(برائی کی جڑ (سید اقبال چشتی

466

13 پرانی بات ہے‘ ابھی سورج نے نکل کر اپنی تپش کی تیزی دکھانی شروع کی تھی‘ میں اور میری بیگم واک کر تے ہوئے پولیس اسٹیشن شاہ فیصل کی طرف سے گزرتے ہو ئے گھر کی طرف واپس آرہے تھے کہ بیگم نے ایک لڑکے کو سیوریج کے نالے میں کچھ تلاش کرتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے پو چھنے لگیں کہ ’’یہ کم عمرلڑکا پولیس اسٹیشن کے باہر سے گزرنے والے نالے میں کیا تلاش کر رہا ہے؟‘‘
میں نے ایک نظر لڑکے پر ڈالی اور بیگم کو جواب دیا کہ ’’یہ شراب کی خالی بوتلیں تلاش کر رہا ہے۔‘‘
بیگم حیرانی سے بولیں ’’پولیس اسٹیشن کے باہر بہنے والے نا لے میں؟’’
’’جی۔۔۔‘‘ میں نے مختصر جواب دیا۔
’’مگر یہ کون پیتا ہے؟‘‘ بیگم نے معصومیت سے ایک اور سوال داغا۔
میں نے انہیں ٹالنے کے لیے کہا کہ ’’کو ئی اور بات کرو‘‘ اور پھر ہم ٹہلتے ہوئے گھر آگئے۔ لیکن ہماری بیگم کو آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ پولیس اسٹیشن برائی کو ختم کر نے کے لیے بنائے جاتے ہیں یا برائی کو جنم دینے کے لیے؟
برائی کہاں سے جنم لیتی ہے اور کہاں پھلتی پھولتی ہے‘ یہ بات برائی کی دلدل میں تیس سال گزارنے والے مصطفی کمال سابق سٹی ناظم کراچی نے بھی بتانے کی کوشش کی‘ جنھوں نے پاکستان آکر ایم کیو ایم سے علیحدگی اور ساتھ ہی اپنی نئی پارٹی بنانے اور ’’برائی سے علیحدگی‘‘ کا اعلان کیا اور اپنی پارٹی کا نام بھی ’’پاک سرزمین‘‘ رکھا‘ نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بانئ ایم کیو ایم پر جارحانہ انداز میں حملے کیے اور کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا اور برائی کا منبع اور مرکز الطاف حسین کو قرار دیا کہ کراچی کو بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ بند کراتی تھی اور الطاف کے ’’را‘‘ سے مراسم ہیں۔ ابھی ان باتوں کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ بانئ ایم کیو ایم نے پاکستان مخالف نعرہ لگا کر اس بات کو ثابت بھی کردیا جس پر فاروق ستار نے بانی ایم کیو ایم سے ’’لاتعلقی‘‘ کا اعلان کیا اور ’’ایم کیو ایم پاکستان ‘‘ کے نام سے نئی پارٹی کی قیام کا اعلان کیا۔
جب بھی ایم کیو ایم مشکل میں ہوتی تھی تو بانئ ایم کیو ایم اپنے کارکنان سے پوچھتے تھے کہ ’’میں پاکستان آجاؤں‘‘ تو کارکنان ’’منع‘‘ کر دیتے تھے۔ لیکن اس بار الطاف حسین کو اندازہ ہو گیا تھا کہ معاملات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ پاکستان جانا ہی پڑے گا لہٰذا انہوں نے ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر بار بار پاکستان واپسی کے سوال پوچھنے سے جان چھڑالی کہ بھائی اب تو میں پاکستان آہی نہیں سکتا۔ ایک ایک کر کے سارے راز کھل کر سامنے آرہے ہیں کون کس کے لیے کام کرتا تھا اور کون کیا کیاگُل کھلا چکا ہے؟
برائی کہاں سے پہلے پھیلی؟ کس نے پہل کی؟ اس کا فیصلہ ابھی باقی تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کو منی لانڈرنگ کیس سے ’’بری‘‘ کردیا۔ بری ہو نے پر سندھ میں وال چاکنگ کر کے الطاف حسین کو مبارک باد دی گئی۔ اس مبارک باد دینے والوں میں گورنر سندھ کا نام مصطفی کمال نے لے کر گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے ایک اور پریس کا نفرنس کر کے اپنی توپوں کا رخ گورنر سندھ عشرت العباد کی طرف کر دیا کہ ’’گورنر سندھ برائی کی جڑ ہیں‘‘ اور گورنر ہاؤس سے ہی تمام برائیوں کو آکسیجن فراہم کی جاتی ہے‘ گو رنر کو گرفتار کیا جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔
یہ انکشاف کوئی نیا نہیں تھا‘جماعت اسلامی کئی بار گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ کرچکی ہے کہ اصل خرابی اور برائیاں یہاں ہی سے پروان چڑھتی ہیں ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ جنرل مشرف سے لے کر پیپلز پارٹی اور اب مسلم لیگ نواز تک سب نے عشرت العباد کوعہدے پر برقرار رکھا ‘ کیوں۔۔۔؟ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔ بات پولیس اسٹیشن کے باہر نالے سے ملنے والی شراب کی خالی بو تلوں سے نکلی تھی‘ ظاہر ہے جب قا نون کے رکھوالے ہی قا نون شکن بن جائیں تو معاشرہ کیسے سدھرے گا؟ بالکل اسی طرح جب گورنر ہاؤس سے بقو ل مصطفی کمال ساری برائیاں جنم لیں‘ برائی پر نظر رکھنے والے اور اسے ختم کر نے والے ہی برائی میں مبتلا ہو جائیں‘ اس کے پشتبان بن جائیں تو پھر ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور دیگر جرائم میں اضافہ ہی ہوگا‘ شہر برائیوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ لیکن کیا کریں جب لوٹ مار اور کرپشن کے پیسے کو خرچ کرکے کرپشن زدہ سیاست دان عوام کوپیسوں کی چمک دکھا کر الیکشن جیت جاتے ہیں اور اسی چمک کو دیکھ کر عوام سمجھتے ہیں کہ شاید اب پورے پاکستان میں پیسوں کی چمک نظر آئے گی‘ لیکن یہ پیسوں کی چمک صرف اسمبلی کے اندر ہی رہتی ہے‘ باہر نہیں آتی‘ یہ عوام کو سراسر بیو قوف بناتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے لے کر صوبائی اسمبلی تک کوئی بھی کرپشن کے خلاف بل لانے اور قوانین بنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا کیو نکہ اس طرح خود اس قانون میں ان کی گردن پھنستی ہے۔
برائیوں کو ختم کر نے کا وعدہ کر نے والے خود اُم الخبائث کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے جب ایوان میں یہ بات اُٹھائی کہ پارلیمنٹ کی لابی میں شراب کی خالی بوتلیں بکھری نظر آتی ہیں تو اسپیکر نے تحقیقات کا کہہ کر بات پر مٹی ڈال دی نہ تحقیقات ہوں گی نہ راز فاش ہوگا۔ لیکن یہ برائی جسے ’’اُم الخبائث‘‘ یعنی ’’خرابیوں کی ماں‘‘ کہا گیا‘ اگر کسی کو اس کی عادت لگ جائے تو ساری زندگی اس برائی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔
اللہ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کو اُم الخبائث کہا تھا اور جب شراب کی حرمت کا حکم قرآن حکیم میں آیا تو مدینہ میں اہلِ ایمان نے شراب کے تمام مٹکے توڑ دیے تھے۔ ایک روایت کے مطابق حرمت شراب کی آیات کے بعد مدینہ کی گلیوں میں شراب بہہ رہی تھی کیونکہ اب اللہ کا حکم جو آگیا تھا۔ لیکن کیا کریں برائی کی جڑ آہستہ آہستہ پھر سے بڑھنے لگی اور اللہ کے نظام کے باغی نام نہاد ایمان والوں نے پھر سے شراب کے ساتھ دل بہلانے کا اہتمام کیا۔ پاکستان میں غیر مسلموں کے نام پر 90 فیصد شراب مسلمان پینے لگے مزے کی بات یہ ہے کہ اسلامی ملک میں غیر مسلموں کے نام پر لائسنس جاری کیے جا تے ہیں کہ ان کے مذہبی تہوار پر اقلیتی برادری شراب پیتی ہے‘ لیکن پورے سال شراب فروخت ہوتی رہتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ اتنی شراب میں تو اقلیتی برادری نہا سکتی ہے اور یہ دیکھے بغیر کہ کون شراب لینے آیا ہے‘ مسلم غیر مسلم سب کو فروخت کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈیفنس اور کلفٹن کے پوش علاقوں کا تذکرہ کر تے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’’گاڑی رکتی نہیں کچھ لڑکے آکر پوچھتے ہیں صاحب کون سی شراب چاہیے؟‘‘ گاڑی میں بیٹھے شراب مل رہی ہے اورکوئی پو چھنے والا نہیں۔۔۔ اور پوچھے بھی کون جہاں خود پولیس شراب پی کر خالی بوتلیں نالے میں ڈال دیتی ہو‘ پارلیمنٹ کی لابی میں خالی شراب کی بوتلیں ملتی ہوں تو کون اس کے خلاف آواز اُٹھائے گا؟ مگر برائی کتنی ہی چھپائی جائے‘ چھپ نہیں سکتی‘ برسوں خاموش رہنے والے بھی بول پڑتے ہیں جس طرح مصطفی کمال نے گورنر سندھ کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور گو رنر سندھ نے ان الزامات کے جواب میں جس طرح گفتگو کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں طرف سے ’’سچ‘‘ بولا جارہا ہے یعنی سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹ رہی ہے۔ جس طرح عدالت میں خلع کے مقدمے میں میاں‘ بیوی ایک دوسرے کے خلاف جب بو لتے ہیں تو بالکل سچ بو لتے ہیں اور یہ سچ بولتے ہوئے انھیں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی با لکل اسی طرح برسوں خاموش رہنے والے اپنی ساکھ بچانے کے لیے سچ بول رہے ہیں اور ایک دوسرے پر حقیقت پر مبنی الزامات لگا رہے ہیں‘ یعنی دونوں حضرات‘ جو اہم ترین عہدوں پر فائز رہے اور اب تک ہیں‘ اپنی قوم اور شہر کی تباہی کا رونا رو رہے ہیں بقول شاعر: ’’کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ‘‘ برسوں تک ایک دوسرے کے رازوں کو سینے میں رکھنے والے‘ اب ایک دوسرے کو کراچی کی تباہی کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔
گو رنر سندھ نے پہلی بار یہ اعتراف کیا ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ ہوں اور گورنر سندھ نے تمام اہم ترین کیسز کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ گورنر صاحب اتنے عرصے تک سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش کیوں رہے؟ کیا ان کے پاس اختیارات نہیں تھے؟ اگر اختیارات نہیں تھے تو اب کیسے یہ اختیار مل گیا کہ وہ شہر کی بہتری اور امن و امان کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے قا بل ہو گئے ؟ صو بے کے گورنر کی حیثیت سے کیا اقدامات کرنے تھے‘ کب کیا فیصلہ کر نا تھا‘ کیا انہیں اس کا علم نہیں تھا؟ کیوں انہوں نے امن وامان کی بحالی کے لیے اقدامات نہیں کیے؟کیوں انہیں دس سال گزرنے کے بعد سانحہ 12 مئی کے ذمہ داران کو پھانسی پر لٹکانے کا خیال آیا؟ کیوں انہیں مصطفی کمال کے الزامات کے بعد بلدیہ ٹاؤن کا سانحہ یاد آیا اور اس کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے کی بات کر رہے ہیں؟ ۔۔۔ وہ اب کہہ رہے ہیں ہمیں سب پتا چل گیا ہے کہ کب اور کیا کیا اسلحہ کہاں سے آیا‘ کون کیا کرتا رہا ہے۔۔۔ سالوں گزرنے کے بعد قتل کے کئی مقدمات دو بارہ کھو لنے کا اعلان کہ مجرم اثر رسوخ والا ہو یا ایک عام فرد‘ کسی کے ساتھ رعایت نہیں بر تی جائے گی۔ یہ سب باتیں نشا ندہی کر رہی ہیں کہ گورنر صاحب اپنے اُوپر لگنے والے الزامات سے گھبرا گئے ہیں اس لیے فوری ایکشن لیا ہے۔ لیکن پی ایس پی کی طرف سے گورنر کو جواب دینا اور انہیں عہدے سے ہٹانے کا مطا لبہ اس بات کی غماضی کرتا ہے کہ مصطفی کمال کے پاس بھی عمران خان کی طرح کو ئی ’’ایمپائر‘‘ ہے یا پھر ان کے پاس کوئی ترپ کا پتّا ہے جس کی وجہ سے وہ گورنر پر متواتر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں اور گورنر سندھ جن پر پہلے بھی الزامات لگتے رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی لب کشائی نہیں کی اب ایسا کیا ہوگیا کہ ’’ٹھنڈے مزاج‘‘ والے اچانک گرم ہوگئے اور جوابی حملہ بھی کر دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
طویل عرصے تک گورنر کے عہدے پر براجمان عشرت العباد‘ جن کے دور میں سندھ بہت زیادہ بدامنی اور قتل و غارت گری کا شکار رہا ‘ ان میں ایسی کون سی خوبیاں تھیں کہ خراب کارکردگی کے باوجود ہر حکومت نے انہیں گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ کیا یہ بھی کو ئی غیر ملکی ایجنڈا ہی ہے یا پھر گورنر جنھیں اپنا ’’محسن‘‘ کہہ رہے ہیں ان کی طرف سے کوئی مطا لبہ تھا کے ہمارا آدمی مسلسل گورنر ی کرتا رہے گا۔ اس کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
سابق سٹی نا ظم مصطفی کمال اور گو رنر سندھ کے ایک دوسرے پر الزامات اور کئی رازوں سے پردہ اُٹھانے کے باوجود پیپلز پارٹی کی خاموش معنی خیز ہے۔ سندھ کے وزراء کی خاموشی اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ سندھ حکومت کو بھی سب معلوم ہے کہ بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری جلانے اور 12 مئی 2007ء کے سانحہ میں کون ملوث ہے‘ لیکن خاموش اس لیے ہیں ہیں کہ نو سال سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور انھوں نے بھی ان سانحات کی کوئی تحقیق نہیں کرائی کیونکہ ایم کیو ایم اور گورنر سندھ پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ رہے ہیں اگر بو لے تو کہیں ہمارا بھی کچھا چٹھا نہ کھل جائے کہ ہم کہاں کہاں ایم کیو ایم کے جرائم پر پردہ ڈالتے رہے ہیں۔ لیکن پردہ تو اُٹھ چکا ہے بس انتظار ہے تو ان الزامات کے ثابت ہونے کا اور یہ الزامات سندھ حکو مت ثابت نہیں کرے گی۔ کراچی کے عوام اب وفاقی حکومت‘ سندھ رینجرز اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس شہر کو آگ اور خون میں نہلانے والوں کا محاسبہ کریں تاکہ سچ اور جھوٹ سب کے سامنے آجائیں۔ سچ اور جھوٹ تو ایک دن سامنے آ ہی جائیں گے لیکن ان برائی کی جڑوں کو پھلنے اور پھولنے کا موقع اہل کراچی ہی نے فراہم کیا تھا‘ ان برائی کی جڑوں کو عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے پانی دے کر طاقت اور قوت فراہم کی تھی لیکن اہل کراچی نے دیکھ لیا کہ جس کو انھوں نے اپنے سر پر بٹھایا اور عزت دی اسی نے کراچی کو تباہی و بربادی اور 20 ہزار لاشوں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ لوگ اپنی سوچ اور ووٹ دینے کے رویے کو تبدیل کریں اور کراچی سمیت پورے ملک کے عوام ان برائی کی جڑ وں کو ووٹ کا پا نی دینا بند کردیں تو ان کی جڑیں خود ہی سوکھ جائیں گی اور جب حکومت کرپشن اور تمام برائیوں سے پاک لوگوں کے ہاتھوں میں ہوگی تو تمام ادارے بھی ازخود برائیوں سے پاک ہوجائیں گے‘ نہ برائی رہے گی اور نہ ہی برائی کا تحفظ اور جڑیں پیدا کر نے والے ادارے۔
nn

حصہ