پاکستان کے دورے پر آئی ہو ئی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لا گارڈے نے کہا ہے کہ پاکستان میں سر مایہ کاری میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ دو کشتیوں پر سوار ہو نے کا محاورہ ہم نے سنا تھا لیکن کرسٹین لا گارڈے نے بڑی خوب صورتی کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کو آئینہ دکھایا ہے کہ تمہاری حیثیت کیا ہے‘ ایک طرف حکومت کی تعریف کی اور ہمارے وزیر خزانہ کو ایوارڈ بھی دیا اور دوسری طرف کرپشن کا تذکرہ کرکے حکومت کی نااہلی کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ پاکستان کی ترقی میں کرپشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یعنی اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار کر نا۔
اگر مسلم لیگ کی مو جو دہ حکومت کامیابی سے اپنا سفر جاری رکھتی ہے تو ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کے وزیر خزانہ درست سمت میں جا رہے ہیں لیکن اگر حکومت ناکام ہوتی ہے اور اپوزیشن کی کرپشن کے خلاف تحریک کامیاب ہو جاتی ہے یا پھر اگلی حکومت کسی اور سیاسی جماعت کی بنتی ہے تو کہا جائے گا کہ ’’ہم نے آپ کو اشارہ دے دیا تھا کہ کرپشن پر قا بو پاؤ اسی لیے قوم نے آپ کو مسترد کردیا ہے۔‘‘
بیرونی آقاؤں کے بیان پر ہم آنکھ بند کرکے اعتبار کرلیں گے کیو نکہ ہمارا ملک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہی کی بدولت چل رہا ہے۔ حکمران انہی کی ہدایات پر ٹیکس لگاتے اور منصوبے بناتے ہیں اوران کی شرائط پر سو فیصد عمل کرتے ہیں۔ ہر حکومت ان اداروں کے چنگل سے نکلنے کی بات کر تی ہے لیکن ’’قرض اتارو‘ ملک سنوارو‘‘ اور ’’کشکول توڑنے‘‘ کے سیاسی نعروں کے سوا کو ئی عملی اقدام نہیں کیا جاتا کیونکہ کرپشن کے بغیر حکومت چل ہی نہیں سکتی بلکہ یہ کہا جائے کہ کرپشن تو حکومت کے ماتھے کا جھومر ہے غلط نہ ہوگا۔ اس کے با وجود کرسٹین لا گارڈے کا کرپشن کے خلاف بیان سمجھ نہیں آیا کہ محترمہ نے یہ بات کیوں اور کن مقاصد کو سامنے رکھتے ہو ئی کہی۔ حیرت ہے کہ کرپشن کے نت نئے گُر سکھانے اور بتانے والے کرپشن پر قا بو پا نے کی باتیں کر رہے ہیں Kickbacksکی وجہ سے محترمہ کے اپنے ملک کے سربراہ مملکت بر طرف ہو ئے کیا۔ فرانس اور یورپ میں کرپشن ختم ہو گئی ہے جو انھیں پاکستان کی فکر ہے ؟
اگر آئی ایم ایف پاکستان پر اتنا مہربان ہو رہا ہے تو یقیناً آئی ایم ایف نے حکمرانوں کو یہ بھی ہدایات دی ہوں گی کہ ہم قرضہ اس شرط پر دیں گے کہ حکومت کرپشن پر قابو پائے گی اور کرپشن میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دے گی‘ تو میں سمجھتا کہ آئی ایم ایف پاکستان کی ترقی کا خواہاں ہے۔ اگر دیگر شرائط کے ساتھ کرپشن پر سزا کا قا نون بنانے کی شرط بھی شامل ہے تو پاکستان میں کرپشن برسوں کیا دنوں میں ختم ہو جائے گی۔ لیکن آئی ایم ایف ہم پر اتنا مہربان کیوں ہو نے لگا؟ اُن کو معلوم ہے کہ کرپشن ہی کی وجہ سے تو ہمارا یعنی آئی ایم ایف کا کاروبار چل رہا ہے۔ جتنی کرپشن ہوگی اتنا زیادہ قرضہ۔۔۔ اگر کرپشن پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے والے ممالک نے قا بو پا لیا اور ان کی ہدایات پر عمل کر لیا تو آئی ایم ایف کی دکان تو بند ہو جائے گی۔
ہمارے حکمران بھی پاکستانی حکمران ہیں جو کہتے ہیں ’’سنو سب کی مگر کرو اپنی‘‘ کیونکہ اس کرپشن کی وجہ سے نہ صرف آئی ایم ایف چل رہا ہے بلکہ بقول سراج الحق پاکستان کا چند فیصد اشرافیہ کا طبقہ بھی پل رہا ہے۔ اسی لیے حکو مت چاہے وردی والے کی ہو یا شیروانی والے کی‘ کو ئی بھی کرپشن کے خا تمے پر سنجیدہ کوششیں کرتا نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس حکو متی اقدامات کرپشن کو تحفظ دیتے نظر آتے ہیں جیسا کہ پلی بارگین کا قانون اس لیے بنایا گیا کہ بیورو کریسی کے ان افراد کو بچایا جا سکے یعنی اربوں کی کرپشن کرو اور کروڑوں ادا کر کے ’’پاک صاف‘‘ ہو جاؤ۔ وہ تو اللہ بھلا کرے عدلیہ کا جس نے قا نون بنانے والوں کو شرم دلائی اور پلی بارگین کا قا نون ختم کردیا۔ کیا ظلم ہے بیورو کریسی کے یہ حکومتی ا فسران اربوں کی کرپشن کرکے آزاد گھومیں اور پکڑا جائے تو بے چارا مسجد سے چپل چوری کرنے والا۔
اخبارات میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس دن کرپشن کے حوالے سے حکومتی اداروں سے متعلق خبر نہ ہو۔ فلاں ادارے میں اتنے کروڑ کی کرپشن‘ فلاں ادارے کے سربراہ نے حکو متی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔۔۔ مگر ساتھ ہی وزیر کے دوست یا رشتے دار ہو نے کی وجہ سے کارروائی سے بچ گئے۔ کرپشن کا شور کئی برسوں سے سن رہے ہیں لیکن حکو مت کرپشن کے خا تمے کے لیے سنجیدہ نظر نہیں آتی بلکہ جن ارکان اسمبلی نے کرپشن کے خلاف قانون بنانا ہے وہ خود کرپشن میں ملوث نظر آتے ہیں۔ قو می خزانے کو اپنی جاگیر سمجھنے والے مالم مفت دلِ بے رحم کی طرح ملکی وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ غربت کی چکی میں پس رہا ہے تو غریب۔ جس ملک میں اسپتالوں کی حالت زار ایسی ہو کہ پورا پورا دن مریض اسپتال کے باہر پڑے رہتے ہیں لیکن انھیں علاج کی سہو لیات میسر نہیں ہوتی‘ اُن اسپتالوں کا چیک اینڈ بیلنس کون کرے؟ عوام کے منتخب نمائندے مگر ان کی تو شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں آڈیٹر جنرل پاکستان کی جا نب سے گزشتہ مالی سال کے قومی اسمبلی کے اکاؤنٹس کی چا نچ پڑتال کی گئی جس کے نتیجے میں کروڑوں روپے کی بے قاعدگی سا منے۔ آئی ایک رکن اسمبلی نے اپنی آنکھ کا آپریشن لندن میں کرایا جس کا بل28 لاکھ روپے سے زائد کا ادا کیا گیا۔ معلوم نہیں کون سی آنکھ تھی جس کا اتنا مہنگا آپریشن ہوا۔ اتنے پیسوں میں تو الخدمت تقریباً 400 مریضوں کے آنکھ کا آپریشن کر دیتی مزے کی بات تو یہ ہے کہ کا بینہ ڈویژن نے ایک فیصلے کے تحت سرکاری خرچ پر بیرون ملک علاج کی سہو لت ختم کر دی تھی لیکن پھر بھی قا نون کو بالائے طاق رکھتے ہو ئے 10 کروڑ سے زائد رقم ارکان اسمبلی کو بیرون ملک علاج کرانے پر ادا کی گئی۔ ارکان اسمبلی کا قانون کے ساتھ یہ مذاق ملک اور قوم کے ساتھ بد دیانتی ہے۔ قانون کی حکمرانی کی باتیں کر نے والے صرف ٹاک شوز میں قانون کی عمل داری کر تے ہیں اس پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ کرپشن کرپشن کا شور مچانے والے پیسوں کے اتنے بھوکے ہیں کہ پارلیمنٹ لارجز میں جن ارکان اسمبلی کو گھر الاٹ کیے جا چکے ہوں وہ ہاؤسنگ الاونس نہیں لے سکتے لیکن یہ کرپشن کی انتہا ہے کہ جن ارکان اسمبلی کو گھر الاٹ تھے ان کو 8 کروڑ 68 لاکھ سے زائد کی رقم ادا کی گئی۔ یہ ہیں وہ ارکان اسمبلی جو قانون سازی کر تے اور خود ہی قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہیں۔ یہ وہ ’’غریب ارکان اسمبلی‘‘ ہیں جو انتخابی مہم میں کروڑوں روپے خرچ کر کے انتخابات جیتتے ہیں اور اربوں کماتے ہیں‘ ان کے اثاثہ جات دیکھے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان سے بڑھ کر کوئی غریب نہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’وزراء کے اثاثے دیکھ کر ان کو زکوٰۃ دینے کو دل کرتا ہے۔‘‘
زکوٰۃ کا نظام بھی ’’اندھا با نٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں کو‘‘ کے مترادف چل رہا ہے۔ حکومت کی نگرانی میں کرپشن کی ہنڈیا پک رہی ہے اور تمام ادارے کرپشن کے ذریعے کھا نے میں مصروف ہیں جبکہ حکومت کرپشن کا کیس سامنے آنے پر زیادہ سے زیادہ کارروائی کا حکم دیتی ہے لیکن اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کیو نکہ سب ایک ہی تھالی کے چٹھے بٹے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 2 ارب روپے کی کر پشن سا منے آئی لیکن تاحال اب تک کچھ نہیں ہوا اور ہوگا بھی کیسے۔۔۔؟ جو حکومت عدلیہ کے احکامات کو نظر انداز کر دیتی ہو وہ کرپشن کو کیسے روکے گی۔ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کے نئے سیکٹروں کی تعمیر کے لیے جو زمینیں خریدی گئیں ان میں گھپلوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ 8 ارب27 کروڑ سے زائد رقم خرچ کی گئی اور مارکیٹ ریٹ سے زیادہ ریٹ دیے گئے۔ اس طرح قومی خزانے کو 5 ارب 60 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا۔ اعلیٰ حکومتی افسران کا اربوں روپے کی کرپشن کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہ آنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ کرپشن کی چین میں سب جڑے ہو ئے ہیں‘ حکومتی ادارے عوام کو سہولیات دینے کے بجائے انہیں تنگ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
کے ایم سی کا ایک ریٹا ئرڈ ملازم پنشن جاری نہ ہو نے پر اپنے ہی ادارے کا چکر کاٹ کاٹ کر بالآخر دل برداشتہ ہوکر خودکشی جیسے اقدام پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا کیو نکہ کرپشن نے ان اداروں اور ان میں بیٹھے سرکاری ملازمین اور افسروں کے دل اتنے سخت کر دیے ہیں کہ انھیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون مرتا ہے کون جیتا ہے۔ ان کے دل نرم پڑتے ہیں تو صرف نوٹوں کی چمک دیکھ کر۔۔۔ اِدھر مٹھی گرم اُدھر کام ہو گیا۔ کرپشن کا شور ہر طرف ہے لیکن اس کرپشن کو تقویت کون دیتا ہے؟ اس ملک کے عوام ‘وزیراعظم اور حکومت میں بیٹھے لوگوں کی کرپشن پر سب نظر رکھتے ہیں۔ اپوزیشن کرپشن کے خلاف آواز اُٹھا کر‘ سارا زور لگا کر اپنی سیاسی دکان چمکاتی ہے۔ دیکھا جائے تو کرپشن کے حمام میں سوائے ایک دو جماعتوں کے‘ سب ننگے ہیں۔ میڈیا جھوٹ بول اور دکھا کر‘ عوام کی آنکھوں میں دھول جھو نک کر کر پشن کرتا ہے تو حکومتی ادارے مالی کرپشن کر کے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ کرپشن کے خلاف آواز اُٹھا نے والی اور اس کے خاتمے کے لیے سنجیدہ سیاسی جماعتوں نے عوام کو ہر انتخابات کے موقع پر یہی بات سمجھا نے کی کوشش کی کہ اگر کرپٹ لو گ اقتدار میں آئیں گے تو ملک میں کرپشن مزید بڑھے گی۔
جماعت اسلامی گزشتہ کئی برسوں سے یہ بات کہہ رہی ہے کہ چور ڈاکوؤں کا احتساب نہیں کر سکتا جس طرح دیمک چوکھٹ اور دروازے کو اندر سے چاٹ جاتی ہے تو دروازہ بدلنا پڑ تا ہے‘ اس کو رنگ کرکے خو شنما بنا نے سے کام نہیں چلتا کیونکہ دیمک کا کام لکڑی کو کھا نا ہے۔ اسی طرح باریاں لینے والے لوگوں نے اس ملک کو صرف لوٹا ہے‘ قسمت بدلی ہے تو صرف کرپٹ لوگوں کی غربت کی چکی میں پس رہا ہے تو پاکستان کا غریب طبقہ۔ اس غریب طبقے کے ہاتھ میں اپنی تقدیر بدلنے کا موقع آتا ہے لیکن کرپشن اُس وقت تک اپنا کھیل کھیل جاتی ہے۔ پاکستان کے عوام کو ان کرپٹ ٹو لوں کو مسترد کر کے کرپشن کے دروازے کو ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوگا۔ ملک کی ترقی اور خوشحالی اُسی وقت ممکن ہے جب عوام بیدار ہوں گے اور اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ملک اور قوم کی ترقی آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان کی پا لیسیوں سے جان چھڑانے میں ہے لیکن اس کے لیے عوام کو اقتدار کے دروازے سے کر پشن سے پاک ایمان دار ملک اور قوم سے مخلص قیادت کو بھیجنا ہوگا کیو نکہ کرپشن حکو مت کے ماتھے کا جھو مر نہیں بلکہ ایمان دار حکمران ہی حکو مت کے ماتھے کا جھو مر ہیں۔ اس حوالے سے اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی صالح حکمران مسلمانوں کو میسر آئے ہیں اُس ملک اور عوام کی تقدیر بدلی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ کس کا انتخاب کر تی ہے اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
افراد کے ہا تھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ