جسارت سنڈے میگزین: جماعت اسلامی آج کل صوبائی سطح پر اپنے ارکان اور حامیان کے اجتماعات منعقد کررہی ہے۔ ان اجتماعات کے مقاصد اور اہداف کیا ہیں؟
میاں مقصود احمد: اسلامی نظام زندگی میں اجتماعات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ نماز جمعۃ المبارک سے لے کر حج بیت اللہ کے لیے میدانِ عرفات تک کے اجتماعات اپنے مقاصد کے اعتبار سے انقلابی پیغام و نتائج کے حامل ہیں۔ انھی اجتماعات کی برکات سے رنگ و نسل، زمان و مکان، غربت و امارت اور زبان و بیان کے بے شمار اختلافات کے باوجود دنیا بھر کے مسلمان امتِ واحدہ اور جسدِ واحد بن جاتے ہیں۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں کے لیے بھی یہی نشانِ راہ ہے۔ جہاں یہ اجتماعات وابستگانِ جماعت کے لیے فکر و عمل میں ہم آہنگی، نکھار اور پختگی پیدا کرتے ہیں، وہیں نقوشِ منزل واضح ہونے کے ساتھ سُوئے منزل حرکت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اپنے نصب العین، لائحہ عمل پر اعتماد اور عزم و یقین فراواں ہوجاتا ہے۔ انھی جذبوں کو جوان کرنے اور اپنے اندر ایک ولولۂ تازہ پیدا کرنے کے لیے اجتماع کی تیاری کا اوّل قدم ہی کامیابی کا زینہ بن جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ سفر اوّل و آخر تزکیہ و تربیت اور دل و نگاہ کی پاکیزگی کا سفر ہے۔ جماعت اسلامی اس ملک کی سب سے منظم اور موروثیت سے پاک جماعت ہے۔ ہم نے ہمیشہ عوامی مسائل کو اجاگر کیا۔ جماعت اسلامی اپنے ارکان اور کارکنان کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف نوعیت کے اجتماعات کا اہتمام کرتی رہتی ہے۔ ہمارا اجتماع بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کا مقصد اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت اور انہیں جماعت اسلامی کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کا ہدف دینا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: جماعت اسلامی کم و بیش ایک سال سے کرپشن فری پاکستان مہم کے سلسلے میں سڑکوں پر ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ملکی اداروں پارلیمنٹ اور عدالتوں وغیرہ میں یہ جنگ لڑی جاتی؟
میاں مقصود احمد: حکومتی ٹولے کی کرپشن نے قوم کو حکمرانوں کے خلاف سڑکوں پر آنے پر مجبور کردیا ہے، جماعت اسلامی عدالتوں کے اندر اور باہر کرپشن کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے۔ حکمران اگر ایوان کے اندر کرپشن کے خلاف کوئی نظام نہیں بننے دیں گے تو عوام چوکوں اور چوراہوں میں لٹیروں کا محاسبہ کریں گے۔ ہمارا دشمن بھارت جنگ کی تیاریاں کررہا ہے جبکہ ہمارے حکمران دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے میں مصروف ہیں، حکمرانوں نے ملک میں ظلم و جبر کا نظام قائم کررکھا ہے، عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر ظلم و جبر اور کرپشن کے سارے دروازے بند کردے گی۔ جماعت اسلامی نے کرپٹ نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کرپشن فری پاکستان مہم کا آغاز کیا ہے، سراج الحق کی قیادت میں کرپشن فری پاکستان تحریک کو ہر پاکستانی کے دل کی آواز بنائیں گے۔ وطنِ عزیز میں ہر طرف دہشت گردی ہے، سیاسی دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی ہے، پیسے کے بل بوتے پر لوگ سیاست کرتے ہیں اور حکومتوں میں آتے ہیں۔ ہم نے حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف تحریک شروع کررکھی ہے جسے عوامی طاقت سے کامیاب کروایا جائے گا۔ جماعت اسلامی ملک میں اسلامی انقلاب کے لیے کوشاں ہے اور ہماری ساری جدوجہد کا مقصد عام آدمی کے حقوق کا تحفظ ہے۔ جب تک عام آدمی کو اس کے حقوق نہیں ملیں گے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور بدامنی کا خاتمہ نہیں ہوسکتا۔ کرپٹ اور بددیانت حکمران مسلسل قومی خزانے کو لوٹ رہے ہیں۔ انہیں چور اور ڈاکو تو کہا جاسکتا ہے، حکمران کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
جسارت سنڈے میگزین: مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔ کرپشن کے خلاف جتنی تحریکیں چل رہی ہیں کرپشن میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جارہا ہے؟
میاں مقصود احمد: اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ ملک میں کرپشن کی انتہا ہوچکی ہے۔ اوپر سے لے کر نیچے تک کرپٹ عناصر کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پانامہ لیکس میں بے نقاب ہونے والے حکمران کبھی کرپشن کا قلع قمع کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوسکتے۔ گزشتہ مالی سال کی آڈٹ رپورٹوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی وزارتوں، سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں دو ہزار ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ پی آئی اے، پرنٹنگ کارپوریشن، پاکستان بیت المال، این آئی سی ایل، اسٹیٹ بینک، یوٹیلٹی اسٹورز سمیت دیگر سرکاری اداروں اور کمپنیوں میں1496 ارب، جبکہ وفاقی وزارتوں میں499 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں پر 930 ارب روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا، جبکہ سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے باعث 5 ارب 63کروڑ روپے کی لوٹ مار کی گئی۔ سی ڈی اے، پی ڈبلیو ڈی، این ایچ اے، رینجرز اور ایف سی میں 138 ارب روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آچکی ہیں۔ قومی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے جوکہ نیب سمیت دیگر چیک اینڈ بیلنس رکھنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور قومی وسائل کو لوٹنے والے قانون کے شکنجے میں نہیں آتے پاکستان نہ ترقی کرسکتا ہے اور نہ ہی عوام کی زندگیوں میں خوشحالی آسکتی ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 6کروڑ افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ لیول پر آگئے لیکن افراطِ زر میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ پانامہ لیکس ملکی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل ہے جسے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دبانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے اصل عوامی مسائل بجلی کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، دہشت گردی اور کرپشن کی بڑھتی شرح سے توجہ ہٹانے کے لیے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی 5500کلومیٹر طویل نئی گیس اسکیموں کے لیے 9 ارب روپے عوام سے وصول کیے جائیں گے، جبکہ گیس کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے رواں سال کے دوران 341 ارب روپے بٹورے گئے۔ اگر ملک میں بے رحم اور بلا امتیاز احتساب شروع ہوجائے تو حکمران اقتدار کے ایوانوں کے بجائے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ جماعت اسلامی کا کرپشن پر بڑا سخت مؤقف ہے۔ ہمارے سینکڑوں نمائندے منتحب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچے، الحمدللہ کسی ایک پر بھی کوئی الزام نہیں۔ اس وقت پاکستان سے لوٹ کر باہر بھجوائی جانے والی رقم کا تخمینہ چار سو ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ اگر یہ رقم واپس پاکستان کے بینکوں میں آجائے تو ملکی قرضے آسانی سے ادا کیے جاسکتے ہیں۔ صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر موجود ہیں۔ اس دولت سے ملک کا 30 برس تک ٹیکس فری بجٹ بنایا جاسکتا ہے۔ 6کروڑ پاکستانیوں کو ملازمتیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ 500 سے زائد منصوبوں کے لیے بالکل مفت بجلی فراہم کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کا ہر شہری 60 سال کے لیے ماہانہ 20 ہزار فی کس تنخواہ وصول کرسکتا ہے۔ پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں اصلاحات کی متقاضی ہیں۔ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے غریب عوام کے حصے میں آنے والی دو وقت کی روٹی کو بھی چھین لیا ہے۔ 18کروڑ عوام کی زندگی عملاً اجیرن ہوچکی ہے۔ آئے روز بے روزگاری اور فاقوں کے سبب خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پانامہ لیکس میں حکمران خاندان سمیت جن پاکستانیوں کے نام آئے ہیں سب کے خلاف مؤثر کارروائی ہونی چاہیے۔
جسارت سنڈے میگزین: میاں صاحب! آپ کی تمام باتیں درست ہیں، مگر یہ کارروائی کرے گا کون؟
میاں مقصود احمد: چور چوروں کا احتساب نہیں کرسکتے۔ ایمان دار لوگوں کو آگے لایا جائے۔ آج بھی امریکی ریاستوں اور مغربی ملکوں کے مختلف بینکوں میں طاقت ور اور بارسوخ سول و ملٹری بیورو کریٹس اور سیاستدانوں کے اربوں ڈالر خفیہ کھاتوں میں پڑے ہیں جن تک نہ تو کسی حکومتی ادارے کو رسائی حاصل ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سنجیدگی سے کام کرنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ ملک میں احتساب کا کوئی مستقل نظام وضع نہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے مؤثر نظام بنایا جائے اور نشاندہی کرنے والے کو باتوقیر اور محفوظ بنانے کے لیے حکومت اقدامات کرے۔ ملک میں کرپشن کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ لوگوں کو اپنے جائز کاموں کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ حکمرانوں اور مقتدر حلقوں نے ہمیشہ احتساب کے راستے میں روڑے اٹکائے بلکہ ملک سے اس کا بوریا بستر گول کرنے کے لیے کارنامے سرانجام دیئے ہیں، جس کی واضح مثال این آر او کی صورت میں قوم کے سامنے آچکی ہے جس سے ملک وقوم کو شدید نقصان پہنچا۔ پانامہ لیکس میں شامل افراد کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے وزیراعظم نوازشریف کو احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے۔ حکومت لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے احتساب سے فرار اور پانامہ لیکس کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنا چاہتی ہے۔ آئے روز میگاکرپشن اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں مگر نیب اہلکاروں نے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے چھوٹے اور عام لوگوں کو تنگ کرکے رشوت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ عام آدمی کے لیے ان کرپٹ لوگوں کے احتساب کا کوئی سہل نظام موجود نہیں، بلکہ چند لوگ اگر جرأت سے عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو ناکارہ نظام کی وجہ سے ان کے نصیب میں ذلت اور دھکے آتے ہیں۔ کرپٹ، منہ زور اور قانون کا مذاق اڑانے والے ان کے لیے خوفناک انتقام کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ کرپشن کی وباء نے ہر منافع بخش ادارے اور عوامی فلاحی منصوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ساڑھے تین برسوں سے عوام کو کسی قسم کا کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا۔ ملک میں امیروں اور غریبوں کے لیے الگ الگ قانون رائج ہیں۔ ملک میں ماہانہ 12 ارب روپے کی کرپشن اور سالانہ 144 ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے۔ یہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ رہی سہی کسر پانامہ لیکس میں بے نقاب ہونے والے حکمرانوں اور دیگر افراد نے پوری کردی ہے۔ جن لوگوں کو پابندِ سلاسل ہونا چاہیے تھا وہ دندناتے پھررہے ہیں اور ان کوکوئی پوچھنے والا نہیں۔ پاکستان کی ترقی اور عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک سے کرپٹ عناصر کو ختم اور کرپشن کا مکمل قلع قمع کیا جائے۔
جسارت سنڈے میگزین: حکمران ملک میں تعمیر و ترقی کے گن گاتے نہیں تھکتے، مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ کی کارکردگی کو سراہا جا رہا ہے اور ایوارڈ دیئے جا رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر بھی ملکی تاریخ میں ریکارڈ سطح پر پہنچنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، مگر عام آدمی کے معاشی مسائل میں بھی آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور لوگوں کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مشکل ہوتی جا رہی ہے؟
میاں مقصود احمد: ہم سمجھتے ہیں کہ سودی معیشت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ سود کو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ 2002ء سے سود کے خلاف کیس کو وفاقی شرعی عدالت میں لگے14 برس گزر چکے ہیں مگر بدقسمتی سے آج تک حکومت اور اسٹیٹ بینک کی سردمہری کے باعث یہ کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ موجودہ حکمرانوں کے گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 5700 ارب روپے کا اضافہ لمحۂ فکریہ اور ملکی معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ غیر جانب دار حلقوں کے حقائق پر مبنی معاشی اشاریئے اس بات کا کھلم کھلا اعتراف ہیں کہ وطنِ عزیز کی معیشت کسی بھی بڑے داخلی یا بیرونی جھٹکے کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ایک طرف آج ملک میں آنکھ کھولنے والا ہر بچہ 107000 روپے کا مقروض پیدا ہوتا ہے، جبکہ دوسری جانب وزیر خزانہ کو قرضوں کے پہاڑ کھڑے کرنے پر حسنِ کارکردگی کے ایوارڈ دیئے جارہے ہیں۔ 1980ء میں پاکستان کے قرضوں کا کُل حجم صرف 155 ارب روپے تھا جو جون 2010ء میں بڑھ کو 8911 ارب، اور جون 2016ی میں 11140 ارب روپے اضافے کے بعد20051 ارب روپے ہوچکا ہے۔ کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے جان چھڑانے کے دعوے محض کاغذی ثابت ہوئے ہیں۔ گڈ گورننس کا پول کھل چکا ہے۔ 20کروڑ عوام کی زندگی ٹیکسوں میں جکڑ کر رہ گئی ہے، انہیں کسی قسم کا کوئی ریلیف میسر نہیں۔ 30 جون 2016ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم میں 7.8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوچکا ہے جوکہ پاکستان کی 69 سالہ تاریخ میں کسی بھی مالی سال میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔ حکمرانوں کے بے بنیاد اور کھوکھلے دعوے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے ملک وقوم کی تقدیر نہیں بدلی جاسکتی۔ پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے کم ہوکر 20 ارب ڈالر پر آچکی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حکمران عوام کو سبزباغ دکھاکر اپنی مدتِ اقتدار پوری کرنا چاہتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان ٹیکسوں، بچتوں اور سرمایہ کاری کی مد میں جی ڈی پی کے لحاظ سے سالانہ 13000 ارب روپے کم حاصل کررہا ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کے پاس عوام کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلامی طرز معیشت کا پروگرام موجود ہے، جس پر عمل درآمد کرکے نہ صرف ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ عوام کی زندگیوں میں انقلاب بھی برپا کیا جاسکتا ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: حکومت کو برسراقتدار آئے ساڑھے تین سال ہوچکے ہیں مگر عوام سے کیے گئے وعدے آج تک پورے نہیں ہوئے۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، لاقانونیت، اقرباپروری، دہشت گردی، بے روزگاری جیسے مسائل نے ملک میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
میاں مقصود احمد: آپ نے درست کہا کہ لوگوں کی زندگی میں آسودگی نام کی کوئی چیز نہیں۔ جب کسی ادارے کے کرتا دھرتا کا دل چاہتا ہے وہ قوم کو لوٹنے کی نئی نئی اسکیمیں بناکر لوٹنا شروع کردیتا ہے۔ ان کو کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام موجود ہے۔ پاکستان میں 33 فیصد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں جن میں سے 15 فیصد افراد خودکشیاں کرلیتے ہیں۔ دولاکھ ذہنی تناؤ کے شکار افراد کے لیے صرف ایک سائیکالوجسٹ موجود ہے۔ معاشی ناہمواریوں کے باعث ذہنی دباؤ کے شکار ان افراد میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ 9 ماہ کے دوران 7 ہزار 2 سو سے زائد خواتین نے صرف اس لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا کیونکہ ان کے شوہر بے روزگار اور گھروں میں فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ اور حکمرانوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ لوڈشیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ لاہور سمیت ملک بھر کے بڑے شہروں میں لوڈشیڈنگ بے قابو ہوتی جارہی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ شارٹ فال 5 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکرچکا ہے جس کی وجہ سے شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14گھنٹے اور دیہی علاقوں میں18 سے20 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے جس سے کاروبارِ زندگی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ بجلی کی شدید کمی کی وجہ سے نہ صرف گھروں بلکہ مساجد سمیت دیگر مقامات پر پانی کی قلت سے عوام کو روزمرہ معمولات میں دقت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے اعلانات تو آئے دن کیے جاتے ہیں لیکن اس میں کمی نہیں ہورہی بلکہ بعض علاقوں میں اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عوام لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے طوفان سے بلک رہے ہیں اور حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ عوام سے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی سہولتیں چھینی جارہی ہیں۔ لوگوں کو اپنے حقوق مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے۔ کبھی اساتذہ نے دھرنا دیا ہوتا ہے، کبھی کسان اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر ہوتے ہیں اور کبھی نرسیں اور ینگ ڈاکٹر احتجاج کررہے ہوتے ہیں، جبکہ اقتدار پر براجمان طبقہ اپنی تجوریاں بھرنے اور اپنی دولت کو بچانے میں مصروف ہے۔ اگر پوری قوم متحد ہوکر اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تو کرپٹ حکمران بھاگنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ترجیحی بنیادوں پر مہنگائی کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے اور لوڈشیڈنگ کے سنگین مسئلے کے حل پر توجہ دے، اور ایسے قابلِ عمل منصوبے بنائے جائیں جن سے عوام کو فوری ریلیف مہیا کیا جاسکے۔
جسارت سنڈے میگزین: پاکستان ایک زرعی ملک ہے، بدقسمتی سے حکمرانوں نے ہمیشہ شعبہ زراعت کو نظرانداز کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا کسانوں کو درپیش مسائل پر کیا مؤقف ہے؟
میاں مقصود احمد: زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کو نظرانداز کرکے ہم کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ پڑوسی ملک بھارت نے اپنے کسانوں کو ہر قسم کی سہولیات دے کر خوشحال بنادیا ہے جبکہ پاکستان کے کاشت کار بدحالی کا شکار ہیں۔ آڑھتی اونے پونے داموں کھیتوں سے فصلیں اٹھاکر مہنگے داموں فروخت کررہے ہیں جبکہ کسانوں کو ان کی محنت کا صلہ بھی نہیں مل پارہا۔ زراعت کی ترقی کے لیے تحقیقاتی مراکز پر توجہ دی جانی چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے اکثر ممالک جہاں فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ حاصل کررہے ہیں وہاں ملکی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کے باعث وہ دن دونی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ ہمیں ان تمام ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے کاشت کاروں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرے۔
جسارت سنڈے میگزین: سی پیک منصوبے کو جماعت اسلامی کس نظر سے دیکھتی ہے؟
میاں مقصود احمد: چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک عظیم منصوبہ ہے، ہماری رائے میں اس پر ہر صورت عمل درآمد ہونا چاہیے۔ سی پیک منصوبے پر گمراہ کن پروپیگنڈا افسوسناک امر اور لمحۂ فکریہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کو اتفاقِ رائے سے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ کچھ سیاسی عناصر سی پیک پر غیر ذمہ دارانہ بیانات اور طرزعمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کا حال بھی کالاباغ ڈیم جیسا ہوا تو یہ ملک وقوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ وفاقی حکومت کو بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے معاملے پر صوبوں کے تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔ مغربی روٹ کے حوالے سے پاکستان میں چینی سفارت خانے کی وضاحت کے بعد اب مخالفانہ پروپیگنڈا بند ہوجانا چاہیے۔ چینی سفارت خانے نے یہ واضح کیا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ثمرات پورے ملک کو حاصل ہوں گے اور مغربی روٹ بھی اس منصوبے میں شامل ہے۔
جسارت سنڈے میگزین: تحریک انصاف نے 2 نومبر سے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کررکھا ہے، جب کہ حکمرانوں نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردی ہے، اس ضمن میں آپ کی رائے کیا ہے؟
میاں مقصود احمد: پُرامن احتجاج اور جلسے جلوس ہر سیاسی جماعت کا حق ہے۔ حکومت کو پُرامن احتجاج میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ لیکن ملکی وقومی مفاد میں احتجاج کو بھی ایک دائرے کے اندر ہی ہونا چاہیے۔
جسارت سنڈے میگزین: مقبوضہ کشمیر میں حالیہ دنوں میں بھارتی فوج کی جانب سے ہونے والے مظالم انتہائی افسوسناک ہیں، جماعت اسلامی ہمیشہ کشمیریوں کی پشتیبان رہی ہے، حکومت کشمیریوں کا مقدمہ جس انداز میں لڑرہی ہے کیا اس سے آپ مطمئن ہیں؟
میاں مقصود احمد: جب سے وزیراعظم نوازشریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مقدمہ بھرپور انداز میں اٹھایا ہے ہندوستانی حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر کل بھوشن یادیو اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تذکرہ نہ کرنا افسوس ناک ہے۔ جموں وکشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے۔ بھارت کو بڑھکیں مارنے اور دھمکیاں دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی قومی آزادی کے لیے بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بھارتی افواج کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے گزشتہ 69 برس سے نبرد آزما ہیں۔ کشمیر تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے جو 69 سال گزرجانے کے باوجود اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ کشمیر کے معاملے کے لیے اقوام متحدہ سمیت امریکہ اور عالمی برادری اپنے مفادات کی سرحدوں سے آگے بڑھ کر دیکھنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ انڈیا میں کوئی بھی واقعہ ہوجاتا ہے تو وہ بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے پاکستان کے خلاف فوری الزام لگادیتا ہے۔ ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کا جھوٹا الزام بھی پاکستان کے سر تھوپنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اب اُڑی حملے کا الزام بھی بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر لگادیا ہے۔ اگر واقعی بھارت کے پاس اُڑی حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت تھے تو پھر اُسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش کرنے چاہیے تھے۔ بھارت محض جھوٹ اور بہتان تراشی سے کام لے رہا ہے۔ مودی حکومت کشمیر میں بھارتی مظالم سے توجہ ہٹانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہی ہے۔ بھارت امریکہ کی سرپرستی میں خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا تھا لیکن اُس کا خواب اب چکناچور ہوچکا ہے، اس لیے وہ پاکستان دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآیا ہے۔ بھارت خطے میں امن نہیں چاہتا اور نہ ہی وہ مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے۔ خطے میں امریکہ، بھارت گٹھ جوڑ کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کو چین، ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر نئی حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔ امریکہ اور بھارت جنوبی ایشیا میں چین اور پاکستان کے اشتراک سے اکنامک کوریڈور کے منصوبے کو کامیاب ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے۔ ایران، اور عالم اسلام کے دیگر ممالک کو بھی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے امتِ مسلمہ کے خلاف ناپاک عزائم پر متحد اور بیدار کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ اس لیے وسیع کررہا ہے کہ خطے میں امن کی فضا قائم نہ ہوسکے اور ایشیا کی ترقی کا عمل آگے نہ بڑھ سکے۔ امریکہ، بھارت کے درمیان دفاعی تعاون کے معاہدے سے ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آگیا ہے اور وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔ امریکہ اور بھارت کے درمیان نئے دفاعی معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کے فوجی اڈے استعمال کرسکیں گے۔ نائن الیون کے بعد نام نہاد امریکی جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لائن اتحادی بن کر گھاٹے کا سودا کیا تھا۔ آج یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو حسبِ روایت دھوکا دیا ہے۔
nn