مہمان کالم

302

سگمنڈ فرائڈ وہ شخص ہے جس سے نفسیات کا علم منسوب کیا جاتا ہے۔ یوں تو انسانی نفسیات اور نفسیاتی بیماریوں پر قدیم طب میں بہت سا مواد ملتا ہے لیکن جس شخص نے اپنے آپ کو انسانی ذہن اور نفسیات کے مطالعے کے لیے خاص کرلیا وہ سگمنڈ فرائڈ ہی تھا۔ ویانا کے شہر میں پیدا ہونے والا یہ یہودی، ہٹلر کے ظلم و ستم کا گواہ بھی تھا اور اس کے وزیر گوئبلز کے پروپیگنڈے کا شکار۔ گوئبلز وہ شخص ہے جس نے اس دنیا کو یہ فقرہ تحفے میں دیا کہ ’’اس قدر جھوٹ بولو اور بار بار بولو کہ وہ سچ محسوس ہونے لگے‘‘۔ فرائڈ نے انسانی ذہن کو شعور، لاشعور اور تحت الشعور جیسی اصلاحات میں تقسیم کیا۔ اُس کے نزدیک انسان کے ہر فعل کے پسِ پردہ جنسی جذبہ چھپا ہوتا ہے۔
اسی لیے خوابوں کی تعبیر کے بارے میں اُس کی کتابیں ہر خواب کا تجزیہ کرتے ہوئے اس میں جنس ضرور ڈھونڈ نکالتی ہیں۔ ایک وسیع یہودی خاندان ہمیشہ اپنے زیرکفالت افراد کی تربیت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیتا ہے۔ فرائڈ کے زیرتربیت بھی صرف اس کی بیٹی اینا فرائڈ ہی نہیں بلکہ اور بہت سے لوگ شامل تھے۔ ان میں اس کا ایک دوسرے رشتے سے بھانجا ایڈورڈ برنیز (Edward Bernays) بھی شامل تھا۔ اس کی ماں فرائڈ کی بہن اور اس کا باپ فرائڈ کی بیوی کا بھائی تھا۔ اس کا خاندان جرمنی کی یہودی نفرت یلغار سے تنگ آکر امریکا جاکرآباد ہوگیا۔
وہ جنگِ عظیم اوّل کے زمانے میں امریکی صدر کی پروپیگنڈا مہم کا انچارج تھا۔ جنگ کے زمانے میں لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنا، اپنی فتوحات کا ڈھول پیٹنا، دشمن کو ظالم ثابت کرنا اور اپنی افواج کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے گئے افراد کو انسانیت کی بدترین مخلوق ثابت کرنا دراصل پروپیگنڈے کا حصہ بلکہ مقصد ہوتا ہے۔ فرائڈ کی صحبت اور تربیت کے ساتھ ساتھ زرخیز یہودی ذہن کی وجہ سے اُس نے جدید دور کی میڈیا انڈسٹری کو انسانی ذہنوں کو مسخر کرنے کی ایک سائنس بنادیا۔ اس نے پہلی دفعہ لفظ ’پبلک ریلیشنز‘ استعمال کیا جو آج تک دنیا بھر میں مستعمل ہے۔ اُس کے نزدیک پروپیگنڈا یا میڈیا صرف خیالات کی ترویج کا نام نہیں بلکہ یہ لوگوں کی رائے بنانے، اسے تبدیل کرنے اور اسے اپنی رائے کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔
امریکی صدر وڈرو ولسن کی جنگِ عظیم اوّل کے زمانے کی پروپیگنڈا ٹیم کے انچارج کی حیثیت سے اُس نے امریکی عوام کو ایک نعرہ دیا کہ ’’امریکا اس لیے جنگ میں ممدو معاون ہے تاکہ پورے یورپ میں جمہوریت نافذ ہوجائے‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کی آزادی اور حقوقِ نسواں کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ اُس نے مردوں سے آزادی کی علامت کے طور پر عورتوں کو مشورہ دیا کہ 1929ء میں جب ایسٹر پریڈ ہو تو عورتیں اس میں سگریٹ پیتی ہوئی شامل ہوں۔ اس طرح ان میں اور مردوں میں آزادی کا فرق نظر نہیں آئے گا۔ اُسی کے پروپیگنڈے نے امریکی عوام کو جنگِ عظیم اوّل کے دوران ہونے والی قتل و غارت پر قائل کرلیا۔ اپنے اس سارے منصوبے اور سوچ کو وہ “Engineering Consent” کہتا ہے، جس کا مطلب ہے: لوگوں کو میڈیا اور پروپیگنڈے کے زور سے ایک ایسی بات پر قائل کرنا جسے وہ نہیں چاہتے۔ ایڈورڈ برنیز کا یہ تصور آج بھی دنیا بھر میں میڈیا کی روح ہے۔
آپ کس قدر آسانی سے امریکی، برطانوی، یورپی بلکہ پسماندہ ممالک کی اکثریت کو قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان کے دور دراز اور پسماندہ ترین ملک جہاں ٹیلی فون، ٹیلی ویژن اور ریلوے جیسی بنیادی چیزیں بھی میسر نہیں، وہاں بیٹھے چند لوگوں نے ایک سازش تیار کی اور پھر نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر تباہ کردیا۔ اس کے بعد آپ دنیا کو اس بات پر بھی قائل کرلیتے ہیں کہ افغانستان میں بسنے والے انسانیت کے دشمن ہیں۔ اور پھر جب امریکی جہاز ان پر بم برساتے ہیں، ٹینک ان کو روندتے ہیں، یا گولیاں ان کے سینے چھلنی کرتی ہیں تو کسی کو اُن سے ہمدردی نہیں ہوتی۔
یہی میڈیا دنیا بھر کو صدام حسین کے بارے میں جھوٹی اور من گھڑت رپورٹیں دکھاکر قائل کرلیتا ہے کہ عراق کے عوام کو مارنا اور ان کا خون بہانا جائز ہے۔ پھر جب کئی منزلہ عمارت پر امریکی میزائل آکر گرتا ہے تو ہم ٹیکنالوجی کی داد دے رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ اس عمارت میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی تھے جو اس میزائل گرنے سے موت کی آغوش میں چلے گئے ہوں گے۔
جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنا اسی میڈیا کا کمال ہے۔ اس وقت گزشتہ کئی ہفتوں سے دو شہروں کا محاصرہ جاری ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ دنیا بھر کا آزاد میڈیا جسے انسانیت کا فخر تصور کیا جاتا ہے، ان دونوں شہروں میں سے ایک شہر کے محاصرے کو جائز اور دوسرے شہر کے محاصرے کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ ایک شہر ’’موصل‘‘ ہے اور دوسرا ’’حلب‘‘۔ دونوں پر اس میڈیا کے مطابق شدت پسند اسلامی گروہ قابض ہیں۔ لیکن موصل کا محاصرہ کرنے والے سرکاری فوجی انھیں شدت پسندوں سے آزادی دلانے کے لیے ان پر خوراک، پانی اور دوائیں بند کررہے ہیں۔ انھیں چن چن کر مار رہے ہیں۔ پوری دنیا کا میڈیا لوگوں کو قائل کرنے میں مصروف ہے کہ یہ سب کچھ انسانیت، آزادی اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہورہا ہے۔ مغربی صحافی جو عراقی افواج کے ساتھ ہیں، وہ روز ان فوجیوں کی وکٹری کا نشان بنانے والی تصویریں اخباروں کے صفحہ اوّل پر لگاتے ہیں۔ دوسری جانب حلب ہے جہاں بشارالاسد کے سپاہیوں کو ظالم بناکر پیش کیا جاتا ہے جنہوں نے حلب شہر کا محاصرہ کررکھا ہے۔
اسی میڈیا کے تحت حلب کے شدت پسند دراصل آزادی کے ہیرو ہیں، جب کہ وہی شدت پسند موصل میں انسانیت کے دشمن۔ جان پجر (Jahn Piger) اُن لوگوں میں سے ہے جو اس دنیا میں قتل و غارت اور سفاکی کا ذمے دار میڈیا کو ٹھیراتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اس قدر زوردار پروپیگنڈا نہ ہوتا تو دنیا پر القاعدہ، داعش اور النصرہ کا وجود معمولی سا ہوتا اور آج عراق اور شام کے شہری اپنی جانیں بچانے کے لیے دنیا بھر میں دربدر نہ ہورہے ہوتے۔ لیبیا کی تباہی اور قدافی کی المناک موت صرف اور صرف میڈیا کی جنگ اور فتح ہے۔ ایک پُرامن ملک جس کے شہری دنیا کے ہر جائزے کے مطابق مطمئن زندگی گزار رہے تھے، پہلے اسے دنیا کی نظروں میں ظالم بنایا گیا، یورپ اور امریکا کے عوام کو قائل کیا گیا کہ اب اس ملک کی تباہی انسانیت کے لیے بہتر ہے۔ اس کے بعد نیٹو کے جہاز 9 ہزار 7 سو دفعہ اڑے اور انھوں نے یورینیم وارہیڈ والے میزائل عوام الناس پر پھینکے۔ کوئی ایک آنسو ان معصوم عوام کی موت پر آنکھوں سے نہ نکلا، کوئی دل خوف سے نہ کانپا، کسی کو اندازہ تک نہ ہوا کہ وہاں کتنی معصوم جانیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ اس لیے کہ مغربی میڈیا پوری دنیا کو قائل کرچکا تھا کہ ان سب کیڑے مکوڑوں کی موت دنیا کے امن کے لیے ضروری ہے۔
یہ مغربی میڈیا امریکی انتخابات کے موقع پر اپنے جھوٹ اور پروپیگنڈا تکنیک کے عروج پر ہوتا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کے نزدیک ڈونلڈ ٹرمپ جس نے ایک قتل نہیں کیا وہ خوفناک آدمی ہے، جب کہ ٹرومین، کینیڈی، جانسن، بش وغیرہ امن کی فاختائیں ہیں۔ اوباما جس نے گزشتہ تیس سال میں خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ رقم امریکی ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کی ہے جو ایک ہزار ارب بنتی ہے، وہ اس وقت منی ایٹم بم بنوا رہا ہے جنھیں B-61 اور ماڈل 12 کہا جاتا ہے۔ اس کے دور میں سب سے زیادہ ڈرون حملوں میں لوگ مارے گئے۔ وہ امن کا نوبیل انعام حاصل کرتا ہے، لیکن میڈیا اس کے کسی جرم پر گفتگو نہیں کرتا۔ اسے ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بڑبولے اور منہ پھٹ نہیں چاہئیں، ہیلری جیسے منافق چاہئیں جس کے ہاتھ لیبیا کے عوام کے خون میں رنگے ہوں لیکن پھر بھی امن کی فاختہ دکھائی دے۔

حصہ