جب ہم انبیائے کرام کی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی صبر اور تحمل مزاجی کا چلتا پھرتا نمونہ تھی۔ اُن کی تحمل مزاجی کے واقعات کا مطالعہ کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ حضرت علیؓ اپنے زمانۂ خلافت میں لوگوں کی انتہائی بدزبانیوں کو بڑے ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے تھے، اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی نہایت حلیم، نرم خو اور تحمل مزاج تھے۔ ایک دفعہ کسی نے حضرت آپؒ کو سخت کلمات کہے تو آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کیوں خاموش ہیں؟ تو آپ نے فرمایا، ’’تقویٰ نے زبان میں لگام دے دی ہے۔‘‘
صالحین کی زندگی میں عفوودرگزر اور تحمل مزاجی کے واقعات اَن گنت و بے شمار ہیں۔ ان واقعات کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنی اَنا پر زبردست فتح پاچکے تھے کہ جو باتیں ایک عام انسان کو چراغ پا کردیتی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کا منہ نوچ لے، وہ باتیں اُن پر ذرّہ برابر اثر نہیں ڈالتی تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ معاف کردینے کی لذّت اور برداشت کی قوت کو محسوس کرلیتے ہیں اور دل سے رنجشیں دھو دینے کے آرام سے واقف ہوجاتے ہیں، وہی معزز شہری کہلاتے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فرمان ہے کہ ’’اللہ نے اسلام اور اہلِ اسلام کو طیش اور غضب سے پاک کردیا ہے۔‘‘
اگر آدمی حقیقی معنوں میں اپنے اندر تحمل اور برداشت پیدا کرلے تو یقیناًاسے وہ ابدی مقام مل سکتا ہے، جس کا نام ’’جنت‘‘ ہے۔
حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا، ’’جس نے جھوٹ چھوڑ دیا، اس حال میں کہ وہ باطل ہے، اس کے لیے بہشت کے گرد گھر بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دیا، اس کے لیے بہشت کے وسط میں گھر بنایا جائے گا۔‘‘(ترمذی)
nn