(پھولوں کی دنیا (محمد عمر احمد خان

345

130ِٹو ایک پیارا سا بچہ تھا۔ اسے تصویریں بنانے کا بہت شوق تھا۔ اس کے پاس بہت سی رنگ برنگی پینسلیں، مارکر، واٹر کلرز، چھوٹے بڑے بُرش اور بہت سے سفید کاغذ تھے۔ وہ ان پر پہلے تو سادہ اسکیچ بناتا، پھر ان میں عمدگی سے رنگ بھرتا۔ جو کوئی بھی اس کی بنائی ہوئی خوب صورت تصویریں دیکھتا، حیران رہ جاتا۔ کسی کو یقین ہی نہ آتا کہ یہ تصویر اس چھوٹے سے بچے نے بنائی ہے۔ بٹو نہ صرف تصویریں بنانے، بلکہ پڑھنے لکھنے میں بھی بہت ہوشیار تھا۔ وہ دل لگا کر پڑھتا اور ہمیشہ اچھے نمبروں سے کام یابی حاصل کرتا۔ وہ اپنے استادوں اور بزرگوں کا دل سے ادب کرتا۔ سب اس سے بے حد خوش رہتے۔ ہر پرچے میں اس کے اچھے نمبر آتے، لیکن ڈرائنگ کے پرچے میں وہ ہمیشہ بازی لے جاتا۔ ڈرائنگ کے استاد کہتے:
’’میاں بِٹّو، مجھے یقین ہے کہ ایک دن تم بہت بڑے مصور بنو گے‘‘۔
بٹو ایک روز سوکر اُٹھا تو اس نے دیکھا کہ کمرے کی کھڑکی کھلی ہے اور ایک خوب صورت رنگ برنگی چڑیا کھڑکی پر بیٹھی ہے۔ یہ چڑیا بٹو کو اتنی اچھی لگی کہ اس نے فوراً اس کی تصویر بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ بستر سے اُٹھ کر اس نے بڑی آہستگی سے میز کی دراز کھولی، اس میں سے تصویر بنانے کا سامان نکالا اور خوب صورت رنگوں والی چڑیا کی تصویر بنانے بیٹھ گیا۔ تصویر اسکیچ کرتے ہوئے اس کا ہاتھ جلدی جلدی حرکت کررہا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ چڑیا کہیں اُڑ نہ جائے۔ جب تک اس کی تصویر مکمل نہ ہوئی، چڑیا بیٹھی رہی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اپنی تصویر بنوانے ہی کے لیے بیٹھی ہو۔ جب تصویر بن گئی تو بٹو نے ستائشی نظروں سے پہلے اپنی تصویر، پھر چڑیا کو دیکھا۔ دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
ناشتے کی میز پر اس کے ابو، امی نے اس کی بنائی ہوئی چڑیا کی خوب صورت تصویر دیکھی تو حیران رہ گئے۔ بٹو کے بھائی ارقم نے چلاّ کر کہا:
’’ارے، یہ تو وہی رنگ برنگی چڑیا ہے، جو روزانہ باغیچے میں آتی ہے اور اپنی مسحور کُن آواز میں چہچہاتی ہے‘‘۔
اُسامہ نے کہا:
’’میرا دل چاہتا تھا کہ میں کیمرے سے اس کی ایک اچھی سی تصویر کھینچوں۔ میری یہ خواہش میرے منے بھائی نے پوری کردی ہے‘‘۔
پھر اس نے بٹو سے کہا:
’’کیا تم یہ تصویر مجھے دو گے، میں اسے اپنے کمرے میں لگاؤں گا‘‘۔
اس پر ابو نے کہا:
’’میرے خیال میں تو اس تصویر کو ڈرائنگ روم میں لگنا چاہیے تاکہ آنے جانے والے کی نظریں بٹو کی بنائی ہوئی اس خوب صورت تصویر پر پڑیں۔ ابو کی بات سُن کر انس نے تصویر فریم کرواکے ڈرائنگ روم میں لگادی۔
شام میں بٹو کے انکل دُبئی سے آئے تو سب بے حد خوش تھے۔ انکل نے ڈرائنگ روم میں بٹو کے ہاتھ کی بنی ہوئی خوب صورت تصویر دیکھی تو حیران ہوکر ابو سے کہنے لگے:
’’تصویر تو بڑے غضب کی ہے، لگتا ہے آپ نے کسی اچھے مصور سے بنوائی ہے؟‘‘
ابو نے کہا:
’’وہ بہت اچھا مصور ہمارے گھر ہی میں رہتا ہے‘‘۔
’’کیا میں اس زبردست مصور سے مل سکتا ہوں؟‘‘
انکل کو بٹو سے ملوایا گیا تو وہ بہت حیران ہوئے۔ انہیں یقین ہی نہ آیا کہ رنگ برنگی چڑیا کی تصویر ایک چھوٹے سے بچّے نے بنائی ہے، لیکن جب بٹو نے کاغذ پر ان کی ہو بہو تصویر بنائی تو وہ اس کی عمدہ صلاحیت پر حیران رہ گئے۔ خوش ہوکر انہوں نے سوٹ کیس کھولا اور اس میں سے ایک نفیس سا رنگوں کا ڈبا نکال کر بٹو کے ہاتھ میں تھمادیا:
’’ننھے مصور، یہ تمہارا انعام ہے۔ دبئی میں میرے ایک دوست ہیں، جو بہت اچھے مصور ہیں۔ یہ رنگ انہوں نے مجھے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رنگ اُس بچے کو دیجیے گا جو واقعی تصویر بنانا جانتا ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست کا انعام ٹھیک جگہ پہنچ گیا ہے‘‘۔
انکل ایک لمحے کو خاموش ہوئے، پھر دوسرے ہی لمحے بولے: ’’میرا دوست بہت ہنس مُکھ ہے، جب اس نے مجھے یہ رنگ دیے تھے تو کہا تھا کہ یہ جادو کے رنگ ہیں۔ جب یہ لگائے جائیں تو بولنے لگتے ہیں۔ میاں بٹو، مجھے یقین ہے کہ ان رنگوں سے تم بہت خوشی محسوس کرو گے‘‘۔
اورواقعی ایسا ہی ہوا۔ اسی شام، ہوم ورک مکمل کرنے کے بعد بٹو نے ایک خوب صورت جھونپڑی کی تصویر بنائی۔ جھونپڑی کے باہر اس نے ایک بونا بنایا، پھر وہ تصویر میں رنگ بھرنے لگا۔ جب وہ جھونپڑی کی چھت میں لال رنگ بھر رہا تھا تو لائٹ چلی گئی، اس نے نامکمل تصویر میز پر اُٹھاکر رکھ دی اور سوگیا۔ سوتے سوتے اس نے خود کو ایک ہری بھری وادی میں کھڑا پایا۔ کچھ ہی دور اسے وہ رنگ برنگی جھونپڑی نظر آئی، جو اس نے تصویر میں بنائی تھی۔ اسے جھونپڑی کے باہر بونا کھڑا نظر آیا۔ وہ بہت غصے میں تھا اور تیز قدموں سے اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ بٹو کو دیکھتے ہی اس کا چہرہ غصے سے سُرخ ہوگیا اور آنکھیں جیسے انگارہ بن گئیں:
’’یہ تم نے کیسا مکان بنایا ہے؟‘‘ اس نے پھنکارتے ہوئے کہا:
’’اس کی چھت دیکھی ہے تم نے، کتنی بُری ہے، بالکل نامکمل، اسے فوراً ٹھیک کرو، نہیں تو میں تمہارے ساتھ بہت بُرے طریقے سے پیش آؤں گا‘‘۔
بٹو بے چارہ ڈر گیا، کہنے لگا: ’’اگر لائٹ نہ جاتی تو میں چھت مکمل کردیتا۔۔۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا، کل تک چھت مکمل ہونی چاہیے اور ہاں اس کا دروازہ بھی لاک ہے۔ پہلی فرصت میں اس کا لاک کھولو تاکہ میں اندر جاسکوں‘‘۔
صبح بٹو کی آنکھ کھلی تو اسے رات والا خواب یاد آگیا۔ اس نے جلدی سے تصویر کی چھت میں رنگ مکمل کیا اور جھونپڑی کا دروازہ کھول دیا۔ رات خواب میں اسے بونا دکھائی دیا۔ اب وہ غصے میں نہیں تھا۔ بٹو کو دیکھ کر کہنے لگا:
’’ہاں اب میرا مکان بہت اچھا لگ رہا ہے‘‘۔ پھر وہ دروازہ کھول کر اندر چلا گیا، کچھ دیر بعد بڑے غصے کے عالم میں باہر نکلا اور چیخ کر کہنے لگا:
’’اندر کی دیواریں بالکل بے رنگ ہیں اور کمرے میں کوئی بستر بھی نہیں ہے، کیا میں نیچے فرش پر سوؤں گا؟‘‘
’’ٹھیک ہے میں ایک اچھی سی مسہری بنادوں گا اور اندر کی دیواروں کو رنگ بھی کردوں گا‘‘۔ بٹو نے ڈرتے ہوئے کہا۔ پھر صبح ہوتے ہی اس نے ایک سفید کاغذ پر جھونپڑی کے اندر کا حصہ بنایا، دیواروں پر عمدہ سا رنگ کیا اور بونے کے سونے کے لیے ایک نہایت آرام دہ اور خوب صورت سی مسہری بنائی۔ رات خواب میں بونا پھر نظر آیا۔ وہ مسہری پر خوب اُچھل کود کررہا تھا اور نرم گدے پر گر کر بچوں کی طرح خوش ہورہا تھا۔ بٹو کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے چلاّیا:
’’واہ‘ کیا آرام دہ مسہری بنائی ہے اور کمرے کی دیواروں کا رنگ بھی نہایت لاجواب ہے‘‘۔
پھر اس نے بٹو کو اپنے قریب بٹھالیا اور کچھ سوچ کر کہا: ’’لیکن ابھی اس مکان میں بہت سی چیزوں کی کمی ہے۔ باورچی خانہ، غسل خانہ، باغیچہ، باغیچے میں ہرے بھرے درخت، رنگ برنگے پھول، ان پر اُڑتی ہوئی تتلیاں، تمہیں میرے مکان میں ان سب چیزوں کا بندوبست کرنا ہوگا‘‘۔
بٹو نے اگلی صبح ایک نئی تصویر میں بونے کی ساری فرمائشیں پوری کردیں، لیکن بونا ابھی بھی مطمئن نہ تھا۔ خواب میں اس نے پھر نئی چیزوں کی فرمائش کردی۔ کہنے لگا:
’’میرے کمرے میں پنکھا نہیں ہے، مجھے گرمی لگتی ہے۔‘‘
بٹو نے کمرے میں پنکھا لگادیا تو کہنے لگا:
’’میں کمرے میں پڑے پڑے بور ہوجاتا ہوں، تم میرے کمرے میں ایک ٹی وی کا بندوبست کرادو‘‘۔ بٹو نے ایک نئی تصویر میں ایک خوب صورت سا ٹی وی بنادیا۔
کچھ روز تک بونا خواب میں نظر نہیں آیا، بٹو خوش ہوگیا کہ بونے سے جان چھوٹی، لیکن چار روز بعد بونا خواب میں پھر آموجود ہوا۔ وہ نہایت غصے میں تھا۔ بٹو کو دیکھتے ہی کہنے لگا:
’’اس ٹی وی میں تو دو تین ہی چینل ہیں اور پروگرام بھی بالکل بکواس آتے ہیں۔ تم ایسا ٹی وی بنادو جس میں کم از کم سو دو سو چینل ہوں‘‘۔ بونے کی یہ انوکھی فرمائش سُن کر تو بٹو کے ہوش اُڑ گئے۔
’’لل۔۔۔لل۔۔۔ لیکن میں ایسا ٹی وی کس طرح بنا سکتا ہوں بھلا۔۔۔‘‘
بونے نے چیخ کر کہا: ’’میں کچھ نہیں جانتا، کل تک میری فرمائش پوری ہوجانی چاہیے‘‘۔
اس ناشکرے بونے سے کیسے نجات حاصل کروں، جس نے کبھی میرا شکریہ بھی ادا نہیں کیا؟ پریشانی کے عالم میں بِٹو سوچنے لگا، سوچتے سوچتے رات آگئی۔ بِٹو اُلجھے ہوئے ذہن کے ساتھ بستر پر لیٹا ہی تھا کہ اک دم سے اک کُوندا سا لپکا اور اس کے ذہن میں بونے سے چھٹکارا پانے کی ترکیب آہی گئی۔
دوسرے دن وہ سوکر اُٹھا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بونے کی تصویر پھاڑ ڈالی اور تصویر بنانے سے توبہ کرلی۔ اس کی ترکیب کارگر ثابت ہوئی اور ناشکرا بونا پھر کبھی اس کے خوابوں میں نہ آیا۔
کچھ لوگ بھی ناشکرے بونے کی مانند ہوتے ہیں، اللہ پاک انہیں جتنا عطا کرتا ہے، وہ اتنی ہی ناشکری کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، اکثر ان سے نعمتیں چھین لی جاتی ہیں، جو ان کی سزا ہوتی ہے۔
آپ تو رب کی ناشکری نہیں کرتے ناں؟؟
nn

حصہ