صوبائی دارالحکومت کوئٹہ دہشت گردی کی زد میں ہے۔8 اگست بھاری تھا تو اکتوبر بھی اُن کے لیے قیامت کا سماں پیش کررہا تھا۔ ان دونوں المناک واقعات میں کسی وزیر کی آنکھ نم نہ تھی حالانکہ ان کی نگاہوں کے سامنے ایک میت نہیں کئی درجن میتیں پڑی ہوئی تھیں۔ نہ کوئی وزیر مستعفی ہوا، نہ وزیر داخلہ نے نشست چھوڑی، نہ کسی سیاسی پارٹی کے اراکین اسمبلی نے حکومت سے علیحدہ ہونا پسند کیا۔ بیانات کا ایک طوفان ہے۔ وزیراعلیٰ سے لے کر ایک عام وزیر تک بیانات کے گولے برسارہے ہیں۔ شعلہ فشانی دیدنی ہے۔ مگر وہ صرف لفظوں سے کھیل رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف آخری حد تک جائیں گے اور جنگ کریں گے، کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ فرماتے ہیں کہ ’’دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو عبرت کا نشان بنادیا جائے گا۔‘‘ وزیراعلیٰ نے پولیس تربیتی مرکز انکوائری رپورٹ 24 گھنٹے میں طلب کرلی اور یہ بیان 24اکتوبر کو شائع ہوا تھا، لیکن ابھی تک رپورٹ ندارد ہے۔۔۔۔ اور وزیراعلیٰ کا دلچسپ بیان تھا کہ ’’کوئٹہ بڑی تباہی سے بچ گیا۔‘‘
موصوف نے 8 اگست کے واقعے پر بیان جاری کیا تھا کہ دہشت گرد بھاگ رہے ہیں اور خوف سے مذموم کارروائیاں کررہے ہیں۔ اب 61 جوانوں کی شہادت پر ان کا بیان شائع ہوا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ کوئٹہ کو بچالیا گیا ہے۔ یہ ان کی عجیب و غریب منطق ہے جو وہ بیان فرما رہے ہیں۔ ان کا ایک اور بیان ملاحظہ ہو ’’ہم نے بلوچستان کو عراق اور شام بننے سے بچالیا ہے‘‘۔ دوسری جانب ایف سی کے آئی جی میجر جنرل نے اُس رات بیان دیا کہ کوئٹہ کے دہشت گردی کے اس واقعے میں لشکر جھنگوی العالمی ملوث ہے۔ ان کا یہ بیان رات بھر چلا اور صبح اخبارات میں داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی اور تین دہشت گردوں کی تصویر بھی شائع کردی۔ اس بے خبری کو کیا نام دیا جائے! اور اس بیان کے ساتھ اُن کا یہ بھی بیان تھا کہ محرم الحرام میں ہم نے بڑے حملے کا منصوبہ ناکام بنادیا تھا۔ یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دہشت گردوں کا وہ کیا منصوبہ تھا۔ ہمارے وزیراعلیٰ کا ایک اور دلچسپ بیان ملاحظہ ہو ’’ہمارے پاس دہشت گردوں کے حملے کی اطلاع موجود تھی‘‘۔ اور کہتے ہیں کہ شہر میں موقع نہ ملنے پر دہشت گردوں نے پولیس تربیتی مرکز پر حملہ کردیا۔ یاد رہے کہ جب سول اسپتال میں وکلا پر حملہ ہوا تو صوبائی وزیرداخلہ کا بیان تھا کہ دہشت گردوں نے Soft Place کو تلاش کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئٹہ کی ایک ایک سڑک پر ایف سی کے جوان کھڑے نظر آتے ہیں، تو اُس وقت وہ انتظامات کہاں تھے جب دہشت گردوں نے حملہ کیا اور درجنوں وکلا اس کا نشانہ بن گئے؟ دہشت گردوں کے لیے حکومتِ بلوچستان کے اقدامات کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنی کارروائی کرتے ہیں، اور اُن تک حکومتِ بلوچستان اب تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ صرف بھارت اور افغانستان کا نام لے کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔
وفاقی وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ دشمن کمزور ہوا ہے ختم نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ دشمن ختم نہیں ہوا تو کیا اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور عام بے گناہ لوگ لقمہ اجل بنتے رہیں گے؟ جب حملہ ہوا تو بقول حکومتِ بلوچستان کے اُس وقت سینٹر میں 700 کیڈٹ موجود تھے اور صوبائی وزیرداخلہ کا بیان ہے کہ بروقت کارروائی سے نقصان کم ہوا۔61 نوجوان موت کے منہ میں چلے گئے اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ کیایہ نقصان کم ہے؟ سیکورٹی پر حکومتِ بلوچستان 30 ارب روپیہ سالانہ خرچ کرتی ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کالج کی مٹی کی دیواریں حکومت کا منہ چڑا رہی ہیں جبکہ 6 ستمبر کو آئی جی بلوچستان نے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کالج کی دیواروں کو پختہ کیا جائے لیکن وزیراعلیٰ اس پر توجہ نہیں دے سکے اوریہ حادثہ ہوگیا۔
کوئٹہ سے سریاب کے آخری حصے تک یہ علاقہ مسلسل دہشت گردی کی زد میں ہے۔ 10 کلومیٹر کے اندر اندر تمام دہشت گرد کارروائیاں ہورہی ہیں۔ اس علاقے میں یونیورسٹی کے پروفیسر جس میں خاتون پروفیسر بھی شامل ہیںٍ، قتل ہوئے۔ اس کے مغربی حصے میں ہزارہ قبائل کے لوگ مارے گئے اور خواتین یونیورسٹی کی بس پر حملہ ہوا جس میں کئی لڑکیاں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر بھی مارے گئے۔ ہزارہ ٹاؤں پر حملہ ہوا، سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ سریاب روڈ پر چند سال قبل پولیس کے جوان بس میں کوئٹہ آرہے تھے، یہ پولیس ٹریننگ کالج سے گھروں کو جارہے تھے کہ ان پر حملہ کیا گیا اور ہزارہ برادری کے 20 کے قریب کیڈٹ قتل ہوگئے جس کی سپاہ صحابہ نے ذمہ داری قبول کرلی۔ اس واقعے کے بعد جنرل راحیل شریف، وزیراعظم نوازشریف تشریف اور وزیرداخلہ چودھری نثار آئے۔ اے این پی کے اسفند یار ولی، جماعت اسلامی کے سراج الحق، پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو زرداری، عمران خان، ایم کیو ایم کے فاروق ستار بھی آئے اور اسپتال میں زخمی نوجوانوں کی مزاج پرسی کی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کا موقف تھا کہ یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ جس طرح پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے واقعے کے بعد فوج اور سیاسی جماعتوں کا اجلاس ہوا بالکل اسی طرز پر کوئٹہ کے واقعے پر اجلاس بلایا جانا چاہیے تھا لیکن حکومت خاموش ہے، اگر حکومت نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو پھر سیاسی پارٹیاں قدم اٹھالیں گی اور جماعت اسلامی یہ کام کرے گی۔ اس حملے میں کام آنے غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے پسماندگان کی کفالت حکومت کے ذمے ہے، ان کے بچوں کے تعلیمی و دیگر اخراجات حکومت پورے کرے۔ سراج الحق نے اس پر شدید احتجاج کیا کہ شہید ہونے والے سپاہیوں کی لاشوں کو ویگنوں کی چھتوں پر چارپائیوں پر رکھ کر گھر پہنچایا گیا، یہ اپنی ڈیوٹی پر تھے اور شہید ہوگئے۔ انہوں نے ملک کی خاطر قربانی دی ہے، ان شہیدوں کی لاشوں کو اس طرح لے جانا ان کی بے عزتی تھی، یہ عجیب معاملہ ہے کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے، اس کے بعد عام شہریوں کی تلاشی شروع ہوجاتی ہے، پورے شہر میں ایف سی کی چوکیاں بنی ہوئی ہیں، یہ تلاشی لیتے ہیں اور گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ یہ اس طرح قوم کی توہین نہ کریں۔ 30 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی عوام محفوظ نہیں ہیں، اس سب کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کوئٹہ کے واقعے کے حوالے سے سینیٹ میں قرارداد جمع کروادی ہے تاکہ اس پر بحث ہوسکے۔
دہشت گردی کے اس واقعے میں فوج کے ایک کیپٹن روح اللہ اور صوبیدار محمد علی شہید ہوئے، اس کے علاوہ کئی فوجی زخمی بھی ہوئے۔ فوج کی کمان کی جانب سے کیپٹن کے لیے تمغہ جرأت اور صوبیدار کے لیے تمغہ بسالت کا اعلان کیا گیا ہے۔
کوئٹہ سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کوئٹہ کینٹ کوئٹہ کے شمال میں پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔ برطانیہ نے جب بلوچستان پر قبضہ کرلیا تو کوئٹہ کینٹ کی تعمیر کی اور کوئٹہ پہنچنے کے لیے ریلوے لائن تعمیر کی اور کئی سرنگیں بنائیں جن میں سے ٹرین گزرتی ہے۔ یہ تمام انتظامات جو تاجِ برطانیہ نے کیے وہ سوویت یونین کو روکنے کے لیے تھے، اور اس مقصد کے لیے کوئٹہ سے ایران کے بارڈر تک اور دوسری طرف کوئٹہ سے چمن بارڈر تک ریلوے لائن تعمیر کی، بلوچستان میں 25 ایئرپورٹ تعمیر کیے۔ یہ جنگِ عظیم کے دوران تعمیر کیے گئے۔
کوئٹہ کینٹ اور کالج کا فاصلہ 10کلومیٹر تک کا ہے۔ ظاہر ہے اتنے فاصلے تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے، لیکن فوج نے جس چابک دستی سے کام لیا وہ قابل تعریف ہے۔
دہشت گردی کے اس واقعے کے بعض عینی شاہدین کا بیان ہے کہ جب رات کو یہ دہشت گرد داخل ہوئے تو کالج کے مختلف حصوں میں بعض کیڈٹ ٹی وی دیکھ رہے تھے اور خوش گپوں میں مصروف تھے۔ دہشت گرد گیٹ سے داخل ہوئے اور اندر سے اسے لاک کردیا اور پہلا حملہ گارڈ پر کیا جو مسلح تھا۔ اس کے بعد وہ کالج کے مختلف حصوں میں داخل ہوئے اور بے دریغ فائرنگ شروع کردی اور پولیس کے نوجوان سنبھل بھی نہیں سکے۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ وہ پوچھتے پھر رہے تھے کہ کوئٹہ کے سپاہی کس کمرے میں ہیں۔ کوئٹہ کے سپاہی اپنے ساتھیوں سے روز ملنے آتے تھے اور مل کر گپ شپکرکے اپنے گھروں کو دس بجے تک واپس چلے جاتے تھے۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ دہشت گرد اس ہال کی جانب گئے جہاں کوئی پولیس کے 200 جوان بیٹھے ہوئے تھے۔ دہشت گردوں نے پہلے فائر کھولا، اس کے بعد بم پھینکے،پھر کیمیکل استعمال کیا۔ یہ ایک ایسا کیمیکل ہے جوفوراً آگ بھڑکا دیتا ہے۔ اس میں R.D.S پاؤڈر استعمال ہوتا ہے۔ یہ مواد کم وقت میں زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے دھماکے سے انسانی جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ امریکہ میں تیار ہونے والا یہ کیمیکل دنیا بھر میں دہشت گرد استعمال کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے پاس جدید اسلحہ تھا، اور وہ بارود سے بھری جیکٹیں پہنے ہوئے تھے۔ ان دہشت گردوں کو جہاں بھی موقع ملا فائرنگ کی۔انہوں نے لگ بھگ 300 لوگوں کو یرغمال بنالیاتھا جنہیں فوج ان کو چھڑالیا۔ ایک گھنٹے سے کم وقت میں فوجی جوانوں نے اپنا کام مکمل کرلیا اور ان سب کو مار دیا۔ فوج کو ہیلی کاپٹر کی مدد حاصل تھی۔ اب حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا ہے جس نے ایس ایس پی انوسٹی گیشن اعتزاز گورایا کی سربراہی میں کام شروع کردیا ہے۔ اس کمیشن کے مطابق ابتدائی طور پر معلومات حاصل ہوئی ہیں کہ دہشت گردوں نے غیرملکی ساخت کا اسلحہ، دستی بم اور بارودی مواد بھی استعمال کیا ہے۔ موقع سے زیر استعمال کلاشنکو ف اور گولیاں ملی ہیں، پستول بھی ملا ہے۔ 25 اکتوبر سے اب نومبر شروع ہوچکا ہے مگر اب تک کوئی مکمل رپورٹ سامنے نہیں آسکی ہے۔ عوام پوچھتے ہیں کہ 8 اگست کے واقعے کی رپورٹ کہاں ہے؟ اور اب 24 اکتوبر کی رپورٹ کا کیا بنے گا؟ کیا حکومتی ادارے دہشت گردوں تک پہنچ سکیں گے؟ اورکیا ان واقعات کے بعد اس قسم کے واقعات نہیں ہوں گے؟ پاکستان امریکہ کے جس کھیل میں پھنسا دیا گیا ہے یا الجھادیا گیا ہے اس کے اثراتِ بد دور تک پاکستان پر پڑیں گے۔ پاکستان کو مکمل آزاد اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی اپنانا ہوگی اور امریکی حصار سے نکلنا ہوگا تب جاکر پاکستان امن کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔
nn