پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب کے انتقال کی خبر سن کر ماضی کے دریچوں سے بہت سی یادیں دوبارہ زندہ ہوئیں۔ میری نسل کے لوگوں کو خوب اچھی طرح یاد ہوگا کہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں مادرِ علمی جامعہ کراچی کی وقعت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ڈگری حاصل کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی سے امتحان دینا بہت آسان تھا۔ کراچی میں موجود ایجنٹوں کے نام پتے ملک بھر میں ضرورت مندوں کو دستیاب تھے۔ لوگ خط کتابت کے ذریعے رابطہ کرتے، اپنی اسناد کی نقول، تصاویر اور فیس بھجواتے اور جب امتحان کا پروگرام آجاتا تو ٹرینوں اور بسوں میں بیٹھ کر قافلوں کی صورت یہ لوگ کراچی کا رخ کرتے۔
مجھے خوب یاد ہے کہ کئی جاننے والے اور دور پرے کے شناسا امتحان دینے کے لیے کراچی آئے اور ہمارے گھر بھی ٹھیہرے۔ جب یہ لوگ کراچی پہنچ جاتے تو ایجنٹ حضرات امتحانی مراکز بتا کر دیگر میٹریل بھی فراہم کرتے۔ اُس زمانے میں بی اے کے مراکز کالجوں میں قائم ہوتے تھے، جہاں نقل مافیا کا راج تھا۔ یوں ان پردیسیوں کی عید ہوجاتی اور محض کراچی کے دو چکر لگاکر گریجویٹ کہلاتے۔
یہ تماشا جاری تھا، انتظامیہ بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ جامعہ کراچی کی گرتی ہوئی ساکھ اور بے وقعتی پر اہلِ علم نوحہ کناں تھے۔ اور پھر کچھ یوں ہوا کہ بہی خواہوں نے سرجوڑ کر ایک فیصلہ کیا کہ شیخ الجامعہ کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالوہاب کو ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ ان کا نظم و ضبط، اصول پسندی اور انتظامی صلاحیت کسی سے پوشیدہ نہ تھی۔ وہ اصولوں پر سمجھوتا کرنا نہیں جانتے تھے۔ اس لیے بڑی توقعات اور مکمل اختیارات کے ساتھ وہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر عبدالوہاب کے شیخ الجامعہ مقرر ہوتے ہی ایک انقلاب برپا ہوا۔ پردیسی پنچھیوں نے ایک دو سال تک کوششیں کیں مگر جب پَر سمیٹ کر واپسی کا سفر کرنے کے سوا چارہ نہ رہا تو ڈاکٹر صاحب کی مخالفت شروع ہوئی۔ لوگ ان کی سخت انتظامی پالیسی اور اصول پسندی پر ناراض تھے کیونکہ انہوں نے نقل مافیا کو قابو کرنے کے لیے جو طریقہ اپنایا تھا وہ وقتی پریشانی کا سبب تو ضرور تھا مگر اس کے دوررس نتائج بڑے خوشگوار آئے۔
ڈاکٹر عبدالوہاب نے کالجوں کے مراکز ختم کرکے تمام طلبہ کے لیے بالخصوص جامعہ کراچی میں سینٹر قائم کیا، جہاں نقل کی روک تھام اور غیر قانونی ذرائع کے خاتمے کو یقینی بنانے کی ایسی کوششیں سامنے آئیں کہ طلبہ ایک بار پھر پڑھنے اور امتحان کی مکمل تیاری کی طرف راغب ہونے لگے۔ بلاشبہ ان اقدامات کی بدولت جامعہ کراچی کی اہمیت اور وقعت میں بھی اضافہ ہوا اوریہاں سے ڈگری حاصل کرنے والوں کو بھی اپنی قابلیت کے اعتبار سے ثمر حاصل ہونے لگا۔
استادوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب 1939ء میں ریاست ٹونک کے موجودہ صوبہ راجستھان میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے۔ 1954ء میں میٹرک کا امتحان اور بعدازاں سندھ مدرسۃ الاسلام سے گریجویشن کرکے آئی بی اے (I.B.A) کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی، جس کے بعد بیرونِ ملک سے پہلے ایم بی اے (MBA) اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کی اصول پسندی، انتظامی صلاحیت اور نظم و ضبط اپنی مثال آپ تھا۔ اس لیے آئی بی اے کو مملکتِ خداداد پاکستان میں ہونے کے باوجود بین الاقوامی معیار کا ادارہ تسلیم کیا جانے لگا۔ اختیارات اور اصول پسندی میں سے جب کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو اصول پسندی کو مقدم جانتے۔ اپنی یادداشتوں میں اُس موقع کو یاد کرکے بڑے ملول اور افسردہ ہوئے کہ جب چند نمبروں کی کمی کی بنا پر میرٹ کا خون کرنے کے بجائے اپنے بیٹے کو داخلے سے محروم رکھنے کو ترجیح دی۔ کہنے لگے: ’’اُس رات اپنی اِس اصول پسندی پر رہ رہ کر افسوس ہوا اور شب آنکھوں میں کاٹ دی‘‘۔ جو شخص اپنے بیٹے کے لیے اصولوں پر سمجھوتا نہ کرسکتا ہو وہ بھلا کسی بڑے سے بڑے حکم کو کیسے خاطر میں لاتا!
صدر جنرل ضیاء الحق نے بہاولپور کے ایک نوجوان کو آئی بی اے میں داخلہ دینے کی سفارش کی۔ براہِ راست انکار تو نہ کیا۔ نوجوان کو ہاسٹل میں ٹھیرایا، جہاں کے قیام اور آئی بی اے کے تعلیمی ماحول سے گھبرا کر وہ خود ہی راہِ فرار اختیار کرگیا۔
ڈاکٹر عبدالوہاب نے نوجوانوں کے لیے یہ مشورہ دیا کہ وہ اپنے خوابوں کو آنکھوں میں سجانے اور ان کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے عملی جدوجہد بھی کریں۔ تمام تر تیاری کے بعد جب ناکام ہوجائیں تو ہمت ہار کر بیٹھنے کے بجائے ایسے لوگوں کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں جنہوں نے سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنے اور راہیں مسدود ہونے کے باوجود آگے بڑھنے کی ایسی مثال قائم کی ہے جو لازوال بن گئی ہے۔ خاص طور پر نبی آخر الزماںؐ، خلفائے راشدین اور اقوام عالم کی بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کی زندگیوں کا مطالعہ ظاہری ناکامی کے بعد آگے بڑھنے میں معاون و مددگار ہوسکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے محمد علی جناح یونیورسٹی تک کے سفر میں ان کی ثابت قدمی، اصول پسندی، وقت کی پابندی، بہترین انتظامی پالیسی، پہلے خود اور بعد میں دوسروں سے قواعد کی پابندی کی توقع، ایسے رہنما نکات تھے جو انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بقائے دوام بخشنے کا باعث بنے۔ وہ دوسروں کی عزت کرنا جانتے تھے، اس لیے لوگ ان کی عزت و احترام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت کرنے کی سکت نہ پاتے تھے۔
(باقی صفحہ 41پر)
بلاشبہ بعض سخت اقدامات معاشرے کی بھلائی اور فلاح و کامرانی کے لیے ضروری ہوا کرتے ہیں۔ مجھے خوب یاد ہے کہ ایران کے روحانی قائد آیت اللہ خمینی نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’’اگر انگلی کاٹ کر پورے جسم کو بچانا مقصود ہو تو ناسور کو جسم میں پھیلنے سے روکنے کے لیے انگلی کا کاٹنا ہی بہتر ہے‘‘۔
شاید یہی اصول پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب کے مدنظر بھی رہا ہوگا کہ انہوں نے وقتی مخالفتوں اور احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اس مادر علمی کو بلند مقام تک پہنچانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں تج دیں۔
آج پروفیسر ڈاکٹر عبدالوہاب ہمارے درمیان موجود نہیں مگر تعلیم کے میدان میں کامیابیوں کے جس سفر کو وہ جاری رکھے ہوئے تھے وہ آج بھی جاری ہے۔ خاص طور پرجامعہ کراچی کی انتظامیہ انہی اصولوں پر آگے بڑھنے کی کوشش میں ہے۔ کبھی کبھی قدم لرزہ براندام نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے وقتی مصلحتوں اور اربابِ اختیار کے خوف کے پیش نظر جرأت و ثابت قدمی میں کوئی کمی رہ جاتی ہو، مگر آج بھی ڈاکٹر عبدالوہاب کا پیغام ہمارے لیے رہنما اصول ہو سکتا ہے کہ نامساعد حالات اور بدنظمی کے باوجود ہمت و استقامت کے ساتھ بلاخوف و خطر آگے بڑھا جائے تو راہ میں آنے والی رکاوٹیں ان شاء اللہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔