محمد عمر احمد خان

321

احمر بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔ بڑا، بہت بڑا۔۔۔ جیسے قائداعظم، جنہوں نے پاکستان بنایا تھا، علامہ اقباؒ ؒ ل، جو اپنی ولولہ انگیز شاعری سے شاعرِمشرق کہلائے اور جو ساری دُنیا کے مسلمانوں کو ایک اور نیک دیکھنا چاہتے تھے۔ لیاقت علی خانؒ ، جنہوں نے وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کردی تھی۔ اسی طرح اور بھی بڑے، جن کے کام بڑے تھے، احمر ان ہی لوگوں کی طرح نام روشن کرنا چاہتا تھا۔
نام روشن کرنے کے لیے وہ خوب دل لگا کر پڑھتا، وقت پر ہوم ورک کرتا، غیر نصابی کتب کا مطالعہ بھی بڑے شوق سے کرتا، سوتے جاگتے کوئی نہ کوئی کتاب اُس کے ہاتھ میں دبی ہوتی۔
امی کہتیں: ’’بیٹا، کھانا کھا لو‘‘۔
کہتا: ’’بھوک نہیں ہے، پڑھنے کے بعد کھا لوں گا‘‘۔
آنی پُکارتیں: ’’گڈے میاں، بازار سے سموسے تو لادو۔۔۔‘‘
بُرا سا منہ بنا کر کہتا: ’’آنی، آپ دیکھ رہی ہیں، پڑھ رہا ہوں، کل میرا ٹیسٹ ہے، آپ کسی اور سے منگوالیں، مجھے تو پڑھنے دیں، خدا کے لیے بڑا آدمی بننے دیں‘‘۔
محلّے میں بھی کوئی اس سے کسی کام کا کہتا تو صاف منع کردیتا۔ اس کے امی ابو دیکھتے کہ وہ راتوں کو اُ ٹھ اُ ٹھ کر پڑھ رہا ہے۔ اس طرح تو اس کی صحت خراب ہوجائے گی۔۔۔وہ فکرمند ہوجاتے، اسے اس طرح راتوں کو پڑھنے سے منع کرتے تو احمر تُنک کرکہتا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے، قائداعظم بھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے۔
احمر کا یہ جواب سن کر والدین لاجواب ہوجاتے۔
بڑے بھیا جب شام چار بجے کرکٹ کھیلنے جاتے تو اسے پکارتے: ’’اے کتابی کیڑے، کچھ وقت کھیل کُود کے لیے بھی نکال لیا کرو، پڑھائی کے ساتھ کھیل بھی ضروری ہے‘‘۔
جواب میں احمر کہتا: ’’کھیلو گے کُودو گے ہوگے خراب، پڑھو گے لکھو گے، بنو گے نواب۔۔۔بھیا آپ کا شوق آپ ہی کو مبارک ہو، مجھے تو پڑھنے ہی دیں‘‘۔
’’نواب، ابنِ نواب، آپ کو پتا ہے یہ مقولہ تو اُن کے بارے میں کہا گیا ہے، جو ہر وقت کھیلتے کُودتے رہتے ہیں، زندگی میں توازن رکھنے والوں کے بارے میں نہیں ہے۔۔۔‘‘
پھر بھیا اپنا بلا ایک طرف پھینکتے اور جُڑکر اس کے پاس جابیٹھتے اور کہتے: ’’دیکھو منے بھائی، صحت مند جسم ہی میں صحت مند دماغ ہوتا ہے اور یہ دماغ صرف اسی کے پاس ہوتا ہے جوکھیل کُود میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔‘‘
’’بھیا، اپنے کھیل کُود اپنے پاس ہی رکھیں۔۔۔میں روزانہ پیدل اسکول جاتا ہوں، اسی سے اچھی خاصی ورزش ہوجاتی ہے۔۔۔‘‘
وہ بڑے بھیا کو لاجواب کردیتا۔
’’ لگتا ہے منے میاں تم نہیں سدھرو گے۔۔۔‘‘ بڑے بھیا بلا اٹھاتے اور احمر کے سلیقے سے بنے ہوئے بال بگاڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے جاتے۔
جوں جوں وقت گزر رہا تھا، احمر کا پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کا شوق انتہا کو پہنچ رہا تھا۔ گھر والے اس کی ہر وقت کی پڑھائی سے جھنجھلا گئے تھے، کیوں کہ اس کی اوٹ کا سہارا لے کر وہ گھر کا کوئی بھی کام نہ کرتا۔ بازار سے سودا سلف کے لیے کبھی بھیا تو کبھی ابو کو جانا پڑتا، سوئی گیس اور بجلی کا بل بھی وہی جمع کراتے، مہمان آجاتے تو ان کی خاطر تواضع کے لیے بھی انہیں ہی اُٹھنا پڑتا۔
اور احمر کے ایسے مزے کہ امی بے چاری اس کے آگے پیچھے کھانا لے کر پِھرا کرتیں: ’’چاند، سہ پہر کے تین بج گئے ہیں، اب تو کھانا کھالو۔۔۔دیکھو تو پڑھ پڑھ کر کیسا منہ نکل آیا ہے۔‘‘
اور چاند منہ بناکر کہتا: ’’افوہ، امی، کھالوں گا، ابھی بھوک نہیں ہے، فی الحال تو پڑھنے دیں‘‘۔
سالانہ امتحانات قریب تھے اور احمر دن رات پڑھائی میں مگن تھا۔ اب اُسے کھانے کا ہوش تھا، نہ پینے کا۔۔۔ہر وقت اپنا کمرہ بند کیے پڑھائی میں مصروف رہتا، اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ چھوٹے ماموں لندن سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں اور انہیں لینے ائیرپورٹ جانا ہے۔
احمر کے بغیر گھر والے ماموں کو ائیرپورٹ سے لے کر گھر آگئے۔ وہ بہت عرصہ بعد آئے تھے، ان کے آنے سے سب بے حد خوش تھے۔ خاص طور پر احمر کی امی بہت خوش تھیں، برسوں بعد بھائی سے ملی تھیں، ان کے آگے پیچھے بچھی جارہی تھیں۔
چھوٹے ماموں گھر والوں کی شفقت و محبت سے بے حد متاثر ہوئے۔ کھانے کی میز پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں، بولے: ’’لندن میں تو میں ایسی بے لوث محبت کو ترس ہی گیا تھا۔ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شُکر ہے، اپنوں کے درمیان خود کو پاکر اس نعمت کو سمیٹ رہا ہوں۔۔۔‘‘
بات چیت کے دوران چھوٹے ماموں نے اِدھر اُدھر دیکھا، پھر بولے:
’’مجھے احمر کو دیکھنے کا بڑا اشتیاق ہے، جب میں لندن گیا تھا تو وہ بہت چھوٹا سا تھا، اب تو ماشاء اللہ خاصا بڑا ہوگیا ہوگا۔۔۔‘‘
’’جی ہاں ماموں جان، خاصا نہیں بلکہ خاصے سے بھی بڑا ہوگیا ہے، اب تو گھر میں سب لوگ اس کے سامنے بونے لگتے ہیں۔۔۔‘‘
بڑے بھیا کا چبھتا ہوا طنز سب ہی محسوس کررہے تھے، چھوٹے ماموں نے بھی محسوس کیا، مُسکراکر بولے: ’’کیوں کیا بقراط ہوگیا ہے وہ؟‘‘
آنی نے جواب دیا: ’’نہیں، پڑھاکو ہوگیا ہے، ہر وقت پڑھتا رہتا ہے، کہتا ہے کہ بڑا آدمی بننا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا اس بڑے آدمی کو میرے آنے کی اطلاع نہیں تھی؟‘‘ ماموں ہنس دیے۔
’’جب وہ پڑھنے لکھنے بیٹھتا ہے تو اسے کسی بھی چیز کا ہوش نہیں رہتا‘‘۔ امی نے اطلاع دی۔
’’اوہ تو مسٹر پڑھاکو ہوگئے ہیں!‘‘ ماموں نے اپنے آپ سے کہا۔
ابو بولے: ’’آپ ہی اسے کچھ سمجھائیں۔ ہماری تو کچھ سُنتا ہی نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’اچھا تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے!‘‘
’’جی ہاں، لڑکا ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔۔۔‘‘ دادی جان کے لہجے میں سخت مایوسی تھی۔
’’یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ بڑا آدمی بننے کے چکر میں وہ اپنے ماموں تک کو بھول گیا‘‘۔
ماموں جان مُسکرا کر بولے اور جیسے ہی ان کی بات مکمل ہوئی، عین اسی لمحے احمر کمرے میں داخل ہوا اور دوڑ کر ماموں کے گلے لگ گیا: ’’میں اپنے پیارے ماموں جان کو کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘
چھوٹے ماموں بھانجے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے: ’’واہ بھئی واہ، تم نے اچھا خاصا قد نکال لیا ہے۔ مجھ سے بھی بڑے لگ رہے ہو‘‘۔
’’بڑا آدمی جو بننے چلے ہیں، تبھی تو آپ سے بھی بڑے لگ رہے ہیں۔۔۔‘‘ باجی نے جل کر کہا۔
ماموں احمر سے بولے: ’’کیا یہ سچ ہے کہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو، گھر کا کوئی کام نہیں کرتے اور کسی کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتے؟‘‘
احمر نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’سب لوگ میری پڑھائی سے جلتے ہیں۔‘‘
’’یہ سب لوگ تمہاری پڑھائی سے نہیں جلتے بلکہ اس بات سے نالاں ہیں کہ تمہارے اندر اعتدال نہیں رہا، اور آج تو مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سب لوگ مجھے ائیرپورٹ لینے آئے، لیکن تم۔۔۔‘‘
چھوٹے ماموں جان کی یہ بات سن کر شرمندگی کے احساس سے احمر کا سر جھک گیا۔
ماموں جان نے اسے شرمندہ دیکھا تو بولے: ’’اچھا یہ بتاؤ جب ہم باہر جاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’چلتے ہیں۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے، چلتے ہیں، لیکن کس طرح!‘‘
’’پہلے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر دوسرا۔‘‘
’’شاباش، بالکل ٹھیک۔ ثابت ہوا کہ منزل تک پہنچنے کے لیے دونوں قدموں کا اُٹھنا ضروری ہے۔ اگر ہم صرف ایک قدم اُٹھالیں اور دوسرا نہ اُٹھائیں تو پھر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ تو منے میاں، بڑا آدمی بننے کے لیے آپ نے صرف ایک قدم اُٹھایا ہے، یعنی صرف پڑھائی، دوسرا قدم آپ نے ابھی تک نہیں اُٹھایا اور آپ کو معلوم ہے، وہ دوسرا قدم کیا ہے؟‘‘
احمر نے گردن نفی کے انداز میں ہلائی تو ماموں بولے:
’’وہ دوسرا قدم ہے لوگوں کی خدمت کرنا، ان کے کام آنا اور ان کی دُعائیں لینا۔۔۔‘‘
چھوٹے ماموں ایک لمحے کو خاموش ہوئے، پھر دوسرے ہی لمحے اس پر سوالات کا تانتا باندھ دیا: ’’کیا آپ نے گھر، محلّے سے باہر کبھی کسی کا کوئی کام کیا؟ کیا کسی نابینا شخص کو سڑک پار کروائی؟ کیا کبھی کسی غریب شخص کی اخلاقی یا مالی مدد کی؟ چلیں، ان باتوں کو بھی چھوڑیں۔۔۔آپ مجھے صرف اتنا بتادیں کہ کیا آپ کبھی کسی کے لیے مسکرائے ہیں؟‘‘
ماموں جان کے اتنے سارے سوالات سن کر احمر پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ شرمندگی سے سوچنے لگا: میں گھر والوں کے کام آیا، نہ محلے والوں کے، اور نہ ہی کبھی کسی سے مُسکرا کر بات کی۔
گھر کے تمام افراد کی نگاہیں احمر پر گڑی تھیں۔ ماموں جان نے اسے خاموش پایا تو بولے: ’’ہاں منے میاں، کچھ یاد آیا، کوئی ایسا چھوٹا موٹا کام جسے کرکے آپ نے لوگوں سے دعائیں لی ہوں‘‘۔
احمر کو شرمندہ دیکھ کر ماموں جان بولے: ’’اچھا کسی بڑے آدمی کے کوئی دو واقعات سُنادیں کہ انہوں نے کسی کی خدمت کرکے دُعا لی ہو۔‘‘
اس پر احمر نے سب سے پہلے ہندوستان پر 17 حملے کرنے والے محمود غزنوی کے والد سپہ سالار سبکتگین کا مشہور واقعہ سُنایا، جب انہوں نے ہرنی کا ایک بچہ پکڑلیا تھا، لیکن یہ دیکھ کر کہ بچے کی محبت میں ماں بے تاب ہوکر ان کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے چلی آرہی ہے، بچے کو ماں کے حوالے کردیا۔ ہرنی اپنے بچے کو لے کر جب جنگل واپس ہوئی تو تشکر آمیز نظروں سے سبکتگین کو مُڑ مُڑ کر دیکھتی جارہی تھی، جیسے دُعا دے رہی ہو۔۔۔بعد میں سبکتگین سپہ سالار سے بادشاہ بنے۔ اس کے بعد احمر نے امریکی صدرابراہام لنکن والا واقعہ سُنایا جب انہوں نے طالب علمی کے زمانے میں پتھروں کے ڈھیر میں پھنسی ہوئی ایک ننھی گلہری کو آزاد کرکے اس کی دُعا لی تھی۔
احمر جب یہ دونوں واقعات سُنا چکا تو ماموں جان بولے: ’’ننھی گلہری اور ہرنی ہی کی دُعاؤں کا اثر تھا کہ ان دونوں شخصیات نے قوم کی رہنمائی کا مقام حاصل کیا اور دنیا میں نام کمایا‘‘۔
ماموں جان ایک لمحے کو خاموش ہوئے پھر دوسرے ہی لمحے بولے:
’’ان دو واقعات سے یقیناًتم جان گئے ہوگے کہ بڑا آدمی بننے کے لیے صرف پڑھائی کافی نہیں، زندگی میں اور چیزوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے، جیسے اعتدال، ہمدردی، خدمت اور دُعائیں۔۔۔ ‘‘
پھر چھوٹے ماموں نے احمر کے دونوں شانے تھام کر کہا: ’’بیٹا، اعتدال کی راہ پر چل کر ہی دعائیں حاصل کی جاتی ہیں۔ درحقیقت بڑا آدمی وہ ہوتا ہے، جو مسکرا کر لوگوں سے ملتا ہو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرکے ان کی دعائیں لیتا ہو‘‘۔
ماموں جان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ احمر ایک عزم سے بول اٹھا: ’’ماموں جان، آپ کی باتوں نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں، بڑا آدمی بننے کے لیے میں زندگی میں توازن کی راہ اپناؤں گا، لوگوں کی خدمت کروں گا، ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں گا اور ان کی دعائیں لوں گا‘‘۔
’’شاباش!‘‘ ماموں جان کے ساتھ سبھی لوگ خوشی سے نہال ہوگئے۔۔۔ اسی وقت احمر کو کچھ یاد آیا۔ وہ باہر جانے لگا۔
’’کہاں جارہے ہو؟‘‘ ماموں جان نے پوچھا۔
احمر کہنے لگا: ’’فاطمہ خالہ کا سوئی گیس اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے،کل تو میں نے انہیں منع کردیا تھا، لیکن اب کبھی منع نہیں کروں گا‘‘۔
یہ کہہ کر جیسے ہی احمر نے باہر جانے کے لیے قدم اُٹھایا تو آنی نے سو کا نوٹ اس کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کہا: ’’واپسی پر مٹھائی کی دکان سے گرما گرم جلیبیاں لے آنا‘‘۔
’’بہتر آنی۔۔۔میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘۔ بڑی خوش دلی سے احمر نے کہا تو ماموں جان نے آواز لگائی:’’میاں، جلدی آجانا، تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں‘‘۔
احمر کی اس طرح اچانک تبدیلی پر گھر کے تمام افراد بے حد خوش نظر آرہے تھے۔ ’’بھائی جان آپ نے تو احمر کی کایا ہی پلٹ دی۔۔۔ بہت شکریہ!‘‘ امی جان بولیں تو ماموں جان نے کہا:
’’احمر نے بڑا آدمی بننے کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا تھا، دوسرا نہیں اٹھایا تھا۔ آج اس کا دوسرا قدم بھی اس سمت میں اُٹھ چکا ہے۔ دُعا کریں کہ ایک دن واقعی ایسا بڑا انسان بن جائے، جسے اللہ پسند کرتا ہو۔۔۔‘‘
ماموں جان کی بات مکمل ہوتے ہی سب نے بڑے زور سے کہا: ’’آمین!‘‘
nn

حصہ