(ریاست کے مقاصد وفرائض قرآن مجید کی روشنی میں (مرزا سبحان بیگ

1325

اسلامی ریاست ایک مقصدی ریاست ہوتی ہے۔ اس ریاست کے دو بڑے مقاصد ہیں:
1۔ عدل کا قیام اور ظلم وجور کا خاتمہ۔
(ترجمہ)’’ہم نے اپنے رسولوں کو واضح ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب ومیزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور ہم نے لوہا نازل کیا جس میں سخت قوت اور لوگوں کے لیے منافع ہیں۔‘‘(الحدید:25)
اس آیت میں انسانی معاشرے میں قیامِ عدل کو انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد اور ان کا مشن بتایا گیا ہے۔ قیام عدل کے لیے سیاسی وجنگی قوت درکار ہے، جیسا کہ مولانا مودودیؒ بجا طور پر اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام کے مشن کو بیان کرنے کے معاً بعد یہ فرمانا کہ ’’ہم نے لوہا نازل کیا جس میں بڑا زورہے‘‘ خود بہ خود اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں لوہے سے مراد سیاسی اور جنگی طاقت ہے، اور کلام کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو قیام عدل کی محض ایک اسکیم پیش کردینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ یہ بات بھی ان کے مشن میں شامل تھی کہ اس کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش کی جائے اور وہ قوت فراہم کی جائے جس سے فی الواقع عدل قائم ہوسکے، اسے درہم برہم کرنے والوں کو سزا دی جاسکے اور اس کی مزاحمت کرنے والوں کا زور توڑا جاسکے۔‘‘(تفہیم القرآن)
2۔ اقامتِ صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کے نظام کا قیام، نیز بھلائیوں و نیکیوں کا فروغ اور برائیوں کا خاتمہ:
(ترجمہ) ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے۔ ایتائے زکوٰۃ کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔‘‘(الحج: 41)
یعنی حکام خودکو بھی اور عوام کو بھی اقامتِ صلوٰۃ کا پابند کریں گے تاکہ ان کے اندر احساسِ بندگی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی، نیز فسق وفجور اور کبر وغرور سے محفوظ رہنے کا احساس اور داعیہ ہمیشہ زندہ رہے۔ اسی طرح ایتائے زکوٰۃ کے ذریعے مال کی محبت اور مادہ پرستی، بخل وفضو ل خرچی سے وہ محفوظ رہیں۔ مزید یہ کہ وہ بھلائیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کو مٹانے کی طرف سے کبھی غافل نہ رہیں۔ ان مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ اسلام کے عبادتی نظام، روحانی واخلاقی نظام، معاشی واقتصادی نظام، خاندانی و معاشرتی نظام، عدالتی نظام کو قائم کرے اور بین الاقوامی امور اور جنگ و صلح، نیز سیر تفریح اور کھیل کود وغیرہ سے متعلق اسلام کے اصول وضوابط کو قائم کرنے، رکھنے اور انھیں مستحکم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔
رعایا کے حقوق
اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے عوام مسلم و غیر مسلم، مرد و عورت، تمام کے درج ذیل بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے:
1۔ جان کا تحفظ
’’کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے، حق کے بغیر قتل نہ کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل: 33)
2۔ مال کا تحفظ
’’اپنے مال آپس میں ناجائز طریقوں سے نہ کھاؤ۔‘‘ (البقرہ:188)
3۔ عزت وآبرو کا تحفظ
’’کوئی گروہ دوسرے کا مذاق نہ اڑائے، اور نہ تم ایک دوسرے پر عیب لگاؤ، نہ ایک دوسرے کو برے لقب دو، نہ تم میں سے کوئی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی کرے۔‘‘ (الحجرات:12-11)
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں انھوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا۔‘‘(الاحزاب:58)
اس آیت کی رو سے بہتان ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنی ہے بلکہ اس آیت کا تقاضا ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے کو (خواہ یہ فعل عام آدمی یا حکمراں) جرم مستوجب سزا قرار دیا جائے۔
4۔ نجی زندگی یعنی Privacy کا تحفظ
’’اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہو جب تک کہ اجازت نہ لے لو۔‘‘ (النور: 27)
’’اور لوگوں کے بھید نہ ٹٹولو، اُن کی جاسوسی نہ کرو۔‘‘ (الحجرات:12)
5۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے اِلّا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو۔‘‘(النساء:148)
واضح رہے کہ اسلام کا عام قانون اور اخلاقی ضابطہ تو یہی ہے کہ کسی کے خلاف بدگوئی یا بدزبانی ناجائز ہے، لیکن مظلوم کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اوپر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور ایک حد تک ظالم کی بدگوئی بھی کرے۔ یہ ایک استثنا ہے جو صرف مظلوم کے سلسلے میں ہے۔ وہ صرف اس قدر برے الفاظ استعمال کرسکتا ہے جن سے ظالم کے حقیقی ظلم کا اظہار ہورہا ہو۔ (فی ظلال القرآن، سید قطب شہیدؒ )
6۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حق، جس میں تنقید اور اظہارِ خیال کی آزادی کا حق بھی شامل ہے۔
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘ (التوبہ: 71)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’میرے بعد کچھ لوگ حکمراں ہونے والے ہیں، جو ان کے جھوٹ میں ان کی تائید کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں۔‘‘(کنز العمال، ج:6، ح:14891، بحوالہ نسائی کتاب البیعتہ عن کعب بن عجرۃؓ)
’’عنقریب تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جن کے ہاتھ میں تمھاری روزی ہوگی، وہ تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے اور کام کریں گے تو برے کام کریں گے۔ وہ تم سے اُس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کی برائیوں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو۔ پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارا کریں، پھر اگر وہ اس سے تجاوز کریں تو جو شخص اس پر قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔‘‘ ( کنز العمال، ج: 6، ح: 14888 بحوالہ طبرانی عن ابی سلالۃؓ)
’’جس نے کسی حاکم کو راضی کرنے کے لیے وہ بات کی جو اس کے رب کو ناراض کردے، وہ اللہ کے دین سے نکل گیا۔‘‘
’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمراں کے سامنے انصاف (یا حق) کی بات کہنا ہے۔‘‘ (ابوداؤد)
واضح رہے کہ تنقید و اظہارِ خیال کی یہ آزادی بے لگام نہیں ہے بلکہ شرعی حدود کی پابند ہے۔

حصہ