ہم تو سمجھتے تھے کہ امریکہ میں جمہوریت نے جڑ پکڑ لی ہے، اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنی حریفہ (حرافہ نہیں) ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کو بھاری اکثریت سے شکست دینے کے بعد حزبِ اختلاف (ڈیمو کریٹک پارٹی) خندہ پیشانی سے انتخاب کے نتائج قبول کرلے گی، لیکن ہیلری کلنٹن کی الوداعی تقریر سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ اس نے صدقِ دل سے اپنی شکست نہیں تسلیم کی اور دورانِ خطاب اپنے سامعین کو اشاروں کنایوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اکساتی رہی، جس کے نتیجے میں ہاری ہوئی امیدوار کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور تادم تحریر سڑکوں پر مظاہرے کررہے ہیں، اسکولوں اور کالجوں کو بند کرا دیا ہے جس سے نہ صرف نوجوانوں کی تعلیم کا حرج ہورہا ہے بلکہ کاروبارِ زندگی بھی متاثر ہورہا ہے۔ میامی میں ہیلری کے شیدائیوں نے شاہراہ لیک آرتھر کو بند کردیا ہے جبکہ نیویارک میں پولیس نے امن عامہ میں خلل اندازی پر دو درجن افراد کو گرفتار کرلیا ہے (پاکستانی نیوز چینل، 12نومبر2016ء)۔ اگر ہمارے یہاں ایسی نوبت آجاتی تو سرمایہ دار طبقے کا دلال میڈیا پیداواری عمل کی بندش کے باعث ملک کو پہنچنے والے خسارے کا فوراً تخمینہ لگاکر حزبِ اختلاف کو ذمے دار قرار دے دیتا، لیکن امریکہ میں جاری مظاہرے کی بار بار ویڈیو دکھاکر ری پبلکن امیدوار کو حلف برداری سے قبل صدارت سے برطرف کرنے کا اشارہ دیا جارہا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی جب 10نومبر کو وائس آف امریکہ کے شرکائے مذاکرہ یہ کہہ رہے تھے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کے اہل نہیں ہیں کیونکہ (1) وہ عالمی سیاست سے نابلد ہیں اور انہیں اس کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔(2) ان کا ماضی جنسی بے راہ روی کے باعث داغدار ہے۔ اور سب سے حیرت کی بات تو یہ ہے کہ (3) وہ (ڈونلڈ ٹرمپ) مسلمانوں کے خلاف ہے۔ منتخب صدر پر ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ اعتراض مضحکہ خیز حد تک منافقانہ ہے۔ گویا بارک اوباما دوست ہے! یاد رہے اس نے سینیٹر کی حیثیت سے 11 ستمبر(2001) کی واردات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھاکہ اب اگر امریکہ پر دوبارہ ایسی واردات ہوتی ہے تو اسے (امریکہ) خانہ کعبہ پر بمباری کردینی چاہیے۔ صدر بننے کے بعد اوباما نے پاکستان کے قبائلی علاقے پر قزاقانہ حملوں میں اضافہ کردیا اور زیر حراست مسلمان ملزموں سے جبری اقبالِ جرم کرانے کے لیے اُن کے سروں کو پانی سے بھرے حوض میں گردن تک ڈبوئے رکھنے کے جارج بش کے احکامات کو جاری رکھا۔ اس سے زیادہ ڈونلڈ ٹرمپ اور کیا کرسکتا ہے جو امریکی اور پاکستانی میڈیا عوام کو اُس کے خلاف اکسارہے ہیں؟ ہمیں توامریکی صدر کے انتخاب کے خلاف ذمہ دار غیرملکیوں کی مداخلت بڑی ناگوار گزری۔ یورپی کمیشن کے سربراہ نے فرمایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو عالمی مسائل سمجھنے میں دو سال لگ جائیں گے، نیز یہ کہ وہ یورپ کو نہیں سمجھ سکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکی صدر بننے کے لیے اسے سیاسیات میں پی ایچ ڈی ہونا چاہیے، جب ہی وہ منصبِ صدارت کا اہل ہوگا۔ یورپ میں ایسے کتنے صدور اور وزرائے اعظم ہیں جنہیں ان عہدوں کا تجربہ ہے جن پر وہ آج فائز ہیں؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ کو جنسی جرائم کے ارتکاب پر کسی عدالت نے سزا دی؟ کیا انہوں نے عدالت یا ارکانِ کانگریس کے سامنے جنسی جرائم کے ارتکاب کا اقبال کیا ہے؟ اس کے برعکس سابق صدر کلنٹن نے عدالت کے روبرو اپنے ماتحت عملے کی نوجوان خاتون رکن مونیکا لیونسکی کے ساتھ اپنے گھناؤنے جنسی تعلقات کا اعتراف نہیں کیا؟ اورکیا ان کی اہلیہ (معذرت کے ساتھ) بڑی پاک دامن ہیں جو اپنے حریف پر انگشت نمائی کررہی ہیں؟ کیا یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی اخلاق سوز حرکت نہیں تھی کہ ایک بازاری عورت کو منظرعام پر لاکر اُس سے یہ کہلوایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پر دست درازی کی تھی؟ اگر ایسا کچھ تھا تو اُس نے اُسی وقت عدالت سے رجوع کرنے کے بجائے صدارتی انتخاب تک کیوں انتظار کیا؟ کلنٹن ٹولے کو ایسی رذیل حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ آخر یہ دہرا معیار کیوں؟ ہیلری کلنٹن کا میاں راجا اِندر بنا پریوں سے محبت کرتا پھرے، اور بیوی الگ رنگ رلیاں مناتی رہے، وہ سب جائز۔۔۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ بغیر ثبوت بدکار ٹھیرایا جائے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حزبِ اختلاف (ہیلری کلنٹن) ڈونلڈ ٹرمپ کو منصبِ صدارت کا حلف اٹھانے سے پہلے ان کو عدالت سے نااہل قرار دلوا دے گی۔ اگر ایسا تھا تو انہیں انتخاب سے پہلے کسی عدالت سے تمام امیدواروں کی اہلیت کا تعین کرا لینا چاہیے تھا، نہ کہ ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد۔ امریکی رائے دہندگان کی ہمہ گیر اکثریت سے ڈونلڈٹرمپ کی حمایت کے بعد امریکہ کی کوئی عدالت انہیں نااہل قرار نہیں دے سکتی، کیوں کہ عوام کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہے۔ اگر امریکی عوام چاہیں تو آئین میں ترمیم کرکے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کو منسوخ بھی کرسکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو انتخابی کالج میں 276 جبکہ ہیلری کلنٹن کو صرف 218 ووٹ ملے ہیں، تو کیا ان کے انتخاب کو اس بنا پر کالعدم کیا جاسکتا ہے کہ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں رائے دہندگان کے ووٹوں میں زیادہ فرق نہیں ہے؟ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس میں بھی سبقت حاصل ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہیلری کلنٹن کو انتخاب میں شکست کے باوجود صدر بننا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے امریکی عوام ہرگز راضی نہیں ہیں۔ پھر تو نظریہ نیابتِ الٰہی (DIVINE RIGHT THEORY OF KINGSHIP) کے ذریعے ہی انہیں یہ منصب عطا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سیکولرازم پر ایمان بالغیب کے باعث کلنٹن گھرانا (ڈیمو کریٹک برادری) تو خدا کے اس اختیار کو تسلیم ہی نہیں کرتا، بالآخر انہیں گھوم پھر کر عوام ہی سے فریاد کرنی ہے، لیکن عوام تو اپنا فیصلہ اُن کے خلاف سناچکے ہیں۔
سو اب جائیں تو جائیں کہاں؟
امریکہ میں برپا احتجاج جلد ہی دم توڑ دے گا کیونکہ اوّل تو یہ ہارے ہوئے ٹولے کا مچایا ہوا ہنگامہ ہے، دوسرے یہ کہ پاکستان سمیت دنیا کی تمام ریاستوں کے سربراہان امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارک سلامت کا پیغام دے رہے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس ملک کا جائز حکمراں تسلیم کرتے ہیں، ساتھ ہی انہیں اُن کی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے بعض متنازع اعلانات پر اپنے تحفظات سے باخبر بھی کررہے ہیں جس کا ان پر مثبت اثر پڑ رہا ہے۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے دفاعی جوہری منصوبے کو بند کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ یہ اوباما، ہیلری کی پالیسی کا تسلسل ہوگا جس کا پاکستان دوٹوک جواب دے چکا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی اس کا یہی جواب ہوگا۔ ڈونلڈٹرمپ اگر امریکہ بھارت دفاعی معاہدے پر قائم رہتا ہے تو یہ بھی اوباما، ہیلری /کیری حکمت عملی کا تسلسل ہوگا۔
اگر ڈونلڈٹرمپ پاکستان کو چین سے منحرف کرنا چاہتا ہے تو یہ بھی امریکہ کی 54 سالہ پالیسی کا اعادہ ہوگا جس کا اسے پاکستان کی جانب سے وہی جواب ملتا رہے گا جو وہ اسے اب تک دیتا رہا ہے۔
(باقی صفحہ 41پر)
یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ ہیلری پاکستان یا اسلام دوست ہے۔ دراصل وہ ان کو ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ورغلا رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مصالحت کرانے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو یہ کام وہ پاکستان کی قیادت کے بغیر نہیں کرسکتے جیسے اوباما نہیں کرسکا۔ امریکی کانگریس نے 11 ستمبر (2001) کی واردات میں سعودی مملکت کو ملوث کرکے اس کے متاثرہ امریکی شہریوں کو سعودی عرب کے خلاف امریکی عدالتوں میں معاوضے کے لیے چارہ جوئی کی اجازت دے کر مشرقِ وسطیٰ میں امریکی مفادات کو نقصانِ عظیم پہنچایا ہے۔ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بڑا مسئلہ بن جائے گا اور وہ اسے کس طرح حل کرتے ہیں یہ ان کی قیادت کا امتحان ثابت ہوگا۔ اگر ڈونلڈ ٹرمپ شام میں بشارالاسد کی برطرفی کے لیے امریکی طاقت کا مظاہرہ کرکے روس کو اس کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔
انہیں یورپی یونین کی جانب سے برپا کیے گئے شوروغل کی بالکل پروا نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ ناٹو کی وجہ سے اس کی رکن ریاستیں امریکہ کی عسکری قیادت کے تابع ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر امریکہ ناٹو کی ڈھال اٹھالے تو یورپ کا وہی حشر ہوگا جو جارجیا اور یوکرین کا ہوا۔ انہیں یورپ پر یہ بھی واضح کردینا چاہیے کہ اگر امریکہ یورپ کو تیل کی ترسیل کے لیے اقدام نہ کرے تو وہ اس سے محروم ہوجائے گا، لیکن یورپ کی مزاحمت کی تو اس کے لیے انہیں روس سے تعلقات روبہ معمول لانے پڑیں گے۔ امریکہ میں جاری احتجاج کے پیچھے ہیلری کلنٹن کا ہاتھ ہے۔ وہ کھسانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہی ہے۔