبر 6 سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص یا جس انسانی گروہ تک انبیاء کا پیغام نہ پہنچا ہو، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔۔۔ یہ مقام فکر ہے کہ روزِ حشر ہم سے سوال ہوگا کہ تم نے ان تک پیغام پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی۔۔۔؟ آج جب کہ ذرائع ابلاغ تک پہنچ اتنی آسان ہوگئی ہے کہ ہر فرد جس کے پاس اسمارٹ فون ہے، اپنی جیب میں ٹی وی اسٹیشن اور ریڈیو اسٹیشن لے کر گھوم رہا ہے۔۔۔ ہم یہ جواب نہیں دے سکیں گے کہ ہمارے پاس وسائل نہ تھے۔۔۔ اس لیے ان ذرائع کو اپنی تفریح کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ابلاغ کے لیے استعمال کرنا ہم سب کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے۔
حق ہی وزن ہوگا، ناحق کا کوئی وزن نہ ہوگا:
آیت نمبر 8 میں ارشاد ہوا: ’’اور وزن اُس روز عین حق ہوگا۔‘‘
اُس روز خدا کی میزانِ عدل میں وزن اور حق دونوں ایک دوسرے کے ہم معنی ہوں گے۔ حق کے سوا کوئی چیز وہاں وزنی نہ ہوگی، اور وزن کے سوا کوئی چیز حق نہ ہوگی۔ جس کے ساتھ جتنا حق ہوگا اتنا ہی وہ باوزن ہوگا۔ اور فیصلہ جو کچھ بھی ہوگا، وزن کے لحاظ سے ہوگا۔ کسی دوسری چیز کا ذرہ برابر لحاظ نہ کیا جائے گا۔ باطل کی پوری زندگی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی طویل و عریض رہی ہو اور بظاہر کتنے ہی شاندار کارنامے اس کی پشت پر ہوں، اس ترازو میں سراسر بے وزن قرار پائے گی۔ باطل پرست جب اُس میزان میں تولے جائیں گے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ دنیا میں جو کچھ وہ ساری عمر کرتے رہے سب ایک گھاس کے تنکے کے برابر بھی وزن نہیں رکھتا۔
(ماخوذ از دیباچہ سورہ الاعراف، اورحاشیہ نمبر 7,6,5,4.،76)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین۔

حصہ