تاریخ شاہد ہے کہ دنیامیں آج تک جن بلند حوصلہ افراد نے اپنے قدم جمائے اور شان دار نتائج حاصل کیے ان سب میں یہ قدر مشترک دیکھی جاسکتی ہے کہ انہوں نے دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی مدد آپ کی اور زندگی میں جابجا مضبوطی اور پائیداری کی عمدہ و بہترین مثالیں قائم کردکھائیں۔
اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرنا اور خود انحصاری اختیار کرنا وہ زبردست خوبی ہے جو کسی بھی کامیاب ترین انسان کے لیے اوّلین بنیاد بنتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جو کامیابی اپنے بل بوتے پر حال کی جائے‘ وہی دیرپا اثرات رکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں دوسروں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے لیکن جو شخص سفر کرنے اور قدم اٹھانے کی لگن سے محروم ہو‘ وہ دیگر افراد سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اہم معاملات میں سمجھ دار اور مخلص ساتھیوں سے مشورہ لینا ضروری ہے‘ لیکن انسان کی اپنی قوتِ فیصلہ ہی اس کی منزل کا تعین کرتی ہے۔ ہمت اور بہادری کی بدولت انسان نہ صرف مسلسل آگے بڑھتا ہے بلکہ اس کی قوت و توانائی بتدریج پروان چڑھتی ہیں۔ اپنی طاقت اورہمت کا لوہا منوانے کے لیے لازمی مرحلہ یہی ہے کہ اپنے حواس پر قابو رکھا جائے۔
فتح و کامرانی کا جواز انسان خود ہی فراہم کرتا ہے اور اکثر و بیشتر انسان بذاتِ خود اپنی ناکامی کا ذمے دار ہوتا ہے‘ الا یہ کہ اس کی حق تلفی کی گئی ہو۔ انسان کی سوچ‘فکر اور اس کا عمل وہ مضبوط بنیادیں ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ انسان کے اثر و نفوذ کا ایک معیاریہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کی کتنی بڑی تعداد پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لوگوں کی رائے تبدیل کرنا اور ان کے دل جیتنا یقیناًایک بڑا ہدف ہے لیکن جو شخص اپنے پر فتح حاصل کرلے اس کے لیے دوسروں پر فتح حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اپنی کارکردگی کا بغور جائزہ لیتے رہنا ایا باالفاظ دیگر احتساب کا تسلسل وہ خوب صورت عمل ہے جو انسان کو منزل کے قریب پہنچانے میں ہمیشہ معاون ثابت ہوتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا‘ راہوں کو روشن کر دیتا ہے۔ ضمیر کی عدالت میں خود کو پیش کرنا بڑی ہمت اور حوصلے کا کام ہے۔ اس کے لیے قلب کی وسعت اور ذہنی کشادگی درکار ہوتی ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ بڑے دل والا آدمی ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے اور چھوٹے دل والا آدمی ہمیشہ ناکام۔
جب کوئی آدمی زور وشور کے ساتھ دوسروں کی شکایتیں لگانے میں مصروف ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی سے قاصر ہے۔ دراصل منزل پہ پہنچنے کی چاہت انسان کو اِدھر اُدھر دیکھنے کا موقع ہی نہیں دیتی اور وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ ہمہ وقت سفر میں رہتا ہے۔ کامیابی وہ چیز ہے جو کسی فرد کی طرف سے تحفے میں نہیں ملتی بلکہ یہ سخت جدوجہد اور کٹھن محنت کا نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ بعض اوقات حالات و واقعات کے تناظر میں وقتی طور پر محنت کا پھل ہاتھ نہ آسکے لیکن لگاتار کوششیں یقیناًبار آور ثابت ہوتی ہے۔ کسی لمحے انسان فوری نتائج نہ پا کر ہمت ہار دیتا ہے حالانکہ اگر وہ مزید چند قدم بڑھائے تو شاندار کامیابی اس کی منتظر ہوتی ہے۔ دراصل کامیابی صبر کے اس پار ہے مگر اکثر لوگ کامیابی کو صبر کے اس پار تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اگر انسان اس قدر بلند حوصلہ بن جائے کہ وہ ناکامی کو بھی کامیابی کی بنیاد بنا سکے تو پھر زبردست کامیابی کا حصول آسان اور یقینی بات ہے۔ جاننا چاہیے کہ محرومی آپ کے لیے ترقی کا زینہ ہے اگر وہ آپ کی دبی ہوئی قوتوں کو جگانے والی ثابت ہو۔
عمدہ کارنامے سر انجام دینا بڑے بڑے انسانوں کا بنیادی ہدف ہوا کرتا ہے۔ کوئی بھی شاندار کارنامہ بہت سارے چھوٹے کاموں کو پورا کرنے ہی سے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے کسی بھی بڑے کام کو آسان بنانے کے لیے روز مرہ کے معمولات پر گرفت مضبوط رکھنی چاہیے۔ کوئی بڑا کام صرف وہ شخص کرتا ہے جو اپنے آپ کو چھوٹا کام کرنے پر راضی کرلے۔ جو شخص پہاڑ کو سرکانا چاہتا ہو‘ اسے ذروں کو سرکانے کا ہنر سیکھنا چاہیے۔ کام چھوٹا ہو یا بڑا‘ قوتِ فیصلہ لازمی شے ہے۔ یہ وصف متحرک افراد کا ہمیشہ شعار رہا ہے۔ اگر آپ نے قوتِ فیصلہ کو استعمال کرتے ہوئے مناسب وقت پر اپنے آغاز کو پا لیا تو آپ اپنے اختتام کو بھی پاسکتے ہیں کیونکہ صحیح آغاز ہی کا دوسرا نام صحیح اختتام ہے۔ راہِ راست پا لینے کے باوجود بھی رکاوٹیں‘ دشواریاں اور پریشانیاں راہ میں حائل ہوسکتی ہیں اور عارضی طور پر ناکامی بھی سامنے آسکتی ہے لیکن شکست خواہ کتنی ہی بڑی ہو‘ وہ ہمیشہ وقتی ہوتی ہے اور دوبارہ زیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے اس کو فتح میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
دنیا امکانات اور اسباب کے حوالے سے ایک بہترین جگہ ہے‘ ٹھوس اور باقاعدہ منصوبہ بندی آگے بڑھنے کی بے شمار صورتیں فراہم کرتی ہے۔ سوچ مثبت ہو تو ناکامی بھی انسان کو بہت کچھ سکھا سکتی ہے۔ دراصل مواقع نکل جاتے ہیں مگر مواقع ختم نہیں ہوتے۔ مایوس ہو کربیٹھ جانا اور ہاتھ ملنا‘ بہادر انسان کا شیوہ نہیں‘ گرنا کمال نہیں‘ کمال یہ ہے کہ انسان گرے اور پھر اٹھ کر کھڑا ہوجائے۔ اگر ہمت قائم ہے اور قوتِ ارادی مضبوط ہے تو آپ کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔ سب کچھ کھونے کے بعد بھی اگر آپ کے اندر حوصلہ باقی ہے تو سمجھ لیجیے کہ ابھی آپ نے کچھ نہیں کھویا۔ اگر آپ دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو پہلے ناکامی کا استقبال کرنے کا حوصلہ پیدا کیجیے‘ اپنی اصلاح کرنا اور خود کو مضبوط بنانا کامیاب انسانوں کی شخصیت کا لازمی جزو ہے۔ اپنی کمزوریوں کو سمجھنا اور انہیں دور کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہی وہ طریقہ کار ہے جس سے انسان کو معاشرے میں استحکام حاصل ہوتا ہے۔ اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کو دینے سے بہرحال انسان کی ذمے داریاں ختم نہیں ہوجاتیں۔ دراصل ناکامی کے اسباب ہمیشہ آدمی کے اپنے اندر ہوتے ہیں مگر اکثر وہ ان کو دوسروں کے اندر تلاش کرنے لگتا ہے۔
انسان بہت ساری خوبیوں کا مالک ہے اور کئی خامیاں اس کے وجود کا حصہ ہیں لیکن انسان کی سب سے اعلیٰ صفت بہادری ہے اور اس کی سب سے بری صفت کمینہ پن۔ بہادر انسان مشکل ترین حالا ت میں بھی حواس پر مکمل قابو رکھتا ہے اور عمومی حالات میں بھی اپنی زبان پر‘ غصے پر اور جذبات پر پورا اختیار رکھتا ہے۔ کٹھن لمحات میں ہی آدمی کی سمجھ داری اور بہادری کا امتحان ہوتا ہے۔ بلاشبہ پریشانی مصیبت کے سائے کو پھیلا دیتی ہے اور اس دنیا میں سکون صرف اس شخص لے لیے ہے جو بے سکونی کی حالت پر اپنے آپ کو راضی کرلے۔ دشوار لمحات کے بعد آسانیوں کا فراہم کیا جانا قدرت کا اصول ہے۔ انسان کا رتبہ بلند ہے اور قدرت اس پر بے حد فیاض ہے۔ جب انسان قدم بڑھاتا ہے تو منزل پہ پہنچانے میں قدرت ضرور ساتھ دیتی ہے۔ راستے بنتے چلے جاتے ہیں اور رکاوٹیں اور دشواریاں انسان کو اور زیادہ مضبوط بنا دیتی ہیں۔ بقول شاعر:
نہ گھبرا کثرتِ غم سے حصول کامیابی میں
کہ شاخِ گل پہ پھول آنے سے پہلے خار آتے ہیں