زاہدعباس

420

بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر
یہ گانا سن کر میرے ذہن میں آتا ہے کہ اس دور میں لوگوں کے چلنے کے لیے چوڑے چوڑے فٹ پاتھ ہوا کرتے ہوں گے اور سڑکیں صرف گاڑیوں کے لیے مخصوص ہوتی ہوں گی۔ میں نے جب سے ہوش سنبھال،ا اپنے بڑوں سے یہی سنتا آیا ہوں کہ ایک زمانہ تھا، جب کراچی صاف ستھرا شہر ہوا کرتا تھا، روشنیوں کے شہر کی بات ہی کچھ نرالی تھی۔ کچرے کا نام نہ تھا، نہ ہی گٹر اُبلتے تھے اور رات میں ٹریفک کی آمدورفت کم ہوتے ہی پانی کے ٹینکر سڑکوں کی دھلائی کرتے ہوئے دکھائی دیتے۔ جن لوگوں نے بھی یہ مناظر دیکھے ہیں، وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ روشنیوں کی وجہ سے شہر کی چمکتی سڑکیں ایک الگ ہی منظر پیش کرتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے لگائے گئے درخت شہر کی خوب صورتی کو مزید چار چاند لگاتے تھے۔ پورا شہر سرسبز وشاداب دکھائی دیتا تھا۔ یہاں رہنے والوں کا یہ معمول تھا کہ وہ شہر کی پختہ فٹ پاتھوں اور روشنیوں سے چمکتی سڑکوں پر چہل قدمی کرتے اور رات گئے اپنے گھرں کو لوٹتے۔ ملک کے طول و عرض سے لوگ اس شہر کی رونقیں دیکھنے آتے۔ ہمارے بھی کئی رشتے دار جون، جولائی کی چھٹیاں گزارنے کراچی آیا کرتے۔ اُس وقت کشادہ سڑکوں اور خوب صورت گلیوں کا شہر کراچی اپنی مثال آپ تھا۔
پھر رفتہ رفتہ سب کچھ بدل گیا، سڑکوں کے ساتھ بنائے گئے فٹ پاتھ، جو عوام کے چلنے کے لیے ہوا کرتے تھے، دکان داروں اور لوکل گورنمٹ کی آشیرباد سے پتھارے بازار بن گئے اب عوام کی کیا مجال کہ وہ فٹ پاتھ پر چلے۔ ان بازاروں نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ کراچی پولیس اور محکمہ بلدیہ کی بھی چاندی ہوگئی، سبھی نے اس کاروبار سے اپنا پورا حصہ وصول کرنا شروع کردیا۔ آج کراچی کی قریباً ہر مصروف سڑک کے ساتھ بنے فٹ پاتھوں پر ’’قبضہ مافیا‘‘ کا کنٹرول ہے۔ فٹ پاتھوں پر ہونے والے کاروبار اس لحاظ سے بھی منافع بخش ہیں کہ انتظامیہ کو ان کے حصے کی رقم دے کر ایک بڑی جگہ حاصل کی جاسکتی ہے اور لوگوں کو بغیر کسی ڈر و خوف کے کاروبار کی اجازت مل جاتی ہے۔ اس طبقے کے نزدیک سڑک کے کنارے بنائے گئے یہ فرش اسی کی ملکیت ہوتے ہیں، عوام کا کیا اگر چلنا ہے تو سڑک پر چلو کوئی حادثہ ہوجائے تو ان کی بلا سے۔
یہ قبضہ مافیا اس قدر مضبوط ہے کہ متعلقہ محکمے اب ان کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں اور بے بس ہوں بھی کیوں نہ جب ہر محکمے کو ان کا مقررہ حصہ وقت پر مل جاتا ہو تو کس طرح اس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ یہاں پر مثال دینے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ منہ کھائے، آنکھ شرمائے۔
کراچی میں اگر فٹ پاتھ اس مافیا کے کنٹرول میں نہیں تو اس کی وجہ وہ کچرے کے ڈھیر ہیں، جو سڑک کے کنارے ان ٹھیلے والوں نے لگائے ہوئے ہیں، جو ان سڑکوں سے متصل فٹ پاتھوں پر پھل اور سبزیاں فروخت کرتے ہیں اور کراچی کو کچرے کا ڈھیر بنانے میں مصروف ہیں۔ ان ٹھیلوں اور پتھاروں کی وجہ سے شہر کی سڑکیں سِمٹ کر رہ گئی ہیں جس کے باعث ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے۔ لوگوں کوگھنٹوں اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے بجائے اس کے کہ انتظامیہ کوئی کارروائی کرے، الٹا شہریوں ہی کو الزام دھرتی نظر آتی ہے، جو ان غیر قانونی ٹھیلوں، پتھاروں کی وجہ سے اذیت کا شکار ہیں۔
کراچی کا سروے کر لیجیے آپ کو کوئی عمارت ایسی نہیں ملے گی، جہاں کچرے کے انبار نہ ہوں۔ اسپتال، اسکول، کالجء رہائشی پلازہ غرض ہر جگہ کچرے کے ڈھیر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے دکھائی دیں گے۔ جس شہر کی راتیں پُررونق ہوا کرتی تھیں، وہاں آج اندھیروں کا راج ہے جہاں سڑکوں کی صفائی بلا ناغہ ہوتی تھی، وہاں گندگی کے ڈھیر ہیں۔ کراچی کے دل صدر کو تو چاروں اطراف جاتی سڑکیں چیخ چیخ کر ان قبضہ مافیا اور کچرے کے ڈھیروں سے نجات کی دہائیں دے رہی ہیں۔ یہاں قانون ہے نہ انتظامیہ، محکموں کے راشی افسران کو ان کے آفسز میں ’’حصہ‘‘ پہنچ جاتا ہے۔ ان کے نزدیک ان کی ذمے داری حصہ وصول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ شام ڈھلتے ہی وصولی کرلی جائے۔ انتظامیہ اور محکمہ بلدیہ کی ہڈ حرامی کی وجہ سے اب کراچی کا دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں کے فٹ پاتھوں پر قبضے اور کچرے کے انبار عالمی شہرت اختیارک کرتے جارہے ہیں ۔ آئے دن عالمی میڈیا کراچی شہر کی غلاظت کو سُرخیوں میں میں جگہ دیتا ہے، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اس صورت حال پر کئی رپورٹس بھی چھاپ چکے ہیں، ساری دنیا کو اس شہر کی صورت حال پر فکر ہے اگر فکر نہیں ہے تو یہاں کے حکم رانوں کو، جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے موج مستی یعنی ’’لُوٹ مار‘‘ کی زندگی گزارنے میں مصروف ہیں ۔ کراچی کی سڑکوں سے بھی زیادہ گندگی یہاں کی ان مضافاتی بستیوں میں ہے، جہاں زیادہ تر غریب عوام رہتے ہیں یہاں کی صورت حال اس وجہ سے بھی انتہائی خطرناک ہے کہ کچرے اور گندگی کی وجہ سے ان آبادیوں میں بڑی تیزی کے ساتھ ہیپاٹائٹس اور ڈائریا کے مریضوں کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ محکمہ صحت کے مطابق کراچی کی کچی آبادیاں بنیادی سہولتوں اور صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے بیماریوں کا گڑھ بنتی جارہی ہیں۔
کسی بھی ملک میں عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے لوکل گورنمنٹ ہوا کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی لوکل گورنمنٹ کا نظام موجود ہے، لیکن خاص طور پر صوبہ سندھ میں لوکل گورنمنٹ اور صوبای حکومت کے درمیان اختیارات کی جنگ نے کراچی شہر کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، بلدیہ فنڈز نہ ہونے کا رونا روتی ہے تو صوبائی حکومت اپنی اجارہ داری ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ ان حالات میں عوام کس سے فریاد کریں؟ جنگل میں جب دو سانڈلڑتے ہیں تو نقصان زمین ہی کا ہوتا ہے، کراچی شہر میں بھی یہی کچھ صورت حال ہے۔
بلدیہ کراچی کے ذرائع کے مطابق قریباً ایک کروڑ روپے یومیہ کچرا اٹھانے پر خرچ ہوتا ہے، جب کہ کچرا صرف ایک چوتھائی ہی اٹھایا جاتا ہے۔ کراچی میں روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور محکمہ کے پاس اس کو اٹھانے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے صرف چار ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاسکتا ہے، باقی آٹھ ہزار ٹن شہر میں گندگی کی صورت بیماریاں پھیلاتا پڑا رہتا ہے۔ اگر ہر روز آٹھ ہزار ٹن کچرا کراچی کی گلیوں، محکموں میں ہی رہے تو اس بات کا اندازہ لگانامشکل نہ ہوگا کہ چند ہی ہفتوں میں کراچی میں کتنا زیادہ کچرا جمع ہوجاتا ہے۔ یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پچھلے دنوں میرا لاہور جانا ہوا، اسٹیشن سے رہائش تک لاہور کی سڑکوں کو دیکھ کر میرا دل بہت خوش ہوا، صفائی کے بہترین انتظامات دیکھنے کو ملے، سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھوں پر موسم کی مناسبت سے پودوں کی شجرکاری انتہائی خوب صورت دکھائی دے رہی تھی، صبح صادق کے وقت سڑکوں پر ٹینکروں کو پانی کا چھڑکاؤ کرتا دیکھ کر کراچی کے وہ ایام یاد آنے لگے، جن کا تذکرہ ہمارے بزرگ کرتے رہتے ہیں اور آہ بھرتے رہتے ہیں۔ میں اس طرح لاہور کا کراچی سے موازنہ نہیں کررہا، نہ ہی حسد کررہا ہوں کہ لاہور کی سڑکیوں اتنی زیادہ صاف کیوں ہیں بلکہ غصہ اس بات کا ہے کہ بجائے اس کے کراچی مزید آگے بڑھے، حکم رانوں نے اپنی انا کی خاطر اس شہر کو کھنڈر بناکر رکھ دیا۔ ملک کا کوئی بھ شہر ترقی کرے خوشی کی بات ہے لیکن مجھے غم یہ ہے کہ ایک تیزی سے ترقی کرتے شہر کو نا اہل حکم رانوں نے تباہ وبرباد کردیا کہ اگر اس شہر کی بربادی کی داستان لکھی جائے تو لکھنے والے کو برسوں لگ جائیں اور ہر آنے والے دل کے ساتھ ہی اسے ایک نئی داستان لکھنی پڑے۔
حکمران وں کا طرز حکم رانی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی اس شہر سے ان غلاظت کے ڈھیروں کو اٹھایا نہیں جاسکتا، جو پہاڑ کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں، مجھے کراچی کی گلیوں، محلوں اور پارکوں میں پڑے کچرے کو اٹھانے والا کوئی محکمہ ایسا نظر نہیں آتا جو پوری دیانت داری سے شہر قائد کو اس گندگی سے نجات دلاسکے۔
فٹ پاتھ مافیا اور کچرے کے ڈھیروں سے نجات کا ایک ہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ کراچی کے شہری بلدیہ جیسے ’’مفلوج‘‘ ادارے کے رحم و کرم پر رہنے کے بجائے اپنی مدد آپ کے تحت محلّہ کمیٹیاں بنائیں اور ان چھوٹی چھوٹی کمیٹیوں کے ذریعے شہر بھر سے گندگی کا خاتمہ کریں، حکومت سے یہ مطالبہ ہے کہ کچرا اٹھانے والانظام مؤثر بنائے اور کراچی میں پیدا ہونے والے کچرے کو ایسی صنعتوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے کا معاہدہ کرے ،جو کچرے سے بجلی بناتی ہو۔ اس طرح کچراٹھکانے بھی لگے گا اور شہرقائد کو لوڈ شیڈنگ سے بھی نجات مل سکے گی۔ عوام کو آگے بڑھ کر صوبائی حکومت اور لوکل گورنمنٹ پر دباؤ ڈالنا ہوگا اور حکومتی مشینری کے ذریعے اپنے علاقوں سے عوام اپنی نگرانی میں کچرے کی صفائی کروانی ہوگی۔ ہر علاقے میں ایک مخصوص جگہ پر کچرا پھینکنے کا شعور لوگوں میں اجاگر کرنے سے بھی کافی حد تک اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔
عوام کے آگے آنے ہی سے عذابوں سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح محکمہ لینڈ پر بھی دباؤ بڑھانے سے بھی شہر کراچی کی ان فٹ پاتھوں کو آزاد کرایا جاسکتا ہے، جو قبضہ مافیا کے کنٹرول میں ہیں۔ حکومت کو ایسے قوانین بنانے ہوں گے، جن کی خلاف ورزی کی صورت میں غیر قانونی کام کرنے والوں کو سزا کا خوف ہو، جرم کرنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ اگر کوئی غیرقانونی عمل کام کیا تو یقیناً سزا سے نہیں بچ سکوں گا۔ عوام کو اپنے ٹیکسوں کا حساب حکم رانوں سے لینا ہوگا، تب ہی مسائل سے نجات مل سکے گی، اب عوام کو میدان میں اُترنا ہی ہوگا!!

حصہ