سنا ہے ایک آدمی کے گھر کے سامنے بڑا سرسبز و شاداب درخت تھا جس پر پرندوں کے آشیانے تھے (پرندے ہمیشہ انسانوں سے قبل صبح بیدار ہوجاتے ہیں اور اشرف المخلوقات کو صبح ہونے کی اطلاع دیتے ہیں)۔ سرِشام پرندے اپنے آشیانوں میں دبک جاتے اور صبح صادق کا انتظار کرنے لگتے۔ درخت کے مالک کو جانے کیا سوجھی کہ درخت کٹوا دیا۔ اُس دن تادیر پرندے شور کرتے رہے جب ان کے آشیانے زمین بوس ہورہے تھے۔ تناور شاخیں زمین بوس ہوگئیں، گھونسلے اور انڈے پیروں تلے روندے گئے۔ اگلے دن دیکھا گیا کہ ان تنومند درختوں کے تنوں سے لکڑی کے تختے بنائے جارہے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ لکڑی کے ان تختوں کا کیا کرو گے؟ تو جواب ملا کہ پرندوں کے لیے بڑے سائز کے پنجرے بنواؤں گا۔۔۔ بے چارے سردی میں ٹھٹھرتے تھے اور گرمیاں ہلکان کیے رکھتی تھیں۔ سردی، گرمی سے محفوظ رہیں گے اور دانہ پانی کی تلاش سے بھی آزاد۔۔۔ اب اس دانش وری کو آپ جو چاہے نام دے دیں مگر ملکی سطح پر اب آپ کا واسطہ دانش وروں کی اسی قسم سے ہے۔
پہلے آزاد خیال اور روشن خیال دانش ور عورتوں کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں۔۔۔ میڈیا مساواتِ نسواں کا پرچار کرتے نہیں تھکتا۔۔۔ ٹاک شوز ہیں تو اسی موضوع پر۔۔۔ ڈرامے ہیں تو یہی عنوان کہ عورت کو گھول کر پلا دیا جائے کہ وہ کم تر مخلوق نہیں ہے۔ وہ نہ صرف برابر ہے بلکہ کئی جہتوں سے اس کا پلہ بھاری ہے۔ وہ کیوں نہ جہاز اڑائے، وہ کیوں نہ فوج میں شمولیت اختیار کرے، وہ کیوں نہ جج کی نشست سنبھالے، وہ قانون سازی کے اداروں میں کیوں پیچھے رہے، GNP کو بڑھانے میں وہ بھی برابر کا حصہ ڈالے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مجال نہیں کوئی اس کو روک سکے۔ جو آدمی عورت کی آزادی پر کسی حوالے سے قدغن لگاتا ہے وہ نہ صرف اس عورت کا بلکہ ریاست کا دشمن ہے۔ ریاست عورت کی حقیقی غم خوار ہے۔ وہ قانون پاس کرے گی، ہر وہ ہاتھ تن سے جدا کردے گی جو عورت کی حرمت پامال کرے گا۔ عورت کا تحفظ اس کے خاندانی نظام میں موجود نہیں۔ قانون عورت کو تحفظ فراہم کرے گا۔ قانونی تحفظ کے بعد عورت مضبوط ہوجائے گی۔ اس کو ضرورت نہیں کہ باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے کا خوف کرے۔ عورت کے اندر اس کے حقق کا شعور اِس انداز میں بیدار کیا گیا کہ اس کو احساس دلایا گیا کہ وہ غیر محفوظ ہے اپنے گھر میں، غیر محفوظ ہے اپنے خاندان میں، غیر محفوظ ہے ریاست میں۔
ایک طرف بھارت ہتھیاروں کے معاہدے پر معاہدے کررہا ہے، دوسری طرف ڈیم پر ڈیم بنارہا ہے، آنے والے وقت کی تیاری کے لیے۔ دنیا ایٹمی جنگ کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے، امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب کرکے دنیا کو ایک بولڈ پیغام دیا، مگر شومئ قسمت کہ ہماری اجتماعی دانش پر عورت سوار ہے۔ عورتوں پر تشدد ہمارے سماج کا سب سے دلچسپ عنوان ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کو یہ باور کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے کہ پاکستان کی عورت بہت مظلوم ہے۔ سماج کے سارے مسائل اسی ایک مسئلے سے جڑے ہوئے ہیں کہ عورت ’’بہت بے چاری‘‘ ہے۔ عالمی اداروں کی امداد مشروط بھی اسی سے ہوتی ہے کہ عورتوں کی خودمختاری کے لیے حکومتی سطح پر کیا اقدامات کیے گئے۔ سو، کبھی حکومت عورتوں پر تشدد کے خلاف بل منظور کرتی ہے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے۔۔۔ تو کبھی شرمین عبید چنائے کی پیٹھ تھپتھپاتی ہے، ان کو سپورٹ فراہم کرتی ہے کہ پاکستانی عورت کا جھلسا ہوا چہرہ (سیونگ فیس) دکھاکر انہوں نے بہت بڑی قومی خدمت سرانجام دی۔ گھر سے بھاگنے والی لڑکیوں کو وہ اپنی دستاویزی فلموں (ڈاکیومنٹریز) کا عنوان بناتی ہیں۔ ویسے بھی عالمی سطح پر مختاراں مائی، شازیہ، آسیہ بی بی اور ملالہ ہی پاکستانی عورت کی پہچان ہیں۔
16 نومبر کے اخبار کی اس خبر نے تو کچھ اور پردہ سرکا دیا اس چلمن سے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل نے مردوں کے حقوق سے متعلق بل لانے کی درخواست کی منظوری دے دی۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ بعض خواتین بھی مردوں پر تشدد کرکے ان کے ہاتھ توڑ دیتی ہیں، ان کو گھروں سے نکال دیتی ہیں، اس لیے ’’تحفظِ مرداں بل‘‘ لایا جائے۔ کونسل کے آئندہ تین روزہ اجلاس میں حقوقِ نسواں بل، حقوقِ مرداں، بچوں کے حقوق وغیرہ زیر بحث آئیں گے۔‘‘
عورتیں اپنے حقوق کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائیں اور مرد اپنے حقوق کے لیے زنجیرِ عدل ہلائیں۔۔۔ اور آسمانوں سے فرشتے پرت در پرت اتریں، لوگوں کو ان کے ’’فرائض‘‘ یاد دلانے کے لیے۔ کتنی سادہ سی بات ہے کہ ایک کے حقوق دوسرے کے فرائض ہوتے ہیں۔ جب ہر ایک صرف اپنے حقوق کی بات کرے گا، اس کے لیے واویلا کرے گا یا ریاست سے تحفظ طلب کرے گا تو پھر فرائض اور ذمے داریاں ادا کرنے کے لیے لازماً روبوٹس بنائے جائیں گے۔ روبوٹس فریقین کے فرائض و واجبات ادا کریں اور صنفِ نازک و قوی اپنے حقوق کی جنتوں میں اطلس و دیبا سے سجے تختوں پر آمنے سامنے، دائیں بائیں بہتی دودھ اور شہد کی نہروں سے فیض یاب ہوں۔
آپ سوچیں وہ معاشرے صحت مند ہوتے ہیں جو فرائض کا شعور بیدار کرتے ہیں۔۔۔ یا وہ معاشرے جہاں حقوق، حقوق کا اتنا شور ہو کہ فریقِ مخالف کی کان پڑی آواز سنائی نہ دے؟
علاج وہ کیا جائے جس سے مرض میں افاقہ ہو، اور علاج کرتے ہوئے مریض سے اُس کی مرضی اور پسند نہیں پوچھی جاتی۔ ساری دنیا میں کس جگہ ایسا قانون ہے کہ سارے کے سارے مرد عورت کا اتنا ہی احترام کرتے ہوں جتنا ٹریفک کے قوانین کا۔۔۔ ہر گھر میں عورت کو اس کے تمام حقوق ہر وقت ادا کیے جارہے ہوں، کہیں کسی تلخی، لڑائی جھگڑے یا حق تلفی کی نوبت ہی نہ آتی ہو؟ نہ ہی اس دنیا میں کوئی ایسی بستی ہے جہاں کی ساری عورتیں اپنے مردوں کے تمام حقوق کا انتہائی اعلیٰ سطح پر احترام کرتی ہوں۔ یہ انسانوں کی دنیا ہے، ساتھ رہنے والے اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں بھی کرتے ہیں۔ رواداری، تحمل، قوتِ برداشت، معاملہ فہمی اور اعلیٰ ظرفی جیسی معاشرتی اقدار گاڑی کے ان دونوں پہیوں کو رواں دواں رکھتی ہیں۔ اگر ہمارے پاس اس وقت کچھ بچا ہے تو ہمارا یہی خاندان ہے جو بجلیوں کی زد میں ہے۔
بے شک عورتوں پر تہمت لگانا، جائداد اور وراثت سے محروم کرنا یا کاری اور ونی کی مکروہ رسمیں ہمارے ہی سماج میں وقوع پذیر ہوتی ہیں، لیکن طرفہ تماشا یہ کہ مغربی میڈیا ہو یا ہمارے نام نہاد دانش ور۔۔۔ وہ اس معاملے کو اسلام کے منفی تعارف کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کی آڑ میں چادر اور چار دیواری کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ولی کا مسئلہ، پسند کی شادی، گھروں سے فرار وغیرہ۔۔۔ اس طرح کے معاملات میں ضرورت تو اسلام کی تعلیم کو عام کرنے کی ہے، اس کی اعلیٰ اقدار کے تحفظ اور فروغ کی ہے جن سے ہم بہت دور نکل آئے ہیں۔ اسلامی تہذیب کا احیا صرف قانون سازی سے نہیں ہوا تھا، اس نے اپنی تہذیب کے فروغ کے لیے پورا خاندان اور معاشرہ ترتیب دیا تھا۔
مغرب ہمارے معاشرے میں ’’عورت کی خودمختاری‘‘ کے نام پر اپنے ایجنڈوں کی تکمیل میں مصروف ہے۔ ان مقاصد کے لیے بڑے بڑے فنڈ پانے والی این جی اوز سرگرم عمل ہیں۔
جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان کے تحت چند سال قبل گیلپ کے ذریعے بڑے شہروں میں ایک سروے کرایا گیا اور عورتوں پر جس تشدد کا ہر وقت پرچار کیا جاتا ہے، زمینی حقیقت کیا ہے، اس کو معلوم کرنے کی کوشش کی گئی۔ سروے میں ہر طبقۂ فکر اور عمر کی خواتین شامل تھیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ بھی۔
سروے کے مطابق 70 سے 96 فیصد تک خواتین نے اعتراف کیا کہ انہیں اپنے شوہروں کی طرف سے گھروں میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے، 21 فیصد عورتوں نے اعتراف کیا کہ ان کے شوہروں نے ان پر کبھی نہ کبھی تشدد کیا ہے مگر وہ تھپڑ مارنے یا ہاتھ مروڑنے سے زیادہ نہیں تھا، جب کہ79 فیصد عورتوں نے اعتراف کیا کہ آج تک ان کے شوہروں نے کبھی ان پر ہاتھ تک نہیں اٹھایا۔
اس سوال پر کہ آپ کے شوہر نے کبھی چھری، پستول یا کسی قسم کے اسلحہ کے ساتھ تشدد کیا یا دھمکی دی؟ تو 99 فیصد عورتوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔
مارپیٹ کی کیفیت میں کیا عورت پر تشدد اتنا زیادہ تھا کہ اس کے اثرات بعد میں بھی رہے ہوں؟ 93 فیصد عورتوں نے کہا کہ شوہر کی مار سے ان کے جسم پر کوئی نشان نہیں پڑا، نہ وہ مار اتنی سخت تھی کہ بعد میں درد وغیرہ باقی رہتا۔
مارنے کے بعد زخم لگا ہو یا ہڈی ٹوٹی ہو؟ 97 فیصد عورتوں نے کہا کہ کبھی زخم نہیں آیا۔
اگر شوہر نے تشدد کیا تو کیا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا؟ اس سوال کے جواب میں 97 فیصد عورتوں نے انکار کیا کہ کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑا۔ یہ ہے وہ جسمانی اور جذباتی تشدد جس کو بنیاد بناکر تحفظ حقوقِ نسواں جیسے بل منظور کیے جاتے ہیں۔
اگر پاکستان میں 29 فیصد عورتیں معمولی گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں (جیسا کہ سروے سے معلوم ہوا) تو امریکی معتبر ادارے ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں40 لاکھ سے زائد عورتیں ہر سال مردوں کے تشدد کا شکار ہوتی ہیں، ان میں 40 فیصد اپنے شوہر یا بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، جب کہ امریکا میں ہر تیسری عورت پر زندگی میں کم از کم ایک جنسی حملہ ہوتا ہے۔ اس سروے کے مطابق پاکستان میں ایک فیصد عورتوں کو اسلحہ یا چاقو کی دھمکی دی گئی یا مجروح کیا گیا، جب کہ برطانیہ میں 35 فیصد عورتیں اسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ میں جسمانی تشدد کی وجہ سے آتی ہیں، جب کہ جاپان میں ہر سو میں سے پانچ عورتوں کو مردوں کے ہاتھوں زندگی کا خطرہ ہے۔
اس دنیا میں جب تک انسانی وجود باقی ہے، تشدد باقی رہے گا چاہے مرد عورت پر کرے یا مرد، مرد پر کرے، یا بچے اس تشدد کا شکار ہوں۔ تشدد بجائے خود قابلِ نفرت چیز ہے، اس کے سدباب کی کوششیں ہونی چاہئیں، لیکن اس تشدد کی آڑ میں خاندانی نظام کو منتشر کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عورتوں کے تحفظ کے قوانین مغرب میں بھی موجود ہیں مگر وہ قوانین عورت کو کوئی تحفظ فراہم نہ کرسکے۔ عورت اگر اپنے گھر اور خاندان میں محفوظ نہیں تو پھر وہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔
اس وقت اگر عورتوں پر تشدد بڑھ رہا ہے تو اس کا ذمے دار وہ میڈیا بھی ہے جو بے راہ روی پھیلا رہا ہے، اور حقوقِ نسواں کی وہ تحریکیں بھی جو عورتوں کو اکسا رہی ہیں کہ وہ اپنے خاندان میں محفوظ نہیں۔ ہم نے دیکھا کہ عورتوں کے حقوق کے نعرے لگانے والوں کے اپنے ہاں عورت کس قدر مظلوم ہے۔
حقوقِ نسواں کی جنگ کو اسلحہ فراہم کرنے والے یہ بھول گئے کہ جنگ بہرحال جنگ ہوتی ہے۔ جنگوں میں حدود کا تعین نہیں ہوتا کہ کون سا میزائل کہاں تک کاری وار کرے گا۔ عورتوں کے حقوق کی دہائی مرد کے مسلمہ کردار کو بھی مشکوک کررہی ہے۔ مغرب کے خاندان تو سونامی کی زد میں ہیں، وہاں شادی کے بغیر ازدواجی زندگی گزارنے والے جوڑوں کی تعداد نصف آبادی تک جا پہنچی ہے۔ صنفی بنیادوں پر معاشروں کی تقسیم انہی ہلاکتوں کو جنم دیتی ہے۔ معاشرہ دو صنفوں میں تقسیم نہیں ہے کہ ایک طرف آدمی ہیں اور دوسری طرف عورتیں، جو ایک دوسرے سے حقوق کے حصول کے لیے نبرد آزما ہیں، بلکہ اگر ایک طرف عورتیں ہیں تو وہ عورت محض ماں ہے، بیٹی، بہن یا بیوی ہے، دوسری طرف جو مرد ہیں وہ ایک عورت کے باپ، بھائی، شوہر یا بیٹے اور اس کے محافظ ہیں۔۔۔ اور ایک صحت مند سماج میں قانون نہیں بلکہ مضبوط خاندان کے افراد ایک دوسرے کے حقوق کے ضامن ہوتے ہیں۔
ابتدا میں دی گئی مثال آپ کو خوب سمجھ میں آگئی ہوگی کہ خاندان کے تناور درختوں کو کاٹ کر اس کی لکڑی سے تختے بنا کر (برڈ ہاؤس بناکر)، عدالتوں سے قوانین پاس کروا کر آشیانوں کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔
nn