130ھارت میں اردو زبان و ادب کے ایک بڑے نام ور محقق اور ایک طویل عرصے تک انجمن ترقی اردو، ہند کو فعال انداز میں چلانے والے اس کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خلیق انجم 18 اکتوبر 2016ء کو دہلی میں انتقال کرگئے۔
اگرچہ کچھ عرصہ وہ اردو زبان وادب کے استاد بھی رہے مگر ان کی زندگی کا بیشتر حصہ انجمن ترقی اردو ہند سے وابستگی میں گزرا۔ وہ ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے تربیت یافتہ محقق تھے، اس لیے انہوں نے انجمن کے سیکرٹری کے طور پر فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ، اعلیٰ درجے کا تحقیقی کام بھی کیا۔ ان کا پی۔ ایچ۔ ڈی مرزا رفیع سوداؔ پر ہے۔ اوائل (1967ء) میں انہوں نے خواجہ احمد فاروقی کی ہدایت پر ’’متنی تنقید‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی جسے نظرثانی اور اضافوں کے ساتھ 2006ء میں دوبارہ شائع کیا۔ اصولِ تحقیق و تدوین پر یہ اعلیٰ درجے کی کتاب ہے۔ غالب کے خطوں کو انہوں نے پانچ جلدوں میں مرتب کیا۔ ان کا ایک اور تحقیقی کارنامہ سرسید احمد خان کی کتاب ’’آثار الصنادید‘‘ کی تین جلدوں میں تدوین ہے۔
خلیق انجم 22 جنوری 1933ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ان کی ساری عمر یہیں گزری۔ آپ انہیں ’’دِلّی کا روڑا‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دلی کے تہذیبی اور ادبی تذکروں میں ان کا ذکر ناگزیر ہے۔ خود انہوں نے اپنے دہلویت کے سبب ہی دہلی کے بزرگ ادیبوں اور شاعروں پر قلم اٹھایا۔ ’’مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا‘‘ ان کا سترہ شخصیات کے خاکوں پرمشتمل مجموعہ ہے۔ ان میں سے تین چار کے سوا باقی سب دہلوی بزرگ ہیں۔ شمیم حنفی لکھتے ہیں: ’’دلی ان کے لیے صرف ایک شہر یا جائے رہائش نہیں، ایک روایت، ایک ثقافت، ایک تاریخ اور ایک تجربہ ہے‘‘۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے دو بہترین تحقیقی کاموں کا تعلق دہلی سے ہے۔ مرزا غالب کے خطوں پر انہوں نے پانچ جلدوں میں تحقیق و تدوین کی، پھر سرسید احمد خان کی ’’آثارالصنادید‘‘ کو تین جلدوں میں مرتب کیا۔ انہیں دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہلی کے ماضی اور حال پر ایسی گہری نظر رکھنے والا شاید ہی کوئی ہو۔ بقول حنفی صاحب: ’’ان کی اپنی ہستی پر جس بستی کی چھاپ سب سے گہری دکھائی دیتی ہے اور خلیق انجم کے اپنے تشخص کا وسیلہ بنتی ہے، وہ یہی بستی ہے۔۔۔ اسی طرح دلّی کو جاننے سمجھنے کے جو ذرائع آج ہمارے پاس ہیں، ان میں ایک ذریعہ خلیق انجم ہے۔‘‘
’’آثار الصنادید‘‘ ہمارے عظیم تہذیبی ورثے کی خوبصورت مگر عبرت ناک تاریخ ہے۔ اسی طرح مرزا غالب کے خطوط بھی ایک دور کی تہذیب و تاریخ کا مرقع ہیں۔ دونوں کی تحقیقی تدوین کے علاوہ خلیق انجم نے کچھ اور کتابیں اور تحریریں بھی مرتب کیں، مثلاً: ’’معراج العاشقین‘‘،’’مرزا مظہر جانِ جاناں کے خطوط‘‘، ’’افاداتِ سلیم‘‘ (مضامین وحیدالدین سلیم) ’’رسومِ دہلی‘‘ وغیرہ۔
بعض موضوعات و شخصیات پر انہوں نے مضامین کے مجموعے غالباً انجمن کی ضرورتوں کے تحت مرتب کیے، جیسے ابوالکلام آزاد، فیض احمد فیض، مشفق خواجہ اور سید سلیمان ندوی وغیرہ۔
خلیق انجم سے راقم الحر وف کی پہلی ملاقات 1983ء میں ہوئی، جب راقم نے حیدرآباد دکن کے اقبال سیمینار میں شرکت کے لیے پہلی بار بھارت کا سفر کیا۔ دہلی پہنچتے ہی میں نے انہیں فون کیا۔ مقصد ملاقات کے لیے وقت طے کرنا تھا۔ انہوں نے فرمایا: ’’میں اِس وقت گھر سے نکل رہا ہوں، کہیں جارہا ہوں اور رات بہت تاخیر سے واپس آؤں گا‘‘۔ مجھے اُن کے ایک دوست نے بتایا کہ بعض ملاقاتیوں سے اُن کا یہی انداز ہوتا تھا۔
بہرحال میں حیدرآباد دکن سے واپسی پر تقریباً ایک ہفتہ دہلی میں ٹھیرا اور اس عرصے میں اُن سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ میں کچھ پاکستانی مطبوعات لے گیا تھا۔ اُن کی مالیت کے برابر مجھے انجمن سے اپنی پسند کی کتابیں مل گئیں۔ ضرورت کی مزید کتابیں میں نے خرید لیں۔ انجمن کی چند مطبوعات خلیق انجم صاحب نے بطور تحفہ عنایت کیں۔ تب سے تقریباً بیس برس تک بذریعہ خط کتابت اور ٹیلی فون ان سے رابطہ قائم رہا۔ وہ وقتاً فوقتاً انجمن کا پرچہ ’’ہماری زبان‘‘ اور رسالہ ’’اردو ادب‘‘ بھجواتے رہے۔
خلیق انجم صاحب تین چار بار پاکستان آئے اور لاہور میں اُن سے ملاقاتیں رہیں، البتہ آخری بار جب وہ سرگودھا یونیورسٹی کانفرنس میں آئے تو ملاقات نہ ہوسکی کیونکہ انہیں لاہور رکنے نہیں دیا گیا۔ بھارت میں دوسری بار 1998ء میں ملاقات ہوئی۔ 1998ء میں مَیں اپنے دو رفقا (ڈاکٹر تحسین فراقی اور ڈاکٹر محمد ایوب صابر) کے ہمراہ دہلی یونیورسٹی کے اقبال سیمینار میں شرکت کے لیے دہلی گیا، تو انہوں نے ازراہِ مہمان نوازی ایک روز ہمیں اردو گھر (انجمن کے دفتر) میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ یہ ایک پُرلطف محفل تھی۔ انجمن کے تمام کارکن (ملازمین) گھر سے اپنا اپنا کھانا لے کر آئے تھے۔ دفتر میں سب نے اکٹھے کھانا کھایا۔ معلوم ہوا یہ معمول ہے، دوپہر کا کھانا مل کر کھایا جاتا ہے۔ خلیق انجم صاحب نے معروف صحافی کلدیپ نیر کو بھی مدعو کیا تھا۔ کھانے کے بعد خلیق صاحب نے رسمی طور پر پاکستانی مہمانوں کو انجمن میں آمد پر خوش آمدید کہا۔ اس کے بعد کلدیپ نیر نے تقریر کی اور تقسیم ہند کو عارضی اور بھارت پاکستان کی سرحد کو ’’مصنوعی‘‘ قرار دیا، اور امید ظاہر کی کہ وقت گزرنے پر حالات نارمل ہوجائیں گے۔ راقم اور ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے وہیں اس کا مناسب جواب دے دیا۔ خلیق انجم صاحب نے ایک شام ہمیں اپنے گھر (نوئیڈا) بھی دعوتِ طعام پر مدعو کیا۔ ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر اسلم پرویز کے علاوہ کچھ اور احباب بھی دعوت میں شامل تھے۔
خلیق انجم نے بھارت میں اردو کی بقا اور اس کے فروغ کے لیے نامساعد حالات کے باوجود اپنی سی کوشش جاری رکھی۔ انجمن ترقی اردو کی شاخیں بھارت کے دور دراز علاقوں میں بھی قائم کیں۔ جلسے اور دورے کیے۔ تقریریں کیں۔ اسکولوں میں اردو اساتذہ کے تقرر کے لیے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ کیونکہ اُن کے خیال میں اگر کسی اسکول میں اردو اساتذہ ہوں گے تو لازماً اسکول کے بہت سے مسلم اور غیرمسلم طلبہ، اردو کلاسوں میں شامل ہوجائیں گے۔ اور اگر غیر مسلم اردو سیکھ جائیں گے تو اردو، بھارت میں فروغ پذیر رہے گی۔
انہوں نے بہت سے سیمینار بھی منعقد کیے۔ دسمبر 1992ء کے مولوی عبدالحق سیمینار کے لیے انہوں نے جس کاوش سے مدّعوّین کو بلایا، پے درپے خط لکھے اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہر کام پوری دلچسپی اور لگن سے کرتے تھے۔ مجھے دعوت دی اور ساتھ ہی دو تین خالی (اوپن) دعوت نامے ارسال کیے کہ جسے چاہیں میری طرف سے مدعو کرلیں۔ میں نے درخواست کی کہ ڈاکٹر صدیق شبلی، پروفیسر آسی ضیائی، رحیم بخش شاہین، صابر کلوروی اور زاہد منیر عامر کو براہِ راست دعوت نامے بھیج دیں، جو انہوں نے بلاتامل بھیج دیے، مگر افسوس کہ ویزا کسی کو نہ ملا۔ میں اسے بھی اُن کا ایک بڑا کارنامہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جناب رشید حسن خاں سے کلاسیکی ادب کی معروف اور اہم کتابیں مرتب کرائیں۔ معلوم ہے کہ خان صاحب دہلی یونیورسٹی سے سبک دوش ہوئے تو ایک اعتبار سے ’’بے روزگار‘‘ تھے۔ خلیق انجمن نے انجمن کی ادبی کمیٹی سے منظوری لے کر ’’کلاسیکی متون کو جدید اصولوں کے تحت مرتب کرنے کا طویل المدت پروگرام بنالیا‘‘۔ خان صاحب کے پاس ’’فسانۂ عجائب‘‘ کا متن تیار تھا، سب سے پہلے وہ انجمن سے شائع ہوا، بعد ازاں یکے بعد دیگرے ’’باغ و بہار‘‘،’’مثنوی گلزار نسیم‘‘، ’’مثنویاتِ شوق‘‘ اور ’’مثنوی سحرالبیان‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ خلیق انجم صاحب کو اپنے بقول: ’’خان صاحب کے مزاج میں خاصا دخل‘‘ تھا، اس لیے انہوں نے آخر میں ’’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘‘ مرتب کرنے کی درخواست کی جسے رشید حسن خاں صاحب نے قدرے تامل کے بعد منظور کرلیا۔ یہ اعلیٰ پائے کی فرہنگ ہے جس میں ’’پرانے شاعروں کے دواوین، داستانوں اور دوسری منظوم و منثور تحریروں میں استعمال ہونے والے ایسے الفاظ شامل ]ہیں[ جن کا ہمارے زمانے میں چلن نہیں رہا۔۔۔ یا جن کا تلفظ اور جن کے معنی بدل گئے ہیں‘‘۔ ہمارے دوست ڈاکٹر تحسین فراقی کے بقول: ’’سینکڑوں بھولے بسرے الفاظ کو اس فرہنگ کے توسط سے نئی زندگی ملی ہے‘‘۔ افسوس ہے کہ پورا منصوبہ تین جلدوں کا تھا، مزید دو جلدیں مرتب نہ ہوسکیں۔ رشید حسن خاں 2006ء میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ایک اور منصوبہ ’’کلیاتِ اقبال اردو‘‘ کے انجمن ایڈیشن مرتب کرنے کا تھا۔ راقم کے نام، ان کے حسب ذیل خط سے اس کی نوعیت کا اندازہ ہوگا:
’’12 اگست 2005ء
ہاشمی صاحب۔ السلام علیکم!
بہت عرصے بعد آپ کو خط لکھ رہا ہوں وہ بھی ایک ذاتی غرض سے۔ غرض یہ ہے کہ کچھ دن ہوئے آپ کی تازہ کتاب ’’اقبالیات: تفہیم و تجزیہ‘‘ نظر سے گزری۔ اس کتاب پر مبارکباد قبول فرمایئے۔ یہ کتاب اقبالیات میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اس کتاب میں رشید حسن خاں صاحب کا مقالہ ’کلام اقبال کی تدوین‘ شامل کیا ہے۔ اس مقالے کے بارے میں آپ نے جو رائے دی ہے، اس سے جی خوش ہوگیا۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ اگر رشید حسن خاں صاحب ’کلیاتِ اقبال‘ مرتب کردیں تو بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ میں نے انہیں فوراً ٹیلی فون کیا، انہیں میری تجویز پسند آئی لیکن انہوں نے یہ تجویز اس شرط پر منظور کی کہ کلیات رفیع الدین ہاشمی صاحب اور وہ مل کر مرتب کریں گے۔ خاں صاحب کی یہ بات مجھے بہت پسند آئی، اس لیے میں اب آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔
یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ ابھی تک کلیاتِ اقبال کا کوئی ایسا نسخہ شائع نہیں ہوا جس پر پوری طرح اعتماد کیا جاسکے۔ اگر آپ اور خاں صاحب مل کر اسے مرتب کریں تو یقیناًاقبالیات کی یہ کمی پوری ہوجائے گی۔ خاں صاحب نے کہا ہے کہ میں آپ سے درخواست کروں کہ اگر آپ کو یہ تجویز منظور ہو تو کلیات کی ترتیب کا ایک خاکہ مرتب کرکے اور اس کے طریقۂ کار پر ایک نوٹ لکھ کر خاں صاحب کو بھیج دیں۔ ترتیب کی حد تک ذمے داری آپ دونوں کی ہے اور اس کلیات کو بہت خوبصورت شائع کرنا انجمن ترقی اردو کا کام ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ آپ میری درخواست ضرور قبول فرمائیں گے۔ خاں صاحب کا پتا یقیناًآپ کے پاس ہوگا، پھر بھی لکھ رہا ہوں تاکہ پتا ڈھونڈنے میں آپ کو وقت ضائع نہ کرنا پڑے۔
Rasheed Hasan Khan Sahab
22-Baroozal IInd
Shahjahanpur-242001
خدا کرے آپ بخیریت ہوں۔
Dr.Rafiuddin Hashmi
28-D, Mansoora
Multan Road
Lahore (Pakistan)
نیاز کیش
(خلیق انجم)‘‘
رشید حسن خاں صاحب کی تجویز پر ہم نے طے کیا کہ سب سے پہلے ’’ارمغانِ حجاز‘‘ کے مرتب کی جائے۔ خاں صاحب نے وفات سے چار ماہ پہلے مجھے لکھا: ’’اب میری درخواست ہے کہ بعد عید آپ ’’ارمغانِِ حجاز‘‘ کے حواشی لکھنا شروع کردیں۔ میں بھی عید کے تیسرے دن سے باضابطہ آغاز کروں گا۔ حواشی مختصر ہوں اور ضروری ہوں اور بس۔ اشعار میں جو تلمیحات آتی ہیں اور نام آتے ہیں یا مصرعے اور شعر منقول ہیں، ان کی تخریج میں کرلوں گا اور پھر آپ کے پاس بھیج دوں گا۔ حواشی لکھ لیں تو ان کی نقل میرے پاس بھیج دیجیے گا۔‘‘
اِدھر میری طبیعت بھی اچھی نہ تھی، خاں صاحب بھی سردی سے عہدہ برآ نہ ہوسکے، 80 برس کے ہوچکے تھے۔26 فروری 2006ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ یوں خلیق انجم کا یہ منصوبہ ناتمام رہ گیا۔
رشید حسن خاں صاحب نے آخری زمانے میں لفظیاتِ غالب کی فرہنگ ’’گنجینۂ معنی کا طلسم‘‘ کے نام سے مرتب کی تھی اور اس کے پروف بھی پڑھ دیے تھے۔ اِسے خلیق انجم صاحب کو انجمن سے چھاپنا تھا مگر وہ آج تک نہیں چھپ سکی۔ میں بذریعہ خطوط خلیق صاحب سے برابر تقاضا کرتا رہا مگر خد اجانے کیا پیچ پڑا کہ خاں صاحب کی یہ تحقیق شاید ضائع ہی ہوگئی۔ اللہ خلیق انجم صاحب کو معاف کرے، اور ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین
nn