دھرنے کے نتائج کیا ہوں گے؟ ہر سیاسی محفل میں آج کل یہی سوال پوچھا جارہا ہے۔ تحریک انصاف نے اسلام آباد میں 2 نومبر کو دھرنا دینے اور وزیراعظم نوازشریف کے استعفے تک بیٹھے رہنے کا اعلان کررکھا ہے۔ عمران خان دھرنے کو کامیاب بنانے اور رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے شہر شہر جلسے کررہے ہیں اور میڈیا سمیت ہر شعبۂ زندگی سے وابستہ افراد تک اپنا مؤقف بھی پہنچا رہے ہیں۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ پانامہ لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کے صاحب زادوں کا نام ہے، لہٰذا وہ مستعفی ہوجائیں اور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ معاملہ چونکہ اس وقت عدالت میں ہے اور الیکشن کمیشن کے روبرو بھی درخواستوں کی سماعت جاری ہے لہٰذا دھرنے اور اسلام آباد بند کرنے کے بجائے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ حکومت نے پیش کش کی ہے کہ عمران خان اگر پُرامن احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو سو بسم اللہ، انہیں احترام بھی دیا جائے گا اور ساتھ بھی، لیکن اگر بغاوت کے لیے آئیں گے تو ایسا ہرگز نہیں کرنے دیا جائے گا۔ یہاں تک تو معاملہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین ہے، لیکن ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں، اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کار، اسلام آباد کے شہری اور تاجر بھی اس سے خود کو الگ تھلگ نہیں رکھ سکتے۔ وہ اس صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ بھی لے رہے ہیں اور مثبت و منفی پہلوؤں پر اپنی رائے بھی دے رہے ہیں۔
اگر سب سے پہلے تحریک انصاف کے اندر پائی جانے والی پختہ سوچ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ وہ اس حکومتی مشینری اور نظام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کا سیاسی مقابلہ نہیں کرسکتی اور نہ وہ دھاندلی سے نتائج تبدیل کیے جانے کے عمل کو روک سکتی ہے، اسے یقین ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں بھی ہونے والی دھاندلی نہیں روک پائے گی، لہٰذا وہ چاہتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) پر مسلسل دباؤ رکھا جائے تاکہ انتظامی مشینری پر اس کی گرفت مضبوط ہوسکے۔ تحریک انصاف کے حوالے سے یہ تجزیہ اس کے مرکزی رہنماؤں اور کور کمیٹی کے ارکان سے براہِ راست کی جانے والی گفتگو سے اخذ کیا گیا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ تحریک انصاف کو بلامقصد احتجاج اور منفی سیاست کے بجائے مثبت طرزِ سیاست کی راہ اپنانی چاہیے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے اس مؤقف کو سامنے رکھ کر پیپلزپارٹی کا جائزہ لیا جائے تو وہاں مختلف سوچ پائی جاتی ہے۔ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں اس لحاظ سے ایک صفحے پر ہیں کہ دونوں لبرل اور دائیں بازو کی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں، ان دونوں کی وجہ سے پیپلزپارٹی پنجاب سے آؤٹ ہوئی ہے، لیکن وہ تحریک انصاف کے مقابلے میں نوازشریف کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) جمہوریت کے حامی پندرہ جماعتی اتحاد کے ساتھ ہے۔ اس غیر اعلانیہ اتحاد میں پیپلزپارٹی، جے یو آئی، اے این پی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ قوم پرست جماعتیں شامل ہیں، اور غالباً یہ بات طے ہوچکی ہے کہ مستقبل میں خیبر پختون خوا میں اے این پی، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی مل کر انتخابات لڑیں گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جمہوریت کے لیے باہمی انڈر اسٹینڈنگ کے باعث پارٹی کے ٹھنڈے مزاج کے حامل سینئر رہنما حکومت کو کسی دھرنے سے گرانے اور اقتدار سے باہر کرنے کے حق میں نہیں، تاہم پارٹی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے’’عقاب‘‘ چاہتے ہیں اور خواہش مند بھی ہیں کہ ہر قیمت پر نوازشریف کا راستہ روکا جائے تاکہ پنجاب میں کھویا ہوا سیاسی مقام واپس مل جائے، اس مقصد کے لیے وہ خود سامنے آنے کے بجائے تحریک انصاف سے کام لینا چاہتے ہیں، لیکن آصف علی زرداری کا مؤقف ہے کہ پارٹی کو کھویا ہوا مقام خودبخود مل جائے گا کیونکہ پاکستان میں اقتدار کا فیصلہ مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ مل کر کرتی ہیں، لہٰذا پیپلزپارٹی اگلے عام انتخابات تک انتظار کرے گی۔
اگر اس ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کو نقصان پہنچا تو سی پیک منصوبہ سرفہرست ہوگا۔ اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے اسلام آباد میں چین کے سفیر متحرک ہوئے اور تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان سے ان کی دو ڈھائی گھنٹے کی ملاقات ہوئی، جب کہ اس ملاقات کے لیے ایک گھنٹے کا وقت مقرر تھا۔ ملاقات میں چینی سفیر کے ساتھ سی پیک منصوبے کے تمام چینی نگرانوں کی ایک اعلیٰ ٹیم بھی شریک ہوئی۔ اس ملاقات میں عمران خان نے چینی سفیر کو یقین دلایا کہ وہ چین کے اس منصوبے پر پاکستان اور چین کی حکومتوں کی باہمی انڈر اسٹینڈنگ سے مکمل اتفاق کرتے ہیں اور منصوبے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ یوں یہ ملاقات چینی حکومت کے نکتہ نظر سے تسلی بخش اور بہت اہمیت کی حامل رہی۔ چین اس وقت سی پیک منصوبے پر جس طرح کام کررہا ہے وہ لائقِ تحسین بھی ہے اور اس سے بہت کچھ سیکھا جانا چاہیے۔ اسلام آباد میں چین کے سفارت کار اس منصوبے کے حوالے سے ملک کی ہر سیاسی جماعت سے رابطے میں ہیں اور ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس منصوبے سے متعلق آراء سے مسلسل واقفیت رکھے ہوئے ہیں۔ وہ میڈیا سمیت ملک کی مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں تاکہ کسی رکاوٹ کے بغیر سی پیک منصوبہ بروقت مکمل ہوسکے۔ اسلام آباد کے سیاسی اور سفارتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چین کو ملک کی ہر سیاسی جماعت کی جانب سے اس منصوبے کے حوالے سے ہر طرح کا اطمینان ہے، لہٰذا وہ حکومت اور اپوزیشن کے سیاسی تنازعے میں فریق نہیں بنے گا، لیکن وہ پاک بھارت کشیدگی میں جہاں پاکستان کے نکتہ نظر کی حمایت کرتا ہے وہیں معاملات باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر مسلسل زور دے رہا ہے۔ وہ اپنے عمل سے یہ بات ثابت کررہا ہے کہ اس کی نظر اور پوری توجہ سی پیک منصوبے پر ہے۔
اس تمام صورت حال کو سامنے رکھ کر اگر مقامی سیاست کے دائرے میں رہ کر دھرنے کے نتائج کا تجزیہ کیا جائے تو فی الحال اس کے نتیجے میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے، البتہ تحریک انصاف حکومتی مشینری کو مفلوج کرنے اور مزید کمزور کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائے گی۔ تحریک انصاف کے طرزِ سیاست پر ایک تجزیہ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ یہ میثاقِ جمہوریت کا ردعمل ہے، کیونکہ کوئی خفیہ ہاتھ نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلی پُرامن طریقے سے ہو۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد جس طرح پیپلزپارٹی نے پُرامن انداز میں مسلم لیگ(ن) کو اقتدار منتقل کیا اسے ملکی سیاست پر جمہوری قوتوں کے غلبہ پالینے سے تعبیر کیا گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ملک میں یہی سیاسی مشق مسلسل دو چار بار ہوجائے تو سیاسی استحکام کی بنیاد بھی فراہم ہوسکتی ہے۔ لیکن اس بات کا پختہ یقین ہے کہ امریکی لابی اس ملک میں یہ کام نہیں ہونے دے گی۔ اس ملک میں سیاسی افراتفری سے ہی امریکہ کے سیاسی مفادات پورے ہوتے ہیں، لہٰذا سی آئی اے ملک کے اداروں اور شخصیات کے مابین کوئی نہ کوئی محاذ گرم کیے رکھتی ہے۔ اس نے سیاسی جماعتوں میں بڑی سرمایہ کاری کررکھی ہے، مسلم لیگ(ن) سمیت ملک کی سیاسی جماعتوں کی بدقسمتی ہے کہ ان میں غیر ملکیوں کے لیے کام کرنے والے لوگ بڑے اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچے ہوئے ہیں۔
اب اگر دھرنے کے مقام اور مقامی اثرات کی بات کی جائے تو تحریک انصاف نے فیض آباد سے زیرو پوائنٹ تک دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اسلام آباد میں داخل ہونے والا بڑا اور مرکزی راستہ ہے۔ یہاں دھرنا دینے سے اسلام آباد اور راولپنڈی براہِ راست متاثر ہوں گے، اور یہاں سے چونکہ آزاد کشمیر، مری اور دوسرے شہروں کو جانے والے راستے ملتے ہیں لہٰذا اس لحاظ سے دھرنے کے گہرے اثرات پڑسکتے ہیں۔ حکومت بھی اسی لیے پریشان ہے کہ مظاہرین کو مار پیٹ کرکے اٹھایا تو مصیبت، نہ اٹھایا تو بھی مشکل۔ وزیراعظم نوازشریف نے وزارتِ داخلہ کو سیکورٹی پلان بنانے اور حالات پُرامن رکھنے کی ہدایت کی ہے، لیکن مسلم لیگ (ن) سمیت ہر سیاسی کارکن وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے بارے میں یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ ان کا فیصلہ کیا ہوگا، کیونکہ گزشتہ دھرنے کے دوران بھی پہلے آب پارہ چوک میں جگہ دی گئی اور پھر دھرنا پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے منتقل ہوگیا تھا۔ اب کیا ہوگا؟ اس بارے میں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’2نومبر کو فیصلہ کن مرحلہ ہے، حکومت نے مطالبات نہ مانے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے جس کے لیے ذمہ دار حکومت ہوگی، نوازشریف کے استعفے یا تلاشی تک دھرنا ہوگا، حکومت نے گرفتار کیا تو پلان بی اور سی بھی تیار ہے‘‘۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ 10لاکھ لوگ آئیں گے۔ اسلام آباد جیسے چھوٹے شہر کے لیے دو ہزار افراد ہی کافی ہیں۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد بند کرنے دیں گے نہ شہریوں کو محصور کرنے دیں گے۔ حکومت کو اس بات کی اطلاع ہے کہ پی ٹی آئی کا ارادہ ٹھیک نہیں ہے، عمران خان کی نیت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی، اسلام آباد میں کفن پہننے اور قبریں کھودنے تک کی بات ہوسکتی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ دھرنے میں تشدد پیدا ہوسکتا ہے، کیونکہ لال مسجد کی شہدا فاؤنڈیشن نے بھی شرکت کے لیے مشروط آمادگی ظاہر کی ہے، اگر ایسا ہوا تو پھر امریکہ ضرور مطالبہ کرے گا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند سر اٹھا رہے ہیں، انہیں روکا جائے۔
سرل المیڈا کی خبر کے بعد سب سے بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکی سینیٹ میں یہ بحث ہوئی ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی میں امتیاز برتا جارہا ہے، اگر پاکستان نے ذمہ داری پوری نہ کی تو امریکہ پاکستان کے اندر آکر بھی کارروائی کرسکتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ 2 مئی کی تاریخ ایک بار پھر دہرائی جاسکتی ہے جب اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کارروائی کی گئی تھی۔ اسی لیے حکومت بہت محتاط ہے، اس کے وزراء بے بسی کے عالم میں راگ الاپ رہے ہیں کہ حکومت نے دو تین ماہ عمران خان سے ٹی او آرز پر سر کھپایا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہورہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ عدالت کوئی فیصلہ کرے اور احتساب کا عمل شروع ہو۔ عمران خان اداروں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ طاہرالقادری کی دھرنے میں عمران خان کی حمایت کا حکومت کو ہی فائدہ ہوگا کیونکہ ان کا اپنا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، لوگ طاہرالقادری کو جانتے ہیں۔ حکومت تمام سیاسی جماعتوں سے بات کررہی ہے، اسے علم ہے کہ تیسری قوت کے آنے کا امکان نہیں، تاہم پاکستان میں ایک تاریخ تو موجود ہے کہ ریڈلائن عبور کی جاتی رہی ہے۔ اِس وقت تک تو آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور متحدہ نوازشریف کے ساتھ ہیں، جب کہ عمران خان خود بھی کہہ رہے ہیں کہ دھرنے کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نہیں آئے گا۔ لیکن عمران خان نے یہ بات ثابت کی ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ لہٰذا حکومت اور وزارتِ داخلہ کی مشینری اگر وزیراعظم کے ساتھ ہوئی، تو ہوسکتا ہے کہ حکومت پُرامن طریقے سے نمٹ لے، ورنہ دوسرا سانحۂ ماڈل ٹاؤن ہوسکتا ہے۔
nn