ایک سردار جی اپنے دوست سے کہتے ہیں ’’یار میں کر کٹ میچ پر لگائی گئی دونوں شرط ہار گیا۔‘‘
سردار جی کے دوست نے تجسس سے پوچھا ’’وہ کیسے۔۔۔؟‘‘
سردار جی بولے ’’میں نے شرط لگائی کہ میچ ہماری ٹیم جیتے گی لیکن ہماری ٹیم میچ ہار گئی۔‘‘
دوست نے پوچھا ’’اوردوسری شرط کیسے ہار گئے۔۔۔؟‘‘
سردار جی بولے ’’رات میں ٹی وی پر اُسی میچ کی جھلکیاں آرہی تھیں اس پر بھی میں نے کہا ہماری ٹیم جیتے گی لیکن یہاں بھی ہماری ٹیم ہار گئی اس طر ح دو شرطیں میں ہار گیا۔‘‘ دوست بولا ’’یار! تو دل برداشتہ نہ ہو‘ تیرے ساتھ دھوکا ہوا ہے تو ایسا کر عدالت چلا جا۔
کرکٹ پاکستان میں بہت مشہور ہے‘ ہر گلی محلے میں کھیلا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کھیلوں سے عوام کی دل چسپی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور اگر کھیل کئی دنوں تک کھیلنے والا ہو تو مزید بوریت کا سامان پیدا کر دیتا ہے۔ کھیلوں میں سب سے زیادہ دنوں یعنی پانچ دن تک کھیلا جا نے والا کھیل کرکٹ ہے اور پاکستانی قوم کرکٹ کو کچھ وقت دے کر دیکھ لیتی ہے۔کرکٹ میں پانچ دن کا کھیل ٹیسٹ میچ کہلاتا ہے اور کبھی کبھی بلکہ اکثر بغیر نتیجے کے ختم ہو جاتا ہے۔ نہ کو ئی جیتتا ہے اور نہ ہی ہارتا ہے۔ کھیل ختم ہو نے کے بعد دونوں ٹیم کے کپتان تبصرہ کر تے ہو ئے کہتے ہیں کہ ہم اچھا کھیلے اور خاص کر ہمارے فلاں کھلاڑی نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ایمپائر۔۔۔ اگر۔۔۔ مگر۔۔۔ ایسا۔۔۔ ویسا۔۔۔ کی باتیں کی جاتی ہیں اور عوام ٹی وی بند کر کے اپنے کا موں میں لگ جاتے ہیں۔
کچھ اسی طرح کی صورت حال تحریک انصاف کے گزشتہ دنوں دیے جا نے والے دھرنا میچ میں دیکھنے میں آئی کہ کپتان نے 2 نومبر کو اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کر نے کا کہا تھا۔ اس بار لوگوں کو توقع تھی کہ دھرنا طویل نہ سہی‘ ایڈوینچر سے بھر پور ہوگا اور اس بار تو فیصلہ بھی ہوگا۔۔۔ مگر میچ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ لوگوں کو مایوسی ہوئی جب خراب کارکردگی اور حکمت عملی نہ ہو نے کی وجہ سے میچ جلد ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ جبکہ بارش بھی نہیں ہو ئی تھی اور نہ مارشل لاء کے بادل نظر آرہے تھے۔۔۔ نہ ہی بیڈلائٹ کے آثارپیدا ہو ئے تھے۔ موسم بھی کھیل کے لیے خو شگوار تھا‘ پُش اَپ لگا کر کپتان بیٹنگ کے لیے تیاری بھی کرچکے تھے لیکن ایسا کیا ہوا کہ میچ اچانک ختم کردیا گیا۔
’’دھرنا میچ‘‘ کے خا تمے کے بعد سیاسی تجزیہ کاروں نے اس میچ پر خوب تبصرہ کیا۔ کسی نے کہا کہ کپتان نو بال پر آؤٹ ہو گئے‘ کسی نے کہا تماشائی نہیں آئے اس لیے میچ ختم کر دیا گیا۔۔۔ کسی نے کہا کہ نیوٹرل ایمپائرنگ کے ساتھ کھیل کو دلچسپ نہیں بنایا جاسکتا اس لیے کھیل ختم ہوگیا‘ کسی نے کہا دھرنا میچ کی پریکٹس کے لیے مشہور و معروف کوچ جماعت اسلامی کی عدم دستیابی کے باعث میچ جلد ختم کردیا گیا‘ کسی نے کہا کہ دھرنا میچ کی نیٹ پریکٹس نہ ہو نے کی وجہ سے کھلاڑی جلد آؤٹ ہو رہے تھے اس لیے ایسا کرنا پڑا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ہمیں کئی عشرے قبل پی ٹی وی پر دکھایا جا نے والا طنز و مزاح کا پروگرام ’’ففٹی ففٹی‘‘ کا ایک خاکہ یاد آیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ بیٹنگ کرنے والی ٹیم کا ایک کھلاڑی سگریٹ سلگاتا ہے کہ اُس کی بیٹنگ آجاتی ہے‘ کھلاڑی بیٹنگ کے لیے میدان میں جا نے سے قبل سگریٹ اپنے دوسرے ساتھی کھلاڑی کو دیتے ہو ئے کہتا ہے کہ یار یہ سگریٹ پکڑنا میں ابھی آیا۔ کچھ اسی طرح شیخ رشید صاحب کے ساتھ بھی ہوا کہ ایڈونچر سے بھرپور دبنگ انٹری دینے کے بعد میڈیا کی وین پر بیٹھ کر سگار سلگایا کہ اس طرح دھرنا میچ میں بھی گرمی پیدا ہوگی۔ لیکن شیخ صاحب کے ارمان پورے نہ ہو سکے۔ اس بہترین کارکردگی پر شیخ رشید کو ’’مین آف دی میچ‘‘ کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس کارکردگی پر کہا گیا کہ کپتان شیخ رشید کو کپتانی سو نپ دیں۔ سنا ہے کہ شیخ صا حب نے کپتانی کے حصول کے لیے جم بھی جوا ئن کر لیا ہے۔ اس مین آف دی میچ ملنے کی وجہ شیخ صا حب کی تانگا پارٹی کی بہترین کارکردگی اور کپتان کے لیے دیا جا نے والا بیان ہے کہ جس میں انھو ں نے کہا کہ ’’بہادر وہ ہوتا ہے جو مشکل وقت میں باہر آئے۔‘‘ لیکن کیا کریں پوری ٹیم ہی مشکل سے دوچار تھی۔ کپتان کے کھلاڑی فیلڈنگ کر نے کے موڈ میں نہیں تھے اس لیے سب بنی گالہ کے ڈریسنگ روم میں مو جود رہے اور میچ کو دل چسپ بنانے کے لیے نہا دھو کر‘ صا ف ستھر ے کپڑے پہن کر میڈیا کے سا منے دھرنا میچ پر تبصرہ کرتے رہے اور عوام کو میچ دیکھنے کے لیے آنے کا کہتے رہے۔ لیکن عوام بھی اب سیانے ہو گئے ہیں اس لیے انہوں نے کہا کہ گھر میں بیٹھ کر میچ دیکھنے کے جو مزے ہیں وہ میدان میں آکر دیکھنے میں کہاں۔ اس صورت حال پر کپتان کو بتا یا گیا کہ تماشائیوں کی تعداد بہت کم ہے لہٰذا اب آپ ہی کچھ کریں تو دھرنا میچ کے شرکاء کے لیے پُر تکلف ناشتے کا اہتمام کیا گیا۔ اس طرح شیخ صاحب کے بقول مجھے دانہ ڈالا گیا ہے۔ یہاں بھی شرکاء کی تعداد بڑھا نے کے لیے دا نہ ڈالا گیا لیکن تعداد پھر بھی نہیں بڑھی۔ جب کارکنان نہیں آئے تو ممبران اسمبلی کو مجبوراً میدان میں آکر میڈیا کے لیے خبریں بنا نے کا مو قع فراہم کیا گیا تاکہ کچھ تو میچ میں جان آئے۔ اِدھر ممبران اسمبلی کو پو لیس پکڑتی اُدھر میڈیا بریکنگ نیوز دکھاتا اور گلا پھاڑ پھاڑ کے خبر کو بریک کیا جاتا تاکہ ٹی وی کے سا منے بیٹھے کارکنان کو جوش دلا کر میدان میں لایا جائے۔ پولیس بھی چوہے‘ بلی کا کھیل کھیلتی رہی اور لیڈر ان کو دو سے تین گھنٹے بعد رہا کر دیتی کہ ایک دفعہ پھر کارکنان کو لانے کے لیے نیا منصو بہ بناؤ۔ ان ممبران اسمبلی کی رہائی پر بھی میڈیا نیوز بریک کرتا رہا۔ بار بار بریکنگ نیوز چلانے اور گلا پھاڑ کر بو لنے کی وجہ سے اکثر کے گلے خراب ہوگئے اس لیے پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں علی امین گنڈا پور خطاب کرنے آئے تو کسی نے کہا ’’پہلے شراب کی بوتل میں شہد بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے‘‘ تو کسی نے آواز لگائی کہ ’’ہمارا بھی گلا خراب ہے ایک بوتل ہمیں بھی دیں۔‘‘ بہرحال میڈیا کی سنسنی خیز خبروں اور لائیو کوریج کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا تو پھر فیصلہ کیا گیا کہ کپتان پُش اَپ لگا کر عوام کے دلوں کو گرمائیں گے۔ لیکن وارم اَپ میچ کے پش اَپ کسی کام نہ آئے اور میچ ’’ڈرا‘‘ ہوگیا۔ اس پر بھی کپتان نے اپنی جیت کا اعلان کیا اور 2 نومبر کو ’’یوم تشکر‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا کہ عوام یوم تشکر میں شریک ہو کر فتح کا جشن منائیں۔
دھرنا میچ کے ’’اچانک‘‘ خاتمے سے سب سے زیادہ مایوسی میڈیا کو ہوئی کہ ان کا کروڑوں‘ اربوں کا کاروبار نہیں ہوسکا ان کے ارمانوں پر اوس پڑگئی بلکہ دھرنا ختم ہونے پر پورے پنجاب میں اوس پڑ گئی۔ یہ اوس تو اس وقت سے ہی پڑنا شروع ہوگئی تھی جب پنجاب سے ایک بھی کارکن باہر نہیں آیا‘ جیسے ہدایات دی گئی ہوں کہ احتیاط کریں۔ کپتان کو شاید اندازہ نہیں کہ دودفعہ کے وزیر اعظم اور پنجاب کی خدمت کر نے والے خادم اعلی ٰ کے لیے کوئی باہر نہیں آیا تھا تو آپ کے لیے کیسے باہر آتا آپ نے تو ہمیشہ دھرنا پروگرام کے نام سے کنسرٹ کیے ہیں اس لیے لوگ کنسرٹ میں شرکت کرنے آ تے تھے اور خوشی خوشی وکٹری کا نشان بنا کر گھروں کو لوٹ جا تے تھے۔۔۔ دھر نا کیا ہو تا ہے اب پتا چلا شیلنگ کا سامنا کرنا ممی ڈیڈی کارکنان کا حوصلہ نہیں اس لیے فیس بک کے فین کی طرح آپ کے تمام چا ہنے والے بھی فیس بک اور ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر تبدیلی کا انتظار کر تے رہے اور جب یو ٹرن تبدیلی آگئی تو سب نے آپ کی طرح ’’یوم تشکر‘‘ منایا کہ چلو اب کنسرٹ ہوگا اور آپ نے یہ بات ثابت بھی کر دی کہ یہ یوم تشکر نہیں کنسرٹ تھا۔ ابرارالحق جو گھر سے باہر نہیں آئے مگر کنسرٹ میں گانے گا گا کر لوگوں کو گھر واپس جانے سے روکتے رہے کہ اس طرح لوگ کچھ دیر رک جائیں لیکن یہ کنسرٹ بھی دھرنا میچ کی طرح ناکام ہو گیا۔
یوم تشکر کو دلچسپ بنانے کے لیے کپتان کے کرکٹ میچوں کی جھلکیاں دکھانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ 1992 ء میں ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کو تو دکھایا گیا لیکن اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان سے کرکٹ کے دیگرکھلاڑیوں کی ملا قات کو نہیں دکھایا گیا۔ ان تمام تیاریوں کے با وجود 2 نو مبر کے کنسرٹ میں لوگوں کا نہ آنا پی ٹی آئی کے لیے لمحہ فکر ہے ۔
2 نومبر یوم تشکر میں بقول سعد رفیق پانچ ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں اسی لیے شاید رات کا انتخاب کیا گیا‘ حیرت ہے کہ جشن کے لیے تین سے چار گھنٹے رکھے گئے پورے دن کا جشن کیوں نہیں منایا گیا‘ اس بات کی وضاحت کسی لیڈر نے تو نہیں کی لیکن کپتان کا خطاب سنے بغیر جلدی جانے والے دھرنا میچ کے ایک تماشائی نے یہ کہہ کر کی کہ ’’کوئی نئی بات نہیں ہونی‘ اس لیے اب گھر جا رہے ہیں۔‘‘ نئی بات دھرنا ختم ہو نے کے بعد شروع ہو ئی جب وہ کالم نویس جو عمران خان کو اُمید کی آخری کرن لکھتے نہیں تھکتے تھے‘ اب طنزیہ باتیں لکھ رہے ہیں کہ ’’عمران خان ایک دن سیاست دان بن جا ئیں گے۔‘‘ اس طرح کی باتیں کر نے والے اگر پہلے ہی یہ بات کپتان کو بتا دیتے کہ آپ ابھی سیاست دان نہیں بنے‘ شرطیں لگا نے کے بجائے سیدھے عدالت جائیں اور کرپشن کا مقدمہ سٹرکوں پر لڑنیکے بجائے عدلیہ پر اعتماد کیا جائے‘ جب عدالت نے شہریوں کے حقوق کی بات کی کہ حکومت کہاں ہے جب جس کا دل چا ہے شہر بند کر دے تو حکو مت کو بھی خیال آیا اعلیٰ عدلیہ کے اعتماد کے بعد اب سب عدالت کے چکر لگا رہے ہیں اور عدالت کے باہر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جبکہ سب سے پہلے پانامہ پیپرز اور کرپشن کے حوالے سے اعلیٰ عدالت میں کیس جماعت اسلامی نے دائر کیا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ کرپشن کے تمام معاملات کی تحقیقات سپریم کورٹ کرے اور لٹیروں کو جرم ثابت ہو نے پر سزائیں بھی دے۔ عدالت تحقیقات کا دائرہ صرف سیاستدانوں تک محدود نہ رکھے بلکہ اس تحقیقات کو افسر شاہی تک بھی بڑھایا جائے کہ کہاں سے ان کے پاس اتنی دولت آئی؟ احتساب عدالت لگ چکی ہے تو سب کا احتساب ہو نا چاہیے۔ اگر 1985 سے یہ عمل شروع ہو تو بھی بہت کچھ سامنے آسکتا ہے۔ جمہو ریت کی گاڑی کو چلانا ہے تو جو بھی فیصلہ آئے حکومت اور اپوزیشن سب کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عدالت کے فیصلے پر بھی دھرنا ہوا تو پھر جمہوریت کی گا ڑی کو خطرہ ہوسکتا ہے کیو نکہ ہمارے سیاست دانوں کو صرف اپنی ہی بات اچھی لگتی ہے اور وہ دوسروں کی اچھی بات میں بھی کیڑے نکال لیتے ہیں اسی لیے جو معا ملہ پارلیمنٹ میں حل ہو نا چاہیے تھا وہ عدالت حل کر رہی ہے۔
اللہ کرے اس ملک کے لیے TOR پر سب ایک ہوجائیں ورنہ بہت سے کھلاڑی اور ایمپائر میدان میں اترنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اگر عدالت کے فیصلے کو جمہوریت کی بقا کے لیے سب تسلیم کرتے ہیں تو سمجھو سب کی جیت ہے ورنہ کھیل ختم پیسہ ہضم۔