محمد انور

208

امریکیوں نے عورت کی حکمرانی تعلم نہ کرنے کے لئے ڈونلڈ ٹرپ کو کامیاب کرادیا
تجزیوں، تبصروں اور اکثر امریکیوں کی خواہشات کے برعکس دنیا کی سپرپاور ہونے کے دعویدار امریکا کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے امریکا جمہوریت کے ایک نئے سفر میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ سفر امریکا کے لیے پہلے سے زیادہ خطرات اور نئے خدشات کا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک، خصوصاً مسلم ملکوں کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی نے فکر میں مبتلا کردیا ہوگا۔ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاست سے زیادہ تجارت کا تجربہ ہے۔ وہ 1971ء میں اپنے والد کے ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے منسلک ہوئے تھے، جبکہ عملی سیاست میں انہوں نے 1987ء میں قدم رکھا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شامل ہونے کا خیال سیاست میں شمولیت اختیار کرنے کے ایک سال بعد ہی آگیا تھا، تاہم عملاً وہ اُس وقت اس ریس میں جگہ نہیں بناسکے تھے۔
عام خیال یہ ہے کہ ہیلری کلنٹن سے مقابلہ کرتے ہوئے غیر متوقع طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے پیچھے ’’سائلنٹ ووٹرز‘‘ ہیں جو ہیلری کے صدر بنائے جانے کے مخالف تھے۔ امریکا کے لوگوں نے خواتین کو مساوی حقوق دینے کی بازگشت کے باوجود بہت خاموشی سے ہیلری کو ووٹ نہ دے کر دراصل ملک میں خواتین کی حکمرانی کی مخالفت کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ امریکیوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ایک سیاسی خاندان اور سابق صدر کلنٹن کی اہلیہ ہونے کے باوجود ایک خاتون کے مقابلے میں تجربہ کار مرد ’’بروکر‘‘ امریکا کی صدارت کے لیے زیادہ سودمند ہے۔ امریکا میں ہمیشہ ہی سے ایسی شخصیات کو صدارت یا دیگر اہم عہدوں پر ایک منصوبہ بندی کے تحت فائز کیا جاتا ہے جو بزنس کے شعبے کے ماہر ہوں اور ان کا اثر رسوخ دنیا پر حکمرانی کرنے والی اصل یہودی لابی تک ملتا ہو۔
امریکا کی 240 سالہ تاریخ میں پہلی بار معمر ترین صدر منتخب ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2017ء کو بارک اوباما کی جگہ عہدۂ صدارت کا حلف اٹھائیں گے۔ امریکا کے 2016ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بعد یہ تاثربھی غلط ثابت ہوا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے درمیان عہدۂ صدارت کے لیے کانٹے کا مقابلہ تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے 290 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کی حریف ہیلری کلنٹن 218 الیکٹورل ووٹ حاصل کرسکیں۔ صدر منتخب ہونے کے لیے 538 میں سے کم سے کم 270 الیکٹورل ووٹ کی ضرورت تھی۔ اِس بار ان انتخابات کے دوران غیر معمولی طور پر دھاندلی کی بازگشت بھی سنائی دی اور کامیاب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا تھا کہ دھاندلی ہوئی۔ لیکن نتائج کے بعد ایسی بات نہیں سنائی دی۔ ہیلری نے اپنی شکست تسلیم کرکے ڈونلڈٹرمپ کو مبارکباد بھی پیش کی۔
یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ کوئی جانتا بھی نہیں تھا کہ بارک اوباما کے بعد امریکا کے 45ویں صدر ڈونلڈ ٹرمپ منتخب ہوں گے جنہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی ہیلری کلنٹن کو مات دے دی۔کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے ہیلری کلنٹن کو امریکا کی مشہور شخصیات کی حمایت حاصل رہی، ان میں سے چند نے تو مذاق میں یہ تک کہا تھا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے اگلے الیکشن جیتے تو وہ امریکا چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے۔ ان شخصیات نے ہیلری کلنٹن کی کامیابی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، سوشل میڈیا اور مختلف مواقع پر ان شخصیات نے اپنے مداحوں سے اپیل کی کہ وہ صرف ہیلری کو ہی ووٹ دیں، تاہم ہیلری کلنٹن کی اتنی بڑی حمایت کے باوجود قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔
امریکا کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی امریکی ڈالر کی قدر میں دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک موقع پر امریکی ڈالر کی قدر جاپانی ین کے مقابلے میں دو فیصد تک کم ہوئی۔ جبکہ بعض موقعوں پر اس کی قدر 105.480 تک بھی پہنچی، اور انتخابی عمل کے دوران اس کی قدر میں مسلسل اتار چڑھاؤ ہوتا رہا۔ اسی طرح سوئس فرانک کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت میں 1.2 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس کے علاوہ دیگر کرنسیوں کی قدر میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ یورو کی قدر میں 1.3 فیصد اضافہ ہوا اور ایک یورو 1.1163ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
nn

حصہ