قریباً تین ماہ قبل میرے بھتیجے حشام نے مزید تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے چین جانے کی ضد پکڑلی۔ بھائی نے چین میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت اس حدیث کی روشنی میں دے دی ’’علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘۔ حشام علم حاصل کرنے کی تمنا لیے چین جا پہنچا۔ کالج میں داخلے کی تمام کارروائی پہلے ہی کرلی گئی تھی، اب وہاں جاکر صرف کلاسز ہی لینا تھیں۔ حشام کے علاوہ اور بھی پاکستانی وہاں بسلسلہ تعلیم مقیم تھے۔ گھر سے دور جاکر پڑھنا، ہاسٹل میں رہنا ہر اُس شخص کے لیے مشکل ہوتا ہے جو خاندان والوں کی آنکھ کا تارا ہو۔ حشام کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کا رویہ سارے گھر والوں کا رہا، جس نے اسے انتہائی حساس بنادیا۔ دیارِ غیر میں اپنے سارے کام خود کرنا پتھر توڑنے سے کم نہ تھا۔ خیر بتانے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ماہ موٹر بائیک سے گرنے کی وجہ سے حشام کی ٹانگ میں شدید چوٹ آئی۔ کالج انتظامیہ نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تمام ضروری ٹیسٹ کروائے۔ ہسپتال میں انتہائی توجہ کے ساتھ علاج شروع کردیا گیا۔ تمام سہولیات کے باوجود حشام کو کسی قسم کا کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ ٹانگ کی سوزش بڑھتی گئی۔ بجائے ٹھیک ہونے کے، طبیعت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ ڈاکٹر دوائیں دیتے رہے، لیکن مکمل آرام کے باوجود نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے گھر والوں نے حشام کو پاکستان بلانے کا فیصلہ کرلیا تاکہ پاکستان میں علاج کروایا جاسکے۔ گھر آتے ہی ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹروں نے فوری پلاسٹر کیا، کچھ دوائیں دیں۔ چند ہی دنوں میں حشام کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی، واضح فرق محسوس ہونے لگا، سوجن اتر گئی، سب کچھ پہلے سے بہتر ہوگیا۔
میری تحریر کا مقصد کسی گھر کی داستان بیان کرنا نہیں بلکہ جو بات بتانا مقصود ہے اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ میں پہلے سارا واقعہ آپ کے سامنے رکھ دوں تاکہ میرے لکھنے کا مقصد آپ تک پہنچ جائے۔ واقعہ لکھنے کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوئی کیونکہ میں جن نکات کو اٹھانا چاہتا ہوں اس کے لیے میرے پاس کسی ایسی مثال کا ہونا ضروری ہے جس سے میں اپنی بات میں وزن پیدا کرسکوں۔ سوچنے کی بات ہے کہ چین میں انتہائی توجہ کے ساتھ علاج ہونے کے باوجود حشام کی طبیعت بہتر نہ ہوئی اور اسے پاکستان اس لیے آنا پڑا کہ چین میں تمام سہولیات کے باوجود زخم اور ٹانگ کی سوزش بجائے کم ہونے کے بڑھتی جارہی تھی۔ ہمارے ملک میں اس طرح کے حادثے روز کا معمول ہیں، بائیک چلاتے ہوئے گرنا کراچی کی سڑکوں پر اہمیت کی بات نہیں۔ حادثہ ہوا، دوائیاں لیں، دو چار دن آرام کیا، بس سب کچھ ٹھیک۔۔۔ پھر وہی معمولاتِ زندگی، اللہ اللہ خیر صلا۔ وہاں ایسا کیا تھا جو کچھ الگ تھا، جس کی وجہ سے دوائیں اثر نہیں کررہی تھیں، اور پاکستان آتے ہی ڈاکٹروں نے حشام پر ایسا کون سا منتر پڑھا جس کے پڑھنے سے دوا نے اثر شروع کردیا! جب میں نے اس ساری صورت حال کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دی جانے والی دوائیں صرف سو ملی گرام کی تھیں اور وہ صرف رفع درد کے لیے تھیں۔ زخم خشک کرنے کے لیے کوئی بھی دوا ڈاکٹروں نے تجویز نہیں کی تھی۔ ان کی ہدایت کے مطابق صرف اور صرف آرام کرنے سے ہی تکلیف میں کمی آسکتی ہے، اس کے علاوہ کسی قسم کی دوا استعمال نہ کی جائے۔ ایک ایسے شخص کے لیے جس نے بچپن سے ہی اینٹی بائیوٹک دوائیں استعمال کی ہوں، یہ طریقہ علاج مذاق سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایسے مریض کا ٹھیک ہونا تو دور کی بات، مزید لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ چین میں اس طریقۂ علاج پر ڈاکٹروں کا کیا گناہ! وہ تو ہر مریض کے ساتھ اس طرح ہی کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ حشام کو کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اس کے لیے تو سو ملی گرام کی گولیاں بچوں کو دی جانے والی ٹافیوں سے زیادہ نہ تھیں۔ اور پاکستان آتے ہی ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیں اس کے جسم میں اتریں تو چنگا بھلا ہوگیا۔ چین میں ڈاکٹر مرض کے مطابق ہی دوائیں تجویز کرتے ہوں گے، وہاں مریض کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔ اس قسم کی دوائیں استعمال کروانے سے پہلے وہاں باقاعدہ ڈاکٹروں کا پینل تشکیل دیا جاتا ہے، جو اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ ہائی اینٹی بائیوٹک کس وقت دی جائے۔ عام حالت میں وہ ان دواؤں سے اجتناب برتتے ہیں۔ وہ بغیر مشورے کے کسی کو بھی یہ ادویات تجویر نہیں کرتے۔ یہی طریقہ علاج دنیا بھر کے ہسپتالوں میں چلا آرہا ہے۔ ان کے نزدیک مرض کی تشخیص سے ہی مریض کی حالت بہتر کی جاسکتی ہے۔ حشام کی بگڑتی ہوئی صورت حال میں کہیں بھی چین کے ڈاکٹروں کی کوتاہی نہیں، بلکہ وہ احتیاط ہے جو وہ انسانی ہمدردی میں کرتے ہیں۔
یہاں مجھے اپنا بچپن یاد آگیا۔ نانی اماں کے ٹوٹکے اتنے کارآمد ہوتے تھے کہ بخار نزلہ فوری دور کردیتے، یہاں تک کہ اگر کبھی کھیلتے میں گر جاتے تو آزمودہ ہلدی کا لیپ لگاکر سوجن اور درد سے نجات مل جاتی۔ زیادہ سے زیادہ ہلدی ملا دودھ پلا دیا جاتا۔ گھریلو نسخے کامیاب علاج ہوا کرتے تھے۔ میڈیکل سائنس نے ترقی کیا کی کہ آج کا نوجوان دوائیوں کا ہی ہوکر رہ گیا۔ کیوں کہ میرے خیال میں جتنی تیزی سے پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں نے خود کو منوا لیا ہے شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں اتنی اینٹی بائیوٹک استعمال ہوتی ہوں۔ بچے کو پیدائش کے ساتھ ہی ان اینٹی بائیوٹک دواؤں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ جب چند دن کے بچے کو اس قسم کی دوائیں تجویز کردی جائیں گی تو جوانی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس کی قوتِ مدافعت جواب دے چکی ہوگی۔ اس طریقہ علاج میں لوکل میڈیسن کمپنیوں نے جو تباہی مچائی اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ڈاکٹروں کو مختلف قسم کی رشوت دے کر پابند کردیا جاتا ہے کہ وہ ہماری ہی دوا لکھے۔ ڈاکٹروں سے ڈیل کا یہ خطرناک کھیل تقریباً ہر بڑے چھوٹے ہسپتال میں کھیلا جارہا ہے۔ کہیں اےئرکنڈیشن، تو کہیں غیر ملکی دورے، یہاں تک کہ صرف کھانا کھلا کر بھی انسانیت کے دشمن غریب مریضوں کی جیبیں کاٹتے جارہے ہیں۔ میں نے خود ایک ہسپتال میں معمولی سے زکام کی دواؤں کے ساتھ طاقت کا شربت لکھتے دیکھا۔ اب بھلا زکام میں طاقت کے شربت کی کیا ضرورت! مریض بے چارہ پرچی پر لکھی تمام ادویات لینے پر مجبور ہے۔ بعض ہسپتال انتہائی لوکل دوائیاں صرف اسی غرض سے لکھ رہے ہیں۔ انسانیت کی خدمت سے وابستہ اس پیشے کو ان کالی بھیڑوں نے منافع بخش کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ کمپنیوں کے میڈیکل ریپریزنٹیٹو کو وقت دیتے نظر آتے ہیں۔ مخصوص لیبارٹریوں کے ساتھ کاروبار اس کے علاوہ ہے۔ جب پیسے بنانے کی ہوس اس معتبر پیشے میں آجائے تو پھر لازمی ہے کہ مہنگی اور ہائی اینٹی بائیوٹک لکھ کر اپنے اکاؤنٹ کو تو بڑھایا جاسکتا ہے مگر پیشے سے وفاداری نہیں کی جاسکتی۔ چھوٹے بچوں کو جب علاج کی غرض سے اس قسم کی دوائیں استعمال کروا دی جائیں گی تو پھر انہیں کم مقدار یا کم ملی گرام کی دوائیں کس طرح اثر کریں گی! مریض پہلے سے استعمال کی ہوئی دوا سے زیادہ ملی گرام کھائے گا تو ٹھیک ہوگا، ورنہ اُس کی حالت مزید خرابی کی طرف جانے لگے گی۔ ہمارے ڈاکٹر اپنی ڈیل کی خاطر بچوں، بڑوں میں شفاء نہیں، زہر اتارتے جارہے ہیں۔ وزارتِ صحت ہو یا صحت سے منسلک ادارے، میں نے اب تک اس مافیا کے خلاف کارروائی ہوتے نہیں دیکھی۔ ہمارے ملک میں مقامی کمپنیوں کے ساتھ مل کر اس گھناؤنے کام کو بڑھاوا دینے میں سب سے زیادہ ہاتھ ان اتائی ڈاکٹروں کا بھی ہے جو کسی بھی کچی غریب آبادی میں لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ علاج کے نام پر خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیں بغیر سوچے سمجھے غریبوں کو استعمال کرواتے یہ اتائی کیا جانیں کہ اگر دوا کا ردعمل ہو تو کسی کی جان بھی جاسکتی ہے، بلکہ آئے دن ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ان اتائیوں کے نزدیک صرف ایک دکان لے کر کسی پرچون کی دکان کی طرح یہ کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے، باقی کا کام مختلف میڈیسن کمپنیوں کے نمائندوں کے سپرد ہے۔ ہر طرح کی دوا کے متعلق بتاکر یہ نمائندگان یہ جا وہ جا۔۔۔ ان ہی کے بتائے طریقے پر 500 اور 1000 ملی گرام کی ہائی اینٹی بائیوٹک دوائیاں لوگوں کو دے کر یہ اتائی علاج کرکے پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ میں ایسے کئی ڈاکٹروں کو جانتا ہوں جو یہاں بھی اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال پر اچھی رائے نہیں رکھتے، وہ آج بھی مریض کو کم سے کم مقدار میں دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ ایسے کئی بڑے ڈاکٹر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو مریضوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کرتے ہیں۔ انہیں نہ غیر ملکی دوروں کا لالچ ہے، نہ گاڑیوں کا۔۔۔ وہ اپنے پیشے کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ یہ لوگ اُن کے لیے مثال ہیں جو پیسے کے لالچ میں ساری حدیں پار کرچکے ہیں، جنہوں نے اپنی روزی روٹی کا انحصار غیر متعارف کمپنیوں پر کررکھا ہے۔ اگر ضرورت ہو تو کسی بھی مقدار کی دوائیں تجویز کی جاسکتی ہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی کمپنیوں کی دوائیں لکھی جائیں جن کا مقام دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے، جو نہ تو لالچ دیتی ہیں اور نہ غیر ملکی دوروں پر بھیجتی ہیں۔ ان کی شناخت ان کی بنائی ہوئی ادویات سے ہوتی ہے۔
حکومت کو فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے ملک بھر میں اس صورت حال سے نجات حاصل کی جاسکے۔ ادارۂ صحت کو ملک کے نامور ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن کے تحت ایسے تمام ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی ہوسکے جو ڈیل جیسے بدنام زمانہ کاروبار سے منسلک ہیں۔ حکومت کے تحت چلنے والے ہسپتالوں پر خاص نظر رکھی جائے تاکہ وہاں آئے غریبوں کو ڈیل کے نتیجے میں لکھی جانے والی دواؤں سے بچایا جاسکے۔ چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام بنانا ہوگا جس سے مصنوعی دھندا کرنے والوں کو قلع قمع کیا جاسکے۔