سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو عقل و خرد کے پروانے اور دنیا کو ایک مشینی عمل سے تعبیر کرکے ہستی باری تعالیٰ کو ایک خاموش تماشائی ثابت کرنے والوں کے تیور دیکھنے والے تھے۔ ہر کوئی ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ جیسے موضوعات پر بات کرتا۔ کہا جاتا کہ دنیا اب صرف اور صرف ایک سپر پاور یا عالمی طاقت کی چراگاہ ہے، وہ جس طرح کا ورلڈ آرڈر چاہے گی، نافذ ہوکر رہے گا۔ اس کے سامنے کھڑی ہونے والی اب کوئی طاقت باقی نہیں رہ سکتی۔ وہ اگر حکم دے کہ اس دنیا کا مذہب ’’سیکولرازم‘‘ ہے تو سب کو اس مذہب کا کلمہ پڑھنا پڑے گا۔ اگر اس کے نزدیک نافذ العمل شریعت کا نام ’’جمہوریت‘‘ ہے تو جو ملک بھی اس جمہوریت کو نہیں مانے گا اس پر قبضہ کرکے، وہاں قتل و غارت کے بعد ’’جمہوری شریعت‘‘ نافذ کردی جائے گی۔ ملک اب الہامی کتابوں سے نہیں بلکہ انسانوں کی مرتب کردہ کتاب ’’آئین‘‘ سے چلائے جائیں گے۔ تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت قربِ قیامت اور آخرالزمان کے جو قصے لوگوں کو سناتے رہے ہیں، یہ سب عقل و خرد سے ماورا ہیں۔ اب ان کے بارے سوچنا بھی مضحکہ خیز لگتا ہے۔
کیا یہ افسانہ ہے کہ قیامت سے پہلے ایک بہت بڑی جنگ ہوگی؟ یہ جنگ دراصل حق و باطل کا آخری معرکہ ہوگا۔ عیسائیوں کے نزدیک مسیح دوبارہ آئیں گے۔ یہودی اپنے مسیحا ‘‘Moshiach’’ کا انتظار کررہے ہیں اور مسلمان حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کی آمد کے منتظر ہیں۔ ہر مذہب کے ماننے والوں میں سے عقلیت پسند، جدیدیت کے عَلم بردار اور مذہب کو سائنس اور عقل کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھنے والے موجود رہے ہیں، اور وہ انھیں قصے کہانیاں بتاتے رہے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد جب امریکی بالادستی کو عالمی سطح پر قبول کیا جانے لگا تو ان دانشوروں نے ایسے تمام مذہبی تصورات کا مزید زور سے انکار شروع کردیا اور کہا جانے لگا کہ اب شاید ہی کوئی عالمی جنگ برپا ہو۔ ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ ہوچکا۔ فوکویاما کی یہ کتاب بہت مقبول ہوئی۔
چونکہ اب دنیا کے لیے ایک نیا بیانیہ ترتیب دینا تھا، جس کے تحت آئین ایک مقدس کتاب، سیکولرازم سب کا مذہب اور جمہوریت نافذالعمل شریعت تھی۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے سب سے پہلے ایک بے آئین ملک اسرائیل پر دباؤ ڈالا گیا کہ اب یہ نہیں چلے گا کہ ’’اسرائیل کا آئین تورات ہے‘‘۔ اب تم ایک آئین مرتب کرو۔ یہ 1948ء نہیں ہے کہ جب ڈیوڈ بن گوریان نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ ’’ہم آئین کی کتاب اس لیے مرتب نہیں کریں گے کیونکہ پھر آئین کا مرتبہ تورات اور تالمود سے بڑا ہوجائے گا‘‘۔ اب نیا ورلڈ آرڈر ہے، آئین مرتب کرو۔
اسرائیل نے آئین مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنائی تاکہ عالمی دباؤ کم ہوسکے، لیکن 24 سال گزرنے کے باوجود انھوں نے آج تک آئین مرتب نہیں کیا۔ افغانستان میں ملّا عمر کی حکومت تھی، نہ وہاں آئین کی مقدس کتاب تھی، نہ سیکولرازم کا اتباع اور نہ ہی جمہوریت کی شریعت۔ پوری دنیا اکٹھی ہوکر اس نہتے ملک پر ٹوٹ پڑی۔ آئین مرتب ہوا اور جمہوری شریعت نافذ کردی گئی۔ اس کے بعد ایسے ہی حالات عراق میں پیدا کیے گئے۔
لیبیا، تیونس، یمن، مراکش اور شام بدترین خونریزی جن کا مقدر بنا دی گئی۔ لیکن اس ساری جنگ اور غلبے کی خواہش کے ردعمل کے طور پر سوویت یونین کے مُردہ وجود سے غصے سے کھولتا ہوا روس برآمد ہوا۔ شام میدانِ جنگ بنا، امریکا اور روس مدمقابل آگئے اور آج حالت یہ ہے کہ 19 اکتوبر 2016ء کے ٹیلی گراف اخبار کی خبر ہے کہ روس نے شام کے محاذ پر جنگِ عظیم دوم کے بعد اپنی سب سے بڑی فوجی صف بندی کی ہے۔ اس کے 8 بحری جہازوں کا شمالی فلیٹ اور بالٹک فلیٹ کا آدھا حصہ حلب کے قریب سمندر میں پہنچ چکا ہے۔
اگلے دس دن میں بشارالاسد کی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے حلب پر بہت بڑا حملہ ہوگا جس سے روس کا مقصد امریکی انتخابات پر اثرانداز ہونا ہے تاکہ وہاں ٹرمپ جیت سکے۔ اس لیے کہ ٹرمپ نے بار بار پیوٹن کی ایک طاقتور حکمران کے طور پر تعریف کی ہے اور اس نے کہا ہے کہ اگر وہ جیت گیا تو حلف اٹھانے سے پہلے پیوٹن سے ضرور ملنے جائے گا۔ میں یہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بے شمار احادیث نہیں لکھنا چاہتا جن کا بار بار ذکر کیا جا چکا ہے۔
ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آخری بڑی جنگ شام سے شروع ہوگی، جس میں مسلمانوں کا ہیڈکوارٹر دمشق کے ساتھ ’’غوطہ‘‘ ہوگا۔ حلب کے آس پاس ’’دامق‘‘ اور ’’اعماق‘‘ کے میدانوں میں جنگ ہوگی جہاں اہلِ روم اسّی جھنڈوں تلے جمع ہوکر آئیں گے، جن کے ہر جھنڈے تلے بارہ ہزار فوج ہوگی، شام کے بدترین لوگ عراق چلے جائیں گے اور عراق کے بہترین لوگ شام آجائیں گے۔ یمن سے لشکر شام جاکر لڑے گا، خراسان سے جھنڈے نکلیں گے اور بیت المقدس میں گاڑ دیے جائیں گے۔ تمام کتبِ احادیث میں ایک طویل باب ہے جسے الفتن اور ملاحم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اہلِ عقل و خرد ان سب کو افسانہ جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب دنیا الہامی ہدایت کے بجائے ایسے ہی چلتی چلی جائے گی جیسے یہاں کے بسنے والے انسان عالمی طاقت یا طاقتوں کے اشارے پر بسائے اور چلائے جائیں گے۔
لیکن ہم مسلمانوں سے مختلف ایک اور قوم ہے، جو ان تمام سائنسی افکار اور عقلی دلیلوں پر لعنت بھیجتی ہے، اور جو کچھ ان کی آسمانی کتابوں میں تحریر ہے، جو بشارتیں ان کی مقدس کتابوں کے ذریعے ان تک پہنچی ہیں، وہ اس پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے یورپ، امریکا اور دنیا کے ہر خطے سے اپنے خوبصورت گھر، بہترین کاروبار اور آباو اجداد کی قبریں چھوڑ کر اسرائیل جیسے بے آب و گیاہ علاقے میں 1920ء سے آباد ہوتے چلے آرہے ہیں۔ یہ یہودی دن میں تین دفعہ ایک دعائیہ عبادت کرتے ہیں جسے شمعون ایژری (Shemoneh Esrei) کہتے ہیں۔
اس دعا میں وہ اپنے مسیحا Moshiach کی آمد کے لیے دعا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ مسیحا دنیا بھر کے یہودیوں کو اسرائیل میں اکٹھا کرے گا، موسوی شریعت کے مطابق عدالتیں قائم کرے گا۔ ’’دنیا سے گناہ، بے ایمانی اور شیطانیت کا خاتمہ کرے گا، یروشلم کے ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرے گا، وہ آلِ داؤد سے ہوگا اور آلِ داؤد کی حکمرانی کو ایک بار پھر قائم کرے گا‘‘۔ انگریزی یا اردو کے لفظ مسیحا کا مطلب نجات دہندہ ہوتا ہے لیکن عبرانی زبان کے لفظ ’’موشیاک‘‘ کا مطلب اعلیٰ مرتبے اور بلند مقام والا ہے۔
تالمود میں اس موشیاک کا ذکر Kohen ha-Moshiach لکھا ہے جس کا مطلب بادشاہ موشیاک ہے۔ ان کے نزدیک یہ بادشاہ مسیحا عبرانی کیلنڈر کے سال 6000 سے پہلے آجائے گا، جب کہ اس وقت عبرانی کیلنڈر کا سال5777 چل رہا ہے۔ تالمود کے مطابق جب وہ اس دنیا میں آئے گا تو دنیا کی حالت بہت ابتر ہوچکی ہوگی۔ حکومتوں پر غاصب حکمران قابض ہوں گے۔ ایک روایت کے مطابق سب سے پہلے علیجاہ (Elijah) رسول آئے گا اور مسیحا کی آمد کا اعلان کرے گا۔ جب کہ دوسری روایت کے مطابق اللہ اسے مسیحا کی مدد کے لیے بھیجے گا۔ مسیحا کے آنے سے پہلے یاجوج اور ماجوج کے درمیان شدید لڑائی ہورہی ہوگی۔ (Number24:17-20,Deuteronomy 30:1) اور (Geneis 49:10)
مسیحا ایک بہت بڑا سیاسی رہنما ہوگا (یرمیاہ 23۔5)، مسیحا کو داؤد کا بیٹا پکارا جائے گا، اسے شریعتِ موسوی پر عبور حاصل ہوگا، (Isaiah 11:2-5 )
وہ ایک عظیم سپہ سالار ہوگا اور اسرائیل کی طرف سے دنیا سے جنگ کرے گا (یرمیاہ 15:33)۔ اور جیت کے بعد دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ کوئی بیماری، قحط، وبا اور جنگ نہیں ہوگی۔ وہ خدا نہیں ہوگا مگر ایسی قوتیں رکھے گا جو اسے انسانوں سے برتر ثابت کریں گی۔ (Rambam,s Prinaiples of Faith) حضرت موسیٰ نے کہا ’’یہودی دنیا کے چاروں کونوں میں تتربتر ہوجائیں گے، پھر ایک وقت آئے گا جب وہ نادم ہوں گے اور اسرائیل واپس آئیں گے اور پوری دنیا پر تورات کے تمام قوانین نافذ کریں گے۔(Deuteronomy 30:1)
یہودیوں کے ہاں آخرالزمان یعنی End of Timeکے بارے میں روایات بہت زیادہ ہیں اور اُن کے ہاں ان میں ترتیب بھی ہے۔ تمام یہودی خواہ وہ نوبل انعام یافتہ ہوں اور بڑے بڑے صاحبانِ علم بھی، صحافی اور دانشور ہوں یا ادیب اور شاعر، سب کے سب اس عقیدے پر یقین رکھتے ہیں اور کسی عقل و خرد کے پرستار کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ اپنا گھر بار، کاروبار اور آباو اجداد کی قبریں چھوڑ کر اسرائیل آکر آباد ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کس لیے؟ اپنے مسیحا کی سربراہی میں مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے۔ لیکن کیا ہم مسلمان تیار ہیں؟ ہمارے ہاں تو روز کوئی نیا عالم پیدا ہوجاتا ہے جو کہتا ہے: یہ قربِ قیامت، مہدی آخر الزماں، حضرت عیسیٰ، تیسری عالمی جنگ سب افسانے ہیں۔ مسلمانوں کو خوابِ غفلت اور امن کا درس دینے والے کیا اپنی یہ کہانیاں یہودیوں کو سنا کر انھیں یورپ اور امریکا کے خوبصورت ممالک میں واپس بھیج سکتے ہیں؟