پانچویں جماعت کے بزم ادب کے سالانہ جلسے میں خوش نویسی اور بیت بازی کے مقابلے میں مجھے جو پہلا انعام ملا وہ گلابی پتنگ کے کاغذ میں لپٹا ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کا پرانا شمارہ تھا جس میں شکاریات پر جو تحریر تھی وہ رات کو خواب میں اسی جنگل میں لے گئی جہاں میں نے بھی دو نالی کی رائفل سے بڑے آدم خور شیر کا شکار کرنے کے لیے فائر کیا اور چیخ مار کر سوئے ہوئے بھائی بہنوں کو اٹھادیا۔ اور یوں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ میرا پسندیدہ رسالہ بن گیا۔ میرے بابو نے بھی میری خواہش پوری کی اور روپے ڈیڑھ روپے کا یہ ’’مہنگا رسالہ‘‘صدر سے منگوا کر دینا شروع کردیا۔ اور میرے اساتذہ میں ایک نام کا اضافہ اور ہوگیا ’’سر الطاف‘‘۔ میں ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ کے جملے اپنے مضامین میں استعمال کرتا اور ہم جماعتوں میں سبقت لے جاتا۔ استاد ماصل خان کہتے ’’صمد تم یہ نہیں لکھ سکتے، بتاؤ کس سے پوچھ کر لکھا ہے؟‘‘ میں کہتا ’’سر الطاف کے اردو ڈائجسٹ سے‘‘۔
الطاف حسن قریشی سے غائبانہ محبت کا یہ رشتہ درجہ نہم میں یوں عروج پر پہنچا جب شاہ خلیل اللہ ندیمؔ نے پوری جماعت کو مضمون ’’میں کیا بنوں گا؟‘‘ لکھنے کو کہا۔ اور میں نے لکھا کہ میں ’’الطاف حسن قریشی‘‘ بنوں گا۔
آج فاران کلب میں الطاف حسن قریشی روبرو تھے اور میں اپنے ماضی میں گم تھا۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کی تقریبِ پذیرائی میں ان مقررین کی اکثریت نے خطاب کیا جن کی صحافتی زندگی الطاف حسن قریشی کے زیر سایہ پروان چڑھی۔ کچھ ایسے تھے جو ان کی طرزِ نگارش سے متاثر ہوئے تھے، لیکن ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے ان کی انٹرویوز نگاری کی طرزِ نگارش کو اپنایا ہو، اور کسی نے اس کا اعتراف بھی نہیں کیا۔ تقریب شروع ہوچکی تھی۔ میں کبھی ماضی کی یادوں میں کھو جاتا اور کبھی مقرر کے لفظوں میں، اور اچانک مجھے بھائی شمس العارفین مدیر پندرہ روزہ ’’شاہکار‘‘ یاد آگئے جو گزشتہ برس ہم سے جدا ہوگئے۔ 70 کی دہائی میں انہوں نے مجھ سے نوجوان صحافی و انٹرویو نگار جلیس سلاسل سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں اُن دنوں پندرہ روزہ ’’تمثیل‘‘ کراچی میں بطور اسسٹنٹ کام کرتا تھا اور جلیس سلاسل اس کے ایڈیٹر تھے۔ میں نے اپنے غریب خانے پر دونوں کی ملاقات کرائی تو شمس العارفین نے جلیس سلاسل سے کہا کہ آپ کے انٹرویوز معلوماتی اور طرزِ نگارش انتہائی خوبصورت و منفرد ہوتی ہے، اس کا کیا سبب ہے؟ جلیس سلاسل نے برجستہ کہا ’’آپ اپنی غلط فہمی دور کرلیجیے، میرے انٹرویوز میں طرزِ نگارش انفرادی قطعی نہیں ہے، اس لیے کہ میں بچپن سے الطاف حسن قریشی کے انٹرویو پڑھتا آیا ہوں اور میں نے انٹرویوز میں انہی کی تقلیدکرنے کی کوشش کی ہے، اور خوبصورتی کا جہاں تک سوال ہے تو میرے انٹرویوز الطاف حسن قریشی کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں ہیں‘‘ (جلیس سلاسل کے انٹرویوز کے دو ایڈیشن ’’ٹیبل ٹاکس‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکے ہیں)۔
اور میری الطاف حسن قریشی سے ملاقات اُس وقت ہوئی تھی جب ’’جسارت‘‘ کا کراچی سے نیا نیا اجرا ہوا تھا اور الطاف حسن قریشی روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے بانی مدیراعلیٰ تھے اور میں نے 71ء میں اُن سے ’’انجمن مصنفین طلبہ‘‘ پاکستان کے نومنتخب عہدیداران کا حلفِ وفاداری کروایا تھا۔ تقریب کاسموپولیٹن کلب میں منعقد ہوئی تھی جس میں معروف افسانہ نگار عفت گل اعزاز، اظہار حیدری، مجید فکری، خلیل احمد خلیلؔ ، عذرا عروج، تاج سلطانہ، عبدالحمید، عرفان علی یوسف وغیرہ نومنتخب عہدیدار تھے، جبکہ میں اس کا پہلا صدر، سید مظفرالحق سیکرٹری جنرل، نورجہاں نوری نائب صدر تھیں۔ یہ اسلامی جمعیت طلبہ کا اسٹوڈنٹس رائٹرز ونگ کہلاتا تھا۔ تقریب میں قریب ہی مقصود یوسفی (روزنامہ نئی بات)، ابرار بختیار (روزنامہ اوصاف)، عنایت علی خان، جنگ کے اختر سعیدی، جسارت کے کالم نگار احمد حاطب صدیقی، ریڈیو پاکستان کے انور سعید صدیقی، آرٹس کونسل کے محمد احمد شاہ، محمود خان، اویس ادیب انصاری، حلیم انصاری اور جلیس سلاسل موجود تھے۔ اختتام پر میں نے جلیس سلاسل کو یہ سب یاد دلایا اور پوچھا کہ اب الطاف حسن قریشی کے متعلق کیا خیال ہے؟ تو انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ گو میں اس کے بعد چار گنا انٹرویوز مزید کرچکا ہوں مگر میں آج بھی اس مقام پر نہیں پہنچا جہاں الطاف حسن قریشی ہیں اور میں آج بھی ان کو اپنا غائبانہ استاد سمجھتا ہوں، وہ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، آج تک پاکستان میں الطاف حسن قریشی جیسا کوئی انٹرویو نگار پیدا نہیں ہوا۔ اٹلی کی اوریانہ فلاسی بین الاقوامی سطح کی انٹرویو نگار تو تھیں مگر علمی معلومات الطاف حسن قریشی کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھیں۔
تقریب کی صدارت محمد عرفان صدیقی (معاونِ خصوصی وزیراعظم) نے کی۔ مہمانِ خصوصی سردار مسعود خان (صدر آزاد جموں وکشمیر) کسی مجبوری کی بنا پر تشریف نہ لاسکے۔ تلاوتِ کلام پاک اور پُرسوز نعتِ مبارکہ کے بعد ایقان حسن قریشی نے کتاب سے متعلق تفصیلی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ ایک کتاب کا نام نہیں بلکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد میں 23 انٹرویو شامل ہیں۔ (ایقان حسن الطاف حسن قریشی کے پوتے ہیں اور ان کے علمی اثاثے کے بھی وارث ہیں)۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ آپ کے تمام رشحاتِ قلم کو یکجا کیا جائے اور نوجوان نسل کو آپ کے کارناموں سے آگاہ کرنے کے لیے اسے محفوظ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ برسوں پرانے ان انٹرویوز کو کتاب میں شائع کرتے ہوئے اس پر حاشیہ بھی لگوا دیا ہے تاکہ غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ہوسکے اور پڑھنے والوں کے لیے بھی آسانی ہو۔ انہوں نے استاد عطا الحق کا یہ جملہ بھی کوٹ کیاکہ ’’آپ واحد صحافی ہیں جو مقدار اور معیار کو ساتھ لے کر چلے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے مختصر مگر جامع تحریر پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسن قریشی صاحب کی نثر میں اتنی دلکشی ہے کہ یہ خود پڑھوا لیتی ہے جیسے یہ داستان ہو۔ میرا قلم اٹھانا بڑی جرأت کا کام ہے۔ آپ نے جس شخص کے بارے میں لکھا اس کو مجسم اور متحرک پیش کیا۔ آپ نے ماضی کو حال سے جوڑ دیا ہے۔ معروف اینکر انیق احمد کو ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کا جو نسخہ ملا اُس میں تیرہویں نمبر پر ڈاکٹر مس خدیجہ فیروزالدین کا انٹرویو شامل نہ تھا جس کا اظہار انہوں نے یوں کیا کہ کتاب میں سب مرد حضرات ہی شامل ہیں، کوئی خاتون نہیں۔ انہوں نے ایک بڑا جملہ کہا کہ ’’انٹرویو دینے والے نابغہ ہیں تو انٹرویو لینے والا لاکھوں میں ایک‘‘ وہ ایک سچے اور کھرے آدمی ہیں، خود بھی تاریخ سے گزرتے ہیں اور ہمیں بھی گزارتے ہیں۔ مولانا سید مودودیؒ سے آپ کی گفتگو کتاب میں ایسی ہے جیسے کلام پاک میں سورہ اخلاص۔ وہ نہ خود مایوس ہیں، نہ مایوس کرتے ہیں۔ ان کا مقصد بامقصد مکالمہ ہے۔ نہ جیتنے کی کوشش، نہ ہرانے کا جتن۔۔۔ وہ چوبیس گھنٹے پاکستانی ہیں۔
ارشاد کلیمی نے ذاتی تعلق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: کون یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ان کی تحریر کو سمجھ سکا! یہ کتاب، کتاب نہیں زہر آب ہے، لیکن تریاق کے ساتھ ہے۔
رؤف طاہر نے اپنے مقالے میں کہا کہ ایوب خان کی آمریت کی گھٹن میں الطاف حسن قریشی تازہ ہوا کا جھونکا تھے۔ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی سچی تصویر آپ کی اہم تحریر ہے۔ انہوں نے زندگی کے تمام شعبوں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ مجھے بھی فخر ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ کام کیا اور آپ سے بہت کچھ سیکھا۔
ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا کہ الطاف حسن قریشی ایک فرد، ایک صحافی، ایک قلم کار کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورے دبستان کا نام ہے۔ یہ کتاب اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ جہاں اس میں قانون دانوں، سیاست دانوں کے انٹرویوز ہیں وہاں سید موودویؒ اور پروفیسر حمید احمد خاں کے انٹرویو بھی ہیں۔ آج کی صحافت بریکنگ نیوز کی سیاست ہے۔ یہ انٹرویوز کی نہیں تاریخ کی کتاب ہے۔
یہی ایک عیب ہے مجھ میں
سرِ دیوار کہتا ہوں پسِ دیوار کے قصے
سجاد میر (آپ نے ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کا دیباچہ لکھا ہے) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: سب سے بڑا خراج تحسین ہم خود ہیں، ہمارے درمیان آپ کی وہی حیثیت ہے جو اولیا میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی ہے۔ میرا تعلق بھی دبستانِِ الطاف حسن قریشی سے ہے، الطاف صاحب اور مجیب الرحمن شامی تو جیل جاکر لیڈر بن گئے مگر میں ایڈیٹر بن گیا۔ آپ نے نظریاتی صحافت کو فروغ دیا۔ جب بھی نظریاتی جنگ لڑی جائے گی اس کے سپہ سالار الطاف حسن قریشی ہوں گے۔ انہوں نے مولانا ابوالحسن ندوی کو کوٹ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا اصل قربانیاں تین ہیں:(1) حضرت اسماعیل،ؑ (2) حضرت حسنؓ ، (3) حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ۔ ان کی وجوہات علی میاں نے کچھ یوں بیان کی ہیں: (1) اطاعت کی وجہ سے،(2) ضبط پر کہ امت بکھر نہ جائے، (3) آرام و آسائش خلافت پر قربان کردینے پر۔ الطاف حسن قریشی بھی حسنی انقلاب کی بہترین مثال ہیں۔ وہ صحافت کا روشن ضمیر ہیں۔
مجیب الرحمن شامی نے بھی بھرپور اظہارِ خیال فرمایا۔ پہلے تو انہوں نے مسلم لیگی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور یوم علامہ اقبال پر چھٹی ختم کرنے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ چھٹی بحال کرو ورنہ سب کی چھٹی ہوسکتی ہے۔ پہلے حکومت ہمارے پیچھے بھاگتی تھی، اب ہم حکومت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ الطاف حسن قریشی پر جو کچھ کہا گیا ہے اورجو کہا جائے گا یہ بہت کم ہوگا، کیونکہ
’’یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں‘‘
آپ ایک ماہنامے کے واحد ایڈیٹر ہیں جن کی تحریر کا ایک ماہ انتظار کیا جاتا ہے، پاکستان میں ہی نہیں پورے عالمِ اسلام میں آپ کی پہچان ہے۔ پاکستانی سیاست کے طالب علموں کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ کرامت بخاری نے کہا: الطاف حسن قریشی ایک عہد کا نام ہے، یہ نہ صرف صحافی ہیں بلکہ ایک صاحبِ طرز اور ثقہ شاعر بھی ہیں۔
ہم تمھیں دور تلک دیکھیں گے
تم ذرا ہاتھ ہلاتے رہنا
تقریب کے صدر عرفان صدیقی نے صاحبِ کتاب سے پہلے اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو محرومیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ 70 برس گزر گئے، ہم آئین اور قانون پر چلتے تو شاید کچھ سنگِ میل پاجاتے۔ آج ہم علمی، فکری توانائی کے بحران کا شکار ہیں۔ فکری دہشت گردی کا دور ہے۔ ہم کو کوئی ایسی اکیڈمی بنانی چاہیے جہاں نوجوانوں کو لکھنے کا سلیقہ دیں۔
الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز میں ڈراما، مکالمے، کردار، تاریخ، انشاء پردازی سب کچھ ہے۔ ان کے سوالوں میں عصری دانش، ماحول اور تاریخ ہے۔ آپ کی کتاب میں حواشی کی وجہ سے قدیم تحریر بھی تازہ ہوگئی ہے۔ اس کتاب کو کالج اور یونیورسٹیوں میں بھی پہنچنا چاہیے۔ آج ہمارے ہاں کتب بینی ختم ہورہی ہے، سرِشام ٹی وی چینلوں پر جھوٹ کا بازار سج جاتا ہے، ہمیں سوچنا چاہیے ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس طرف جارہے ہیں۔ الطاف حسن قریشی کاروانِ صحافت کے سپہ سالار ہیں، ان کا اندازِ تحریر نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
صاحبِ کتاب الطاف حسن قریشی نے کہا کہ کراچی ہمیشہ علم و دانش سے محبت کرنے والوں کا شہر رہا ہے۔ انہوں نے تمام شرکا کے ساتھ فاران کلب کی انتظامیہ کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب جو قوم کی ترقی میں کردار ادا کرسکتی ہے اس کی پذیرائی کا اس قدر خوبصورت اہتمام کیا۔ اس موقع پر ندیم اقبال ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہماری روایت ہے کہ ہم یہاں آنے والے مہمانوں کو فاران کلب کے اعزازی نشان پیش کرتے ہیں۔ صدر غیور ہاشمی نے مہمانوں کو نشان پیش کیا۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں اہلِ دانش و بینش موجود تھے جن کے اعزاز میں پُرتکلف عشایئے کا اہتمام کیا گیا۔ اختتامِ تقریب راقم الحروف نے الطاف حسن قریشی کو جب بتایا کہ ’’میں ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں لکھتا ہوں‘‘ تو انہوں نے بڑی محبت اور گرم جوشی سے گلے میں بانہیں ڈال کر محبت کا اظہار کیا۔ بزرگ کالم نگار محمود عالم صدیقی کے متعلق پوچھا اور ان کے شائع ہونے والے تبصرے کی تعریف کی۔ ایڈیٹر فرائیڈے اسپیشل یحییٰ بن زکریا صدیقی کی صحت کے بارے میں بھی پوچھا اور کہا کہ میں فرائیڈے اسپیشل میں آپ کے جملے پڑھتا رہتا ہوں۔ آخر میں ڈاکٹر سید جعفر احمد کا یہ جملہ ’’پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کام کرنے والی آئندہ نسلیں بھی یقیناًاس ذخیرے سے خاطر خواہ استفادہ کریں گی‘‘ میری بھی آواز ہے۔
nn