(تیسرا اورآخری حصہ (عارف میمن

312

ہم آج تک سیلاب کو ہی نہیں روک پائے ۔ ایک بار سیلاب سے ہونے والی تباہی کو مدنظر رکھ کر ہمیں وہ اقدامات کرنے چاہیے تھے کہ دوسری بار اگر سیلاب آتاہے تو ہمیں کم سے کم نقصان ہوتا۔بہت بڑا سیلاب 76ء میں آیاتھااس کے بعد 2005ء کے قریب آیاتھا۔ 2010ء کے سیلاب میں دیکھ لیں کیاتباہی ہوئی تھی ۔ اسی طرح 2012ء کے سیلاب نے بھی کوئی کم نقصان نہیں دیاہمیں ۔ اس سے صرف ہم نے اپنے بند اورپشتے مضبوط کیے جس پر کبھی ہم نے دھیان نہیں دیاتھا۔اس وقت سوچ یہ تھی کہ سیلاب سکھر سے آگے توآتا نہیں ‘کوٹری بیراج آدھے سے زیادہ سوکھاپڑارہتاہے ۔ مگر جب سیلاب آیا تو سب کچھ بہاکر لے گیا۔ اورپھرہم بھی جاگ گئے ۔ پھر ہمارے لوگوں نے بیراجوں کے گیٹ کو ٹٹولا کہ کہیں وہ اڑ تو نہیں جائے گا۔ تواس پر کام ضرور ہواہے اس سے پہلے بالکل سوئے ہوئے تھے ۔
3سے پانچ لاکھ کیوسک پانی نچلے درجے کا سیلاب کہلاتاہے ۔ 6سے 7 لاکھ کیوسک فٹ ہائی فلڈ کہلاتاہے اور9لاکھ کیوسک فٹ سے اوپرآنے والا پانی کا ریلہ ہائی فلڈ کہلاتاہے ۔ اسی طرح اگر 12لاکھ کیوسک فٹ پانی کا ریلہ دریائے سندھ میں آتاہے تو وہ ہم نہیں سنبھال سکتے ۔
پلہ مچھلی ‘جنگلات اورچرند پرند ہم سے روٹھ چکے ۔
دریا سندھ میں پلہ مچھلی ایک نایاب مچھلی ہے۔ اس نایاب ہوتی مچھلی کوبچانے کے لیے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماہی گیری سسٹم کو جدید بناناہوگا اوراس حوالے سے لوگو ں کو بھی اپنے اندر شعورپیداکرناہوگاکہ انہیں کس قسم کی مچھلی کی ضرورت ہے اورکس کی نہیں ہے ۔ ہم کنڈی اورجال پھینکتے ہیں اورسارے سمندرکو ہی صاف کردیتے ہیں اس سے تو جو انڈے دینے والی مچھلیاں ہیں وہ ہی نہیں بچیں گی تو پھرہمیں بچے کہاں سے ملیں گے اوروہ بڑے کہاں سے ہوں گے ۔ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ آنے والی نسلوں پر کیاظلم کررہے ہیں۔ جو مچھلیاں ہم پکڑرہے ہیں وہ انڈے دینے والی ہیں کہ نہیں ۔ اگرہم ساری انڈے دینے والی مچھلیاں پکڑلیں گے تو پھر سمندراوردریامیں کیابچے گا۔تاہم اب مچھلیوں کو بچانے کے لیے محکمہ جنگلات مینگروز اوردیگردرخت لگارہاہے جس سے مچھلیوں کو آکسیجن ملے گی ۔ اوروہاں کی زمین پرکافی اچھا اثر پڑے گااورساتھ ساتھ مستقبل میں اچھافروٹ بھی ملنے کی توقع ہے۔ پلہ مچھلی سمندر کی مچھلی ہے جب سے کوٹری بیراج بناہے وہ وہیں پر رک گئی ہے جب بھی پیچھے سے پانی زیادہ آئے گاتو کوٹری بیراج میں اس کی نشونما بڑے گی ۔ سکھرمیں پائی جانے والی اندھی ڈولفن یہ صدیوں پہلے ملتان تک پائی جاتی تھی ۔ بیراجز بنتے گئے اوراس طرح ان کی تعداد بھی کم ہوتی گئی اب ہمارے پاس اس کی جو تعداد ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ جہاں سمندری پانی زرعی زمین کو خراب کر رہاہے وہیں ساتھ ساتھ میٹھے پانی کی مچھلی پلہ وہ بھی نایاب ہوتی جارہی ہے ۔ اب اس مچھلی کو پکڑنے کے لیے لوگ کوٹری آتے ہیں جب کہ وہاں پراب لوگ سمندرکی مچھلی پکڑتے ہیں ۔
ڈاؤن اسٹریم پرسے انسان اور چرند پرند چلے گئے ۔ وائلڈ لائف ختم ہوگیا۔ سردیوں کے موسم میں آنے والے مہمان پرندوں نے بھی یہاں کارخ چھوڑ دیاہے ۔اورجو آتے ہیں وہ شکار کی نظرہوجاتے ہیں ۔ سمندری اورمیٹھے پانی کی مچھلی روز بروز کم سے کم ترہوتی جارہی ہیں ۔ جنگلات ختم ہوگئے ۔ مینگروز جو میٹھے پانی سے پیداہوئے تھے اب وہ بھی پریشانی کے عالم میں ہیں۔ کہاں ان کاقد 60 فٹ ہوتاتھا اب یہ 28سے 30 فٹ کے رہ گئے ہیں ان کی بڑھنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے ۔ ان کی عمر جو کبھی40 سے 60 سال ہواکرتی تھی اب مشکل سے 20 سے 30 تک بھی نہیں پہنچتے کہ گرجاتے ہیں ۔
سندھ طاس معاہدہ ۔
طاہر قریشی کا سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے کہناتھاکہ ہم نے3 دریابھارت کوبیچ کر غلطی کی تھی ۔ میں اسے بیچنا ہی کہوں گا کیوں کہ ٹرانسفربھی توفری میں نہیں کیاتھا ۔ ورلڈ بینک نے آپ کو اس کے پیسے دیے تھے ۔ اس سے ہم نے ڈیم وغیرہ بنائے ۔ اوراگر یہ3 دریاآج ہمارے پاس ہوتے تو حالات کچھ اورہوتے ۔ انڈیااس پرڈیم بناتاگیابیراجز بناتاگیا۔ اس کابھی پانی ہمیں ملناتھا مگر اب انڈیاآپ کو ایک قطرہ بھی نہیں دیگا۔ورلڈ بینک نے کہاتھاکہ جو سرپلس واٹرہوگا وہ اطلاع کرکے چھوڑا کریں گے اوروہ پانی پاکستان آئے گا۔ اس سے ہماری زراعت کو کافی فائدہ ہوناتھا۔ مگر انہوں نے یہ کیاکہ جو پانی ہمیں دینا تھااس پر ہی انہوں نے بیراجز اورڈیم بناناشروع کردیے ۔ ستلج ،بیاس اورراوی کاپانی اب پاکستان بھول جائے ۔ اس وقت کے سندھ ‘بلوچستان ‘پنجاب یا فاٹا کے چیف انجینئربڑے قابل لوگ تھے مگر ان سے کوئی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے یا پھر اس وقت کی حکومت سے کوئی بہت بڑی غلطی ہوئی تھی ۔ اس غلطی کا مدواکیاجاتامگر وہ بھی نہیں کیاگیا۔ ہمارے انجینئرز کے ہاتھ تونہیں باندھے گئے تھے وہ بھی ڈیم اور بیراجز بناتے ۔مگرایسا کچھ نہیں ہوا۔ یاد رہے سندھ طاس معاہدہ آج سے 53سال پہلے ستمبر1960میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں پہلے مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان سیاہ و سپید کے مالک تھے جبکہ بھارت کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر جواہر لعل نہرو جیسی سیاسی شخصیت فائز تھی۔ ان حالات میں ورلڈ بنک کی ضمانت کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان سندھ، جہلم اور چناب کے مغربی اور ستلج، بیاس راوی کے مشرقی دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ طے پایا۔معاہدے کی رو سے مشرقی دریاؤں پر بھارت کو خصوصی اختیارات حاصل ہوگئے جس کے بدلے بھارت نے حکومت پاکستان کو طے شدہ رقم ادا کی۔مغربی دریاؤں پر پاکستان کو حقوق دیئے گئے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر متعین مدت تک پاکستان ان دریاؤں پر پانی کنٹرول کرنے کے ذخائر تعمیر نہیں کرتا تو بھارت ان دریاؤں کے پانی کو بھی مقامی ضروریات،زرعی مقاصد اور بجلی پیدا کرنے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ معاہدے کے بعد پاکستان میں منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے تاہم اس سمت میں مزید کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی جبکہ بھارت نے نہ صرف مشرقی دریاؤں پر متعدد ڈیم بنائے بلکہ مغربی دریاؤں کو بھی پچھلے کئی سال سے اپنی ضروریات کے لئے استعمال کررہا ہے۔اس پر فوقتاً فوقتاً آوازیں اٹھائی جاتی ہیں مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
وفاقی وزیرپانی وبجلی خواجہ محمد آصف کی نیوزکانفرنس
اس حوالے سے 2015ء میں ا یک نیوزکانفرنس میں وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کے اس مسئلے کی سنگینی کے حوالے سے اپنے واضح لفظوں میں خبردار کیا تھااور سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کی ضرورت کا اظہار کیاتھا ۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی نے کھلے لفظوں میں کہا کہ بھارت ہمارے دریاؤں کا پانی روک رہا ہے جس سے پاکستان میں قحط سالی کا خطرہ ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو دس سے پندرہ سال کے اندر ایتھوپیا جیسے قحط سے سابقہ پیش آسکتا ہے۔اس موقع پرایڈیشنل انڈس واٹر کمشنر نے بتایا کہ ہمیں بھارت کے 9 غیرقانونی منصوبوں پر اعتراض ہے۔بھارت کی جانب سے دریائے سندھ کاپانی استعمال کرنے سے بہاؤ میں کمی آگئی ہے جبکہ بھارت پاکستانی دریاؤں پر بجلی کے53 منصوبے اور 7 ڈیم تعمیر کررہا ہے۔دریائے چناب پر16 منصوبے بنائے جاچکے ہیں جبکہ 4 زیر تعمیر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے چناب پر بنائے جانے والے کارتیلے پروجیکٹ کا ڈیزائن تبدیل نہ کیا تو ہم یہ معاملہ عالمی ثالثی عدالت میں لے جائیں گے۔ اس موقع پر سیکرٹری پانی و بجلی نے تسلیم کیا کہ پاکستان کشن گنگا منصوبے پر عالمی ثالثی عدالت میں تاخیر سے گیا۔ ان تفصیلات سے واضح ہے کہ پانی کی قلت کی شکل میں کس قدر ہولناک خطرہ ہمارے سرپر کھڑا ہے۔لہٰذا اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک طرف آبی ذخائر کی جلد از جلد تعمیر شروع کرنی چاہئے،دوسری طرف بھارت کی طرف سے پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کے لئے اقدام کو اس معاہدے کی بنیاد پر روکنے کے تمام ممکنہ راستے اختیار کئے جانے چاہئیں، اور اگر کروڑوں انسانی جانوں کی بقا و سلامتی کے لیے اس معاہدے پر نظرثانی اور اس میں تبدیلی ضروری ہے تو اس مقصد کے لیے بھی ہر سطح پر ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔
سمندری پانی کو روکنے کے ہرممکن اقدامات کی ضرورت
نیشنل انسٹیٹوٹ آف اوشین وگرافی کے مطابق سمندر کی سطح میں اضافے سے ٹھٹھہ اور بدین اگلے 35 سال میں جبکہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی علاقے آئندہ 45برس تک ڈوب جائیں گے۔کچھ عرصہ قبل سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بتایا گیا تھا کہ بڑھتے ہوئے سمندر کے پانی کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو کراچی، ٹھٹھہ اور بدین سمیت سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔بریفنگ میں بتایا کہ 1989 میں اقوام متحدہ نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا جو سمندر کے آگے بڑھنے سے متاثر ہوسکتے ہیں۔انتظامیہ کے مطابق بدین کا اکتیس ہزار ایکٹر سے زائد علاقہ پہلے سے ہی سمندر سے متاثر ہوچکا ہے، بلوچستان کو بھی سندھ جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ڈائریکٹر جنرل این آئی او ڈاکٹر آصف انعام نے کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا کہ عالمی قوانین کے مطابق زمین سے پانی حاصل کرنے کیلئے بورنگ کے استعمال کی حد 17 کیوبک کلو میٹر مقرر ہے جبکہ شہریوں کی جانب سے 64 کیوبک کلومیٹر تک زمین سے پانی حاصل کرنے کیلئے بورنگ کا استعمال کیا جارہا ہے۔کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 35 سال میں بلوچستان کی ساحلی پٹی کا دو کلومیٹر کا علاقہ سمندر کے پانی کی نذر ہوچکا ہے۔
طوفانی بارشوں اورسیلاب سے بچنے کے لیے بڑے ڈیموں کی ضرورت۔
محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق آئندہ 35برس میں پاکستان کے لے درجہ حرارت میں میں ایک سے دو سینٹی گریڈ اضافہ ہوگا جبکہ گلگت بلتستان میں یہ اضافہ دو سینٹری گریڈ ہوگا۔ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات سائنس سے ثابت نہیں ہے کہ آئندہ چند برسوں میں کراچی سمیت کوئی شہر ڈوبے گا۔انہوں نے کہا کہ موسمی تغیر کے سبب کلیشیر پگھل رہے ہیں اور مون سون میں شدت آرہی ہے۔ جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں 8ہزار 123گلیشیر ہیں جن میں سے صرف 23گلیشیر ایسے ہیں جونہیں پگھلیں گے باقی سب تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کا پانی مون سون کے ساتھ مل کر دریاؤں میں گرتا ہے جو طغیانی پیدا کرتے ہیں جو دریائے سندھ میں گرتا ہے اور پورا پاکستان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ سندھ میں زمین جلدی خشک نہیں ہوتی جس کی وجہ سے فصلوں کی کاشت نہیں ہو پاتی۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تغیر کی وجہ سے جیسے جیسے مون سون میں تبدیلی آرہی ہے۔ اب ہمیں درجہ حرارت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ کرافٹ کیلنڈر میں بھی تبدیلی کرنا ہو گی۔اس حوالے سے سندھ میں کام بھی ہو رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موسمی تغیر کے سبب درجہ حرارت بڑھنے سے ایک مہینے کی بارش دو دن میں برس رہی ہے جس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مون سون میں جتنا پانی برستا ہے وہ ہمارے لیے کافی ہے ہمیں اسے محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔گاؤں دیہات سے لوگوں کی بڑی تعداد شہروں میں آباد ہو رہی ہے جس کی وجہ سے شہروں میں پانی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ہمیں چھوٹے ڈیم بنانے ہوں گے جس سے شہروں میں پیدا ہونے والی پانی کے مسائل حل ہوں گے اور زیر زمین کم ہونے والے پانی کو بھی ری چارج کریں گے۔ البتہ طوفانی بارشوں اور سیلابی صورتحال سے بچنے کے لیے ہمیں بڑے ڈیم درکار ہیں چھوٹے ڈیم سیلاب کو نہیں روک سکتے۔
nn

حصہ