ڈاکٹر محمد اقبال (خلیل عالم تمام)

242

  امریکی صدارتی انتخابات کے غیر متوقع نتائج نے پوری دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے۔ ری پبلکن امیدوار کھرب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان پیدا کردیا۔ اربوں ڈالر ڈوب گئے۔ لوگ ایک صدمے سے دوچار ہوگئے۔ خود امریکا کے اندر ووٹرز حیران پریشان ہیں کہ ایسا کیسے ہوگیا! ٹی وی سیٹ توڑ دیے گئے، ہزاروں لاکھوں نے ملک چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ امریکی مجسمہ آزادی کو شرم سے سر جھکاتے اور چھپتے ہوئے دکھایا گیا، لیکن اس سب کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی تاریخ کا ایک متنازع ترین امیدوار امریکی صدارت کا انتخاب جیت چکا ہے اور اگلے سال ماہ جنوری میں وائٹ ہاؤس کا قبضہ سنبھال کر تاجِ صدارت اپنے سر پر جمالے گا۔
یہ تلخ حقیقت سب کے لیے غیر متوقع ہوسکتی ہے لیکن خود ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے نہیں۔ وہ پہلے دن سے پُراعتماد تھا۔ بزنس مین ہے اور اس نے پوری طرح سوچ سمجھ کر مکمل تیاری کے ساتھ یہ ڈیل کی تھی۔ اس نے 16سال ایک ٹی وی پروگرام میں سچسن کے کردار کو ادا کرتے ہوئے صدر بننے کی ریہرسل کی تھی، اب صرف اس پر عمل کرنا تھا۔ پھر اس کو ایک کمزور امیدوار کا سامنا تھا۔ ہیلری کلنٹن دنیا میں بہت مقبول تھی۔ سابقہ امریکی صدر بل کلنٹن کی بیوی اور مقبول صدر اوباما کے ساتھ وزیر خارجہ کی حیثیت سے وہ ایک کامیاب اور معروف صدارتی امیدوار تھی، لیکن امریکی نوجوانوں اور کارکنوں کی نظر میں وہ مطلوبہ صدر کے معیار پر نہ تھی، اس سے کسی کو بھی یہ توقع نہ تھی کہ وہ امریکی نظام میں کوئی تبدیلی لاسکے گی، عوامی امنگوں پر پورا اتر سکے گی۔ اگر اس کی جگہ ڈیموکریٹک پارٹی برنی سینڈرز کو اپنا نمائندہ بنالیتی تو وہ زیادہ مضبوط امیدوار ثابت ہوسکتا تھا۔
انتخابی مہم کے عرصے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اتنا کچھ کہا گیا کہ وہ برائیوں کا مجموعہ لگتا تھا۔ شیطانی صفات کا شاہکار، خواتین پر جنسی حملوں کا ذمہ دار، بدزبان، بداخلاق، گالم گلوچ کا شوقین۔۔۔ غرض وہ کون سی انسانی کمزوری تھی جو اس کے کھاتے میں نہ ڈالی گئی۔ لیکن اب جب اس نے صدارتی معرکہ جیت لیا ہے تو پہلی مرتبہ میڈیا میں اس کے حق میں مواد آنا شروع ہوا ہے۔ گزشتہ جمعرات ہی کی خبر ہے کہ وہ شرابی نہیں۔ اس نے ساری عمر شراب نہیں پی ہے، سگریٹ نہیں پی ہے، حتیٰ کہ کسی بھی قسم کا نشہ استعمال نہیں کیا ہے۔ امریکا میں یہ بہت ہی عجیب سی بات لگتی ہے کہ ایک ایسا کامیاب بزنس مین ہو اور وہ شراب سے اجتناب کرتا ہو!
ڈونلڈ ٹرمپ کاروباری دنیا میں بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ فوربس فہرست کے مطابق وہ دنیا کے 500 مالدار ترین افراد میں شامل ہے۔ اس کا کل کاروباری سرمایہ 3.7 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح وہ دنیا میں 324 ویں نمبر پر اور امریکا میں 156ویں نمبر پر مالدار شخص ہے۔ اسی طرح وہ 48 امریکی صدور میں سب سے مالدار صدر ہوگا۔ ستمبر 2015ء میں اس کے کل اثاثہ جات 4.5 بلین ڈالر تھے۔ اس نے سونے کے کاروبار میں بہت پیسہ کمایا ہے۔ اِس کے علاوہ اس نے شوبز میں بہت سرمایہ کاری کی ہے۔ اسپورٹس کے میدان میں اس نے گولف کورسز میں پیسہ لگایا ہے اور گولف ویک کے نام سے ایک میگزین بھی نکالتا ہے۔ اس نے ’’مس امریکا‘‘ اور ’’مس یونیورس‘‘ کے نام سے ہونے والے حسن کے مقابلوں میں بھی بزنس کیا ہے، اس کے علاوہ وہ کئی ہوٹلوں، جواخانوں اور بڑی عمارات کا مالک ہے۔ اس کی اصل کاروباری کمپنی ’’ٹرمپ کارپوریشن‘‘ ہے جو رئیل اسٹیٹ پراپرٹی بزنس میں نیویارک میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے اور اسی کے صدر دفتر مین ہٹن نیویارک کی ایک 27 منزلہ اونچی عمارت میں ٹرمپ کا کاروباری اور انتخابی دفتر بھی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نیویارک ہی میں پیدا ہوا اور یہیں سے اس نے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ پنسلوانیا کی یونیورسٹی سے اس نے 1968ء میں اکنامکس کی ڈگری حاصل کی اور اس کے 3 سال بعد ہی اپنے باپ کا کاروبار سنبھال لیا۔ کاروباری کیریئر کے ساتھ ساتھ اس نے ٹی وی اور فلموں میں اداکاری اور فنکاری کے جوہر دکھائے ہیں، اس کے علاوہ اس نے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی بہت سارے پروگرام کیے ہیں۔ اس کا مقبول ترین پروگرام”The Apprentice”کے نام سے NBC ٹی وی پر 9سال تک کامیابی سے چلتا رہا۔ اس کے خاندان نے 1988ء میں’’ڈونلڈ جے ٹرمپ فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک رفاہی ادارہ قائم کیا جس نے صحت اور کھیل کے میدان میں کام کرنے والے خیراتی اداروں کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اور صرف سال 2009ء میں 926 ہزار ڈالر کے عطیات 40 مختلف اداروں کو دیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک لاکھ ڈالر کلنٹن خاندان کے قائم کردہ خیراتی ادارے ’’کلنٹن فاؤنڈیشن‘‘ کو بھی دیے گئے تھے۔ ایسا نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کاروبار میں صرف کامیابیاں ہی حاصل کی ہوں، اس کو ناکامیوں اور خسارے کا بھی سامنا رہا ہے اور بار ہا مقدمات کا بھی سامنا کیا ہے۔ امریکی روزنامہUSA Todayکے مطابق ٹرمپ اپنی زندگی میں کاروباری معاملات پر 3500 مقدمات بھگت چکا ہے۔ اس کے علاوہ نیویارک کے تحقیقاتی اداروں نے اس کی فاؤنڈیشن کے حوالے سے معلومات حاصل کی ہیں جن کے مطابق اس میں کئی قابلِ اعتراض کام کیے گئے تھے جس کی وجہ سے اسی سال کے گزشتہ مہینے میں نیویارک کے اٹارنی جنرل نے اس پر فنڈز لینے پر پابندی عائد کردی تھی۔ اسی طرح کاروباری قرضوں میں 2016ء میں اس کو 605ملین ڈالر کا خسارہ ہوا۔ اس نے بینک آف چائنا اور ڈ چ بینک سے 950 ملین ڈالر کے قرضے بھی لیے ہیں اور اب تک واپس نہیں کیے۔
خاندانی لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ جرمن ہے۔ اس کے آباو اجداد جرمنی سے آکر امریکا میں آباد ہوئے۔ اس کی والد اسکاٹش ہیں یعنی اسکاٹ لینڈ سے آکر یہاں بسیں۔ اس کی تیسری بیوی میلانیا کا تعلق مشرقی یورپی ملک سلوانیا سے ہے۔ وہ شادی سے پہلے ماڈل گرل کے طور پر متعارف تھی، اب وہ امریکا کی خاتونِ اول بنے گی۔ ڈونلڈ کی پہلی بیوی ایوانا کا تعلق بھی مشرق یورپی اور سوشلسٹ ملک چیکو سلواکیہ سے رہا تھا، جس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی1977ء میں شادی ہوئی تھی اور 1992ء میں علیحدگی ہوئی۔ اس بیوی سے 3 بچے بھی تھے جو طلاق کے بعد ماں کے پاس رہے۔ طلاق کی وجہ ٹرمپ کی بے وفائی اور دوسری عورتوں سے تعلقات تھے۔ اس کی بیوی اور بچوں کو اب بھی ٹرمپ سے سالانہ 350000 ڈالر الاؤنس ملتا ہے۔ پہلی بیوی سے طلاق کے بعد ٹرمپ نے اسی لڑکی سے شادی کی جس پر اس کی بیوی نے خفیہ تعلقات کا الزام لگایا تھا۔ مارلامیپلز بھی ماڈل گرل اور اداکارہ تھی جس کے ساتھ ٹرمپ نے 6 سال گزارے، اور پھر تیسری بیوی ملینا کی خاطر 1999ء میں اس کو چھوڑ دیا۔ 46 سالہ ملینا نے شو بز میں ایک کامیاب دور گزارا ہے۔ وہ پہلی خاتونِ اول ہوگی جو انگریزی زبان کے علاوہ سلوانین، جرمن، فرانسیسی اور سربین میں گفتگو کرسکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی عمر اس وقت 70 سال 4 ماہ ہے (تاریخ پیدائش 14جون1946ء)۔ اس لحاظ سے وہ اب تک منتخب ہونے والے صدور میں سب سے معمر صدر ہوگا۔ اس سے پہلے 1980ء کی دہائی میں منتخب ہونے والے ری پبلکن صدر رونالڈ ریگن 69سال کی عمر میں منتخب ہوئے تھے جو 1982ء سے 1989ء تک امریکی صدر رہے اور 77سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ افغانستان میں روسی حملے کے موقع پر صدر بنے اور ان کے دور میں پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق کو ان کی بھرپور حمایت رہی تھی۔
8 نومبر کو پولنگ کے دن صبح کے وقت کسی کو بھی توقع نہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن جیت سکتا ہے۔ اس نے 2015ء میں جب سے اپنی صدارتی مہم کا آغاز کیا تھا، وہ قابلِ نفرت امیدوار کا روپ دھار چکا تھا۔ سب اس کے خلاف تھے۔ میڈیا اس کے خلاف تھا۔ وہ ہر وہ بات کرتا تھا جو لوگوں کو بری لگتی تھی۔ وہ مخالفین کا مذاق اڑاتا تھا، ان پر جملے کستا تھا، رکیک حملے کرتا تھا، اس کے باوجود پارٹی الیکشن میں جیتتا رہا۔ ایک کے بعد ایک اس کے مقابلے میں دست بردار ہوتے گئے اور بالآخر وہ پارٹی قیادت کی مخالفت کے باوجود صدارتی ٹکٹ جیتنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جب اس کا واسطہ ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن سے پڑا تو ایک مرتبہ پھر وہ انتہائی غیر مقبو ل صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آیا۔
ہیلری کلنٹن ایک عرصے سے برسراقتدار اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی محترم اور باوقار شخصیت کی مالک ہے۔ پورا میڈیا اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا۔ رائے عامہ سرویز میں وہ بہت آگے تھی۔ پھر جب دونوں صدارتی امیدواران کے درمیان مباحثوں کا سلسلہ شروع ہوا جو امریکی صدارتی انتخابات کی ایک اہم خصوصیت ہے تو ایک بار پھر ہیلری نمبر لے جاتی نظر آئی۔ اس نے ٹرمپ کو ہر مباحثے میں مات دی۔ ٹرمپ ایک منہ پھٹ، بدمعاش اور دوسروں کی بے عزتی کرنے والے شخص کے طور پر متعارف ہوا۔ وہ ہیلری کلنٹن کو مکار عورت قرار دیتا اور اس کے بارے میں کہتا کہ میں اس کو جیل میں دیکھنا پسند کروں گا۔ لیکن اس سب کے باوجود ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں اس کی مقبولیت کا گراف آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور وہ الیکشن سے ایک دن پہلے صرف ایک فیصد پیچھے تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے پہلے دن سے امریکی نظام کو چیلنج کررکھا تھا۔ اس نے ملکی اشرافیہ کو ٹارگٹ بنایا اور عام آدمی کے مسائل کی بات کی۔ یعنی ری پبلکن پارٹی کا جو عام رویہ تھا اس کے برعکس حکمت عملی اختیار کی۔ وہ امریکا کی بات کرتا۔ ’’سب سے پہلے امریکا‘‘ کا نعرہ لگاتا اور جو بھی عنصر اس کے مخالف نظر آتا اس کی شدید مذمت کرتا۔ وہ تارکین وطن کا سخت مخالف بنا اور اول دن سے اس نے ان کے بارے میں شدید نفرت کا اظہار کرنا شروع کیا، جن سے مقامی سفید فام امریکی سخت نالاں ہیں۔ امریکی معاشرے میں ہمیشہ سے سفید فام، سیاہ فام اور زرد فام آبادیوں کے درمیان شدید مخاصمت رہی ہے، جس کی بنیاد پر طویل جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اب یہ جنگ انتخابی محاذ پر لڑی گئی اور ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکن کارڈکا بخوبی استعمال کیا۔ حقیقت میں اس نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو اس کو امریکی صدر کا انتخاب جتوا سکے۔ اس نے اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہر وہ بات کی جو عام لوگوں میں اس کو مقبولیت دلا سکے۔ اس نے مسلم دشمنی کے جذبات کا بھی بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو ٹارگٹ بنایا اور اعلان کیا کہ وہ امریکی اےئرپورٹوں پر مسلمانوں کو نہیں اترنے دے گا۔ اس طرح کے غیر اخلاقی نعروں سے میڈیا میں تو وہ ہدفِ تنقید بنتا رہا لیکن عوامی حلقوں میں اس کی پسندیدگی بڑھتی گئی۔ اس کی انتخابی حکمت عملی کا اہم ترین نکتہ اس کی ریاستی ووٹ کے حصول کی پلاننگ تھی۔ امریکا میں وفاقی طرز حکومت کی وجہ سے ہر ریاست کو آبادی کے تناسب سے ایک مخصوص نمبر کے ووٹ دئیے گئے ہیں، اور اکثر ریاستوں میں جو امیدوار اس ریاست میں چند ووٹ بھی زیادہ لے لے وہ تمام ریاستی ووٹ حاصل کرلیتا ہے اور دوسرا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس نظام کو سمجھتے ہوئے ٹرمپ نے ان ریاستوں پر زیادہ توجہ دی جہاں پہلے سے ڈیمو کریٹ یا ری پبلکن کی چھاپ نہیں، اور وہ Swing Statesکہلاتی ہیں جہاں کوئی بھی پارٹی جیت سکتی ہے۔ ٹرمپ نے ان ریاستوں میں بھرپور انتخابی مہم چلائی۔ مسلسل گھومتا رہا۔ وہ ایک دن میں 5 سے 6ریاستیں کور کرتا۔ ہر جگہ بار بار جاتا۔ اپنے سپورٹرز کی ہمت بڑھاتا اور ان کو فتح کی نوید سناتا۔ اسی نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ زیادہ ریاستوں میں ریاستی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور 276نمبر حاصل کیے، جب کہ ہیلری کلنٹن مجموعی طور پر زیاد ہ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود صرف 235 ریاستی ووٹ حاصل کرسکی اور اس طرح ناکام رہی۔
عجیب بات یہ ہے کہ پولنگ کی رات بھی مبصرین یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھے کہ ٹرمپ جیت سکتا ہے۔ میں خود اس رات CNN اور BBC دیکھتا رہا اور مختلف مبصرین کی گفتگو سنتا رہا۔ اس میں سے کسی نے بھی ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی کا ذکر نہیں کیا۔ حتیٰ کہ جب وہ سرپرائزکی بات کرتے تھے کہ انتخابات میں ایسا ممکن ہے تو وہ بھی یہ کہتے تھے کہ ہوسکتا ہے ہیلری بہت زیادہ مارجن سے جیت جائے۔ مجھے بھی یہ سن کر حیرت ہوئی تھی کہ جب رائے عامہ کے تازہ ترین سروے میں ہیلری اور ٹرمپ کا فرق صرف ایک فیصد ہے تو پھر تو ممکن ہے کہ ٹرمپ کامیاب ہوجائے، لیکن ٹی وی چینلز میں سے صرف Fox ٹی وی نے

حصہ