کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی، اردو ادب کی ترویج و اشاعت میں بھر پور حصہ لے رہی ہے فاضل جمیلی اور علاء الدین خان زادہ کی سربراہی میں اس کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار، علم دوست شخصیت ہیں وہ اکثر و بیشتر اہم لکھنے والوں کے اعزاز میں تقریبات منعقد کراتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے نوائے وقت کراچی کے ادبی صفحے کے نگراں، ممتاز صحافی و شاعر راشد نور اور روزنامہ جنگ کے کلچر رپورٹر، سینئر سب ایڈیٹر، ممتاز صحافی اور شاعر اختر سعیدی کے اعزاز میں ابراہیم جلیس ہال میں تقریبِ پزیرائی کا اہتمام کیا۔ معروف ماہرِ تعلیم، نقاد، شاعر و ادیب پروفیسر سحر انصاری نے صدارت کی، ممتاز صحافی، نقاد، ماہرِ تعلیم، شاعر و ادیب، پروفیسر جاذب قریشی، مہمانِ خصوصی تھے۔ مجید رحمانی نے نظامت کے فرائض انجام دیے، مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی، روزنامہ نوائے وقت کراچی کے ایڈیٹر سعید خاور، ریحانہ روحی، علاء الدین خان زادہ، زیب اذکار اور سلمان صدیقی شامل تھے جب کہ ریحانہ احسان اور انجم عثمان نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا۔ تلاوت کلامِ پاک کی سعادت فرید احمد خورشیدی نے حاصل کی اور نعتِ رسول بھی پیش کی۔ صاحبانِ اعزاز کی خدمت میں مختلف ادبی اداروں کی جانب سے پھولوں کے تحائف پیش کیے گئے۔ تقریب کے پہلے مقرر سلمان صدیقی نے اختر سعیدی کے فن اور شخصیت پر سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے اختر سعیدی کی زندگی کے بہت اہم گوشے نمایاں کیے ان کا کہنا تھا کہ اختر سعیدی نے شعری منظرنامے میں اپنی جگہ بنائی ہے ان کا سارا خاندان اردو ادب سے جڑا ہوا ہے ان کے والد جوہر سعیدی ایک قادر الکلام شاعر تھے انہوں نے جسارت و حریت میں کام کیا 1984ء میں روزنامہ جنگ کراچی میں پروف ریڈر مقرر ہوئے اور آج سینئر سب ایڈیٹر ہیں۔ اختر سعیدی، ادبی رپورٹس، ادبی کالم اور انٹرویوز کے شعبے میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ شاعری کی تمام اصنافِ سخن پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ علمِ عروض سے بھی واقف ہیں انہوں نے بیرونِ پاکستان بھی مشاعرے پڑھے ہیں یہ ادبی تقریبات کے آرگنائزر ہیں باکمال شاعر ہیں اور ایک اچھے انسان بھی۔ ادارۂ فکرِ نو کے روح رواں ہیں یہ ادارہ ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ اختر سعیدی کے تین شعری مجموعے چراغ جلنے تک، فراق سے وصال تک، ہوا، چراغ، آئینہ، منظرِ عام پر آچکے ہیں اختر سعیدی نے سچائیاں لکھی ہیں یہ معاشرتی ریفارمر ہیں ان کی شاعری میں رنج و غم نظر نہیں آیا ان کے نزدیک طلب اور عزائم کی راہ میں مشکلات سے ڈرنا بہت بڑی کمزوری ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ،
عشق کی راہوں پہ چلنا ہے تو رسوائی نہ دیکھ
تجھ کو پانی میں اترنا ہے تو گہرائی نہ دیکھ
اختر سعیدی خود آگاہی کو دنیا شناسی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ترکِ وطن کا تذکرہ ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے قیامِ پاکستان کے تناظر میں جن لوگوں نے قربانیاں پیش کیں ان میں ان کا خاندان بھی شامل ہے وہ کہتے ہیں کہ
مدتوں صحرا نوردی کی مرے اجداد نے
مجھ کو ورثے میں جنونِ آبلہ پائی ملا
ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ اختر سعیدی میرے پرائمری کلاسز کے کلاس فیلو ہیں عزم بہزاد، اختر سعیدی اور انہوں نے ایک ساتھ شاعری کی تھی ہم نے بہت سے مشاعرے ایک ساتھ پڑھے ہیں بزمِ حمید لانڈھی میں طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے ہم ان مشاعروں میں ضرور شریک ہوتے تھے 1971ء میں جب اسماعیل انیس، لاہور سے کورنگی لانڈھی آئے تو اس علاقے کی ادبی سرگرمیاں بہت فعال ہو گئیں اختر سعیدی کے بارے میں انہوں نے مزید کہا کہ وہ ایک پختہ کار شاعر ہے اور انہوں نے نامساعد حالات کے باوجود بھی شاعری کے میدان میں اپنی حیثیت منوائی ان کی ترقی کا سفر جاری ہے شاعری ان کے خون میں دوڑ رہی ہے۔
اِن دو مقررین کے بعد اختر سعیدی ڈائس پر آئے انہوں نے اپنی غزلیں سنانے سے پہلے کہا کہ وہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے شکر گزار ہیں کہ جس کے تحت آج یہ تقریب منعقد ہوئی ہے۔ اس تقریب کے دوسرے صاحبِ اعزاز، راشد نور کے بارے میں ریحانہ روحی نے کہا کہ راشد نور کی شخصیت25-30 سال سے میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی مانند ہے وہ ہمہ جہت اور ہمہ صفات انسان ہیں وہ اپنے ہر شعبے میں ماسٹر آف فن ہیں یہ جدید حسیت کے شاعر ہیں صحافت کے میدان میں نام کمایا ہے اور بحیثیت ناظمِ مشاعرہ بھی اپنی شناخت بنائی ہے انہوں نے نئی نسل شعراء کی حوصلہ افزائی کی ہے اور متعدد مشاعروں میں نئے شعراء کو متعارف کرانے کا سہرا ان کے سر ہے۔ انہوں نے نوائے وقت کراچی کے ادبی صفحے کے لیے بے شمار اہم قلم کاروں کے انٹرویوز کیے، مضامین لکھے اور ادبی خبریں پیش کیں اس وقت ان کا شمار ادب کے معتبر قلم کاروں میں ہوتا ہے ان کے والد نور بریلوی صاحبِ اسلوب شاعر تھے انہوں نے 1987ء میں کراچی TV پر پہلا غزل مشاعرہ پڑھا ان کی شاعری میں داخلی اور بیرونی مشاہدات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ سعید خاور نے کہا کہ راشد نور، آسمانِ ادب و صحافت کے ماہِ منور ہیں یہ ہماری ادبی دنیا کا سرمایہ ہیں یہ ایک صحافی، شاعر اور قابلِ ستائش ادیب ہیں ان کا لب و لہجہ ان کے ہم عصر شعراء میں انہیں ممتاز کرتا ہے ان کی شاعری میں زندگی کے تمام رنگ نظر آتے ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں جتنے بھی تجربات کیے وہ سب کامیاب ہوئے انہوں نے صحافت کے ہاتھوں شاعری کو یرغمال نہیں ہونے دیا انہوں نے اپنی محنت و لگن سے ادبی منظر نامے میں جگہ بنائی ہے یہ 1982ء سے 2000ء تک افکار کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل رہے۔
زیب اذکار نے کہا کہ ہم کراچی پریس کلب کے پلیٹ فارم سے فنونِ لطیفہ کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ آج ہم نے شہر کراچی کے دو اہم صحافیوں اور شاعروں کے لیے یہ محفل سجائی ہے یہ دونوں شخصیات جدید شعری روایت کے علم بردار ہیں انہوں نے دوسروں کو پرموٹ کیا ہے ان کے اشعار زندگی سے مربوط اور معاشرے کے عکاس ہیں۔ علاء الدین خان زادہ نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ راشد نور اور اختر سعیدی، کہنہ مشق شعراء ہیں ان دونوں کی شاعری اور نثر بہت عمدہ ہے اور اردو ادب میں ان کا کنٹری بیوشن ہے۔ اس موقع پر راشد نور نے دو غزلیں اور دو نظمیں سنا کر سامعین سے داد وصول کی اور کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کا شکریہ ادا کیا۔ مہمانِ خصوصی، پروفیسر جاذب قریشی نے کہا کہ اس معاشرے میں سہل پسند لوگ موجود ہیں لیکن راشد نور اور اختر سعیدی، زندگی کے کٹھن مراحل سے گزرے ہیں ان دونوں میں کئی چیزیں مشترک ہیں یہ دونوں صحافت اور شاعری سے جڑے ہوئے ہیں دونوں سچ بولتے ہیں اور سچائیاں لکھتے ہیں نئی نسل شعراء کے لیے یہ دونوں رول ماڈل ہیں۔ راشد نور ہر وقت لبوں پر مسکراہٹ سجائے رہتے ہیں جب کہ یہ اندر سے بہت دکھی ہیں ان کا بڑا بیٹا شدید بیمار ہے جس کی تیمار داری اور علاج کی مصروفیت کے باعث ان کے بہت سے کام ڈسٹرب ہو رہے ہیں ان کی بڑائی یہ ہے کہ یہ اپنے غم کا اظہار نہیں کرتے راشد نور کی شاعری، نظامت اور صحافت اپنی مثال آپ ہے ان کا دھیمہ لہجہ ان کی شخصیت کا حسن ہے یہ لوگوں میں خوشیاں بانٹ رہے ہیں ان کی شاعری میں تیسری دنیا کے لوگوں کے زخموں کا اظہار ہے ان کی شاعری عام ڈگر سے ہٹ کر ہے ان کی نظمیں بہت مضبوط ہیں۔ جاذب قریشی نے اختر سعیدی کے بارے میں کہا کہ اختر سعیدی نے مختلف زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کے انٹرویوز کیے۔ میری نظر میں 20 دیں صدی میں کوئی ایسا صحافی نظر نہیں آتا جس نے اتنے انٹر ویوز کیے ہوں جتنے اختر سعیدی نے کیے ہیں۔ جب ان کے انٹریوز کی کتاب آئے گی تو وہ بھی اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ شمار ہو گی۔ صاحب صدر پروفیسر سحر انصاری نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ راشد نور اور اختر سعیدی پر میں گھنٹوں بات کرسکتا ہوں ان دونوں کے فن و شخصیت پر گفتگو کرنا اس عہد کی ضرورت ہے کسی بھی شخص کا کام بولتا ہے بے ساکھیوں کے سہارے سے قد میں اضافہ نہیں ہوتا ان دونوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اپنی شناخت بنائی ہے ان دنوں کے والد، قادر الکلام شعراء تھے شاعری ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے ان کے ادبی کارنامے قابلِ تحسین ہیں انہوں نے بڑے قد آور صحافیوں کے ساتھ کام کیا ہے۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی قابلِ مبارک ہے کہ یہ لوگ ادباء اور شعراء کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں آج کی تقریب بے حد کامیاب ہے آج کے شرکاء میں زندگی کے مختلف شعبوں کے اہم افراد شامل ہیں آج سارا ہال بھرا ہوا ہے جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سارا شہرا راشد نور اور اختر سعیدی سے محبت کرتا ہے اور ٹریفک کے مسائل کے باوجود بھی سب لوگ آئے ہیں۔
****
ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری ہمہ جہت شخصیت تھے وہ ادیب، دانشور، افسانہ نگار ہونے کے علاوہ ایک ترقی پسند مصنف بھی تھے شروع شروع میں انہوں نے اردو کے علاوہ ہندی میں بھی لکھنا شروع کیا انگلش ڈکشنری کی ترتیب اور رسالہ اردو کی ادارت میں مولوی عبدالحق صاحب کے معاون رہے پھر انہیں تصنیف و تالیف کا ایسا شوق ہوا کہ زندگی بھر یہ کام ان کا محبوب مشغلہ بن گیا۔ اختر حسین کی تصانیف و تالیف میں’’محبت اور نفرت‘‘، ’’زندگی کا میلہ‘‘ اور دیگر کتابیں شامل ہیں ان کے اردو تراجم بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ’’شکنتلا‘‘، ’’پیامِ شباب‘‘ اور تنقیدی مقالات کا مجموعہ ادب و انقلاب، نذر اسلام کی نظموں کا اردو ترجمہ، ہمارے ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے اکادمی ادبیات پاکستان، سندھ کے زیر اہتمام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کی یاد میں ہونے والے مذاکرے اور مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر اختر حسین جیسی اہم شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے ان کی تحریریں ہمارا قومی ورثہ ہیں پروفیسر سحر انصاری نے کراچی کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ امن و امان کی صورت حاصل بہتر ہونے کے سبب ادبی تقریبات اپنے عروج پر ہیں ہر روز کوئی نہ کوئی ادبی پروگرام ہو رہا ہوتا ہے آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی اپنی بھرپور توانائیوں کے ساتھ ادب کے فروغ میں مصروفِ عمل ہے ہم آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں ہر سال اردو کانفرنس منعقد کرتے ہیں جس میں اردو کے اہم ترین افراد شرکت کرتے ہین تقریب کی مہمانِ خصوصی سابق اسپیکر سندھ اسمبلی راحیلہ ٹوانہ تھیں جنہوں نے ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کے بارے میں کہا کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے انہوں نے زندگی بھر اردو ادب کی خدمت کی انہوں نے میدانِ اردو میں جو چراغ جلائے تھے ان کی روشنی ہم تک پہنچ رہی ہے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ ہر کتاب ناقدین علم و ادب سے داد و تحسین وصول کررہی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان، کراچی کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ اختر حسین رائے پوری کے بے شمار افسانے ہندی، جرمنی اور دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں موصوف اردو دنیا میں صفِ اول کے ترقی پسند نقاد تھے وہ اردو افسانہ نگاری میں بے حد اہمیت کے حامل تھے ان کا ’’ادب اور زندگی‘‘، اردو کا پہلا مقالہ تھا جس میں ادب و فن کا اقتصادی بنیادوں پر جائزہ لیا گیا اور شعرو ادب کی نئی نئی توجیہات و نئی تعبیر پیش کی گئی حکومتِ پاکستان نے ان کی گراں قدر خدمات کے عوض انہیں ’’نشانِ سپاس‘‘ سے نوازا۔ اس تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا۔
اس مشاعرے میں صاحبِ صدر، مہمانِ خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ فیروز ناطق خسرو، سبکتگین صبا، محسن سلم، ثروت سلطانہ، ستار بھٹی عرفان علی عابدی، کھتری عصمت علی پٹیل، زیب النساء زیبی، مہر النساء، صبیحہ صبا، احمد صغیر صدیقی، خالد نور، شگفتہ شفیق، عشرت حبیب، شاہد عروج خان، شہناز بزمی، زرین اختر، سلیم آذر، جاوید حسین صدیقی، غفران احمد، الطاف احمد، تاج علی رانا، محمد قدیر خان، شجاع قادر خان، جمیل ادیب سید، آتش پنہار، تنویر حسن حجاب فاطمہ، محمد عمر عباسی، احمد علی لکھن، محمد علی راہی، افضل ہزاروی، سید مشرف علی، سلیم حامد اور دیگر نے اپنا اپنا کلام سنایا۔
****
کمشنر کراچی و چیئرمین آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی زیر صدارت، 30 اکتوبر 2016ء بروز اتوار، سات بجے شام، آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی خصوصی جنرل باڈی میٹنگ منعقد وئی، آرٹس کونسل کے ممبران کی اکثریت نے اجلاس میں شرکت کی۔ حافظ قاری حامد علی نے تلاوتِ کلام مجید اور نعتِ رسول پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ آرٹس کونسل کی سکریٹری جنرل، ڈاکٹر ہما میر کی غیر حاضری کے باعث قائم مقام سکریٹری اطہر وقار عظیم فاروقی نے جنرل سکریٹری کے فرائض انجام دیے، تلاوتِ کلام مجید، اور نعتِ رسول کے فوراً بعد، ایک صاحب نے چیئرمین صاحب سے کہا کہ سانحہ کوئٹہ اور سانحہ ناظم آباد کے شہیدوں کے لیے دعائے مغفرت کی جائے لہٰذا چیئرمین صاحب کی اجازت سے ناظم جنرل باڈی ندیم ظفر نے سانحہ ناظم آباد، سانحہ کوئٹہ کے شہداء اور دیگر مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کرائی۔ اس کے بعد آئینی ترامیم کمیٹی کے چیئرمین احمد شاہ نے ترمیم کے لیے تجویز کردہ آرٹیکل کی ایک ایک شق پڑھ سنائی اور تمام حاضرین کی اکثریت نے اپنے اپنے ہاتھ کھڑے کرکے تمام ترامیم کے حق میں فیصلہ دیا، ان ترامیم کی سب سے اہم مشق آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے آئیندہ انتخابات کی مدت ایک سال کے بجائے دو سال تھی۔ جب یہ ترمیم پیش کی گئی تو کچھ حاضرین اجلاس نے کہا کہ مدتِ انتخاب دو سال کے بجائے تین سال کی جائے لیکن چیئرمین صاحب نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ مدت انتخاب دو سال کی جارہی ہے۔ اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اب ساٹھ سال کی عمر، اور اس سے زائد عمر کے ممبران سے آرٹس کونسل کی سالانہ، ماہانہ فیس نہیں لی جائے گی۔ اس موقع پر شہرِ قائد پینل کے ممبرانِ آرٹس کونسل نے شدید احتجاج کیا اور وہ ہر ترمیم پر نا منظور، نامنظور کے نعرے لگاتے رہے حکیم مجاہد برکاتی نے چیئرمین صاحب سے کہا کہ وہ ترامیم پیش کرنے سے پہلے چیئرمین صاحب سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن چیئرمین صاحب نے کہا کہ ہاؤس کو چلنے دیں، ڈسٹرب نہ کریں آپ کی ہر بات پر توجہ دی جائے گی۔ چیئرمین آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آئین میں ترامیم کا مقصد کسی کی ذات کو فائدہ پہچانا نہیں ہے بلکہ آرٹس کونسل کو زیادہ سے زیادہ فعال بنانا ہے انہوں نے ممبران آرٹس کونسل کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انہوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس کے اختتام پر تمام حاضرینِ اجلاس کے لیے عشائیہ کا بہترین انتظام کیا گیا تھا۔ اس موقع پر، راقم الحروف (ڈاکٹر نثار) سے گفتگو کرتے ہوئے احمد شاہ نے کہا کہ فن و ثقافت کے فروغ کے لیے ممبرانِ آرٹس کونسل کا تعاون ہمارے لیے قابلِ صد احترام ہے عہدیدارانِ آرٹس کونسل کراچی اس ادارے کی تعمیر ترقی، بہتر فیصلہ سازی اور اس ادارے کے وقار کی بلندی کے لیے ممبرانِ آرٹس کونسل کے ممنون و مشکور ہیں میں اور میری تمام ٹیم آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی ترویج و ترقی کے لیے رات دن مصروفِ عمل ہے ہم نے اپنی گھریلو مصروفیات اور نجی زندگی پر، آرٹس کونسل کے کاموں کو ترجیح دی۔ ہم نے الزامات برداشت کیے، دھونس دھمکیاں اور تلخ لہجوں کو برداشت کیا مگر فن و ثقافت کے فروغ کے لیے اور آرٹس کونسل کو اس کے منشور کے عین مطابق، آرٹس کونسل کی شناخت بحال کرانے میں کوئی کسر روانہ رکھی ہم نے کبھی بھی اصولوں پر سودا گری نہیں کی خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ 9 برسوں کی ان تھک محنت و کاوشوں سے آج ہم نے آرٹس کونسل کراچی کو بین الاقوامی شہرت یافتہ اداروں میں شامل کر دیا ہے۔ آرٹس کونسل کی نئی تعمیرات بھی اپنے تکمیلی مراحل میں ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اے سی آڈیٹوریم اور اوپن ایئر تھیٹر کی بھی تزئینِ نوکی ہے، عمر رسیدہ ممبرانِ آرٹس کونسل اور خواتین کی سہولت کے پچاس برس پرانی عمارت میں لفٹ کی تنصیب، 450 kva کے نئے جنریٹر کی تنصیب، تیسری منزل پر ٹی وی اسٹوڈیو کا قیام، گل رنگ کی تعمیر نو، تھیٹر اکیڈیمی کا قیام، میوزک اکیڈیمی کا قیام شان دار اسٹوڈیو کمپلکس جو ریکارڈنگ، شوٹنگ اور فلم کی جدید ترین سہولتوں سے مزین ہے، منظر اکبر ہال میں قائم احمد پرویز آرٹ گیلری کوایئر کنڈیشنڈ اور بہترین لائٹنگ کا انتظام کیا ہے۔ کتابوں اور آڈیو ویڈیو کی ایک بڑی لائبریری کے علاوہ کافی شاپ اور ایک بہترین ریسٹورنٹ بھی قائم کیا جارہا ہے اس کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل کے ممبران کے لیے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ جدید الیکٹرانک ممبر شپ کارڈز کے اجراء کا وعدہ ہم نے پورا کر دیا ہے جس سے ممبر کی تصدیق کاعمل اور اغلاط سے پاک ہوتا جارہا ہے اس کارڈ کے اجراء سے ہمارے مخالفین کے ارمانوں پر پانی پڑ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کیا کہ ہم تعمیری تنقید کے قائل ہیں کیونکہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن ہمارے مخالف ہمارے کارہائے نمایاں کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان شاء اللہ آرٹس کونسل کے منشور کے مطابق، آرٹس کونسل کے ممبران کی خدمت کرتے رہیں گے ہماری نیت صاف ہے اس لیے ہماری منزل آسان ہے۔