جسارت کے سنڈے میگزین میں اس ایک ماہ کے دوران نصف درجن سے زائد مضامین پڑھنے کا موقع ملا جن میں بہت قیمتی ہدایات خواتین کے لیے تھیں۔ خواتین سسرال میں ڈپریشن سے کیسے بچیں، شادی سے پہلے ہدایات، بعد میں ہدایات وغیرہ وغیرہ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ گھر بنانے اور بسانے میں عورت کا کلیدی کردار ہے، مگر ہم اکثر مرد کے کردار کو اس اہمیت سے بیان نہیں کرتے جس کا وہ متقاضی ہے۔
سوال یہ ہے کہ شادی سے پہلے اور بعد میں ہدایات صرف لڑکیوں کو کیوں دی جائیں، اور سسرال میں ڈپریشن سے بچنے کے طریقے صرف عورتوں کو کیوں بتائے جائیں؟ کیوں ناں مردوں کو ہدایات دی جائیں کہ گھر کے ماحول کو اتنا صحت مند رکھیں کہ گھر میں رہنے والے سب افراد ایک دوسرے کے لیے گنجائش رکھتے ہوئے آسودہ زندگی گزاریں۔
میرا زندگی بھر کا تجربہ اور مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ جن گھرانوں میں مردوں کا کردار بہت مضبوط ہوتا ہے ان گھروں کی خواتین کو زیادہ آرام دہ ماحول میسر ہوتا ہے۔ آپ سوچیے ایک لڑکی جو اپنا گھر چھوڑ کر آئی، اس نے بہت بڑی قربانی دی ہے۔ پھر عورتیں اخلاقی طور پر جذباتی زیادہ ہوتی ہیں، زود رنج جلد ہوجاتی ہیں اور دلوں کی تنگی میں بھی جلد مبتلا ہوجاتی ہیں۔ شادی کے بعد اصل ذمے داری اُس مرد کی شروع ہوتی ہے جس نے اپنا گھر بسایا ہے۔ کیونکہ اس گھر میں پہلے سے جو رشتے موجود ہیں جو اس کی والدہ، بہن اور بھابھیوں وغیرہ کے ہیں، ان رشتوں کے درمیان اس آنے والی لڑکی کے لیے جگہ بنانے کا جو کام اس کا شوہر کرسکتا ہے، وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکتا۔ عموماً لڑکوں کے رویّے اس ضمن میں افراط و تفریط کا شکار دیکھے گئے ہیں۔ خواتین کی یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ زبان کا استعمال زیادہ کرتی ہیں اور بسا اوقات ناجائز بھی کرتی ہیں۔ ایسے میں تحمل کی صفت کا اظہار اگر مرد حضرات کریں تو گھر میں بڑی ناچاقیوں کو ٹالا جاسکتا ہے۔
یہاں استثنا کی صورتوں کی بات نہیں ہورہی۔ ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں کہ عورتیں اخلاقی حوالے سے بہت کمزور تھیں اور وہ اچھے لوگوں کی بھی قدر نہ کرسکیں، اور گھر ان کی نادانیوں اور جہالت سے ٹوٹ کر رہے۔ اور ایسی مثالوں کی بھی ہمارے سماج میں کمی نہیں کہ انتہائی مہذب گھرانوں کی لڑکیاں ناقدروں کے ہاتھوں لگ گئیں، وہ ان پاکیزہ صفت عورتوں کے قابل ہی نہ تھے اور گھر ٹوٹنے کا تماشا سب نے دیکھا۔ ان دو انتہاؤں سے قطع نظر عمومی حوالے سے آپ دیکھیں تو شادی کے ابتدائی سالوں میں جتنا اہم کردار لڑکی کا ہے اُس سے زیادہ اہم کردار لڑکے کا ہے، کیونکہ آزمائش لڑکوں کی زیادہ ہوتی ہے کہ اب ان کے تیور دیکھے جاتے ہیں کہ ان کا جھکاؤ کس طرف زیادہ ہے۔ اگر وہ توازن برقرار رکھنے اور لڑکی کے دل میں اپنے گھر والوں کی، اور گھر والوں کے دل میں اپنی نوبیاہتا دلہن کی جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سمجھیے زندگی کی بازی جیت گئے۔
آپ کو معاشرے میں ایسے بھی مہذب اور شائستہ گھرانے ملیں گے جہاں بہوؤں کو بیٹیوں پر بھی فوقیت دی جاتی ہے۔ والدین اتنے دانش مند ہوتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹوں کو کسی آزمائش میں نہیں ڈالتے اور اپنی حکمت و تدبر سے نئی آنے والی کو سہولتیں دیتے ہیں، گھر میں اس کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہیں، انتہائی صبر سے کام لیتے ہیں اور کچھ وقت نہیں گزرتا کہ سب کے دل باہم جڑ جاتے ہیں اور وہ گھر جنت کا نمونہ پیش کرنے لگتے ہیں۔ ایسا بھی ہے، مگر عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ جہاں دنیاوی تعلیم کے ساتھ دین داری اور خوفِ خدا ہو وہاں ایسی مثالیں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ دنیاوی تعلیم سے مراد ڈگریاں بھی نہیں لی جاسکتیں، کیونکہ ہم سے پچھلی نسل کے پاس تو ڈگریاں اتنے افراط سے نہ تھیں، مگر عمل و کردار میں وہ ڈگری یافتہ آج کی نسل سے کہیں آگے تھے۔ یہاں تربیت زیادہ قابلِ بحث امر ہے کہ جہاں لڑکی کو یہ سمجھ کر تعلیم و تربیت دی جائے کہ اسے دوسرے کے گھر جانا ہے اور وہ مستقبل کی ماں ہے، وہیں لڑکے کو بھی یہ تربیت دی جائے کہ ایک خاندان اس کو آباد کرنا ہے جہاں وہ شوہر اور باپ جیسے عظیم مرتبے پر فائز ہوگا۔ یوں بھی آپ دیکھیے کہ جو خطبۂ نکاح ہے اس کی نصحیتیں صرف اس لڑکے کے لیے نہیں ہیں جو گھر بسانے جارہا ہے، نہ ان کی مخاطب صرف وہ لڑکی ہے جو اپنا گھر چھوڑ کر رخصت ہورہی ہے۔۔۔ وہاں جتنی نصحیتیں ہیں دونوں کے لیے ہیں، اور دونوں کو برابر ذمے داری کا احساس دلایا گیا ہے، اور بہشت میں زیور صرف عورتوں ہی کو درکار نہیں ہوں گے، وہاں جن بہشتی زیوروں کا ذکر کیا گیا ہے وہ مومنوں کے لیے ہیں، عورت اور مرد کی تخصیص کے بغیر۔
مجھے یہ کہنے کے لیے بڑا حوصلہ درکار ہے کہ اگر ایک شادی شدہ مرد اپنی ازدواجی زندگی میں ناکام ہوتا ہے تو اس کا کریڈٹ بھی عورت ہی کو جاتا ہے۔ مرد عموماً مردوں کے لیے اتنی آزمائش کا سبب نہیں بنتے جتنی آزمائش ہم عورتیں مردوں کے لیے پیدا کیا کرتی ہیں۔ بیوی بھی عورت ہے اور ماں، بہنیں بھی عورت ہیں۔ اکثر مرد شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں کہ ان خواتین کی کس بات پر کان دھریں اور کس پر نہ دھریں، کس کو سچا سمجھیں اور کس کو نہ سمجھیں؟ ہر دو جانب سے اکثر اتنا دباؤ ہوتا ہے مردوں پر کہ کبھی کبھی وہ انتہائی فیصلے کر گزرتے ہیں، مثلاً بیوی کو خوش کرنے کے لیے والدین کو بے یارومددگار چھوڑ کر الگ گھر بسا لیتے ہیں، یا ماں اور بہنوں کو خوش کرنے کے لیے بیوی کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔
اب تک کی تحریر کے بعد یہ کہنا میرے لیے آسان ہوگیا ہے کہ والدین کی ذمے داریوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ لڑکیوں ہی کو یہ احساس نہ دلائیں کہ انہیں پرائے گھر جانا ہے یا ان پر ذمے داریوں کے بوجھ پڑنے والے ہیں، بلکہ لڑکوں کی تربیت بھی اس انداز سے کریں کہ وہ اپنی اگلی زندگی میں ایک کامیاب شوہر ثابت ہوں اور رشتوں کا اکرام کرنا جانتے ہوں۔ہماری ایک قریبی عزیزہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے شوہر کا ساری زندگی رویہ دیکھ کر اپنے بیٹوں کی تربیت کے لیے سنہری اصول لیے۔ میرے شوہر نے جن ذمے داریوں سے پہلوتہی برتی اور جن کاموں کو کرنے پر کبھی آمادہ نہ ہوئے کہ میں نے بچپن سے یہ کام نہیں کیا یا میری ماں نے تو کبھی مجھ پر یہ ذمے داری نہیں ڈالی، تب میں نے سوچا کہ آج مجھے جس صبر اور حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے یا جو مشقتیں اٹھانا پڑتی ہیں، میں اپنے گھر آنے والی بہوؤں کو ان آزمائشوں سے بچاؤں گی۔ اپنے بیٹوں سے وہ کام کرواؤں گی اور وہ ذمے داریاں بچپن سے ان پر ڈالوں گی تاکہ ان کی شخصیت میں وہ کمی نہ رہ جائے جو آنے والی کی زندگی میں تلخیاں گھول دے۔ کسی گھرانے کے اخلاقی وزن کا اندازہ کرنا ہو تو اس گھر کی بہو کی گواہی کافی ہوسکتی ہے۔عام چلن یہی ہے معاشرے کا کہ وہ حساس گھرانے جو بیٹیوں کی تربیت کی طرف سے بہت فکرمند ہوتے ہیں، وہ بیٹے کی تربیت اس جانفشانی سے نہیں کرتے، اور گمان یہی کیا جاتا ہے کہ اگر شخصیت میں کچھ جھول رہ بھی گیا، یا روش غیر ذمے دارانہ ہے تو آنے والی زندگی میں بیوی ان عیبوں کو ڈھانپ لے گی۔ مثلاً گھر میں بہنوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ دوڑ دوڑ کر بھائیوں کی خدمت کریں اور چاہتے نہ چاہتے ہوئے ان کے حکم بجا لائیں، اس لیے کہ لڑکے ان کاموں کے لیے پیدا ہی نہیں کیے گئے، نہ وہ اپنے کمرے کو صاف ستھرا رکھ سکتے ہیں، نہ اپنے کپڑے دھو سکتے ہیں، نہ چولہا جلانا جانتے ہیں چائے یا ناشتا بنانا تو کجا۔ وہ یہ سب توقعات اپنی والدہ اور بہنوں سے کرتے ہیں جو پوری بھی کی جاتی ہیں۔ جب کہ ازدواجی زندگی کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔ میاں اور بیوی میں سے کوئی بیمار ہو تو دوسرے کے حصے کے کام بھی کسی ایک ہی فریق کو انجام دینا ہوتے ہیں۔۔۔ یا جن لڑکوں کی ماؤں نے ان کی تربیت ایسی کی ہوتی ہے کہ وہ نوعمری ہی سے بہت ڈسپلن والی زندگی کے عادی ہوتے ہیں اور سنتِ نبویؐ کی پیروی کرتے ہوئے گھر کے کام کاج کے بھی عادی ہوتے ہیں اور دوسروں سے کم سے کم توقعات رکھتے ہیں ان کی زندگیاں زیادہ آسودہ ہوتی ہیں اور ان کو ازدواجی زندگی میں ان تلخیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو لااُبالی لوگوں کو پیش آتی ہیں۔بات صرف کام کاج کی نہیں ہے، اخلاقی تربیت کی بھی ہے۔ لڑکی اگر اونچا بولے یا ضدی اور اَنا پسند ہو تو والدین فکرمند ہوتے ہیں کہ دوسرے گھر جاکر کیسے نبھے گی، لیکن لڑکے میں مذکورہ صفات کسی والدین کو فکرمند نہیں کرتیں۔ لڑکوں کے لیے یہ الاؤنس ہوتا ہے کہ آنے والی انتہائی تربیت یافتہ ہوگی، صابر اور شاکر ہوگی۔ صاحبزادے موصوف جتنی بھی اخلاقی کمزوریوں کا شکار ہوں ہم دلہن ایسی تلاش کرکے لائیں گے جو ہمارے گھر کو آتے ہی جنت بنا دے گی۔ نہ صرف صاحبزادے کی اخلاقی کمزوریوں کو برداشت کرے گی بلکہ دیگر اہلِ خانہ کی بھی خدمت کرے گی۔
کسی ماں نے اپنے بیٹے کی کیسی تربیت کی ہے اس کا اصل پتا بہو گھر میں آنے کے بعد ہی چلتا ہے۔ وہ قدم قدم پر بیٹے کی بھی تربیت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ نئے رشتوں کے تقاضوں کو کتنے اکرام سے نبھاتا ہے۔ ہماری ایک عزیزہ جن کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے، بیٹی تو بیاہ کر پیا دیس سدھاری مگر وہ بیٹا جس کی انہوں نے بہت ہی ناز اٹھا کر تربیت کی ہے، خود مزدوری کرکرکے جس کے ناز اٹھائے ہیں، جس کی ہر جائز و ناجائز خواہش کا اس لیے احترام کیا کہ ایک ہی تو بیٹا ہے، وہ بیٹا شادی کے بعد اُن سے اتنا متنفر ہے کہ دکھ اور بیماری میں بھی ان کے کسی کام نہیں آتا۔ وہ تو الزام اس کی بیوی ہی کو دیتی ہیں۔ میں اُن کو بار بار توجہ دلاتی ہوں کہ آپ خود جائزہ لیں کہ آپ کی تربیت میں کہاں جھول رہ گیا؟ ایک ماں اپنے بیٹے کی گھٹی میں کیوں نہیں ڈالتی کہ والدین کا اکرام کیا چیز ہوتی ہے۔ وہ کیوں اس کو اعلیٰ انسانی اقدار سے متصف نہیں کرسکی؟ شادی کے بعد کی زندگی کے لیے ماں نے بیٹے کو پہلے سے ذہنی طور پر تیار کیوں نہیں کیا تھا؟ بیٹا کیوں اتنی اعلیٰ ظرفی اور حوصلہ مندی نہیں دکھا سکا کہ رشتوں میں توازن پیدا کرتا؟
لڑکیاں ہی سسرال میں جاکر ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتیں، اس سماج میں ہزاروں گھر ہوں گے جہاں آنے والی نے اپنی انا اور ضد سے گھر والوں کو ڈپریشن کا شکار کردیا ہوگا۔ اگر آپ کے خاندان کی اعلیٰ اقدار و روایات بہت مستحکم ہیں، ان کی جڑیں بہت گہری ہیں تو وہ تنے ہلکی پھلکی ضربوں کو برداشت کرسکتے ہیں، زمین سے وہ درخت اکھڑ نہیں سکتے۔ جہاں بیٹوں کی تربیت اعلیٰ خطوط پر کی جاتی ہے وہ گھرانے بہوؤں کے عیبوں اور کمزوریوں کی بھی پردہ پوشی کرنا جانتے ہیں۔
کسی لڑکی کی شادی کے بعد اگر ایک طرف یہ امتحان ہوتا ہے کہ وہ لڑکی اپنے گھر سے کیسی تربیت پا کر آئی ہے تو دوسری طرف لڑکے کے پورے گھر کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ نئی آنے والی کے لیے اپنے گھر میں اور اپنے دلوں میں کتنی کشادگی رکھتے ہیں۔
آپ سوچیے جو گھرانے ہماری نظر میں آئیڈیل ہیں کیا وہ اس لیے آئیڈیل ہیں کہ وہاں مسئلہ ہی کوئی نہیں ہے؟ یا کوئی گھرانہ اس لیے مثالی بنتا ہے کہ وہاں رہنے والے ایک دوسرے کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا جانتے ہیں، اعلیٰ ظرفی اور بلند حوصلگی سے دوسرے کے عیبوں کو ڈھانپ لیتے ہیں اور اپنے حقوق کے بجائے اپنے فرائض پر نظر رکھتے ہیں۔ ایک نیا گھر بنانے اور بسانے کے لیے جتنی ہدایات اور نصیحتوں کی ضرورت ایک لڑکی کو ہے اتنی ہی لڑکے کو بھی ہے۔ دونوں سمت کے والدین اگر کشادہ دل رکھتے ہیں تو نوبیاہتا جوڑے کے بہت سے عیب بھی ثواب شمار ہوجاتے ہیں۔