غازی احمد ثالث سلطان محمود اول دستبردار ہوکر سلطنت سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد غازی محمود خان اول ابن غازی مصطفی خان ثانی مسند خلافت پر بیٹھے۔ ان کی مدتِ خلافت چوبیس سال رہی۔ 1730 عیسوی سے لے کر 1754 عیسوی تک خلافت پر سرفراز رہے۔ اس دوران پولینڈ اور روس کے محاذ پر سرحدی جھڑپیں اور جنگیں جاری رہیں۔ ابتدائی دور میں اصل حکمرانی وزیراعظم خلیل کی تھی۔ تقریباً دو سال تک تو خلیل کا ہی حکم چلتا رہا۔ تاہم امورِ مملکت آہستہ آہستہ غازی محمود خان اول کے ہاتھوں میں آنا شروع ہوئے، اور اس طرح غازی محمود خان اول نے بھرپور طریقے سے مرکز اور سرحدی محاذوں پر یکسوئی کے ساتھ توجہ دینا شروع کردی۔ داخلی محاذ پر سلطان محمود اول کو اب کوئی خطرہ نہیں تھا۔
پڑوسی مملکت ایران کے ساتھ امن کے معاہدے پر پیش رفت کی۔ اُس وقت ایران میں طہماسپ خان کی حکومت تھی۔ جب امن معاہدہ ہوا تو نادر خان نے اس پر فساد کھڑا کردیا اور طہماسپ خان کی حکومت کو معزول کردیا۔ اس اندرونی خلفشار کے نتیجے میں طہماسپ خان کا شیر خوار بچہ عباس ایران کا شاہ بنادیا گیا۔ نادر خان نے عراق پر بہت بڑا حملہ کیا اور بغداد کا محاصرہ کرلیا گیا۔
ان حالات میں عثمانی سلطنت کو نادر خان کے ساتھ معاہدہ کرنا پڑا، اور نادر خان کو عثمانی سلطنت نے ایران کا شاہ تسلیم کرلیا۔ نادر خان کے شاہ ایران بننے سے عثمانی سلطنت اور ایرانیوں میں لڑائیوں کا دور ختم ہوا۔ مگر یورپی محاذ پھر بھی گرم ہی رہا۔ ساٹھ سال کی عمر میں غازی محمود خان اول کا انتقال ہوا۔ ان کے دور میں عثمانیوں نے اقتصادی ترقی حاصل کی۔ تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور انصاف کی بالادستی رہی۔آیا صوفیہ، جامع الفاتح اور غلطہ سرائے کے عظیم کتب خانے غازی محمود خان اول کی ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے۔
غازی محمود خان اول کے انتقال کے بعد سلطان غازی عثمان خان الثالث نے خلافت کا حلف اٹھایا۔ حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا کہ اب عثمانی سلطان کا دروازہ ہر خاص و عام کے لیے دن رات کھلا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔ سلطان راتوں کو بازاروں اور گلیوں میں اکیلا گشت کرتا نظر آتا اور متاثرین کی داد۔رسی کرتا۔
ایک مرتبہ گشت کے دوران اپنے وزیر کی سختی اور حد سے تجاوز کرنے کی اطلاع ملی۔ جب بازپرس کی گئی تو الزام سچ ثابت ہوا۔ جس پر فوری طور پر صدراعظم کو تبدیل کرکے مشہور عالم دین راغب پاشا کو صدراعظم بنادیا گیا۔ راغب پاشا کا شمار معروف مدبرینِ مملکت میں ہوتا تھا۔ راغب پاشا کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
سلطان غازی عثمان الثالث کا دور اگرچہ بہت طویل نہیں تھا۔ مگر مجموعی اعتبار سے پُرسکون تھا۔ خاصا علمی کام ہوا، اقتصادی ترقی کو عروج حاصل ہوا اور رعایا خوش حال رہی، تجارت کو فروغ حاصل ہوا، زرعی شعبے میں نمایاں کام ہوا، تین سال گیارہ مہینے کے دورِ حکومت میں لوگوں کو بھرپور انصاف فراہم ہوا۔ سلطان غازی عثمان الثالث کے انتقال کے بعد1757 عیسوی میں غازی سلطان مصطفی خان الثالث ابن سلطان احمد ثالث عہدۂ خلافت پر متمکن ہوا۔ سلطان غازی عثمان الثالث مرحوم کی طرح غازی سلطان مصطفی خان الثالث بھی بہت دیندار اور اچھا خلیفہ ثابت ہوا۔ فلاحی اداروں اور مریضوں کے لیے مفت شفاخانوں کا رواج اسی کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اس کا یادگار کام غرباء کے لیے عزت اور مکمل رازداری کے ساتھ رقم کی فراہمی تھی۔ مسافروں کے لیے مفت یا کم معاوضے پر سرائے اور سرکاری ہسپتال قائم کروائے گئے۔ صحیح معنوں میں ایک رفاہی سلطنت کا تاثر قائم ہوا۔ اسی دور میں عالم دین اور محبوب ترین وزیراعظم محمد راغب پاشا کا انتقال ہوگیا، جس پر عثمانی سلطنت میں قومی سوگ منایا گیا۔
راغب پاشا کے انتقال کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کو ایک بہت بڑی سازش سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ سازش روس نے تیار کی تھی اور اس کا سرخیل علی بیگ تھا۔ علی بیگ مصر کے شہر قاہرہ کا امیرالبلد یعنی میئر تھا۔ روس نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے اس کو بغاوت پر آمادہ کیا اور جنگی سازو سامان کے ساتھ اس کی مدد کی۔ اس امداد کے ملتے ہی علی بیگ نے عثمانی حکمرانوں کے خلاف بغاوت شروع کردی اور باقاعدہ جنگ کی ابتدا کی۔ عثمانی سلطنت کی اپنی افواج مصر میں بہت بڑی تعداد میں موجود نہ تھیں، چنانچہ قابلِ ذکر مزاحمت نہ ہوسکی۔ یہی حال شام کا بھی تھا۔ اس جگہ بھی عثمانی حکومت تو تھی مگر فوج بہت ہی مختصر رکھی گئی تھی۔ فوج کا زیادہ تر حصہ یورپی مفتوحہ علاقوں میں تعینات کیا گیا تھا۔ علی بیگ نے روسی اسلحہ کی بدولت نہایت آسانی کے ساتھ غزہ، نابلس، القدس، یافہ اور بالآخر دمشق تک فتح کرلیا۔ یہ حالات 1772 عیسوی کے ہیں۔ علی بیگ نے روسی فوجیوں کی مدد سے بیروت شہر کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ مسلمان عورتوں اور بچیوں کی آبرو ریزی کی گئی۔ جوانوں اور بوڑھوں کو سڑکوں پر لاکر ذبح کیا گیا۔ صرف مسلمان ہی نہیں روسیوں اور علی بیگ کی فوج نے عیسائی راہبوں اور ان کے خاندانوں تک کو نہیں بخشا۔ ان کی خانقاہوں سے گھسیٹ کر راہبوں کو باہر نکالا اور بازاروں میں لاکر گلے پر چھریاں پھیر دی گئیں۔ روسی فوجی آرتھوڈکس تھے اور بیروت میں کیتھولک فرقے کے عیسائی آباد تھے۔ انھوں نے کیتھولک فرقے اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ اتنی وحشیانہ نسل کشی ہوئی کہ تاریخ میں اس کو بدترین نسل کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کامیاب حملے کے بعد علی بیگ نے ترکی کے صوبے اناضول کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ علی بیگ مصر سے نکلتے وقت ابولذہب محمد بیگ کو اپنا نائب بنا چکا تھا۔ جیسے ہی علی بیگ نے اناضول کی جانب پیش قدمی کی، ابولذہب محمد بیگ نے علی بیگ کے خلاف بغاوت کردی۔ علی بیگ کو راستے سے واپس لوٹنا پڑا۔ 1773 عیسوی میں علی بیگ نے محمد بیگ ابولذہب سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔
محمد بیگ نے الصالحہ (مصر کا علاقہ) میں علی بیگ کی فوج کو روکا۔ علی بیگ کی اپنی فوج کے علاوہ چار سو روسی فوجی بھی علی بیگ کے لشکر میں موجود تھے۔ شدید ترین لڑائی کے بعد محمد بیگ ابولذہب کو کامیابی ملی۔ علی بیگ کے بہت سے فوجیوں کے ساتھ ساتھ روسی فوجی بھی مارے گئے۔ علی بیگ خود بھی شدید زخمی ہوا۔ اس کو گرفتار کرنے کے بعد قاہرہ لایا گیا۔ علی بیگ زخموں کی تاب نہ لاکر جلد ہی مر گیا اور بغاوت ختم ہوئی۔ چار روسی کمانڈر اب تک زندہ تھے۔ محمد بیگ ابولذہب نے علی بیگ کا سر کاٹ کر اور چاروں روسی کمانڈروں کو حمص کے عثمانی گورنر خلیل پاشا کے پاس بھیج دیا۔ اس طرح محمد بیگ ازخود خلافت کے وفاداروں میں شامل ہوگیا۔
مصطفی ثالث نے سترہ سال حکمرانی کی اور 1774 عیسوی میں قسطنطنیہ میں انتقال کیا۔ اس کی زندگی زہد و تقویٰ سے لبریز تھی۔ خیرات اور یتیموں کی کفالت میں اس کا بہت مقام ہے۔ اسے عثمانی حکمرانوں میں یتیم پرور کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس کی وفات کے بعد اس کے چھوٹے بھائی غازی عبدالحمید خان اول نے عثمانی سلطنت کا تاج پہنا۔
روس اور بلغاریہ کی حکومتیں مسلسل عثمانی سلطنت کے خلاف سازشیں کررہی تھیں۔ وہاں کی سرحدوں پر مستقل ہلکی پھلکی جنگی کارروائیاں جاری رہتیں۔ روس کی مسلمان دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف تو بیروت میں عیسائیوں کا قتل عام اور دوسری طرف پاپائے اعظم کے ساتھ مل کر دوبارہ کیتھولک عیسائیوں کو اپنے ساتھ ملالیا گیا اور عثمانی سلطنت کے خلاف فوج تیار کی۔ ادھر بلغاریہ کی حکومت بھی مسلسل دباؤ ڈال رہی تھی۔ عثمانی سلطنت کا حال یہ تھا کہ وہ اتنی طویل سرحدوں پر اپنی فوج کو تعینات کرنے کے بعد ان کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے پریشان تھی۔ مالی اخراجات کا بوجھ روز بروز بڑھتا جارہا تھا۔ اقتصادی حالت بھی بگڑنے لگی تھی۔ لیکن اس کے باوجود غازی عبدالحمید اول نے اپنے پیشروؤں کے رفاہی کام کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کو آگے بھی بڑھایا۔
جولائی 1774 عیسوی میں عثمانی سلطنت اور روس کے مابین ایک مشہور معاہدہ عمل میں آیا جسے ’’معاہدۂ قنیارجہ‘‘ (معاہدہ کوچک کناری) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ بظاہر عثمانی سلطنت کے خلاف جاتا تھا مگر سلطان عبدالحمید اول نے عثمانی سلطنت کو مزید سکڑنے سے بچانے کے لیے اس معاہدے پر ہامی بھری تھی، لیکن اس کے باوجود روس نے اس کی خلاف ورزی کی۔ روس کی تاریخ اس خلاف ورزی کی روایت سے بھری پڑی ہے۔ اس کے مقابلے پر اس بات کو بھی تاریخی اعتبار سے ہمیشہ سراہا جائے گا کہ ترکوں نے کبھی بھی کسی بھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی۔
اس معاہدے میں صریح طور پر نشاندہی کی گئی تھی کہ دونوں حکومتیں قرم، بسرابیا اور توران کی آزادی تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس چند ہی دنوں بعد روس نے قرم اور بسرابیا پر حملہ کردیا۔ اس سراسر بدعہدی کے مقابلے پر عثمانی سلطنت کو قرم اور بسرابیا کی مدد کے لیے میدان میں آنا پڑا۔ اسی اثناء میں روس نے بلغراد پر حملہ کرکے عثمانیوں کے لیے نیا محاذ کھول دیا۔1789 عیسوی میں عثمانی افواج نے سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے روسیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا۔ اس کے چند ماہ بعد خلیفہ سلطان عبدالحمید اوّل کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد سلطان غازی سلیم خان ثالث ابن سلطان مصطفی ثالث مسندِ خلافت پر بیٹھے۔
( جاری ہے )