افشاں نوید

217

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں کتنی اچھی لگتی ہیں۔ ان بڑے لوگوں میں بھی کچھ لوگ اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ قوموں کے لیے سرمایۂ افتخار ہوتے ہیں اور صدیاں اُن پر ناز کرتی ہیں۔ کسی صدی کو کسی بڑے ادیب یا شاعر یا سائنس دان وغیرہ سے منسوب کردیا جاتا ہے، اس کا اکرام آئندہ نسلوں کو بتانے کے لیے۔۔۔ مگر علامہ اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیسویں صدی اور اس کے بعد کی تمام صدیاں اقبالؔ کے نام ہیں۔ اب مزید کسی اقبالؔ کی ضرورت نہیں ہے، ضرورت اُن لوگوں کی ہے جو اقبال کا پیغام عام کریں۔
اس وقت ڈاکٹر جاوید اقبال کی ’’زندہ رود‘‘ میرے سامنے کھلی ہوئی ہے جو اقبال کی زندگی کا ورق ورق الٹ رہی ہے۔ پڑھتے پڑھتے آپ رک جاتے ہیں، ٹھیر کر سوچنے لگتے ہیں کہ کوئی انسان اقبالؔ کیسے بنتا ہے؟ کتنی حسّاسیت سے بچپن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے، شخصیت سازی کے لیے کس کے حوالے کیا جاتا ہے، خود کو کیسے عملی نمونہ بنا کر دکھایا جاتا ہے اس عمل کے دوران۔۔۔ اور پھر ہم موازنہ کریں اپنی نسلوں کا۔۔۔! ہم بچوں کو اسکول کے حوالے کرکے مطمئن۔۔۔ جتنا مہنگا اسکول اتنا والدین کے لیے باعثِ فخر۔۔۔ نہ اساتذہ کی شخصیت سے ہمیں غرض، نہ نصاب سے۔۔۔ غرض ہوتی ہے تو صرف اس سے کہ بچہ امتیازی نمبروں سے پاس ہو۔ اس کو بنانا کیا ہے؟ ڈاکٹر، انجینئر یا بزنس مین۔۔۔ سو‘ تعلیم گاہیں تھوک کے حساب سے ڈاکٹرز، انجینئرز اور مارکیٹنگ کی دنیا کو مطلوب افراد مہیا کررہی ہیں، مگر اقبال ثانی تو ان میں کوئی بھی نہیں۔ آئیڈیلزم کا پرستار ہونے کے باوجود ہم نے اپنے آئیڈیل بھی بدل لیے ہیں۔۔۔ آسائشوں کی دنیا کے ہم متلاشی ہیں کہ ہمارے بچے ہم سے زیادہ پُرتعیش زندگی گزاریں۔ نہ تعلیمی اداروں کے وہ ماحول، نہ گھروں کے، نہ ہم نے اپنی نسلوں کو رول ماڈل دیے۔۔۔ اور نتیجتاً وہ ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھنے لگتے ہیں اور کسی ’’چائے والے‘‘ کو ہی آئیڈیل بنا لیتے ہیں کہ راتوں رات وہ کیسے شہرت کے آسمان پر پہنچ گیا۔
ایک رسمی سا ’’اقبال ڈے‘‘ ہم میں سے کسی کو مجبور نہیں کرتا کہ جانیں کہ اُن کے والد شیخ نور محمد کا ذریعہ آمدن کیا تھا؟ اقبال کے گھر کا ماحول کیسا تھا؟ خود اقبال کا بچپن کیسے اور کن ہاتھوں میں گزرا؟ آیئے ان کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کی زبانی سنتے ہیں، کہ شاید اس میں ہمارے لیے کوئی نصیحت ہو، کوئی سبق ہو۔
’’زندہ رود‘‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ:
’’اقبال کے گھر کا ماحول انتہائی سادہ اور پاکیزہ تھا۔ گھر کی آمدنی کا ذریعہ شیخ نور محمد (والد) کی دکان تھی، گھر کا انتظام بی اماں کے ہاتھوں میں تھا۔ دکان کی آمدنی کم ہونے کے سبب ان کو پارچہ دوزی کی ملازمت بھی کرنا پڑی، مگر چونکہ پارچہ دوزی کا کام کم تھا اس لیے وہ اکثر بغیر کام کے رہتے، لہٰذا وہاں سے ملنے والے پیسوں کو اپنے لیے حلال نہیں سمجھتے تھے اور قلبی خلش کی بنا پر انہوں نے وہاں کی ملازمت ترک کردی۔ اس کے بعد دکان پر ٹوپیاں، کلاہ سینے اور برقعے بنواکر فروخت کرنے لگے۔ وہ تصوف کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔ روٹی کمانے کے دھندے سے فراغت کے بعد ان کا بیشتر وقت علما اور فضلا کی صحبت یا یادِ الٰہی میں گزرتا۔ ان کے گھر میں فتوحات مکیہ اور فصوص کا درس ہوا کرتا تھا۔ اقبالؔ خود تحریرکرتے ہیں کہ چار برس کی عمر سے میرے کانوں میں ’’فتوحات‘‘ اور ’’فصوص‘‘ کا نام اور تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ گو بچپن کے دنوں میں مجھے ان مسائل کی سمجھ نہ تھی، تاہم محفلِ درس میں ہر روز شریک ہوتا۔ بعد میں جب عربی سیکھی تو کچھ کچھ خود بھی پڑھنے لگا۔ جوں جوں علم اور تجربہ بڑھتا گیا، میرا شوق اور واقفیت زیادہ ہوتی گئی۔ ہزار کتب خانے ایک طرف اور باپ کی نگاہِ شفقت ایک طرف۔ اسی واسطے جب کبھی موقع ملتا ہے ان کی گرمئ صحبت سے مستفید ہوتا ہوں۔ پرسوں شام کسی عزیز کا ذکر کررہے تھے کہ ان کا حال ہی میں انتقال ہوگیا ہے، کہنے لگے: معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے؟ اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ تقریباً بے ہوش ہوگئے اور رات دس بجے تک یہی حالت رہی۔ یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیرانِ مشرق سے ہی مل سکتے ہیں۔ یورپ کی درس گاہوں میں ان کا نشان نہیں۔‘‘
کسی بھی بڑے آدمی کی شخصیت کا آپ کھوج لگائیں تو اس کے والدین یا اساتذہ میں سے کسی کی شخصیت کا بہت گہرا اثر اس پر نظر آئے گا۔ علامہ اقبال کی خوش بختی ہے کہ ان کو سید میر حسن جیسے استاد میسر آئے۔ ان استادوں سے رہنمائی پانے والے اساتذہ بھی آج ہمیں کتنے نظر آتے ہیں، سوچنے کی بات ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ان کے استاد کا کردار بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’میر حسن دین اور دنیا کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر اپنے شاگردوں کی تربیت کرتے تھے۔ وہ علومِ اسلامی، عرفان و تصوف، جدید علوم ادب، لسانیات اور ریاضیات کے ماہر بھی تھے۔ ان کا طریقہ تدریس اتنا جامع تھا کہ وہ اپنے شاگردوں میں اردو، فارسی اور عربی کا صحیح لسانی اسلوب پیدا کردیتے تھے۔ وہ ایک کثیرالمطالعہ، راسخ العقیدہ، عبادت گزار اور مجسم اخلاق شخصیت تھے۔ ان کا معمول تھا کہ نمازِِ تہجد یا فجر کے بعد ہر روز قبرستان جاتے، اعزہ و اقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے، شاگرد یہیں اُن سے آ ملتے اور راستہ بھر اُن سے سبق لیتے۔ گھر پہنچ کر پھر تدریس میں مصروف ہوجاتے۔ دن بھر اسکول، شام سے رات تک گھر پر تدریس کا سلسلہ جاری رہتا۔ ان کی زندگی انتہائی سادہ تھی، وفات تک ان کی تنخواہ 120 روپے ماہانہ رہی۔ اقبال کی شخصیت میں عربی، فارسی، اردو ادبیات، علم و حکمت، تصوف، سادگی، قناعت، استغنا، ظرافت اور بزلہ سنجی سید میر حسن کے مزاج کا عکس تھا۔ اقبال اُن کا احترام اس درجہ کرتے کہ کبھی اُن کے روبرو شعر نہ کہا۔ اقبال کو 1923ء میں جب ’’سر‘‘ کے خطاب کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے سید میر حسن کی خدمات کے اعتراف کا تقاضا کیا۔ گورنر پنجاب نے استفسار کیا کہ ’’ان کی کوئی تصنیف ہے؟‘‘ اقبال نے جواب دیا کہ ’’میں خود ان کی تصنیف ہوں‘‘۔ جس پر ان کے استاد کو بھی ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
اقبال نے اپنے استاد سے اپنے جذبات کا اظہار اس شعر میں کیا ہے:
مجھے اقبال اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں، وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
ڈاکٹر جاوید اقبال رقم طراز ہیں کہ ’’ذہانت میں اپنے ہم عمروں سے آگے ہونے کے باوجود انہیں کبوتر پالنے، پتنگیں اڑانے اور اکھاڑے میں ورزش کرنے کا شوق تھا۔ اقبال گھنٹوں کبوتروں کی پرواز سے بھی لطف اندوز ہوتے۔ (آہ! یہ دور کہ اقبال کے شاہین آسمانوں کی طرف دیکھتے تک نہیں کہ انہوں نے ٹچ موبائل کی اسکرین پر بسیرا کرلیا ہے)۔ والدین میں خصوصاً والد سے انہیں جس طرح کی تربیت ملی اس بارے میں عطیہ فیضی نے اپنی انگریزی تصنیف ’’اقبال‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اقبال کے والد نے کسی ولی کی رہنمائی میں کئی ماہ تنہائی میں گزارے تھے اور انہیں جو روحانیت حاصل ہوئی وہ انہوں نے اپنے بیٹے میں منتقل کردی۔
ایک واقعہ اقبال نے اپنے والد کی شخصیت کے متعلق ’’رموزِ بے خودی‘‘ میں نظم کیا ہے: ایک دفعہ کوئی سائل بھیک مانگتا ہوا ان کے گھر کے دروازے پر آکھڑا ہوا اور اس کے بار بار صدا لگانے پر اقبال کو طیش آگیا اور اسے دو، تین تھپڑ دے مارے، جس کی وجہ سے اس کی جھولی میں جو کچھ تھا، زمین پر گر کر منتشر ہوگیا۔ والد ان کی اس حرکت پر انتہائی آزردہ ہوئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ فرمایا ’’قیامت کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد غازیانِ اسلام، حکماء، شہداء، زہاد، صوفیہ، علما اور عاصیانِ شرمسار جمع ہوں گے تو اس مجمع میں اس مظلوم گداگر کی فریاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ مبارک کو اپنی طرف مرتکز کرلے گی اور آپؐ مجھ سے پوچھیں گے کہ تُو نے اپنے بیٹے کی کیا تربیت کی؟ تو میں اپنے آقا و مولا کو کیا جواب دوں گا؟ بیٹا اس مجمع کا خیال کر اور میری سفید داڑھی دیکھ، اور دیکھ میں خوف اور امید سے کس طرح کانپ رہا ہوں؟ باپ پر اتنا ظلم نہ کر اور خدارا میرے مولا کے سامنے مجھے یوں ذلیل نہ کر۔ تُو تو چمنِ محمدیؐ کی ایک کلی ہے، اس لیے اس چمن کی بہار سے رنگ و بو پکڑ، تاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی خوشبو تجھ سے آسکے‘‘۔ (یقیناًکسی بچے کو اقبال بنانے کے لیے اس کے باپ سے اس سے کم تر کسی کردار کی توقع کی بھی نہیں جاسکتی)
خود اقبال بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سیالکوٹ میں پڑھتے تھے تو روزانہ صبح تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کے والدِ گرامی درود و وظائف سے فراغت کے بعد انہیں دیکھ کر خاموشی سے گزر جاتے۔ ایک دن صبح سویرے فرمایا: کبھی فرصت ہوئی تو تمہیں ایک بات بتاؤں گا۔ آخر اقبال کے اصرار پر بتا دیا۔ فرمایا: بیٹا مجھے تم سے یہ کہنا تھا کہ جب تم قرآن مجید پڑھو تو یہ سمجھ کر پڑھو کہ قرآن تم پر ہی اترا ہے اور تم سے ہی اللہ کلام کر رہا ہے۔ غالباً ایک شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے:
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف
اقبال مزید بیان کرتے ہیں ایک دن والد مرحوم نے مجھ سے کہا کہ میں تمہاری تربیت کا تم سے معاوضہ چاہتا ہوں۔ میں نے شوق سے پوچھا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کسی موقع پر بتاؤں گا۔ چنانچہ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ بیٹا میری محنت کا معاوضہ یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کرنا۔ اس کے بعد میں نے امتحان دے کر کامیابی حاصل کی، ساتھ ہی میری شاعری کا چرچا پھیلا۔ نوجوانوں کے لیے اسلام کا ترانہ اور دوسری نظمیں لکھیں۔ انہی دنوں میرے والد مرض الموت میں گرفتار ہوگئے، میں انہیں دیکھنے لاہور آیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ سے میں نے جو اسلام کی خدمت کا عہد کیا تھا وہ پورا کیا یا نہیں؟ انہوں نے بسترِ مرگ پر شہادت دی کہ تم نے میری محنت کا معاوضہ ادا کر دیا۔
1893ء سے 1899ء تک اس دور کی دیگر خصوصیات میں ایک یہ ہے کہ اقبال کی توجہ اپنے گردونواح کی طرف مبذول ہونے کے بجائے زیادہ تر اپنی ذات پر مرتکز تھی، چنانچہ 1910 میں خود اقبال نے تحریر کیا کہ ’’میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے بیگل، گوئٹے، مرزا غالب، عبدالقادر بیدل، ورڈز ورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ بیگل اور گوئٹے نے اشیاء کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی، بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمو لینے کے باوجود اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں، اور ورڈز ورتھ نے زمانۂ طالب علمی میں مجھے دہریت سے بچالیا۔‘‘
اقبال کی تعلیم و تربیت روایتی اسلامی نہج پر ہونے کے باوجود اگر ان کے متجسس ذہن اور شاعرانہ قلب نے ورڈز ورتھ کے مطالعے سے عقلیت کے کھوکھلے پن کا ایک قابلِ فہم جواب پالیا تو یہ ان کی سلامتی طبع کی دلیل تھی کہ وہ اپنے عہد کے مادہ پرستانہ نظریات سے اثر قبول کرنے کے باوجود ان سے گمراہ نہ ہوئے۔
انسان کے اصل اساتذہ تو اس کے والدین ہی ہوتے ہیں جن سے جو کچھ شعوری یا غیر شعوری طور پر حاصل کیا جاتا ہے اس کے نقوش نہایت گہرے اور ان مٹ ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ اقبال کے گھر کا ماحول ایک ایسا دین دارانہ اور درویشانہ ماحول تھا جس میں محبت اور شفقت کے ساتھ عزت و احترام کا بڑا دخل تھا۔ آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم اپنے بچوں سے اپنے فاصلے کم کریں اور تمام توجہ گھروں کے ماحول پر دیں کہ اپنے بچوں کو پیغامِ اقبال سے آشنا کرنا اس وقت سب سے بڑی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ ہے کہ ہم جہانِ نو کو پیدا ہوتے اور عالمِ پیر کو مرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

حصہ