مشہور انگریز شاعر ولیم ورڈز ورتھ جب سفر کرتے تھے تو ان کو حسین قدرتی مناظر متاثر کیا کرتے تھے۔ سفر کے دوران کون کیا دیکھتا ہے، کس کو کون سی چیز متاثر کرتی ہے۔ یہ ہر کسی کا اپنا اپنا ذوقِ نظر ہوتا ہے۔ مجھے بھی بذریعہ سڑک ایک لمبا سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ میں بھی سفر میں خوب صورت مناظر اور اشتہاری بورڈ وغیرہ ہی دیکھا کرتی تھی۔ لیکن اب معاملہ کچھ اور ہوگیا ہے۔ انہی چیزوں کو اب میں ایک خاص فکر و نظر سے دیکھتی ہوں۔
اس سفر کے دوران میں نے بہت خوشنما اور دل کو خوش کرنے والے خوش کن مناظر دیکھے۔ ضروری نہیں کہ یہ مناظر ہری بھری گھاس، گھنے جنگلات، گرتے آبشار یا بہتے دریاؤں کی صورت میں ہوں۔ دل کا منظر ہرا بھرا ہو تو صحرا، ریگستان، ویرانے بھی دل میں خوشی کی جوت جگا دیتے ہیں۔ میرا سفر بھی صحرا، ریگستان کا ہی تھا۔ لیکن میرا دل خوشیوں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ بات ہی ایسی تھی۔
نو گھنٹے کے سفر کے دوران جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ مجھے متاثر کرنے اور خوشی کو دوچند کرنے کے لیے کافی تھا۔ میں تو سمجھتی تھی کہ دنیا میں اب ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں ان خرافات سے پناہ ملے۔ لیکن یہاں کی مقدس سرزمین اور پاکیزہ فضائیں دل کو سرشار کررہی تھیں۔ سب سے پہلے جس چیز نے مجھے متوجہ کیا، پھر متاثر کیا، وہ کیا تھی؟
وہ صرف صاف ستھری، کشادہ، ہموار سڑکیں اور ان پر دوڑتی ہوئی قیمتی، چمکیلی گاڑیاں، جگمگاتی روشنیاں نہیں تھیں بلکہ وہ صاف ستھری فضائیں تھیں جو اونچے اونچے بے ہودہ اشتہاری بورڈ کی آلودگی سے پاک تھیں۔ اشتہاری عورتوں کی بنی ٹھنی اسٹائلش، سوتی جاگتی، لیٹی بیٹھی تصاویر تو دور کی بات، اتنے لمبے سفر میں (سوائے ایک بادشاہ کی تصویر کے) کسی تصویر کا نام و نشان تک نہ تھا۔ نہ شہر کے اندر نہ شہر کے باہر راستوں میں، اور نہ ہی دکانوں کے اوپر کوئی اشتہاری تصویر تھی۔ حد تو یہ ہے کہ لکس صابن کے ریپر پر بھی کوئی تصویر نہیں تھی۔ کیا یہاں کے لوگ خرید و فروخت نہیں کرتے؟ کسی چیز کو بیچنے کے لیے ان کو عورتوں کی فحش تصاویر نہیں لگانی پڑتیں، جبکہ ان کے بڑے بڑے شاپنگ مال سامان سے بھرے ہوتے ہیں اور وہاں بے تحاشا خریداری ہوتی ہے۔ امن، سکون اور خوش حالی کی دولت سے مالامال یہ ملک سعودی عرب ہے۔ آپ صحیح سمجھے۔
میں تو سمجھتی تھی کہ شاید صرف (حرم) مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں ایسا نہیں ہے، لیکن بہت سارے چھوٹے بڑے شہروں سے گزرنے کے بعد پتا چلا کہ سعودیہ کا ہر علاقہ ان خرافات سے محفوظ ہے۔ یہ دیکھ کر دل خوشی سے جھومنے لگا۔
سفر کے پہلے مرحلے میں مجھے ریاض سے سکاکا اپنے بیٹے کے گھر جانا تھا۔ یہ سفر تقریباً نو گھنٹے کا تھا۔ جبکہ اگلے مرحلے میں مجھے وہ سفر کرنا تھا جس کی وجہ سے دل شاد و آباد تھا۔ یعنی پہلے مدینہ منورہ، پھر وہاں سے مکہ مکرمہ کا سفر۔ یہ سفر تقریباً بارہ گھنٹے کا تھا۔
ڈھائی ماہ کے قیام کے دوران جو کچھ میں نے دیکھا وہ بھی مسرور کرنے والا تھا۔ اقامتِ صلوٰۃ اور حجاب کا بہترین نظام۔۔۔ میں نظام ہی کہوں گی۔ سعودی عرب میں حجاب پورے معاشرے میں رچا بسا نظر آتا ہے۔ ہر جگہ ہر موقع کے لیے حجاب کے بہترین نظام ہیں۔ چاہے وہ ہوٹل ہوں، شادی ہال ہوں، گھر ہوں، راستے ہوں یا تفریح گاہیں۔۔۔ یعنی ہوتا سب کچھ ہے لیکن اسلام کے دائرے میں رہ کر۔ ہوٹلوں میں کھانا کھانے کا رواج بھی عام ممالک کی طرح ہی ہے، لیکن ہر خاندان کے لیے الگ الگ کیبن ہوتا ہے جہاں وہ اطمینان سے پردے میں کھانا کھاتے ہیں۔
شادی ہالوں میں مردوں اور عورتوں کے راستے بالکل الگ الگ ہوتے ہیں۔ مرد کھلی جگہ پر جبکہ عورتیں بینکوئٹ میں ہوتی ہیں۔ عورتوں کا داخلہ سائیڈ کے گیٹ سے ہوتا ہے۔ دروازے کے بالکل قریب گاڑی رکتی ہے۔ بعد میں پارکنگ میں جاتی ہے۔ خواتین جو مکمل ڈھکی چھپی ہوتی ہیں، اندر داخل ہوتی ہیں اور دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اندر کی کوئی سن گن بھی محسوس نہیں کرسکتا، کسی خاتون کا نظر آنا تو بہت دور کی بات ہے۔
فلیٹ اور گھروں میں بالکنی نہیں ہوتی۔ کھڑکیاں اونچی اور چھوٹی ہوتی ہیں۔ آدھی بند ہوتی ہیں، کچھ گرم موسم یعنی ائرکنڈیشن کی وجہ سے اور کچھ پردے کے خیال سے۔ غرض کہیں بھی کسی عورت کے بے پردہ نظر آنے کا کوئی موقع نہیں ہوتا۔ گھر اگر بڑے اور کھلے ہوئے ہوں تو چار دیواری بہت اونچی ہوتی ہے۔ تفریح گاہوں میں، شاپنگ مالز میں، راستوں میں ہر جگہ عورت مکمل حجاب و نقاب میں نظر آتی ہے۔ حکومت کی طرف سے حجاب کا قانون نافذ ہے، جبکہ دلوں کی پاکیزگی اور پردے کی روح کو قائم رکھنے کے لیے قرآن سے ربط و محبت بہت زیادہ نظر آتی ہے۔
اکثر تفریح گاہیں، پارک عورتوں اور بچوں کے الگ اور مردوں کے الگ ہوتے ہیں۔ اس طرح عورتوں کے لیے کاروبار و ملازمت کے مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں۔ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہے کہ عورتیں کچھ نہیں کرسکتیں۔ شاپنگ مالز میں عورتوں کے سامان، میک اَپ، عبایا کے لیے عورتیں ہی دکان دار ہوتی ہیں۔ الگ پورشن ہوتا ہے۔ دروازے پر پردہ ہوتا ہے تاکہ عورتیں اندر جاکر آرام سے خریداری کرسکیں۔ پارکوں میں اور شاپنگ سینٹرز کے باہر اکثر عورتیں پورے حجاب و نقاب کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء فروخت کررہی ہوتی ہیں۔
گھروں میں بھی اسلام کی روح کے عین مطابق پردہ کیا جاتا ہے۔ یعنی خواتین نامحرم کے سامنے نہیں آتیں۔ ایک بڑا کمرہ اور اس کے ساتھ ملحق واش روم بالکل علیحدہ ہوتا ہے۔ اس میں داخلہ بھی باہر سے ہوتا ہے۔ یہ مردان خانہ ہوتا ہے۔ گھروں میں خواتین اپنی پسند کے ہر قسم کے ہر فیشن کے لباس زیب تن کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر محرم (باپ، بھائی) وغیرہ کے آنے کی اطلاع ہو تو اوپر سے جبّہ (گاؤن) اور اسکارف پہن لیتی ہیں۔
تقاریب میں ان کے لباس، زیورات، آرائش دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ صرف محرموں کی حد تک ہوتا ہے۔ کوئی نامحرم جھلک بھی نہیں دیکھ سکتا۔ یہ سب دیکھ کر مجھے اپنا گلستاں (پاکستان) یاد آیا۔
’’مجھے اب، دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ یاد آیا‘‘
کون کون سے مناظر میری نظروں میں گھومنے لگے۔ بینکوئٹ ہال کی مخلوط محفلیں، سولہ سنگھار کیے خوشبو میں بسی، زیورات سے لدی عورتیں اور لڑکیاں اس بات سے بے خبر اور بے فکرکہ وہ اﷲ کے کتنے احکامات کی نافرمانی کررہی ہیں، اس کے غضب کو دعوت دے رہی ہیں۔ سڑکوں پر، بازاروں میں، تفریح گاہوں میں، موٹر سائیکلوں پر باریک چست لباس پہنے کتنوں کو گناہوں میں مبتلا کررہی ہیں۔ غرض ہر جگہ بے حجاب خواتین کی کثیر تعداد نظر آتی ہے۔
چند روپوں کی چیز بیچنے کے لیے کیسے کیسے انداز میں عورتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے بورڈز عورتوں کی تصویروں سے سجے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر کیا کچھ کہتے ہیں لوگ؟ ایک عمر رسیدہ خاتون نے بتایا کہ ان کے شوہر ان عورتوں کی تصویروں کو دیکھ کر اس باریک بینی سے ان کے جسمانی خدوخال کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں کہ وہ حیران و پریشان رہ جاتی ہیں۔
آخر ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہے؟ کیا یہ اسلامی معاشرہ نہیں؟ ہمارا ماحول، معاشرہ، فضائیں پاکیزہ ہوں گی تو دل بھی پاکیزہ ہوں گے۔ دلوں کی پاکیزگی اور چین کے لیے، گھروں کے سکون اور معاشرے کی بقا کے لیے نظامِ حجاب ضروری ہے۔ اجتماعی طور پر ہمارے یہاں نظامِ حجاب نافذ نہیں ہے۔ انفرادی طور پر ہم نے قرآن کو سمجھنا چھوڑدیا ہے۔ قرآن سے رابطہ توڑ دیا ہے۔ بس یہی وجہ ہے۔
حرم میں پہنچنے کے بعد صدقِ دل سے یہ دعا کی کہ اﷲ پاک ہمارے چمن پاکستان کو بھی بے حیائی اور برائیوں سے پاک کردے۔ ہماری پاک سرزمین پر بھی نیکیوں کی بہار اترے۔ پاکیزہ معاشرے کی فصلِ گل آئے تاکہ اس کو اندیشۂ زوال نہ ہو۔
nn