ظہیر خان

319

اُردو شاعری میں مہ کا ذکر کثرت سے آیا ہے اکثر شعرا نے بطور استعارہ بھی استعمال کیا ہے حالانکہ کچھ شعرا ایسے بھی ہیں جنہوں نے کبھی اس سے استفادہ نہیں کیا مگر ذکرِ مہ خوب کیا ہے۔ جس میں ریاض خیر آبادی سرِ فہرست ہیں۔ شاد عظیم آبادی کا ایک خوبصورت سا شعر ذہن میں آیا ہے۔ ذکرِ مہ ہے، بات استعارے میں کہی گئی ہے مراد دنیا ہے۔
یہ بزمِ مہ ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھکر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
مرزا غالب مہ کے رسیا تھے اپنی شاعری میں جابجا اس کا ذکر کرتے ہیں اس اعتراف کے ساتھ کہ اگر یہ موذی مرض انہیں لاحق نہ ہوتا توکیا ہوتا۔۔۔
’’تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘
مرزا ساری زندگی ’’اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘ کے واسطے قرض کی مہ پیتے رہے اور ان کی فاقہ مستی رنگ لاتی رہی۔ بعد از مرگ بھی غالب کی یہی تمنّا رہی۔۔۔
’’مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک ’بار‘ ہوتا‘‘
یہ ’بار‘ انگریزی زبان کا BAR بھی ہوسکتا ہے (غالب کے دور میں انگریز آچکا تھا) غالب کا ایک شعرا اس مصرعہ کی تصدیق بھی کررہا ہے۔۔۔
وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو کیا ہے
مرزا اس حد تک مہ کے عاشق تھے کہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔۔۔
کہتے ہوئے ساقی سے حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دُردِ تہِ جام بہت ہے
مرزا کا مہ کشی سے عشق دُردِ تہِ جام سے بھی آگے بڑھ گیا تبھی تو ایک جگہ اس کا اظہار اس انداز سے کرتے ہیں۔۔۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
حقیقت یہ ہے کہ غالب نے مہ نوشی ضرور کی مگر یہ ان کی مجبوری بن چکی تھی بقول ابراہیم ذوق ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ مرزا کو اس کا شدّت سے احساس تھا وہ اپنے اس عمل کو اچھا نہیں سمجھتے تھے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتے تھے۔۔۔
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
اور جب پیمانۂ صہبا ان کے آگے رکھ دیا جاتا تو اپنے جامِ سفال کو جامِ جم سے بہتر ثابت کردیتے دنیا کو بازیچۂ اطفال سے زیادہ اہمیت نہ دیتے۔ تختِ سلیمانی کو ایک کھیل اور اعجازِ مسیحا کو ایک معمولی سی بات کہہ دیا کرتے بقول الطاف حسین حالی۔۔۔
لاکھ مضموں اور اس کا ایک ٹھٹھول
سو تکلّف اور اس کی سیدھی بات
آئیے اب مرزا غالب کے ان اشعار کی طرف بھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں شاید مرزا کو انہیں اشعار کے سبب دعویٰ ہو کہ ’’تجھے ہم ولی سمجھتے ‘‘
ہم مُوَحِّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہوجانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہے خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں
اس طرح کے متعدد اشعار مرزا کے دیوان میں ملتے ہیں، میں نے چند پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ان صوفیانہ اشعار پڑھنے کے بعد آپ کیا فیصلہ کریں گے، غالب صوفی تھے یا ولی؟ فیصلہ کرنا ذرا مشکل ہے لہٰذا چھوڑیے ان باتوں کو ان جھگڑوں میں نہ آپ پڑیں نہ ہم۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ بھی تھے اردو ادب کی جان تھے۔
تو جہاں پہنچا وہاں عظمت کا طالب ہوگیا
بزمِ فکر و فن میں تیرا نام غالب ہوگیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ میرؔ کی شاعری ایک دلھن کی مانند تھی، اس دلھن کو زیوروں سے اگر کسی نے آراستہ کیا ہے تو وہ مرزا اسد اﷲ خاں غالب ہیں حالانکہ غالب نے اپنے اردو کلام کو بیرنگ کہا ہے۔ اپنے ایک فارسی شعر میں اسکا اظہار اسطرح کرتے ہیں۔
فارسی بیں تابہ بینی نقشہائے رنگ رنگ
بگزر از مجموعۂ اردو کہ بیرنگِ من است
یعنی اگر تمہیں شعر کی رنگینی دیکھنی ہے تو میرا فارسی کلام دیکھو میرا اردو مجموعہ تو بے رنگ ہے حیرت اس بات کی ہے کہ شاعر اپنے جس اردو کلام کو بے رنگ کہہ رہا ہے وہ کلام اردو ادب میں جو حیثیت اور مقام رکھتا ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔
مرزا کے ساتھ ایک مشکل اور در پیش تھی کہ وہ کچھ بھی کہہ لیں لیکن جب تک بادہ و ساغر کی بات نہ کہیں ان کی بات نا مکمل رہ جاتی تھی۔
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ایسی ایسی غزلیں کہہ گئے جس کی مثال نہیں ملتی۔ نثر نگار اپنی نثر کا عنوان رکھتا ہے تو غالب کے مصرعہ کا سہارا لیتا ہے، حتیٰ کہ شعرا کرام اپنے شعری مجموعہ کے عنوان کے لیے غالب کے مصرعہ کے ایک ٹکڑے کا انتخاب کرتے ہیں۔ غرضیکہ وہ بات جسے کہنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوتے ہیں اس کے لیے غالب کا ایک شعر اور کبھی کبھی ایک مصرعہ ہی کافی ہوتا ہے۔ مفسّرینِ قران نے اپنی بات کہنے کے لیے غالب کے اشعار استعمال کیے۔ غالب کا ایک ایسا شعر جو تفسیرِ قران میں بھی ملتا ہے۔ علماء کرام کی تقاریر اور تحاریر میں بھی، ہر کوئی اس سے مستفید ہوا ہے شعر ہی ایسا ہے۔۔۔
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘ مرزا کو نہ ستائش کی تمنّا تھی اور نہ صلہ کی پروا بس ایک دُھن تھی ایک فکر تھی جو مرزا کو کبھی عرش سے پرے مکاں ہونے پر اُکساتی اور کبھی بے در و دیوار سا ایک گھر بنانے پر۔ مرزا کی فکر کی پرواز انہیں یہاں تک لے گئی کہ رب سے بھی شکایت کر بیٹھے۔
ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
بہر حال غالب جیسا شاعر اردو ادب میں ابھی تک تو پیدا ہوا نہیں آگے کا کچھ پتا نہیں۔ ان کا انداز جداگانہ تھا۔ بقول دلاور فگار۔۔۔
بس ایک لفظ کے پردے میں داستاں کہنا
یہ فکر و فن کی بلندی اسی کا حصّہ ہے
مرزا کو ولی سمجھا جائے یا واعظ یا کچھ اور؟ بہتر یہی ہے کہ دلاورفگار کے اس شعر پر بات ختم کی جائے۔
کبھی ولی، کبھی واعظ، کبھی خراباتی
سمجھ سکو تو سمجھ لو، وہ اک معمّہ ہے

حصہ