اسلام کی تمام عبادات کا اصلی مرکز وحدت و اجتماع ہے۔ شروع میں کسی خاص علامت کے نہ ہونے کی وجہ سے نماز باجماعت کے لیے مسلمانوں کو بلانے میں دشواری تھی، لوگ وقت کا اندازہ کرکے آتے اور نماز پڑھتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ پسند نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیال کیا کہ کچھ لوگ مقرر کردیے جائیں، جو وقت پر لوگوں کو گھروں سے بلا لائیں۔ لیکن اس میں زحمت تھی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلاکر مشورہ کیا، لوگوں نے مختلف رائے دیں، کسی نے کہا کہ نماز کے وقت مسجد میں ایک عَلم کھڑا کردیا جائے جسے دیکھ کر لوگ آتے جائیں گے۔ آپؐ نے یہ طریقہ ناپسند فرمایا۔۔۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں اعلانِ نماز کے جو طریقے ہیں، وہ بھی آپؐ کی خدمت میں عرض کیے گئے۔ یہودی ایک بگل بجاکر لوگوں کو اپنی نماز کی طرف بلاتے تھے، آپؐ نے اس طریقے کو پسند نہیں کیا، پھر آپؐ کے سامنے عرض کیا گیا کہ ناقوس بجاکر مسلمانوں کو نماز کی اطلاع دی جائے، لیکن آپؐ نے اسے بھی پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ اسی حال میں فکرمند تھے کہ عبداللہ بن زید بن ثعلبہ بن عبدربہ خزرجی انصاری نے اذان کا خواب دیکھا۔ انہوں خدمتِ مبارک میں عرض کیا: یا رسول اللہ! رات میرے پاس خواب میں کوئی آیا، جو سبز لباس پہنے، ہاتھ میں ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے کہا کہ کیا یہ ناقوس فروخت کروگے؟ اس نے پوچھا: کیا کروگے؟ میں نے بتایا کہ ہم اس کے ذریعے مسلمانوں کو نماز کی طرف بلائیں گے۔ اس نے کہا کہ کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں۔۔۔پوچھا وہ کیا ہے؟ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ تم لوگوں کو بلانے کے لیے اس طرح اذان کہو: اللہ اکبر(چاربار) اشھدان لاالٰہ الا اللہ (دوبار) اشھدان محمد رسول اللہ (دوبار) حی علی الصلوٰۃ (دوبار) حی علی الفلاح (دوبار) اللہ اکبر (دوبار) لا الٰہ الا اللہ (ایک بار)
جب عبداللہ بن زید نے یہ خواب رسول اکرمؐ کے گوش گزار کیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’ان شاء اللہ، یہ خواب سچا ہے، پس بلالؓ سے کہو کہ وہ ان کلمات سے اذان کہیں، اس لیے کہ وہ بلند آواز ہیں‘‘۔
حضرت عمرؓ نے حضرت بلالؓ کی اذان اپنے گھر میں سُنی تو جلدی سے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو مبعوث کیا ہے، میں نے بھی ایسا ہی خواب دیکھا ہے، تو حضور اکرمؐ نے فرمایا: فللّہ الحمد، اللہ کا ہی شکر ہے۔ اس دن سے اذان کا یہ طریقہ شروع ہوا۔
(سیرت النبی، علامہ ابن کثیر)
ضروری بات: جب مؤذن اذان دے تو سُننے والوں کو حضورؐ نے حکم دیا کہ جب اذان سُنو تو مؤذن کے مثل اسے دہراتے رہو اور جب مؤذن حی علی الصلوٰہ اور حی علی الفلاح کہے تو اس کے جواب میں لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا کرو اور اذان کے بعد خاص دعا پڑھا کرو۔
مسجد نبوی کے دو مؤذن تھے، ایک حضرت بلالؓ اور دوسرے نابینا حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم۔۔۔نماز فجر کی اذان حضرت بلالؓ حبشی تہجد کے وقت دیا کرتے تھے، صبح صادق ہوتے ہی حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم اذان دیا کرتے۔ بعد میں بھی مدینہ میں فجر کی دو اذانوں کا معمول رہا، نماز جمعہ کی فرضیت کے بعد اس کی اذان اس وقت شروع ہوئی، جب حضور اکرمؐ خطبہ دینے کے لیے آکر مسجد میں بیٹھ جاتے۔ حضرت عثمانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں جمعہ کے دن پہلی اذان دینے کا حکم دیا تاکہ لوگ مسجد میں آنے میں جلدی کریں۔
nn