(مہمان کالم (اوریامقبول جان

320

جمہوریت ہو یا آمریت، شہنشاہیت ہو یا کمیونزم۔۔۔ کسی بھی نظام کے تحت قائم ریاست میں ایک عدالتی نظام ضرور موجود ہوتا ہے۔ یہ عدالتی نظام کتنا ہی مفلوج کیوں نہ ہو، اس کو بادشاہ کے فرامین یا پارلیمنٹ کے قوانین نے بے بس کیوں نہ کردیا ہو، پھر بھی یہ تمام ریاستیں، عدالتی نظام کا ایک ہی اعلیٰ و ارفع مقصد بیان کرتی ہیں اور وہ ہے ’’ہر حال میں عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا‘‘۔ یہی اعلیٰ و ارفع مقصد دنیا کے ہر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی بنیادی ذمے داری تصور کیا جاتا ہے۔
بادشاہ غلطی کرسکتا ہے، بے انصافی سے کام لے سکتا ہے۔ پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت کسی کا حق غصب کرسکتی ہے، کسی چور، ڈاکو یا بددیانت کو تحفظ دے سکتی ہے۔ آمر یا ڈکٹیٹر کا تعصب لوگوں کو انصاف سے محروم کرسکتا ہے۔۔۔ لیکن ان سب کے خلاف دادرسی، فریاد یا انصاف اور عدل کی درخواست صرف اور صرف عدالتِ عظمیٰ میں کی جا سکتی ہے۔ دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی نے یہ الٹی گنگا نہیں بہائی کہ قاضی، جج یا عدلیہ کے خلاف بادشاہ، صدر، یا وزیراعظم کو اپیل یا درخواست دی جائے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ حرفِ آخر سمجھا جاتا ہے، کیونکہ سلطنت کے کسی اور ادارے کا مقصدِ اولیٰ ’’عدل و انصاف کی فراہمی‘‘ نہیں ہوتا۔ کوئی ادارہ تعلیم مہیا کرتا ہے تو کوئی صحت کی سہولیات۔۔۔ کوئی سڑکوں کا جال بچھاتا ہے تو کوئی امنِ عامہ کی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔
اپنی ذمے داریاں نبھاتے ہوئے جب یہ ادارے کوتاہی کریں، بے انصافی سے کام لیں تو اُس وقت عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے جدید ترین جمہوری معاشروں میں آئین کے اندر سپریم کورٹ کے اختیارات کے ضمن میں ایک شق یا آرٹیکل ایسا ضرور رکھا جاتا ہے جس کے مطابق سپریم کورٹ کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں۔ وہ انصاف کی فراہمی کے لیے کوئی بھی طریقۂ کار اختیار کرسکتی ہے اور کسی بھی قانون میں پائی جانے والی بددیانتی اور بے انصافی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 184(3) اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے آرٹیکل دنیا کے ہر ملک کے آئین میں موجود ہیں جو اپنے ملک کی عدالت کو عدل و انصاف کی فراہمی کے لیے لامحدود اختیارات دیتے ہیں۔
پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 184(3) کہتا ہے: ’’آرٹیکل 199 کے احکام پر اثرانداز ہوئے بغیر عدالتِ عظمیٰ کو، اگر وہ یہ سمجھے کہ حصہ دوم کے باب (1) کے ذریعے تفویض شدہ بنیادی حقوق میں سے کسی حق کے نفاذ کے سلسلے میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال درپیش ہے، مذکورہ آرٹیکل میں بیان کردہ نوعیت کا کوئی حکم صادر کرنے کا اختیار ہوگا۔‘‘
یہ ہے وہ بنیادی مقصد کہ اگر کوئی عوامی اہمیت کا سوال درپیش ہو تو عدالت آرٹیکل 199 کے تحت دیے گئے وسیع اختیارات بھی اور اس کے علاوہ بھی کوئی حکم صادر کرسکتی ہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ عوامی ’’اہمیت کا حامل‘‘ ہونا ہے، اور دوسرا بنیادی حقوق کی فراہمی ہے۔ ایک کرپشن فری اور مبنی برانصاف حکومت، پاکستان کے عوام کا بنیادی حق ہے، جب کہ اس کرپشن کے حوالے سے حکومتی کرپشن اور بددیانتی اس وقت پاکستان کا سب سے اہم عوامی اہمیت کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ لیکس کے معاملے میں ’’عوامی اہمیت‘‘ کے مسئلے کو سننا شروع کیا ہے۔
اُس وقت سے لے کر اب تک عوام سے نہیں بلکہ سیاسی افراد کی جانب سے ایک بحث کا آغاز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسا کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس بحث کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، عوام تو بددیانت اور کرپٹ حکمرانوں کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس بحث کو چھیڑنے کا اصل مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ عدالت کے اعلیٰ و ارفع مقصد یعنی ’’انصاف کی فراہمی‘‘ کو متنازع بنایا جائے۔
پانامہ لیکس کا مسئلہ سپریم کورٹ تک اس لیے پہنچا کہ پاکستان میں کرپشن اور بددیانتی کے خاتمے کی ذمے داری تین اداروں کے پاس ہے:
-1نیب
-2 ایف آئی اے
-3فیڈرل بورڈ آف ریونیو
اگر یہ تینوں ادارے اپنی ذمے داریاں نبھاتے توآج پانامہ لیکس کا عفریت عوام کے دماغوں پر نہ چھایا ہوتا۔ اگر پاکستان کا کوئی محکمہ اپنی ذمے داریاں ادا نہ کرے تو سپریم کورٹ بلکہ ہائی کورٹ بھی ان کی درستی کے لیے حکم جاری کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ اگر اس کیس کے دوران نیب کے حکام کو بلا کر سوال کرے کہ تمہارے قانون کے مطابق اگر کسی حکومتی اہلکار یا فرد پر الزام ہو کہ اس نے کرپشن کی ہے، ناجائز ذرائع سے جائداد اور کاروبار کیا اور اپنے معلوم ذرائع سے زیادہ دولت کا مالک ہے تو نیب کا فرض ہے کہ وہ اُس شخص کو بلائے اور اُسے فردِ جرم سنائے۔ پھر یہ اُس فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ وہ بے قصور ہے۔ کیا نیب نے پانامہ لیکس کے تمام کرداروں کو اس طرح نوٹس جاری کیے؟ اور کیا جواب نہ آنے پر انھیں گرفتار کیا؟
سپریم کورٹ ایف آئی اے کے حکام کو طلب کرکے یہ پوچھ سکتی ہے کہ کیا تمہارے علم میں آیا تھا کہ اس ملک کے کچھ لوگ، جن کا یورپ یا بیرونِ ملک کوئی کاروبار نہیں، وہاں اچانک جائداد خریدتے ہیں اور کاروبار کا آغاز کرتے ہیں۔ یقیناًپیسہ پاکستان سے گیا ہوگا، جسے منی لانڈرنگ کہتے ہیں۔ تم ایک عام آدمی کو خاندان سمیت اٹھا لیتے ہو، کیا تم نے اس معاملے میں ایسا کیا؟ سپریم کورٹ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے حکام کو بلا کر سوال کرسکتی ہے کہ تمہارا ایک انسپکٹر اگر کوئی شخص ایک گاڑی خرید لے، چھوٹا سا گھر بنا لے تو اس کا جینا دوبھر کردیتا ہے، تمہارے سامنے ان لوگوں کی جائدادیں ایسے بڑھتی چلی گئیں جیسے ان کو اعلیٰ قسم کی کھاد ملتی رہی۔ وہ مٹی کو ہاتھ ڈالتے تو وہ سونا بن جاتی۔ کیا تمہارے ریکارڈ کے مطابق یہ سب درست ہے؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر سے لے کر کمشنر تک سب اس ’’قسمت کی یاوری‘‘ کا بھید جانتے ہیں۔ سپریم کورٹ ان پچاس برسوں کے بارے میں بھی جواب طلب کرسکتی ہے۔
اگر یہ تینوں محکمے اپنی مجبوری کا اظہار کردیں اور کہیں کہ ہم دباؤ کی وجہ سے ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو سپریم کورٹ کو چاہیے کہ ایک حکم نامے کے ذریعے تینوں محکموں کو فوراً ختم کردے اور اس کے افسران کو فارغ کرنے کا حکم صادر کرتے ہوئے ممکنہ سزا بھی سنا دے۔ صرف اس حکم نامے کی وارننگ کی دیر ہے، ملک بھر سے ایسے ہزاروں اہل کاروں کا ہجوم سپریم کورٹ کی طرف یہ کہتے ہوئے بھاگے گا کہ ہم اس کرپشن کی تحقیق کرسکتے ہیں، ہم اہل ہیں، ہم راضی ہیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جا سکتا تو پھر آئین کی کتاب سے آرٹیکل 184(3) کو کھرچ کر پھینک دینا چاہیے۔
nn

حصہ