آیت نمبر 74میں ارشاد ہوا :’’ابراہیمؑ کا واقعہ یاد کرو جب کہ اُس نے اپنے باپ آذر سے کہا تھا ’’کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے؟میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں‘‘۔ اس کے بعد آیت نمبر 90 تک ابراہیمؑ اور آل ابراہیمؑ کا ذکر ہے۔ آج آسمانی مذاہب کے تمام دعوے دار بالعموم حضرت ابراہیمؑ کو اللہ کا پیغمبر مانتے ہیں اور ا نہیں روایت شکن اور انقلابی کے نام سے یا د کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی مخالفت صرف مٹی اور پتھر کے چند بتوں سے نہیں تھی اور نہ ہی حضرت ابراہیمؑ کی انقلابیت کسی محرومی کی وجہ سے تھی، آپ کا تعلق اُس وقت کے اعلیٰ طبقے سے تھا‘ اُن کے والد ریاست کے سب سے بڑے عہدے دار تھے اور اپنے والد کے بعد یہ منصب حضرت ابراہیمؑ کو ملنا تھا۔۔۔ بلکہ آپؑ کی مخالفت اُس نظام کے خلاف تھی جس میں ایک مکار اور عیار ٹولے نے باہمی گٹھ جوڑ سے انسانوں کو اپنا غلام بنایا ہوا تھا۔۔۔ اور یہ گٹھ جوڑ بھی خدا کے نام پر تھا۔ قوم کو پجاریوں نے یہ بتایا ہوا تھا کہ چاند ہمارا خدا ہے اور زمین پر اس نے خدائی کا اختیار نمرود اور اس کے شاہی خاندان کو دیا ہوا ہے‘ اس طرح نمرود نہ صرف بادشاہ تھا بلکہ وہ خود معبودوں میں بھی شامل تھا اور خداؤں کی طرح اس کی پوجا کی جاتی تھی۔ پجاریوں کو اجازت تھی کہ وہ جیسی چاہیں مورتی بنائیں اور جس طرح کا چاہیں بت تراشیں اور لوگوں کو ان کی پوجا پر لگائے ر کھیں۔ اس کے بدلے میں حکمرانوں کے بعد زمین پر وہی سب سے زیادہ حقوق اور اختیارات کے حق دار تھے۔
نمرود ملک کا سب سے بڑا زمین دار ، سب سے بڑا تاجر، سب سے بڑا کارخانہ دار اور ملک کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا حاکم تھا۔ بڑی تعداد میں باغات، مکانات اور زمینیں اُس کے مندر کے لیے وقت تھیں۔ اس جائداد کی آمدنی کے علاوہ کسان، زمین دار ، تاجر سب ہر قسم کے غلّے، دودھ ، سونا ، کپڑا اور دوسری چیزیں لا کر مندر میں نیاز کے طور پر بھی دیتے تھے جنہیں وصول کرنے کے لیے مندر میں ایک بہت بڑا اسٹاف موجود تھا۔ بہت سے کارخانے مندر کے ماتحت قائم تھے۔ تجارتی کاروبار بھی بہت بڑے پیمانے پر مندر کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ سب کام دیوتا کی اجازت سے پجاری ہی انجام دیتے تھے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت مندر ہی تھی۔ پجاری اس کے جج تھے اور ان کے فیصلے’’خدا‘‘ کے فیصلے سمجھے جاتے تھے۔اُنہوں نے انسانوں کو طبقات میں تقسیم کیا ہوا تھا، اُونچے طبقے کے لوگوں میں پجاری، حکومت کے عہدے دار اور فوجی افسر وغیرہ شامل تھے۔ درمیانے طبقے میں تجار ت کرنے والے، صنعت کار اور زراعت پیشہ لوگ تھے۔ زندگی کے بارے میں ان کا نقطہ نظر خالص مادہ پرستانہ تھا،یہ سخت کاروباری اور سود خور تھے، تیسرا بڑا طبقہ غلاموں کا تھا ، جو ان دونوں طبقات کی خدمت کرتے تھے اور ظلم سہتے تھے۔ سب سے زیادہ امتیازی حقوق بلند طبقے کے لوگوں کو حاصل تھے ۔ ان کے لیے قانون الگ تھا اور ان کی جان و مال کی قیمت دوسروں سے بڑھ کر تھی۔۔۔ سب سے زیادہ ظلم عورتوں کے ساتھ تھا چاند دیوتا (نمرود) کے عبادت خانے کی شان ایک شاہی محل کی تھی۔ اس کی خواب گاہ میں روزانہ رات کو ایک پجارن جا کر اس کی دلہن بنتی تھی۔ مندر میں بہت بڑی تعداد میں عورتیں دیوتا کے نام پر وقف تھیں۔ وہ عورت بڑی معزز خیال کی جاتی تھی جو ’’خدا ‘‘ کے نام پر اپنی ’’آبرو‘‘ قربان کر دے۔ کم از کم ایک مرتبہ اپنے آپ کو ’’راہِ خدا‘‘ میں کسی اجنبی کے حوالے کرنا عورت کے لیے ذریعۂ نجات خیال کیا جاتا تھا اور عورتوں کی اس قربانی سے فائدہ اُٹھا نے والا یہی حکمرانوں اور پجاریوں پر مشتمل اعلیٰ طبقہ تھا اور ظاہر بات ہے کہ اعلیٰ طبقے کی عورتیں یہ قربانی نہیں دیتی تھیں۔
کیا آج انسانوں کو طبقات میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے؟ کیا آج عورت کا بدترین استحصال نہیں ہو رہاہے۔ آج کی صورت حا ل حضرت ابرہیم ؑ کے دور سے اتنی مماثل ہے کہ مثالیں دینے کی ضرورت نہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اُس وقت مذہبی طبقہ حکمرانوں کا آلۂ کار تھا آج فلسفی، دانش ور اور سائنس دان حکمرانوں کے آلۂ کار ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں۔ یہ دنیا یوں ہی حادثاتی طور پر وجود میں آگئی ہے۔۔۔ اسے کوئی پیدا کرنے والا نہیں ہے۔۔۔ ایک اندھی فطرت ہے جس کے مطابق یہ کائنات پیدا ہوئی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔۔۔حکومت بس اُس کا حق ہے جس نے فطری طاقتوں کو مسخر کیا ہے۔۔۔اور جس نے فطرت کو مسخر کر لیا اس کے آگے دوسرے انسان کی کیا ہستی، اُسے صرف غلام کے طور پر پیچھے چلنا ہے۔۔۔ جو وہ کھا کر چھوڑ دے اس کی جگالی کرنی ہے۔۔۔ جو وہ پہن کر اتار دے اسے خوشی اور شادمانی سے پہننا ہے۔۔۔ اور جو مشینیں اور اوزار وہ استعمال کرکے پرانے کردے انہیں فخر کے ساتھ استعمال کرنا ہے۔۔۔ اس طرح ایک مختصر سے ٹولے نے زمین کو دوسرے انسانوں کے لیے کوڑا خانہ بنا دیا ہے جہاں بیٹھ کر وہ ان کا چھوڑا ہوا خوشی خوشی کھاتے اور استعمال کرتے ہیں۔
آیت نمبر 74 سے 78میں حضرت ابراہیمؑ کے اُس ابتدائی غور و فکر کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو منصبِ نبوّت پر سرفراز ہونے سے پہلے اُن کے لیے حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے گردوپیش‘ ہر طرف چاند، سورج اور ستاروں کی خدائی کے ڈنکے بج رہے تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر حضرت ابراہیمؑ نے تلاش حق کا آغاز اسی سوال سے کیا کہ کیا ان میں سے کوئی رب ہو سکتا ہے؟ اسی مرکزی سوال پر انھوں نے غور و فکر کیا اور آخر کار اپنی قوم کے سارے خداؤں (سورج ، چاند اور ستاروں)کو ایک اٹل قانون کے تحت غلاموں کی طرح گردش کرتے دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ جن جن کے رب ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ سب تو ایک نظام کے پابند ہیں‘ اسی نظام کے تحت اِن کا ڈوبنا اور اُبھرنا ہے‘ یہ رب کیسے ہو سکتے ہیں؟ رب تو صرف وہی ایک ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا اور بندگی پر مجبور کیا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ جس طرح تم لوگوں کے سامنے آثارِ کائنات نمایاں ہیں اور اللہ کی نشانیاں دیکھ رہے ہو، اسی طرح ابراہیمؑ کے سامنے بھی یہی آثار تھے اور یہی نشانیاں تھیں۔ مگر تم لوگ انھیں دیکھنے پر بھی اندھوں کی طرح کچھ نہیں دیکھتے اور ابراہیم ؑ نے انھیں آنکھیں کھول کر دیکھا۔ یہی سورج اور چاند اور تارے جو تمہارے سامنے طلوع و غروب ہوتے ہیں اور روزانہ تم کو جیسا گمراہ طلوع ہوتے وقت پاتے ہیں ویسا ہی غروب ہوتے وقت چھوڑ جاتے ہیں، انہی کو اُس آنکھوں والے انسان نے بھی دیکھا تھا اور انہی نشانات سے وہ حقیقت تک پہنچ گیا۔ حضرت ابرہیمؑ نے قوم کو بتایا کہ تم جو کچھ کر رہے ہو، تمہارا اصلی و حقیقی رب اس سے بے خبر نہیں ہے، اُس کا علم ساری چیزوں پر وسیع ہے، پھر کیا اس حقیقت سے واقف ہو کر بھی تمھیں ہوش نہ آئے گا؟ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدے اور عمل سے آلودہ نہ کریں، امن صرف انہی کے لیے ہے اور وہی راہِ راست پر ہیں۔یہ بات واضح ہے حضرت ابراہیمؑ کی قوم میں شرک صرف مذہبی عقیدہ اور بت پرستانہ عبادات کا مجموعہ ہی نہ تھا بلکہ درحقیقت اس قوم کی پوری معاشی، تمدنی، سیاسی اور معاشرتی زندگی کا نظام اسی عقیدے پر مبنی تھا۔ اس کے مقابلے میں حضرت ابراہیمؑ توحید کی جو دعوت لے کر اُٹھے تھے اس کا اثر صِرف بتوں کی پرستش ہی پر نہ پڑتا تھا بلکہ شاہی خاندان کی خدائی اور حاکمیت، پجاریوں اور اُونچے طبقوں کے معاشرتی ظلم، معاشی کرپشن اور سیاسی استحصال ، اور پورے ملک کی اجتماعی زندگی اس کی زد میں آئی جاتی تھی۔ اُن کی دعوت قبول کرنے کے معنی یہ تھے کہ نیچے سے اُوپر تک ساری سوسائٹی کی عمارت اُدھیڑ ڈالی جائے اور اسے نئے سرے سے اللہ کی وحدانیت کی بنیاد پر تعمیر کیا جائے۔ اِسی لیے ابراہیم علیہ السّلام کی آواز بلند ہوتے ہی عوام اور خواص، پجاری اور نمرود سب کے سب بہ یک وقت اس کو دبانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔
قرآن مجید حضرت ابراہیمؑ کے واقعے کا ذکر محمدؐ کی تائید میں پیش کرتا ہے۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ وہی ہے جو نوحؑ اور ابراہیمؑ اور نسلِ ابراہیمی کے تمام انبیا کا راستہ رہا ہے۔ اب جو لوگ ان کی پیروی سے انکار کر رہے ہیں انھیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ انبیاء کے طریقے سے ہٹ کر غلط را ستے پر جا رہے ہیں۔ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کردیا اسی طرح یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کر چکے ہیں اور جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں سے ان کی جاہل قوم نے جھگڑ ا کیا اسی طرح حضرت ابراہیمؑ سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کر چکی ہے۔ اور جو جواب حضرت ابراہیمؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرووں کی طرف سے ان کی قوم کو بھی وہی جواب دیا تھا۔۔۔ آج انسان کے لیے درست طریقہ یہی ہے کہ وہ ابراہیمؑ اور محمدؐ کی طرح آج کے جھوٹے خداوں کا انکار کریں۔ ان کے مکر و فریب کا پردہ چاک کریں اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کریں۔
یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الااللہ
ماخوذ ازسْورَۃْ الاَنعَام حاشیہ : ( 55,54,52,51,50)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا انالحمد وﷲ رب العالمین ۔