’’علینہ، علینہ، ارے کہاں ہے یہ لڑکی، کبھی ایک جگہ ٹِک کر نہیں بیٹھتی‘‘۔ امی پورے گھر میں اُسے ڈھونڈتی پھر رہی تھیں اور علینہ تھی کہ کہیں نظر ہی نہیں آرہی تھی۔ اتنے میں امی کی نظر بوا پر پڑی، جو باغیچے سے گھر کے اندر آرہی تھیں۔
’’بوا، علینہ کو دیکھا ہے آپ نے؟‘‘ امی کے لہجے میں پریشانی تھی۔
’’اے بہن، کیوں اس لڑکی کے پیچھے جان ہلکان کررہی ہو، وہ کہیں نہیں جائے گی، یہیں کہیں کسی نہ کسی کونے میں ہوگی‘‘۔ بوا نے بے فکری سے کہا۔
اتنے میں باغیچے سے آواز آئی ’’امی امی، میں یہاں ہوں‘‘۔
اس کی آواز سُن کر امی کی جان میں جان آئی: ’’کیا کررہی ہو تم وہاں؟‘‘
’’ُامی، میں گُل دستہ بنارہی ہوں‘‘۔
’’چلو، گھر میں آؤ۔ باہر تیز دھوپ پڑ رہی ہے‘‘۔
امی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ گیٹ کی بَیل بج اُٹھی۔ دروازہ کھولا تو اُن کی سہیلیاں کھڑی مسکرا رہی تھیں۔
’’ارے آمنہ، فاخرہ، باہر کیوں کھڑی ہو، اندر آؤ بھئی‘‘۔
امی نے کہا اور پھر اپنی سہیلیوں کو ڈرائنگ روم میں لے آئیں۔
’’تم لوگ یہاں پنکھے کے نیچے بیٹھ کر اپنا پسینہ خشک کرو، جب تک میں تمہارے لیے ٹھنڈا ٹھنڈا شربت بنا کر لاتی ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر امی تو باورچی خانے میں شربت بنانے چلی گئیں اور اُسی وقت ننھی علینہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔
’’السلام علیکم آنٹی‘‘۔ اس نے بڑے ادب سے اپنا ننھا سا ہاتھ ماتھے پر لے جاکر سلام کیا۔
وعلیکم السلام، جیتی رہو۔ کتنی پیاری بچّی ہے‘‘۔
امی کی سہیلیوں کو اس کی معصومیت اچھی لگی۔
اس پیاری بچّی کی طرف سے آپ کے لیے یہ پُھولوں کا گُل دستہ‘‘۔
یہ کہتے ہوئے ننھی علینہ نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا گُل دستہ امی کی سہیلیوں کی طرف بڑھا دیا۔ اُسی وقت امی داخل ہوئیں۔
’’ارے، ارے، یہ گُل دستہ مت لینا‘‘۔ وہ شربت کی ٹرے میز پر رکھ کر اپنی سہیلیوں کی طرف لپکیں، جو علینہ کا تحفہ ہاتھ میں لینے ہی والی تھیں۔ امی نے اُن سے پہلے ہی گُل دستہ جھپٹ لیا۔
’’معاف کرنا بہن، میری یہ لڑکی آفت کی پرکالا ہے، اب دیکھ لو، اپنے نانا جان کے اُگال دان میں پُھول سجاکر آپ لوگوں کو پیش کررہی ہے‘‘۔
’’ارے واقعی، یہ تو اُگال دان ہے۔ ہم تو اِسے گُل دستہ سمجھ رہے تھے‘‘۔
امی کی سہیلیوں کو ایک دم سے اُبکائی آگئی۔
’’علینہ، آئندہ ایسا نہ کرنا، ورنہ میں تمہاری بہت پٹائی لگاؤں گی‘‘۔
امی نے علینہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا، تو وہ معصومیت سے بولی:
’’ٹھیک ہے امی، آئندہ میں مہمانوں کو پُھول ٹرے میں رکھ کر پیش کروں گی‘‘۔
اُس کی اِس بات پر امی کی سہیلیوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور امی جلدی سے اُس کے ہاتھ دُھلانے واش روم لے گئیں۔
علینہ کی عمر یہی کوئی پانچ چھ برس ہے، لیکن اُس کی حرکتیں ایسی ہیں کہ سارے گھر والے بَولائے بَولائے رہتے ہیں۔ اُس کے نانا اپنی شوگر ٹیسٹ کرنے کے لیے شوگر کا آلہ ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہیں۔ ایک دن علینہ نے انہیں شوگر ٹیسٹ کرتے دیکھ لیا۔ دوسرے دن ہی وہ اپنی ہم عمر کزن کے بازو میں لحاف سینے والی سوئی چُبھو کر کہہ رہی تھی:
’’لگتا ہے تمہاری شوگر بہت بڑھ گئی ہے‘‘۔
ابو نے دیکھا، تو فوراً سُوئی اُس کے ہاتھ سے چھینی اور اُسے خوب ڈانٹا۔
ایک دن اُس نے باغیچے سے درخت کی لکڑی ہاتھ میں پکڑی اور نانا جان کی عینک آنکھوں پر لگا کر ڈرائنگ روم میں بوا کے انداز میں چلتی ہوئی داخل ہوئی اور اُن کی آواز بنا کر بولی:
’’اے، سب لوگ یہاں آرام سے بیٹھے ہیں اور میری کسی کو پروا ہی نہیں ہے‘‘۔
اِس وقت وہ واقعی بوا لگ رہی تھی۔ اُس کی اِس معصوم حرکت پر سب گھر والے بے اختیار ہنس دیے، لیکن ابو نے اسے سمجھایا کہ بیٹا، بڑوں کی نقل اتارنا بری بات ہے۔ اِس پر اُس نے وعدہ کیا کہ آئندہ بڑوں کی نقل نہیں اُتارے گی۔
علینہ اپنے اوپر نت نئے تجربے بھی کرتی رہتی ہے۔ ایک دن بڑی تکلیف دہ صورتِ حال پیدا ہوگئی، جب اُس نے امی کے ہار کا ایک موتی اپنی ناک میں پھنسا لیا۔ جب اُسے سانس لینے میں دشواری ہوئی تو وہ بھاگی بھاگی امی کے پاس آئی اور بولی:
’’امی امی، میری ناک میں کم بخت موتی گُھس گیا ہے‘‘۔
یہ دیکھ کر امی کے تو ہاتھ پاؤں پُھول گئے، گھر میں اس وقت کوئی بڑا بھی نہیں تھا، جلدی سے انہوں نے اُسے اُلٹا کرکے اُس کے سر کو کئی جھٹکے دیے، تب کہیں جاکر موتی ناک سے نکلا۔
علینہ اس واقعے کے بعد اتنی خوف زدہ ہوئی کہ اُس نے آئندہ کے لیے ایسے خوف ناک تجربات سے توبہ کرلی، لیکن اِس کے باوجود اُس کی شوخیاں اور معصوم شرارتیں جاری ہیں۔
کبھی آپ کو اس کی دوسری شرارتوں کا حال سنائیں گے!!
nn