عبد العزیز خان۔۔۔

199

 حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کا نام اسلام قبول کرنے سے قبل حصین بن سلام بن حارث تھا، اور ان کی کنیت ابویوسف تھی۔ حصین بن سلام تورات کے عالم تھے۔ انہوں نے تورات میں یہ پڑھا تھا کہ مکہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے۔ دل میں ہر وقت یہی خیال رہتا تھا کہ نئے نبی کی زیارت کا کب شرف حاصل ہوگا؟ کہتے ہیں کہ ایک دن مجھے پتا چلا کہ آپؐ مدینہ منورہ تشریف لائے ہیں اور وادی قبا میں قیام پذیر ہیں۔
اور لوگوں کی طرح میں بھی بھاگم بھاگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب میں نے آپؐ کو دیکھا تو چہرۂ انور سے پہچان لیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے نبی کا نہیں ہوسکتا‘‘۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپؐ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں آپؐ سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کروں گا، جنہیں ایک نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ تین سوالات یہ ہیں:
قیامت کی سب سے پہلی علامت کیا ہے؟
وہ کون سا کھانا ہے، جو سب سے پہلے جنتیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا؟
اور کس چیز کی وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے؟
سوالات سُن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قیامت کی سب سے پہلی علامت ایک آگ کی صورت میں ظاہر ہوگی، جو لوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک کر لے جائے گی۔ سب سے پہلا کھانا جو اہلِ جنت کی دعوت کے لیے پیش کیا جائے گا، وہ مچھلی کی کلیجی پر جو ٹکڑا ٹکا رہتا ہے، وہ ہوگا۔ اور بچے کی مشابہت کا جہاں تک تعلق ہے تو جب مرد عورت کے قریب جاتا ہے، اُس وقت اگر مرد کی منی پہل کرجاتی ہے تو بچہ اسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔ اگر عورت کی منی پہل کر جاتی ہے تو پھر بچہ عورت کی شکل و صورت پر ہوتا ہے۔‘‘
یہ سُن کر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بول اٹھے:
’’میں گواہی دیتا ہوں، آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
nn

حصہ