چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے عملی طور پر فعال ہونے سے ایک روز قبل بلوچستان میں واقع درگاہ شاہ نورانی پر دہشت گردی کے سانحے اور 60 زائرین کی شہادت نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک روز قبل وزیراعظم نے ’’ضربِ عضب‘‘ کی کامیابی کا اعلان کیا تھا۔ بم دھماکے کا یہ سانحہ کراچی سے متصل بلوچستان کے علاقے ’’حب‘‘ میں پیش آیا، جو پہاڑوں میں گھرا ہوا دوردراز علاقہ ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک دہشت گردوں کی رسائی کہاں تک ہے۔ حب میں واقع درگاہ شاہ نورانی کے دھماکے کے اگلے روز وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف اور برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے مشترکہ طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا۔ چین کا پہلا تجارتی قافلہ گوادر کی بندرگاہ پہنچ گیا اور گوادر سے پہلا قافلہ روانہ ہوگیا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان اور خطے کی عالمی سیاست اور اقتصادی تبدیلیوں کے حوالے سے ’’گیم چینجر‘‘ قرار دیا گیا ہے اور یہ رائے اس لحاظ سے درست ہے کہ اس منصوبے نے عالمی صف بندیوں کو تبدیل کردیا ہے، خاص طور پر عالمی سیاست و اقتصادیات میں چین کے مرکزی کردار نے ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے پرانے نقشے کو تبدیل کردیا ہے۔ اس منصوبے کے فعال ہونے کا سبب 15 برسوں میں افغانستان میں امریکی جنگ کی ناکامی بھی ہے۔ اس ناکامی کا ازالہ کرنے کے لیے امریکہ نے جو اقدامات کیے ہیں اُن میں بھارت کا بھی کلیدی کردار ہے۔ بھارت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف اپنے عزائم کو چھپانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی ہے۔ بھارت کو امریکہ نے افغانستان میں اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مراکز قائم کرنے کی سہولت بھی فراہم کی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے جاری ہیں۔
پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد ضرب عضب کے نام سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نئی مہم شروع ہوئی جس کی کامیابی کے دعوے تسلسل سے حکومت کی جانب سے سامنے آئے۔ دہشت گردی یوں تو پورے ملک میں جاری ہے جس کے خلاف متنوع قسم کے فوجی آپریشن بھی جاری ہیں، جن میں بلوچستان حساس اہمیت رکھتا ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے بھی فوجی آپریشن کی کامیابی کے دعوے کیے گئے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے دفتر میں باغیوں کے ہتھیار ڈالنے اور قومی دھارے میں شامل ہونے کی تقریبات بھی تسلسل سے ہورہی ہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نے کھل کر بلوچستان کو ہدف بنایا ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا تعلق جہاں وسیع تر عالمی سیاست سے ہے وہیں اس کا خصوصی تعلق چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے بھی ہے۔ اس تناظر میں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ قوم کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ درگاہ شاہ نورانی کے ہولناک واقعہ سے پہلے بھی دہشت گردی کے 8 بڑے واقعات پیش آئے جن میں 200 سے زائد افراد شہید ہوئے۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے جن کا تعلق فوج، فرنٹیئرکانسٹیبلری اور پولیس سے ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے تسلسل سے حکمرانوں کے اس دعوے کے بارے میں سنگین سوالات پیدا ہوگئے ہیں کہ ’’دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے، دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے‘‘۔ ہر واقعے کے بعد حکمرانوں کی جانب سے روایتی مذمت اور مجرموں کو کیفرِکردار تک پہنچادینے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد اعترافی بیانات بھی سامنے آتے ہیں۔
پاکستان میں دہشت گردی آج کا واقعہ نہیں ہے۔ افغانستان میں روس کے داخلے کے بعد سے دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ سوویت یونین منہدم ہوگیا۔ اس کے عزائم کو افغانستان میں شکست ہوگئی۔ روس نے اپنی شکست تسلیم کرکے افغانستان سے پسپائی بھی اختیارکرلی‘ لیکن امریکہ سمیت کئی ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں اس خطے میں داخل ہوچکی تھیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد سے آئی ہے اور یہ واقعات کم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ قوم نے حکومت، عسکری اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکمل اختیارات دے دیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے بھی دست برداری کو رضاکارانہ طور پر قبول کرلیا۔ اس کے باوجود ایسے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں جو ہر آنکھ کو اشکبار، ہر دل کو افسردہ اور ہر جان کو خوف زدہ کردیتے ہیں۔ دہشت گردی کے ہر سانحے کے بعد اس قسم کی اطلاعات بھی سامنے آتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سے واقعات کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس موجود ہوتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے روکنے میں ناکامی کی ذمے داری کس پر ہے؟ کیا دہشت گرد ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ منظم، زیادہ تربیت یافتہ، زیادہ مسلح ہیں؟ کیا ان کا انٹیلی جنس کا نظام ریاستی انٹیلی جنس کے نظام سے زیادہ بہتر ہے؟ کیا ان کے پاس قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ بہتر اسلحہ اور ٹیکنالوجی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ پاکستان چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے اور پاکستان کے دشمن اپنی دشمنی کا کھل کر اعلان کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جس اتحاد، یکجہتی اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی کا فقدان سیاسی بحران سے ظاہر ہے، دوسری طرف پاکستان کے ’’اصل‘‘ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی بیانیہ بھی موجود نہیں ہے۔