152لاء الدین خانزادہ شاعر ہیں اور صحافت سے بھی منسلک ہیں گزشتہ دنوں ان کی شعری مجموعے ’’محبتوں کا سفر‘‘ کی تقریب اجراء ہوئی جس مین زندگی کے مختلف طبقات کی بھرپور نمائندگی تھی جب کہ علاء الدین خانزادہ کی شعری کتاب پر گفتگو کرنے کے لیے ایک مطالعاتی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا جس کی صدارت صبا اکرام نے کی۔ اے خیام مہمان خصوصی تھے اور علاء الدین خانزادہ مہمان اعزازی تھے۔ مجید رحمانی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اس موقع پر صبا اکرام نے کہا کہ خانزادہ نے سہل ممتنع میں خوب صورت اشعار تخلیق کیے ہیں ان کی سیدھی سادی زبان میں کہی گئی غزلیں جذبات و احساسات کا حسین سنگم ہیں ان کی تلمیحات قابل ستائش‘ ان کے استعارے معنویت سے بھرپور ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کی دلیل میں خانزادہ کے کئی اشعار پیش کیے۔ اے خیام نے اپنے مضمون میں کہا کہ خانزادہ اپنی شاعری کے تناظر میں بھی اپنی ذات سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے احساسات و جذبات کاغذ پر منتقل کرکے ہمارے سامنے پیش کیے ہیں انہوں نے اس زمانے میں جو کچھ دیکھا اسے بھی اپنی شاعری کا محور بنایا ہے ان کے یہاں روایتی مضامین بھی ملتے ہیں اور جدید لب و لہجہ بھی نظر آتا ہے ان کے اشعار میں تصوف کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ انہوں نے طنز و مزاح کے مشکل میدان میں بھی قدم رکھا ہے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ زیب اذکار نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ تجربہ کار صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ شاعر بھی ہیں ان کی شاعری کا ویژن بہت وسیع ہے ان کو بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ ان کا ڈکشن اور شعری تراکیب‘ تازگی کا احساس دلاتی ہیں۔ پروفیسر نور محمد شیخ نے کہا کہ خانزادہ کی شاعری میں کلاسیکیی رنگ نمایاں ہے ان کے یہاں سچائیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے زندگی کے مختلف تجربات کو شاعری میں ڈھالا ہے ان کی آواز تروتازہ ہے‘ ان کا لہجہ دبنگ ہے۔ پروفیسر شہناز پروین نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ کا شعری سفر مشاہدات کا آئینہ دار ہے وہ جگ بیتی کو آپ بیتی بنانے کا فن جانتے ہیں۔ نسیم انجم نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ نے مذہبی شاعری بھی کی ہے ان کی نعتوں میں حبِ رسولؐ کار فرما ہے۔ ان کی نظیمیں‘ ان کی غزلیں ان کے وسیع مطالعے کی عکاس ہیں۔ انہوں نے کمالِ مہارت سے اپنی شاعری کو آگے بڑھایا ہے۔ شازیہ نسیم نے کہا کہ خانزادہ کے یہاں عشقِ حقیقی بھی ہے اور عشقِ مجازی بھی۔ ان کی شاعری قدیم و جدید تہذیبوں کا ملاپ ہے۔ نغمانہ شیخ نے کہا کہ علاء الدین خانزادہ نے کراچی کے مختلف ادوار کو دیکھا ہے انہوں نے شہر آشوب کو اپنی شاعری میں نظم کیا ہے۔ اس موقع پر صاحب اعزاز علاء الدین خانزادہ نے اپنی غزل سنائی اور سامعین سے داد و تحسین وصول کی۔
۔۔۔*۔۔۔
لبنیٰ منظر ایک سیف میڈ خاتون ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر کندن بن گئی ہیں۔ یہ تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور شاعرہ ہیں لفظوں کے دروبست سے واقف ہیں ان کی شاعری فطرت سے جڑی ہوئی ہے انہوں نے اپنی شاعری میں ذرے کو آفتاب اور قطروں کو سمندر میں ڈھالا ہے انہوں نے پوری سچائی کے ساتھ معاشرتی ناہمواریوں کو بیان کیا ہے اور مردوں کے اس معاشرے میں عورت کی مشکلات کو بیان کرتے ہوئے معاشرے کے اصلاح کاروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے لبنیٰ منظر کے پہلے شعری مجموعہ ’’سورج اور سمندر‘‘ کی تقریب اجراء کے موقع پر آرٹس کونسل کراچی میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبنیٰ منظر نے مختصر نظمیں زیادہ لکھی ہیں تاہم انہوں نے غزلیں اور دوہے بھی کہے ہیں یہ امریکا میں مقیم ہیں لیکن ان کی شاعری زمان و مکان اور جغرافیائی حدود میں قید نہیں ہے انہوں نے دیارِ غیر میں درپیش مسائل کو بھی موضوعِ سخن بنایاہے اور پاکستانی طرز معاشرت پر بھی قلم اٹھایا ہے۔
مہمان خصوصی حسینہ معین نے کہا کہ لبنیٰ منظر دھیمے لہجے میں شگفتہ گفتگو کرنے والی خاتون ہیں انہوں نے آسمان و زمین کے بیچ جو کچھ دیکھا انہیں اپنے الفاظ میں بیان کیا انہوں نے زمینی حقائق بیان کیے ہیں ان کا اسلوبِ بیان جداگانہ ہے ان کے یہاں جدید حسیت موجود ہے حسینہ معین نے لبنیٰ کی شاعری کو دھنک رنگ شاعری قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ لبنیٰ منظر دھیرے دھیرے اپنا شعری قد بڑھا رہی ہیں امید ہے کہ وہ مزید ترقی کریں گی۔ ڈاکٹر عالیہ امام نے کہا کہ جہاں محبت کے دو بول کہنا گناہ تصور کیا جائے جس معاشرے میں پرتشدد کارروائیاں عروج پر ہوں وہاں لبنیٰ منظر نے سچی بات کہنے کی جسارت کی ہے۔ ان کی شاعری بادِ صبا کا خوش گوار جھونکا ہے۔ یہاں ان کے خیالات کی پختگی پائی جاتی ہے ان کے اشعار میں ایک ایسی خوشبو ہے جو صحرا میں اپنی زندگی کا پتا دیتی ہے۔ ان کی شاعری اونچائی‘ مضبوطی اور پاکیزگی کی آئینہ دار ہے وہ ادب کو تفریح طبع نہیٍں سمجھتیں بلکہ وہ تاریکی میں پرواز کرتی ہیں اور ہر طرف اجالے بکھیرتی ہیں ان کی شاعری مور پنکھی شاعری ہے جس میں یاقوتی رنگ‘ بنفشی رنگ نمایاں ہیں ان کے یہاں نسائیت کے مسائل بھی ڈسکس ہوئے ہیں‘ ان کی نظمیں مختصر اور جامع ہیں۔
فراست رضوی نے لبنیٰ منظر کی شاعری کے ہر پہلو پر گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ ان کے موضوعات اور اسالیب میں منفرد اسلوب ہے‘ ان کے یہاں محبت کے رویے‘ عرفانِ ذات ایک نئے انداز مین نظر آتے ہیں لبنیٰ منظر کی شاعری پڑھ کر میں خوش گوار حیرت سے دوچار ہوا ہوٍں۔ ان کا تعلق ایک علمی خانوادے سے ہے۔ شاعری کا شوق انہیں ورثے میں ملا ہے ان کی نظمیں معنوی اعتبار سے بھی بہت اہم ہیں اور آہنگ کے اعتبار سے بھی ان کی نظمیں زندگی کی عکاس ہیں جس میں خوب صورت رنگ نظر آتے ہیں۔ ان میں تخلیقی صلاحیت بہ درجہ اتم موجود ہے انہوں نے آزاد نظم‘ نثری نظم‘ غزل اور دوہے لکھے ہیں ان کی ہر نظم میں مشرقی اقدار کی جھلک نظر آتی ہے ان کی نظموں میں دل پذیری ہے‘ احساس کی چنگاریاں ہیں‘ کربِ آگہی بھی ہے اور شعورِ ذات کا اظہار بھی ہے۔ ان کے یہاں جمالیاتی طرزِ ادا‘ ابلاغ کی صلاحیت‘ شعوری تلازمات نظر آتے ہیں‘ ان کی نظمیں کامیاب اور متاثر کن ہیں۔ ان کے دوہے ’’عالی چال‘‘ کی بحروں کی عکاس ہیں۔ غزل کے حوالے سے بھی انہوں نے اچھوتے اور دلربا مضامین باندھے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ شاعری کے سفر میں بہت آگے جائیں گی۔ ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ لبنیٰ منظر نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ کے طور پر ہمارے سامنے آرہی ہیں یہ الفاظ سے رنگ آمیزی کا کام لینا جانتی ہیں۔ ان کے یہاں کربِ تنہائی کا ذکر ملتا ہے اور ہجرت کے مضامین بھی۔ ان کے والد بھی قادر الکلام شاعر ہیں یہ اس دور کے ادبی منظر نامے میں پوری توانائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ پرفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ میں تو میزبانِ تقریب ہوں لبنیٰ منظر میری بہت پیاری بیٹی ہے اس نے میرے شعری سفر میں میرا بہت ساتھ دیا ہے جب میں نے تنقیدی مضامین لکھنے کا خواب دیکھا تو مجھے اس لحاظ سے بہت مشکل تھی کہ مجھے طویل نثر کو کاغذ پر منتقل کرنے کی عادت نہیں تھی پھر یوں ہوا کہ میں ’’مسلسل تقریر‘‘ بن جاتا اور لبنیٰ مجھے لکھتی جاتی اگر وہ یہ کارنامہ انجام نہ دیتی تو میرے تنقیدی مضامین زندگی نہیں پاسکتے تھے۔ جب لبنیٰ کی والدہ یعنی میری شریک حیات انتقال کر گئیں تو لبنیٰ نے گھر کی دیکھ بھال کا کا فریضہ بھی نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ لبنیٰ شادی کے بعد امریکا شفٹ ہوگئیں اور وہاں اردو ادب کی ایک تنظیم کے پلیٹ فارم سے اردو کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔
لبنیٰ کی اندر ایک شاعرہ چھپی ہوئی تھی جیسے ہی اس کو سازگار ماحول میسر آیا‘ لبنیٰ کے اندر کی شاعرہ ’’سورج اور سمندر‘‘ کی شکل میں باہر آگئی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آزاد اور نثری نظمیں بہت سی دوسری شاعرات سے مختلف ہیں ان کی نظموں میں ذاتی احساسات کی گہری شدت پائی جاتی ہے جو فطرت کی امیجریز اور ذات کی تنہائی کی ساتھ اظہار میں آئی ہیں انہوں نے کچھ غزلیں لکھیں پھر دوہے لکھے اور پھر وہ نظموں کے قریب ہوگئیں اب نظم ان کی پسندیدہ صنف سخن ہے ان کی شاعری پر مختلف ناقدینِ فن کی تبصرے انہیں معتبر بنا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان کی یہ کتاب ادبی سرمایے میں گراں قدر اضافہ ہے۔
تقریب کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا‘ تلاوت کلام پاک اور نعت رسولؐ کی سعادت حافظ محمد نعمان طاہر نے حاصل کی۔ شہلا سلیم نے لبنیٰ منظر کی ایک خوب صورت غزل خوب صورت ترنم کے ساتھ پیش کی۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے انہوں نے ابتدائی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ لبنیٰ منظر کی نظمیں احمد ہمیش کی نظموں کی طرح بہت طاقت ور ویژن رکھتی ہیں ان کی فکر انگیزی قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے ان کے یہاں جدیدیت پسندی کے بے شمار اشعار ملتے ہیں ان کی شاعری مابعد جدیدیت کے زمرے میں آتی ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام کراچی کے دو ممتاز شعرا احمد سعید فیض آبادی اور حامد علی سید کے اعزاز میں تقریب منعقد کی گئی فہیم الاسلام انصاری نے صدارت کی۔ خورشید احمر مہمان خصوصی تھے جب کہ عبدالمجید رحمانی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سینئر صحافی و ادیب الطاف مجاہد نے کہا کہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی بہت فعال ہے اور ادبی تقریبات کے حوالے سے بھی بہت کام کر رہی ہے اس کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار اور ان کے رفقائے کار قابل مبارک ہیں کہ وہ ادیبوں اور شاعروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اردو ادب کا فروغ ہماری ضرورت ہے کیونکہ ادیب و شعرا معاشرے کی تطہیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ احمد سعید فیض آبادی اور حامد علی سید بہت عمدہ اشعار لکھ رہے ہیں۔ ان کے کلام میں زندگی کے مختلف ادوار کی عکاسی کی گئی ہے۔ پروفیسر نسیم انجم نے کہا کہ حامد علی سید کی شاعری مایوسی کے ماحول میں امید کی کرن ہے‘ ان کے استعارے زندگی سے بھرپور ہیں ان کی غزلیں اور نظمیں ہمارے ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ یہ بہت سوچ سمجھ کر شعر کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حامد علی سید کی زیر نگرانی ایک ادبی پرچہ بھی باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے اس طرح نثر میں بھی ان کی صلاحیتیں قابل ستائش ہیں۔
سلمان صدیقی نے حامد علی سید کے فن اور شخصیت کے بارے میں کہا کہ ان کی شاعری میں تہذیب کا عنصر‘ نرمی اور مہذب رویہ نظر آتا ہے انہوں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اس لیے ان کے یہاں زندگی کے مصائب و آلام کا تذکرہ بھی ہوتا ہے اور غزل کے روایتی مضامین بھی نظر آتے ہیں ان کا لب و لہجہ ان کے ہم عمر شعرا سے انہیں ممتاز کرتا ہے۔ حامد علی سید کی ایک اہم حیثیت یہ بھی کہ یہ بہت اچھے نظامت کار ہونے کے ساتھ نثر نگار بھی ہیں۔ اس موقع پر صفدر علی انشاء نے احمد سعید فیض آبادی اور حامد علی سید کو منظوم خراج تحسین پیش کیا۔ جس کے بعد حامد علی سید نے اپنی غزلیں سنا کر سامعین سے داد وصول کی انہوں نے کراچی پریس کلب کی ادبی کو خراج تحسین پیش کیا۔
مہمان خصوصی سینئر شاعر و صحافی خورشید احمد نے احمد سعید فیض آبادی اور حامد علی سید کے بارے میں کہا کہ وہ ہر دو صاحبان کی شعری صلاحیتوں کے معترف ہیں کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے شعرا و شاعرات کی حوصلہ افزائی کے لیے جو سلسلہ شروع کیا وہ قابل تحسین اقدام ہے اس موقع پر مہمان خصوصی نے اپنا کلام بھی سنایا۔ صدر تقریب فہیم الاسلام انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ احمد سعید فیض آبادی اور حامد علی سید کی شاعری میں تازہ کاری ہے۔ ان دونوں کا شعری سفر ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے ان کی آواز تادیر قائم رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج شہر کے حالات کچھ خراب ہیں اس کے باوجود بھی تقریب کامیاب ہے یہ ان دونوں سے پیار کرنے والوں کی محبتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
’’اردو کا عروض نظام اور عصری تقاضے‘‘ ڈاکٹر آفتاب مضطر کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان تھا انہوں نے پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کی نگرانی میں یہ مقالہ مکمل کیا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر پی آر کے آدمی ہیں لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اعزاز میں تقریبات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ گزشتہ دنوں آرٹس کونسل پاکستان کراچی کی ادبی کمیٹی کے تحت ان کے لیے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں انہیں اعترافِ کمال ایوارڈ پیش کیا گیا۔ تقریب کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی مہمان خصوصی تھے فاضل مقررین میں ڈاکٹر شاہد ضمیر‘ سید ایاز محمود‘جہاں آرا تبسم‘ رفیع الدین راز اور مقبول زیدی شامل تھے جب کہ نصیر ترابی کا تحریر کردہ مضمون بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ راشد نور نے نظامت کا فریضہ انجام دیا۔
ڈاکٹر شاہد ضمیر نے کہا کہ اردو کے عروض نظام پر تنقیدی و تحقیقی مقالہ پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا ہے یہ ایک مشکل عنوان تھا لیکن ڈاکٹر آفتاب مضطر نے اپنی قابلیت اور محنت سے یہ مقالہ پائے تکمیل تک پہنچایا۔ انہوں نے حکومتِ وقت سے اپیل کی کہ ڈاکٹر آفتاب مضطر کی اس کارنامے پر انہیں پاکستان کا قومی ایوارڈ پیش کیا جائے۔ سید ایاز محمود نے کہا کہ آفتاب مضطر نے اپنے مقالے میں بہت سی مروجہ عروض تراکیب سے اختلاف کیا ہے اور جگہ جگہ اجتہاد کیا ہے انہوں نے اردو کے عروض نظام کو دورِ حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات غلط ہے کہ ماہر عروضی اچھا شاعر نہیں بن سکتا۔ شاعری کے لیے اساتذہ جو مشورے دیتے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مقبول زیدی نے ڈاکٹر آفتاب مضطر کو منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ نصیر ترابی نے اپنے مقالے میں کہا کہ ڈاکٹر آفتاب مضطر ایک کہنہ مشق شاعر و ادیب ہیں ان کی پی ایچ ڈی بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ انہوں نے ایک مشکل موضوع پرکامیابی حاصل کی ہے۔
رفیع الدین راز نے کہا کہ بلا مبالغہ یہ ایک بڑا مشکل کام تھا جو کہ ڈاکٹر آفتاب مضطر نے بہ حسن و خوبی انجام دیا۔ صاحب اعزاز تقریب ڈاکٹر آفتاب مضطر نے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر داد وصول کی اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یہ آٹھویں تقریب پذیرائی ہے میرا مقالہ 570 صفحات پر مشتمل ہے انہوں نے مزید کہا کہ مقالہ نگار‘ دور حاضر اور دورِ ماضی کو ملانے کے لیے بیچ کی کڑی ہوتا ہے میں نے اس کڑی کا کردار ادا کیا ہے اور مغالطوں پر کڑی نظر رکھی ہے اس موقع پر ڈاکٹر آفتاب مضطر نے بتایا کہ عروض کیا تھا‘ عروض کیا ہے اور عروض کیا ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ ایک اچھا طالب علم ایک اچھے استاد کی سرپرستی میں کامیابی کی منزلیں طے کرتا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب کا شمار میرے ہونہار شاگردوں میں ہوتا ہے میں نے داخلے سے لے کر موضوع کے انتخاب تک ہر مرحلے پر ڈاکٹر آفتاب مضطر کی رہنمائی کی اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئی ڈاکٹر آفتاب مضطر کے لیے کامیابی کے راستے کھولے خدا کا شکر ہے کہ یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ اپنی مثال آپ ہے یہ اتنا بڑا کام ہے کہ کم از کم پچاس سال تک اس کی کاٹ ممکن نہیں ہے اس موقع پر ڈاکٹر شاداب احسانی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی انتظامیہ سے کہا کہ وہ علم و عروض کی کلاسیں شروع کرائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ علم عروض سے استفادہ کرسکیں۔
صاحب تقریب پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آفتاب مضطر میں مجھے روح عصر مضطرب نظر آتی ہے آج کل بہت آسان موضوعات پر مقالے جات لکھے جارہے ہیں جب کہ آفتاب کا کام کٹھن ہے۔ بے شک یہ قابل مبارک باد ہیں۔ ہمارے لیے خوشی کی یہ بات ہے کہ یہ ہمارے شہر کی پہچان بن گئے ہیں جب بھی ان کے مقالے کا ذکر ہوگا تو کراچی کا نام بھی لیا جائے گا۔ ڈاکٹر آفتاب مضطر کی شاعری بھی روح عصر کی غماز ہے ان کی غزلیں کئی گلوکاروں نے گائی ہیں۔ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔