دلاور فگار کی مشہورِ زمانہ نظم ’’شاعرِ اعظم‘‘ کے دو اشعار سے بات کا آغاز کرتا ہوں۔
میں نے کہا کہ یہ جو دلاور فگار ہے
بولے کہ یہ تو صرف ظرافت نگار ہے
میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے
طنز و مزاح کا شاعر جسے خرافات کہتا ہے دراصل وہ معاشرے کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ رہا ہوتا ہے۔ یا یہ کہا جائے کہ وہ ہم سب کو ایک ایسا آئینہ دکھاتا ہے جس میں ہماری شکل کچھ الٹی کچھ سیدھی نظر آتی ہے مگر حقیقت میں وہی ہماری اصل شکل ہوتی ہے۔ بات کا آغاز چونکہ دلاور فگار سے کیا ہے لہٰذا دلاور فگار ہی کا ایک ایسا قطعہ پیشِ خدمت ہے جس میں ہمارے معاشرے کی اس خرابی کو جو ’’چائے پانی‘‘ کے نام سے کافی مقبولیت کی حامل ہے، اجاگر کیا گیا ہے اور جو پورے ملک کو دیمک کی طرح مسلسل کھارہی ہے۔ بات مزاح میں کہی گئی ہے مگر سو فی صد حقیقت ہے۔
حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
کیا اچھا مشورہ دیا ہے بھائی دلاور نے اب اس سے زیادہ کسی راشی کو اور کس طرح شرمندہ کیا جائے۔ اس نوعیت کے بے شمار قطعات دلاور فگار نے کہے ہیں مگر میں اس وقت ایک پر ہی اکتفا کررہا ہوں اسلیے کہ مجھے اور شاعروں کے کلام کے ذریعہ بھی اپنی بات آپ تک پہنچانی ہے۔
مزاح نگار معاشرے کی خامیوں کو جس انداز سے دیکھتا ہے ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنے اشعار میں جابجا ان خامیوں کا ذکر کیا ہے انداز ظریفانہ ہے اس لیے کسی کو ناگوار بھی نہیں گزرتا بلکہ لوگ محظوظ ہوتے ہیں ایک جگہ اکبر فرماتے ہیں۔
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
ایک اور جگہ پر اسلامی معاشرے کے غیر شرعی رسم و رواج کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں۔
بتائیں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
ضیاء الحق قاسمی اپنی ذات میں انجمن تھے۔ نڈر تھے بے باک تھے۔ ہر بات بے خوف و خطر کہہ جایا کرتے تھے۔ ایسے حاجیوں کے بارے میں ان کا کیا اچھا تبصرہ ہے جو جاتے تو ہیں حج کی ادائیگی کے لیے مگر اُن کے اندر کیا ہوتا ہے یہ ان کا قطعہ بتائے گا۔
حج ادا کرنے گیا تھا قوم کا لیڈر کوئی
سنگ باری کے لیے شیطان کی جانب بڑھا
پہلا کنکر مارنے پر یہ صدا اس نے سنی
تم تو اپنے آدمی تھے تم کو آخر کیا ہوا
ذرا غور کیجیے ضیاء الحق قاسمی کے اس قطعہ پر جو بظاہر تو مذاق جیسا لگتا ہے مگر اس کے اندر کیا معنی اور کیا زبردست طنز پوشیدہ ہے۔
میں نے کہا کرائیے کوئی مشاعرہ
کہنے لگے کہ چھوڑئیے مجرا کرائیے
میں نے کہا کہ میں تو ہوں حجرے کا آدمی
کہنے لگے کہ حجرے میں مجرا کرائیے
سعید آغا کے طنز و مزاح کے تیر کا نشانہ اکثر صاحبِ اقتدار بنتے ہیں مگر افسوس ان تیروں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ شاید انہوں نے تیر پروف جیکٹ پہنی ہوتی ہے۔ یا پھر تیر جگر کے پار ہوجاتا ہے اس لیے خلش نہیں ہوتی، احساس نہیں ہوتا۔
کاتب کا یہ کرشمہ بھی کیجیے ملاحظہ
یوں خاک میں ملادیا اتنے گریڈ کو
نکتہ عجب سُجھا دیا نکتہ بڑھا کے ایک
بیوروکرپٹ کر دیا بیوروکریٹ کو
سعید آغا کو کسی جگہ ایک پجیرو نظر آگئی بس نہ پوچھیے ان کی چھٹی حس نے پجیرو سے کیا کچھ بر آمد کرلیا۔
ایک صاحب کل پجیرو میں نظر آئے مجھے
یوں لگا جیسے کوئی آپے سے باہر ہوگیا
میں نے پوچھا آپ ڈاکو ہیں یا لیڈر تو کہا
پہلے ڈاکو تھا ترقی پا کے لیڈر ہوگیا
واہ کیا اچھا جواب دیا۔ ’’ترقی پاکے لیڈر ہوگیا‘‘ اب آپ اسے ’’خر‘‘ ’’آفات‘‘ کے زمرے میں ڈالیں گے یا ’’شر‘‘ ’’آفات‘‘ کے۔ فیصلہ آپکو کرنا ہے۔
اسد جعفری کا کسی کام کے سلسلے میں کسی سرکاری محکمہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں انہیں سب اﷲ والے نظر آئے، بہت خوش ہوئے، مگر جو کچھ ان کی آنکھوں نے وہاں دیکھا اس نے انہیں حیرت میں ڈال دیا۔
اک سائلِ مجبور نے رشوت کا لفافہ
افسر کو ادباً میز کے نیچے سے دیا ہے
ہے طُرفہ تماشا کہ اسی میز کے اوپر
تختی پہ لکھا ہے کہ ’’خدا دیکھ رہا ہے‘‘
عنایت علی خان کو کون نہیں جانتا۔ ’’چمن میں ہرطرف بکھری ہوئی ہے داستاں ’ان‘ کی‘‘۔ بقول ضمیر جعفری ’’عنایت علی خان اکبر الہٰ آبادی کی توسیع ہیں‘‘۔ طنز کیا کرتے ہیں بس یوں سمجھ لیں کہ ایسا نشتر چلاتے ہیں جو دل میں اتر جاتا ہے۔ ذکر اس امریکا کا اور پھر بیاں عنایت علی خان کا۔ یقیناًآپ کے دل میں بھی امریکا جانے کی خواہش انگڑائیاں لے رہی ہوں گی تو آئیے ہم آپ کو امریکا لیے چلتے ہیں۔۔۔ ملاحظہ کیجیے عنایت علی خان کی ’’نشتریاں‘‘۔۔۔
کشش ہے کس بلا کی دیکھنا اس ملک میں یارو
جسے دیکھو وہ کہتا ہے کہ میں امریکا جاتا ہوں
اُدھر اک دلبرانہ شان سے امریکا کہتا ہے
کہ صاحب آپ کیوں زحمت کریں، میں خود جو آتا ہوں
سخاوت میں بھلا امریکیوں کا کون ثانی ہے
جو بوٹی مانگیے تو مرغِ سالم بھیج دیتے ہیں
پھر اپنے ملک پر تو ان کی اس درجہ عنایت ہے
کہ صاحب ایڈ کے پیکج میں حاکم بھیج دیتے ہیں
امیر الاسلام ہاشمی سے میری اچھی خاصی ملاقات رہی ہے۔ بدایوں سے ان کا تعلق رہا ہے یہ وہ شہر ہے جہاں کبھی ہر تیسرا آدمی شاعر اور باقی دو سامعین ہوا کرتے تھے۔ اب آج کل کیا حال ہے مجھے پتا نہیں۔ امیر الاسلام ہاشمی کی مزاحیہ شاعری میں وہ شائستگی اور سلیقہ مندی ہے کہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ موصوف کہا کرتے تھے کہ مزاحیہ شاعری شوگر کوٹڈ کیپسول کی طرح ہوتی ہے یعنی یہ شاعری کڑوی گولی پر شوگر کوٹنگ کا کام کرتی ہے۔ ہاشمی صاحب کی ایک طویل نظم کا ایک بند پیشِ خدمت ہے۔
ڈھیر ڈالر کے بہت دور لگائے ہم نے
کچھ محلّات تو لندن میں بنائے ہم نے
لوٹنے کھانے کے گُر سب کو سکھائے ہم نے
کچھ بنایا ہے تو بس پیسے بنائے ہم نے
(لندن میں محلّات بنانے والوں سے آپ خوب واقف ہیں)
خالد عرفان کہہ لیں یا دلاورِ ثانی بات ایک ہی ہے۔ امریکہ میں رہتے ہیں کبھی کبھی پاکستان آتے ہیں مگر جب آتے ہیں تو دھوم مچ جاتی ہے جگہ جگہ ان کے اعزاز میں مشاعرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ نشستیں سجائی جاتی ہیں۔ غرضیکہ دل کھول کے پذیرائی ہوتی ہے۔ رہتے امریکا میں ہیں مگر دل مادرِ وطن میں لگارہتا ہے۔ یہاں کے سیاسی نشیب و فراز پر پوری نظر رکھتے ہیں۔ ایک قطعہ ملاحظہ کیجیے۔
کبھی وطن میں ہمارا بھی آب و دانہ تھا
یہ تب کی بات ہے جب ملک میں خزانہ تھا
تمام بینک لٹیروں نے مل کے لوٹ لیا
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
(ان لٹیروں سے بھی آپ خوب واقف ہیں)
ہمارے دوست ہیں سرفراز شاہد اسلام آباد میں ہوتے ہیں بہت اچھے شاعر ہیں رنگ ظریفانہ ہے ایک جگہ فرماتے ہیں۔
کہتے ہیں لوگ جس کا ظریفانہ شاعری
ہوتی ہے اصل میں وہ حکیمانہ شاعری
ظریفانہ شاعری میں اگر مقصدیت نہیں ہے۔ صرف قاری کو ہنسانا مقصود ہے تو وہ شاعری کسی کام کی نہیں صرف پھکّڑ پن ہے طنز و مزاح کا شاعر زندگی کی ناہمواریوں پر گہری نظر رکھتا ہے اس کی نگاہیں خردبینی ہوتی ہیں۔ وہ ان ناہمواریوں کو دور کرنے کے لیے طنزو مزاح کے نشتر چلاتا ہے تاکہ زندگی ہموار ہوجائے بقول عنایت علی خان۔
طنزیہ شعر کی کاٹ ہی اور ہے
خنجر و تیر و تلوار اپنی جگہ
طنز و مزاح کی شاعری کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا لوگ سمجھتے ہیں یہ ایک مشکل ترین فن ہے یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں جہاں سنجیدہ شاعروں کی ریل پیل ہے وہاں مزاح نگار خال خال نظر آتے ہیں۔
میں نے مختلف مزاح نگاروں کا جستہ جستہ کلام آپکی خدمت میں پیش کیا ہے تاکہ آپکو اندازہ ہوسکے کہ جب مضمون کو ظریفانہ الفاظ کا پیراہن دیا جاتا ہے اور وہ بھی شعری پیرائے میں تو بظاہر محض مذاق نظر آتا ہے مگر اس میں جو مقصد اور معنی پوشیدہ ہوتے ہیں وہ دراصل طنزیہ اشارے ہوتے ہیں اور فکر انگیز بھی۔یہ پیراہنِ ظرافت آہستہ آہستہ اتنا دبیز ہوجاتا ہے کہ لحاف کی شکل اختیار کرلیتا ہے بابائے ظرافت اکبر الہٰ آبادی کا شعر اس بات کا شاھد ہے۔۔
سرد موسم تھا ہوائیں چل رہی تھیں برف بار
شاہدِ معنی نے اوڑھا تھا ظرافت کا لحاف