مجھے کچھ بچیوں نے کہا کہ آپ نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا ہے، کیا لڑکوں کی تربیت ضروری نہیں؟ کیا وہ دوسروں کے لیے مسائل کا سبب نہیں بن سکتے؟ لہٰذا آج مجھے یہی میرے کالم کا موضوع مل گیا۔
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں اچھا ماحول ملنے سے دو گھرانے اور ایک نسل متاثر ہوتی ہے، جبکہ لڑکوں کو بہتر اور سازگار ماحول اور اچھی تعلیم و تربیت ملنے کی وجہ سے دو گھرانوں کے افراد، اور ایک نسل کے علاوہ معاشرے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح بیٹیوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے، اس سے زیادہ بیٹوں کی تعلیم و تربیت اہم ہے۔ نہ صرف ماں بلکہ بیٹوں کی تعلیم و تربیت میں والد کا ہاتھ ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ بیٹوں کی تربیت کا خاص خیال رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کا بیرونی دنیا سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے۔ اچھے اور برے لوگوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے۔ اچھی تعلیم و تربیت کی حامل اولاد ماں باپ کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہوتی ہے اور وہ خود بھی بیرونی دنیا (یعنی گھر سے باہر) میں دوستیاں کرنے میں احتیاط رکھتی ہے۔ میرا تعلق چونکہ درس و تدریس سے رہا، بچوں کے والدین سے واسطہ پڑتا رہتا تھا، میں نے نوٹ کیا کہ والدین لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کے بارے میں پریشان اور فکرمند رہتے تھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ لڑکوں کی وجہ سے والدین مسائل کا شکار بھی نظر آتے تھے، خاص طور پر Tack care گروپ لڑکوں کی وجہ سے۔ یہی عمر انسان کی شخصیت کے بننے، سنورنے اور سیکھنے کی ہے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے ایک بات نوٹ کی ہے کہ اگر بچوں کی ابتدائی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جائے اور انہیں اسلامی ماحول مہیا کیا جائے تو سودمند ثابت ہوتا ہے۔ قرآنی تعلیم، مسجد میں جاکر نماز پڑھنے اور رمضان میں اعتکاف میں بیٹھنے سے بچوں کو نہ صرف اسلامی ماحول میسر آتا ہے بلکہ انہیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ میرے تینوں بیٹوں کو مسجد میں نماز پڑھنے اور خاص طور پر اعتکاف میں بیٹھنے سے الحمدللہ بہت فائدہ حاصل ہوا اور وہ جو سیکھ کر آتے، گھر آکر ہم سے بھی شیئر کرتے۔ لیکن میں اپنے آس پاس نظر دوڑاتی ہوں تو نہایت افسوس ہوتا ہے کہ اس طرف آج کل زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔
دنیاوی تعلیم پر تو والدین بڑا روپیہ اور زور لگاتے ہیں لیکن دینی تعلیم لڑکوں کے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔ کسی خاتون سے ملنے اُن کے گھر گئی، بچے کو اسکول سے آئے دو گھنٹے ہوچکے تھے، وہ کھانا وغیرہ کھاکر فارغ ہوچکا تھا، اسے قرآن پڑھنے کے لیے مدرسہ جانا تھا لیکن بچہ (آٹھ نو سال کا) ضد کررہا تھا کہ میں نہیں جاؤں گا۔ بڑی بہن کہہ رہی تھی کہ تم روز ایسا ہی کرتے ہو، پچھلے ایک ہفتے سے نہیں گئے، آج تو جاؤ۔ لیکن والدہ نہ صرف بچے کی طرف داری کررہی تھیں بلکہ بیٹی کو ڈانٹ بھی رہی تھیں کہ روز بچے کو رلاتی ہو، اس کے پیچھے ہی پڑجاتی ہو، تھکا ہارا اسکول سے آیا ہے، اسے آرام کرنے دو۔ بیٹی نے ماں کو جواب دیا کہ آپ نے بڑے بھائی کے ساتھ بھی ایسے ہی کیا، نہ وہ قرآن پڑھ سکا ہے اور نہ یہ پڑھ سکے گا۔ مجھے بچے کی والدہ پر بڑا افسوس ہوا، میں نے صرف اتنا کہا کہ بحیثیت مسلمان ہمیں قرآنی تعلیم تو لازمی حاصل کرنی چاہیے۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بچہ قرآنی تعلیم سے محروم ہی رہا۔ بچوں کے لاڈ ضرور اٹھائیں لیکن ’’اعتدال‘‘ میں۔ اگر دو باتیں ان کی مان رہے ہیں تو ایک بات اپنی بھی منوائیں۔ حد سے زیادہ لاڈ پیار، اُن کی جائز ناجائز خواہشات پوری کرنا، ان کی ضد کے سامنے ہار ماننا، ان کی غلطیوں پر ان کی طرف داری کرنا ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ایک غریب والدہ ایک محفل میں اپنے بچے کے بارے میں پریشان نظر آئیں کہ ان کا بیٹا بہت ضد کرتا ہے، گھر میں ٹک کر نہیں بیٹھتا، پڑھائی میں بھی دلچسپی نہیں لیتا۔ اتنے میں ان کا بیٹا اپنے دو تین کزن (جو صاحبِ حیثیت گھرانوں کے چراغ ہیں) کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ نو دس سالہ اس بچے کے ہاتھ میں موبائل تھا، وہ کمرے میں کم از کم 20 منٹ رہا، کسی سے ہنس ہنس کر بات کررہا تھا اور پھر بار بار اپنے دوستوں کے کانوں میں کھسر پھسر کررہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ وہ اپنے امیر کزن کی صحبت میں پورا ڈوبا ہوا تھا اور ان کے رنگ میں رنگ گیا تھا۔ لہٰذا اپنے ’’غریبانہ ماحول‘‘ میں گھٹن محسوس ہونے کی وجہ سے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گستاخی اور بدتمیزی کا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ اگر والدین اپنی غریبی کا رونا بچوں کے سامنے روتے رہیں اور ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرائیں تو بچے نہ صرف احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ گھر سے دور بھاگتے ہیں۔ اس بچے کی والدہ نے بعد میں یہ بھی بتایا کہ وہ اکثر اپنے کزن کے گھر رہنے بھی جاتا ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ہر چیز عمر کے مطابق بچوں کو مہیا کی جائے۔ آج ہمارے معاشرے میں سات آٹھ سال کے بچے کو موبائل تھما دیا جاتا ہے، اور کمرے میں اس کے لیے لیپ ٹاپ یا آئی پیڈ وغیرہ، انجانے میں لڑکے ان اشیاء کا غلط استعمال کرتے ہیں، کیونکہ وہ ابھی اس عمر میں نہیں ہوتے کہ ان کا صحیح اور مثبت استعمال سمجھ سکیں۔ اس طرح وہ نہ صرف پڑھائی سے دور بلکہ اخلاقی پستی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ اسکول کی میٹنگ میں اکثر ایسے والدین سے واسطہ پڑتا رہتا تھا جنہوں نے بچوں کو چھوٹی عمر میں بہت سی ’’جدید اشیاء‘‘ مہیا کیں ہوئی تھیں جن پر فخر کا اظہار بھی کرتے تھے۔میں یہاں صرف ایک بچے کی مثال پیش کروں گی، آپ خود اندازہ لگائیں گے کہ یہ بچہ مستقبل میں اس معاشرے کے لیے کتنا ’’سود مند‘‘ ثابت ہوگا۔
اس بچے کی کارکردگی ہر کلاس میں اور ہر ماہانہ ٹیسٹ میں صفر تھی۔ والدہ ’’پوری کٹ‘‘ میں آتیں اور بچے کی رپورٹ لے کر چلی جاتیں۔ کوئی تبادلہ خیال وغیرہ نہ کرتیں۔ ایک مرتبہ اپنے شوہر کے ساتھ آئیں، شوہر نے بچے کی رپورٹ دیکھی تو افسوس سے کہنے لگے ’’میڈم میں نے اس نالائق کے کمرے میں دنیا بھر کی آسائشیں مہیا کی ہیں، منہ سے جو فرمائش نکالتا ہے میں پوری کرتا ہوں، اور بڑے کالج کے پروفیسر کو اس کی ٹیوشن کے لیے رکھا ہے، لیکن یہ نالائق کا نالائق ہی رہا‘‘ (بیوی میاں کو بڑے غصے سے دیکھ رہی تھیں)۔ میں نے ان صاحب کی بات سن کر صرف اتنا کہا ’’جناب اسے ’’آپ‘‘ کی ضرورت ہے، آپ اسے وقت دیں‘‘۔ ابھی یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ آٹھویں کلاس کا وہ بچہ بغیر سلام کے کلاس روم میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں چپس، کولڈ ڈرنک اور پیٹس وغیرہ تھے۔ بیوی نے بڑی ناگواری سے شوہر سے کہا ’’چلیں ہمیں اور بھی بہت سے کام ہیں‘‘۔ چنانچہ صاحب نے رجسٹر پر دستخط کیے اور رپورٹ کارڈ لے کر جانے لگے۔ دروازے سے نکلتے ہوئے شوہر کی آواز آئی ’’اگلے سال ’’بورڈ‘‘ کے امتحانات ہوں گے، یہ نالائق پھر کیا کرے گا!‘‘۔۔۔ ’’اوہو سب ’’انتظام‘‘ ہوجائے گا، آپ کو کیا پڑی تھی کہ دوٹکے کی استانی کو منہ لگانے لگے!‘‘ بیٹا ماں کی بات پر ’’مسکرانے‘‘ لگا۔ ماں کی بات سن کر اور بیٹے کا ’’ردعمل‘‘ دیکھ کر مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ ماں باپ اگر استادوں کے تقدس کا خیال نہیں رکھیں گے تو ان کی یہ اولاد بڑے ہوکر والدین اور بزرگوں کا کیا احترام کرے گی! مجھے اس وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول یاد آگیا: جس نے آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا وہ شخص آپ کے لیے روحانی والد کا درجہ رکھتا ہے۔ (مفہوم)
دو سال بعد یہ بچہ میٹرک کے امتحان میں ’’A+‘‘ حاصل کرکے کامیاب ہوگیا۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مختلف امتحانات میں ’’کامیابی‘‘ حاصل کرکے وہ کسی اہم محکمے میں اعلیٰ افسر لگ جائے گا تو اس کی کارکردگی کیا ہوگی؟ اور معاشرے میں ایسے بہت سے افراد کی وجہ سے آج کیا پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں!
یعنی نہ صرف گھر بلکہ معاشرہ بھی متاثر ہوسکتا ہے ایسے لوگوں کی وجہ سے۔ ایسے ہی بچے اپنے بڑوں کے نقشِ قدم پر چل کر اپنی کامیابی کے لیے ناجائز اور غلط راستے تلاش کرتے ہیں۔ ان کی سوچ کا محور ’’اپنی ذات کا مفاد‘‘ ہوتا ہے۔ چاہے ان کے اِن اقدامات کی وجہ سے دوسروں کی حق تلفی ہو یا دوسروں کا نقصان، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔لڑکوں کی تربیت کے لیے اُن کے دوستوں پر نظر رکھنا لازمی ہے۔ بے شک گھر کی تربیت مناسب ہو لیکن بعض اوقات دوستوں کی صحبت میں لڑکے بہت سی ’’اخلاقی برائیوں‘‘ میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ اگر وہ زیادہ وقت دوستوں میں گزاریں یا شام دیر سے لوٹیں تو نوٹ کریں کہ ان کے دوست کس قسم کے ہیں۔ اسکول میں جماعت ہشتم کا ایک طالب علم مناسب کارکردگی اور اچھے کردار کا مالک تھا۔ خاموش طبع اور اپنے کام سے کام رکھنے والا۔ اچانک اس میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہیں تمام اساتذہ نے نوٹ کیا۔ والدین کو بلایا گیا۔ والدہ نے بھی کہا کہ میں بھی نوٹ کررہی ہوں کہ یہ پڑھائی سے جی چرانے لگا ہے اور زیادہ وقت گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ گزارتا ہے کہ ہم ’’مشترکہ پڑھائی‘‘ کرتے ہیں۔ ہم سب نے اس کی ماں سے کہا کہ اس کے دوستوں کے بارے میں معلوم کریں کہ وہ کس قسم کے ہیں اور بچے کو بھی اعتماد لے کر پیار و محبت اور دوستانہ ماحول میں دوستوں کے بارے میں معلوم کریں کہ ان کے مشاغل کس قسم کے ہیں۔ کافی محنت اور کوشش کے بعد بچے نے والد کو بتایا کہ میرے دوست کہتے ہیں کہ اگر تم نے کسی اور کو بتایا تو ہم تمہیں نقصان پہنچائیں گے، میں ان کے پاس نہیں جاتا تو دھمکاتے ہیں۔ یہ صورت حال والدین کے لیے پریشان کن تھی جس سے فوری طور پر نمٹنا بھی ضروری تھا۔ لہٰذا والدین اس بچے کو اسکول چھوڑنے اور لینے خود آنے لگے اور جلد ہی انہوں نے اپنی رہائش گاہ بھی بدل دی۔
لڑکوں کو رات دیر گئے تک باہر نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ دیر تک دوستوں کے ساتھ باہر رہنے سے بہت سی برائیاں ان میں جنم لیتی ہیں۔ میرا بیٹا قطر سے آرہا تھا، اس کی فلائٹ رات تین بجے تھی۔ میں دوسرے بیٹے اور شوہر کے ساتھ ایئرپورٹ جانے کے لیے گھر سے نکلی۔ اپارٹمنٹ کے گیٹ کے سامنے دس پندرہ افراد خوش گپیوں اور سگریٹ کے کش لینے میں مصروف نظر آئے۔ یہ تمام افراد محلے کے ہی تھے اور ’’بال بچوں‘‘ والے تھے۔ گیٹ سے باہر نکل کر اگلی گلی میں پہنچے تو پندرہ سولہ لڑکے کرکٹ کھیلتے نظر آئے جن کی عمریں 14 سے 22 سال تک تھیں۔ دو تین کے ہاتھ میں سگریٹ بھی تھے۔ مجھے یہ سب دیکھ کر افسوس ہوا۔ میں نے لاحول ولا قوۃ پڑھا اور کہا ’’اللہ نے رات آرام کے لیے اور دن کام کے لیے بنائے ہیں، اور تعجب ہے کہ ان کی ماؤں نے اجازت کیسے دی ہے اس وقت گھر سے نکلنے کی!‘‘ میرا بیٹا میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور کہنے لگا ’’ہر ماں افروز نہیں ہوتی، کچھ مائیں ایسی بھی ہوتی ہیں‘‘۔ میں بیٹے کے جملے کا مطلب سمجھ گئی کہ اس کا اشارہ کس واقعے کی طرف ہے۔ یہ آٹھ نو سال پیچھے کی بات ہے، اپارٹمنٹ کے لڑکوں کا دوسری گلی کے لڑکوں کے ساتھ رات کے وقت میچ تھا جس میں میرے دونوں بیٹے بھی شامل تھے۔ دونوں بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی، میں خاموش ہوگئی، میری خاموشی کو دیکھ کر میرے شوہر نے کہا ’’ٹھیک ہے بیٹا آپ لوگ چلے جانا‘‘۔ میں بچوں کے سامنے چپ ہوگئی، شوہر سے کچھ نہ کہا۔ بچے خوش ہوگئے۔ بعد میں مَیں نے شوہر سے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، آئندہ ہمیں خیال رکھنا ہوگا۔ خیر اگلے دن بچے میچ کھیلنے کے لیے رات کو 10 بچے گھر سے نکلے۔ (اس سے پہلے میں نے اس وقت بچوں کو اکیلے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی) بچوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ایک بجے تک واپس آجائیں گے۔ مجھے اپنے بچوں پر اعتماد تھا، لہٰذا میں نے زیادہ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔ جب ایک بج گیا اور بچے گھر نہیں پہنچے، ویسے ہی یہ وقت میں نے بڑی پریشانی میں گزارا تھا، لہٰذا شوہر سے کہا کہ آپ جاکر دیکھیں۔ کہنے لگے دس پندرہ منٹ اور دیکھتے ہیں، اگر نہ آئے تو میں چلا جاؤں گا۔ پندرہ منٹ انتظار کرنے کے بعد میں خود بھی شوہر کے ساتھ گئی اور دونوں بچوں کو لے کر آئی۔ ابھی مخالف ٹیم کی بیٹنگ ختم ہونے میں کافی وقت لگ سکتا تھا۔اگلے دن میں نے دونوں بچوں کو بٹھاکر صرف اتنا کہا کہ مجھے کسی آزمائش میں نہ ڈالنا، یہ روش آپ کے اور میرے لیے بھی تکلیف دہ ہوسکتی ہے۔ دونوں بچے سمجھ دار ہیں، میری بات کو سمجھ گئے اور پھر کبھی ایسی نوبت نہیں آئی۔
میں نے اپنے آس پاس دیکھا ہے کہ جن لڑکوں کو رات دیر گئے تک باہر رہنے کی عادت ہوتی ہے، ان کی وجہ سے تمام کنبہ پریشان رہتا ہے اور ’’آنے والی‘‘ (بیوی) کو شدید پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایک خاتون نے (جس کے شوہر ایک معزز اور اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں) بتایا کہ مجھے اپنے شوہر کی اس ایک بری عادت کی وجہ سے ہمیشہ ڈپریشن اور پریشانی رہی ہے، تمام آسائشوں کے باوجود میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہوں۔ پھر ایسے مردوں کی اولاد بھی بہت سے مسائل کا شکار رہتی ہے۔ اچھی تربیت کے حامل مرد نہ صرف اچھے بیٹے، اچھے بھائی بلکہ اچھے شوہر اور اچھے باپ بھی ثابت ہوتے ہیں اور معاشرے کے لیے بھی ایک اچھے شہری اور کارکن بنتے ہیں۔ وہ اپنے کردار و عمل سے ماں باپ کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک، بہن بھائیوں کے لیے مہربان دوست اور ساتھی، بیوی کے لیے ایک مثالی رفیق اور غمگسار، جبکہ اولاد کے لیے ایک شفیق سایہ ہوتے ہیں، جبکہ معاشرے کے افراد اور عزیز و اقارب کے حقوق کی پاسبانی کرتے نظر آتے ہیں، اور دین اسلام نے ان تمام رشتوں کی اہمیت اور ان کے حقوق کو واضح کیا ہے۔ حقوق العباد کی عدم ادائیگی اللہ کی ناراضی کا باعث بنتی ہے۔ ماں باپ کی ناراضی رب کی ناراضی بن جاتی ہے۔ بیوی اور اولاد پر خرچ کرنے کو بہترین صدقہ کہا گیا ہے۔ بہترین انسان اسے کہا گیا ہے جس کا اخلاق اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے۔ اپنے کاروبار اور ملازمت کے سلسلے میں ایمان داری، محنت اور خلوص سے کام کرنے والے کو بہترین اجرِ آخرت سے نوازا جائے گا۔ اوپر دی ہوئی تمام خوبیوں سے متصف وہی شخص ہوسکتا ہے جس کو بچپن سے اچھی تعلیم و تربیت اور اچھا ماحول میسر آیا ہوگا۔ ایک اور اہم بات جس کا آخر میں ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں، وہ ہے ’’رزقِ حلال‘‘ سے بچوں کی پرورش کرنا۔ اسلام کے احکامات پر عمل کرنا ہمارے لیے سودمند ہے۔میں نے اپنے آس پاس رہنے والوں کی زندگی کا بغور جائزہ لیا ہے، وہ والدین جو رزقِ حلال سے بچوں کی پرورش کرتے ہیں وہ ماں باپ کے نہ صرف فرماں بردار ہوتے ہیں بلکہ ان کے کردار و عمل بھی والدین کے لیے صدقۂ جاریہ ثابت ہوتے ہیں۔ خدا ہم سب کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت اور رہنمائی کی توفیق عطا کرے۔ (آمین)