فرحی نعیم

295

’’امی! آپ فکر نہ کریں، میں سب سنبھال لوں گی، نہ صرف سنبھال لوں گی بلکہ کامیابی بھی حاصل کرکے دکھاؤں گی۔‘‘ رابعہ کے لہجے میں عزم بول رہا تھا۔
’’لیکن تم کیسے؟ میرا مطلب ہے بچیاں ابھی بہت چھوٹی ہیں۔‘‘ امی ہچکچائیں۔
’’آپ میرا ساتھ دیں گی ناں؟‘‘ وہ امید بھری نظروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ کیوں نہیں۔۔۔‘‘ امی نے گردن ہلائی۔
’’تو بس پھر مجھے نہ کسی کا خوف ہوگا اور نہ پروا۔‘‘ وہ مطمئن تھی۔
’’بیٹا یہ مردوں کا معاشرہ ہے، تم ایک دفعہ پھر سوچ لو۔‘‘
’’امی پچھلے چار ماہ سے میں سوچ ہی تو رہی ہوں اور کیا کررہی ہوں! فاروق کی موت کے بعد سوائے اس کی یاد میں آنسو بہانے اور مستقبل سے ڈرنے کے میں نے ان چھ ماہ میں کیا ہی کیا ہے؟‘‘ وہ کچھ پھیکی سی ہنسی، ہنسی تھی۔ ’’لیکن اب میں نے کچھ کر گزرنے کا عہد کیا ہے اور آپ کو معلوم ہے جب میں نے کچھ کرنے کا عہد کیا تو اللہ نے میرے اندر نہ جانے کہاں سے اتنا حوصلہ بھر دیا کہ میں۔۔۔میں۔۔۔ امی! میرے اندر اب بہت ہمت آچکی ہے۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’بیٹے اصل میں آج تک ہمارے خاندان میں کسی لڑکی نے جاب۔۔۔ تم تو جانتی ہو۔۔۔‘‘
’’جی اچھی طرح جانتی ہوں، پھر آج تک ایسا حادثہ بھی تو کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔‘‘ رابعہ نے کچھ دیر توقف کیا ’’امی اب مجھے صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی دونوں بچیوں کے لیے بھی جینا ہے۔ اب میرے نزدیک صرف میرا مستقبل نہیں ہے بلکہ اپنی بیٹیوں کا بھی مستقبل درپیش ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو، لیکن بیٹا ابھی تمہاری عمر اتنی نہیں ہے، پھر تمہاری تعلیم بھی زیادہ نہیں اور نہ ہی تجربہ۔‘‘ امی اس کو آنے والے وقت کی حقیقت دکھا رہی تھیں۔
’’امی میں جاب بھی کروں گی اور ساتھ پرائیویٹ پڑھوں گی بھی، اور جاب مَیں کسی اسکول میں کروں گی، فی الحال آپ میرا حوصلہ بڑھائیں پلیز۔‘‘ اس نے جیسے سب طے کرلیا تھا۔
’’بیٹا تم مجھے غلط نہ سمجھو، میں تمہارا حوصلہ توڑ نہیں رہی، لیکن ماں ہوں ناں، مجھے حالات سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ امی کچھ بے چارگی سے بولیں۔
’’امی میں آج کی عورت ہوں، بہادر اور باہمت، میری بیٹیوں کے سر پر آج باپ نہیں ہے، یہ کمی میں کبھی دور تو نہیں کرسکتی لیکن اس کو کم ضرور کرسکتی ہوں۔‘‘ اس کے لہجے کا استحکام اس کو اپنے مقصد پر ثابت قدم بنا رہا تھا۔ ’’میں اب ان کی ماں بھی ہوں اور باپ بھی۔ آپ پریشان نہ ہوں، بس میرا ساتھ دیں اور میرے لیے دعا کریں، اب مجھے آپ کی دعاؤں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ وہ ماں کو دیکھتے ہوئے بولی۔
’’بیٹی میرا تو رواں رواں ہر لمحہ تمہارے لیے دعا گو ہے، خدا تمہیں اپنے مقاصد میں کامیاب کرے اور تمہارے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کرے۔‘‘ امی نے دل سے اس کو دعا دی۔
’’آمین‘‘۔ وہ دل سے مسکرائی تھی، پھر اس نے پاس بیٹھی دونوں بچیوں کو لپٹا لیا تھا۔
۔۔۔*۔۔۔
چھ ماہ پہلے رابعہ نے اپنے عزیز شوہر کو ایک ٹریفک حادثے میں کھو دیا تھا۔ رابعہ تو اس اچانک سانحہ پر اپنے ہوش ہی کھو بیٹھی تھی۔ اس کو اتنا چاہنے والا، خیال کرنے والا اور اس کی ہر خواہش پوری کرنے والا، اس کی دو چھوٹی بیٹیوں کا باپ اس طرح اچانک اس سے روٹھ کر ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا یہ تو اس نے خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ دو مہینے تو وہ اس کی یاد میں آنسو ہی بہاتی رہی۔ اسے لگتا تھا کہ شاید وہ اسی طرح رو رو کر ختم ہوجائے گی لیکن پھر ایک دن اس کی ایک سہیلی نے آکر اسے بہت حوصلہ دیا، اسے خدا کی مرضی اور مصلحت پر کتنی ہی دیر تک راضی بہ رضا رہنے پر سمجھاتی رہی۔ اسے آنے والے وقت کا حوصلہ کے ساتھ سامنا کرنے پر راغب کرتی رہی تو رابعہ کے دل و دماغ میں بھی ٹھنڈک اترتی چلی گئی، اور اس کی عدت ختم ہونے تک وہ مستقل اسے حالات کا مقابلہ کرنے اور باہمت زندگی گزارنے کا، اور عورت کی مضبوطی اور اہمیت کے بارے میں درس دیتی رہی، اور اس کی باتوں نے رابعہ کو تھک کر بیٹھنے کے بجائے مضبوطی سے لڑنے کا حوصلہ دیا تھا۔ فاروق کے انتقال کے بعد وہ امی کے گھر آگئی تھی۔ عدت اس نے یہیں گزاری تھی اور اب مستقبل میں بھی اس کا یہیں رہنے کا ارادہ تھا۔ فاروق کے ساتھ پانچ سال اس نے بڑے خوش گوار گزارے تھے، عزم و حوصلہ تو اس میں بچپن سے تھا لیکن شاید فاروق کی محبت اور آرام دہ زندگی نے اس حوصلے کو کہیں سلا دیا تھا جس کو لبنیٰ کی باتوں نے واپس بڑے بھرپور طریقے سے جگایا تھا۔ اس کے سامنے اس کی دو بچیاں تھیں، چار سالہ عنزیٰ اور ڈھائی سالہ اقراء۔ سسرال اس کا دوسرے شہر میں تھا۔ وہاں سے بھی سب فاروق کی موت کے بعد آئے تھے لیکن چند دن ٹھیر کر پھر واپس اپنے شہر سدھارے تھے۔ اس کے میکے میں بھی ماں اور دو کنوارے بھائی تھے۔ والد کا انتقال بھی اس کی شادی کے بعد ہوگیا تھا، دونوں بھائی ابھی جاب اور پڑھائی ساتھ کررہے تھے۔ میکے کے تین افراد کے ساتھ ان تین نئے افراد کا بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ عنزیٰ تو پہلے سے ہی اسکول جاتی تھی، اس نے اقراء کو بھی اسی کے اسکول میں داخل کرادیا تھا اور ساتھ خود بھی اسی اسکول میں جاب کرلی تھی۔ تعلیم اگرچہ اس کی انٹر تھی لیکن چونکہ انگریزی اچھی تھی لہٰذا اس کی انگریزی سے پرنسپل متاثر ہوگئے تھے اور اس کی مناسب مشاہرے پر ملازمت ہوگئی۔
۔۔۔*۔۔۔
وقت کا پہیہ اپنی رفتار سے رواں تھا۔ جاب، بچیوں کی دیکھ بھال، ان کے اسکول کا کام اور اپنی پڑھائی پر بھی بھرپور توجہ۔۔۔ وہ تو جیسے اب گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ ساتھ چلتی تھی۔ اسے حالات کا مقابلہ اب ایک کمزور عورت کے روپ میں نہیں بلکہ باہمت اور باحوصلہ ہوکر کرنا تھا، اور جب نیت صاف اور حوصلے جواں ہوں تو رکاوٹ‘ رکاوٹ نہیں رہتی اور منزل آسان ہونے لگتی ہے۔
آج چھٹی کا دن تھا اور وہ سویرے ہی اٹھ کر گھر کے تمام کام نمٹا رہی تھی۔ وہ بچوں کے اٹھنے سے پہلے ہی کھانا پکا لیتی اور گھر کے بکھیڑے نمٹا لیتی تھی تاکہ چھٹی کا دن وہ بچوں کے ساتھ گزارے کیونکہ عام دنوں میں وہ بھرپور وقت نہیں دے پاتی تھی۔ شام میں بچے تو ماموں کے ساتھ قریبی پارک میں کھیلنے چلے گئے اور وہ کمپیوٹر کھول کر اپنے اسائنمنٹ تیار کرنے لگی، تبھی اس کی پرانی سہیلی چلی آئی۔ دونوں کئی ماہ بعد مل رہی تھیں۔
’’کیا ہورہا ہے؟ مصروف ہو؟‘‘ عائشہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’ہاں اب یہ مصروفیت ہی میری زندگی ہے، اسی مصروفیت سے میرا حال اور مستقبل جڑا ہوا ہے۔‘‘ وہ سنجیدگی سے اسکرین پر نظریں ڈالتے ہوئے بولی۔
’’تم نے کچھ زیادہ ہی اپنے آپ کو گم نہیں کرلیا؟‘‘ عائشہ کی سوالیہ نظریں اس پر جمی تھیں۔
’’اس طرح گم رہ کر ہی تو میں کامیابی کی کنجی پاؤں گی۔‘‘ رابعہ مسکرائی اور لیپ ٹاپ بند کرنے لگی۔
’’خدا تمہیں کامیاب کرے۔‘‘ عائشہ نے بھی پورے خلوص سے اسے دعا دی۔
’’ویسے رابعہ تم شادی کیوں نہیں کرلیتیں؟‘‘ عائشہ کے لبوں پر بھی آج وہی سوال تھا جو پچھلے چار سال سے امی بھی اسے کہہ کہہ کر تھک چکی تھیں۔
’’نہیں عائشہ، میری زندگی میں اب دوبارہ شادی کی گنجائش نہیں۔‘‘
’’لیکن کیوں؟ تم ابھی نوجوان ہو، بچیاں بھی چھوٹی ہیں، تمہارا ہاتھ تھامنے والے ابھی کئی لوگ مل جائیں گے۔‘‘ عائشہ کے لہجے میں کچھ الجھن تھی۔ ’’تم نے اپنے آپ کو کتنی مشقت میں ڈال لیا ہے، دن رات ایک کیے ہوئے ہو۔‘‘
’’کیا تم کو امی نے تو یہ سب کہہ کر نہیں بھیجا؟‘‘ رابعہ نے مشکوک انداز میں عائشہ سے پوچھا۔
’’نہیں، آنٹی نے کچھ نہیں کہا، لیکن کیا دوسرے لوگوں کو کچھ نظر نہیں آرہا؟‘‘ اب وہ کچھ برا مان گئی تھی۔
’’دیکھو عائشہ! میری زندگی میں اب فاروق کی جگہ اور کوئی نہیں لے سکتا۔ مجھے اپنی بچیوں کو معاشرے میں ایک مقام دینا ہے اور اس کے لیے مجھے محنت کرنی ہے، بہت محنت۔ صرف شادی ہی عورت کی معراج نہیں ہے، اور اگر مرد کا سہارا اتنا ہی ضروری ہے تو خدا نے مجھے دو بھائی دیے ہوئے ہیں، وہ میرا مضبوط سہارا ہیں۔ مجھے صرف اللہ ہی کی مدد کافی ہے۔‘‘ رابعہ نے جیسے قطعی انداز میں کہا۔ ’’اب اس موضوع کو چھوڑو اور باہر چلو، میں تمہیں مزیدار پاستا کھلاتی ہوں، آج میں نے اسپیشل بنایا تھا۔‘‘ رابعہ نے عائشہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر باہر آگئی۔
۔۔۔*۔۔۔
امی کا تعاون اسے حاصل تھا۔ رابعہ نے ماسٹرز کرنے کے بعد پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا تھا۔ بچیاں اب بڑی ہورہی تھی، وہ سمجھ دار ہوگئی تھیں۔ انہوں نے بچپن سے ہی ماں کو انتھک محنت کرتے دیکھا تھا جس کی وجہ سے دونوں کے دلوں میں ماں کی محبت کے ساتھ قدر دانی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ رابعہ نے فی الحال جاب چھوڑ دی تھی۔ وہ شام میں کالج کے چند لڑکوں، لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی جس سے اسے مناسب آمدنی ہوجاتی تھی۔ پی ایچ ڈی کرتے ہی اسے اسی یونیورسٹی میں جاب کی آفر ہوگئی تھی جسے قبول کرنے میں اس نے ذرا دیر نہ لگائی تھی۔ یہاں بھی اس نے اپنی محنت، فرض شناسی اور اصول پسندی سے ساتھی ٹیچرز کے دلوں میں اپنی اہمیت اور حیثیت منوا لی تھی، لیکن شاید ابھی اس کی زندگی میں چند امتحان اور بھی تھے۔ کچھ اساتذہ اگر اس سے پُرخلوص تھے تو چند ایک جلتے بھی تھے، اور اسی حسد نے اس کے لیے یونیورسٹی میں کئی مسائل پے در پے پیدا کیے تھے۔ آج کل اسے اپنے ڈپارٹمنٹ کا ہیڈ بنانے کی تیاریاں ہورہی تھیں، جو چند نام اس عہدے کے لیے غور طلب رہے تھے ان میں سرفہرست رابعہ فاروق کا نام تھا۔ اس کی ساتھی ٹیچر نے اسے یہ خوش خبری سنا دی تھی کہ اس عہدے کے لیے اس کو منتخب کیا جارہا ہے۔ وہ خوش تھی لیکن پھر اچانک ہی کسی کی سفارش نے اس کی یہ خوشی ملیامیٹ کردی۔ وہ چند دنوں تک تو افسردہ رہی لیکن پھر پہلے جیسے معمول پر آگئی۔ مختلف لوگوں کی مختلف رائے تھی، لیکن وہ خاموش تھی، اس نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا، وہی سب سے بڑا مصنف ہے، اور وہاں نہ تو دیر تھی اور نہ ہی اندھیر۔ صرف مناسب وقت کا انتظار تھا، اور یہ وقت بہت جلد آگیا۔ صرف سال ہی تو گزرا تھا جمال صاحب کو ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ بنے ہوئے، اور ان کے خلاف شکایات کا اتنا انبار تھا کہ جامعہ کے وی سی بھی پریشان ہوگئے تھے۔ ان کی بے ضابطگیوں نے ڈپارٹمنٹ کے ماحول اور پڑھائی کو حد درجہ متاثر کیا تھا اور آج ایک سال بعد پھر ہیڈ کے لیے رابعہ کا نام ہی لیا جارہا تھا۔ رابعہ نے اگرچہ اس دوران کئی مشکلات کا سامنا کیا تھا، ایک موقع پر اسے ملازمت سے ہی برخواست کیا جارہا تھا اور وہ بہت فکرمند اور پریشان ہوگئی تھی، لیکن پھر اس کے اٹل ارادے اور مضبوطی نے دوبارہ راستے کھول دیے تھے اور ایک دفعہ پھر اس کے حوصلے اور لگن نے اس کی اہمیت اور یونیورسٹی میں اس کی حیثیت کو سب کے سامنے نمایاں کردیا تھا۔ کئی اساتذہ کی مخالفت کے باوجود اس عہدے کے لیے اس نے اپنی حیثیت منوا لی تھی اور کئی اساتذہ کے ساتھ بیشتر طالب علموں نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
nn

حصہ