فضا اعظمی پاکستان کے نمائندہ شاعر اور عصرِ حاضر کے بڑے نظم نگار ہیں۔ فلسفۂ خوشی پر آپ کی دو کتابیں ’’خوشی کی تلاش میں‘‘ اور ’’خوشی کے نام کا سکہ‘‘ شائع ہوچکی ہیں جنہیں اہلِ نقد و نظر میں بڑی پذیرائی ملی ہے۔ آپ کی دیگر دس کتب بھی ادب کا اثاثہ ہیں۔ محترمہ نسیم انجم صاحبہ معروف فکشن نگار، صحافی اور کالم نگار ہیں، انہوں نے اس سے قبل عقیل احمد فضا اعظمی پر ایک کتاب ’’اردو شاعری میں تصورِ زن اور خاک میں صورتیں‘‘ تحریر کی تھی جسے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی۔
محترمہ نسیم انجم جو گلڈ کی موجودہ جنرل سیکرٹری بھی ہیں، کی کتاب کی تقریب رونمائی کا اہتمام گلڈ کے بانی جلیس سلاسل کی ہدایت پر ہوٹل ریجنٹ پلازہ میں کیا گیا جس کی ابتدا ننھے خوش الحان قاری حذیفہ حماد کی تلاوتِ کلام پاک اور ترجمہ سے ہوئی۔ گلڈ کے سرگرم رکن حلیم انصاری نے گلڈ کا مختصر تعارف پیش کیا۔ صدرِ محفل جسٹس ریٹائرڈ حاذق الخیری نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج کا معاشرہ مایوسی اور مختلف مسائل کا شکار ہے۔ مسائل کی بڑی وجہ تعلیم سے دوری ہے۔ جو قومیں علم سے دور ہوجاتی ہیں وہ معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ امر حیرت ناک ہے کہ ’’فلسفہ خوشی کا تجزیاتی جائزہ‘‘ کی صدارت کے لیے مصورِ غم علامہ راشد الخیری کے پوتے کو منتخب کیا گیا اور یہ درست انتخاب ہے، کیونکہ کوئی بھی تصورِ غم آگے چل کر خوشی کی تمہید بنتا ہے۔ گھٹن زدہ ماحول میں نسیم انجم کی یہ کتاب معاشرے کے حالات کو بہتری کی طرف لانے میں اہم ذریعہ ثابت ہوگی، کیونکہ یہ فلسفہ خوشی کا موضوع سمیٹے ہوئے ہے۔ نسیم انجم کی جاندار اسلوب نگاری انہیں دیگر خواتین مصنفین سے نمایاں کرتی ہے اور ان کی کتاب دورِ حاضر کی ضرورت ہے جس پر میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
تقریب کے مہمانِ خصوصی ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل سید اظہر احمد ناسازئ طبع کے باوجود گلڈ سے خصوصی تعلق کی بنا پر تشریف لائے اور آخر تک موجود رہے۔ انہوں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں لیکن میں قائداعظم کے نام پر قائم قائداعظم رائٹرز گلڈ پاکستان کی تقریبات میں ضرور جاتا ہوں، یہ میرے دوست جلیس سلاسل نے اپنے قلم کار رفقاء کے ساتھ مل کر قائم کی ہے، جلیس سلاسل کی ملک و قوم کے لیے بڑی خدمات ہیں، یہ خود پیچھے رہ کر محب وطن اور باصلاحیت لوگوں کو بڑے اہتمام سے آگے لاتے ہیں۔ نسیم انجم کی کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نسیم انجم کی یہ تصنیف بہت اہم ہے، اس کا مطالعہ سنجیدگی سے کرنا ضروری ہے، یہ عجلت میں پڑھنے والی کتاب نہیں، انہوں نے فلسفۂ خوشی کا بہترین تجزیہ کیا ہے، اس کتاب میں قوم کی ترقی اور زندگی کے سوال کو اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری تھا اور قائداعظم جب بہار تشریف لائے تو میں نے ان سے ملاقات کی اور کئی مرتبہ آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔
صفدر علی خان انشاءؔ نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا:
خوشی کے فلسفہ کا تجزیاتی جائزہ ایسا
’’فضاؔ ‘‘بھی حیرتوں میں گم، نسیم انجم نسیم انجم
کمال انشاء پردازی جو دیکھا نقد کی صورت
عدو بھاگے دبا کر دُم، نسیم انجم نسیم انجم
انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر صبا اکرام نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ فضاؔ اعظمی پاکستان کے نمائندہ شاعر اور عصر حاضر کے بڑے نظم نگار ہیں۔ ان کی طویل اور مقصدی نظمیں اپنی مثال آپ ہیں، انہوں نے خوشی کے نظریے کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے جس کا بہت بہتر طور سے نہایت خوبصورت تجزیہ نسیم انجم صاحبہ نے کیا ہے۔ پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین زیب اذکار حسین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے فضا اعظمی کے فلسفۂ خوشی کو مصنفہ کے قائم کردہ عنوانات سے پڑھا اور جانا ہے، اور سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ انہوں نے فلسفۂ خوشی کو نسائی لہجے میں پڑھا اور پڑھایا ہے، یہ کتاب ادب میں منفرد تجربہ ہے، فضا اعظمی ہمیں نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالیؔ اور مولانا آزاد کے سلسلے کے شاعر لگتے ہیں۔ انہوں نے ان کا ’’ساترے‘‘ سے بھی موازنہ کیا۔ محترمہ پروفیسر شہناز پروین نے کہا کہ کسی بھی نظریے کو فلسفہ بننے تک ایک عمر لگ جاتی ہے اور نسیم انجم جیسی خوبصورت نثرنگار اور فکشن نگار فضا اعظمی کی طرف سے پیش کیے گئے ’’نظریۂ خوشی‘‘ کو ’’فلسفۂ خوشی‘‘ بنانے میں نمایاں کردار ادا کررہی ہیں، ان کا نظریۂ خوشی سب سے الگ اورجداگانہ ہے اور نسیم انجم بعض اوقات فضاؔ کی شاعری کی روح کو حاصل کرکے اپنی نثر میں پھونک دیتی ہیں جس سے قاری ان کے سحر میں گرفتار ہوجاتا ہے۔
ڈائریکٹر کالجز سندھ ڈاکٹر ناصر انصار نے کہا کہ میر تقی میرؔ نے شاعری میں غم کو اتنی جہتیں دیں کہ وہ ایک آفاقی مسئلہ نظر آنے لگا، جب کہ فلسفۂ خوشی ایک نیا سکہ ہے جو فضاؔ اعظمی نے چلایا ہے، اور وہ اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ نسیم انجم نے ان کے فلسفۂ خوشی کو مزید آشکار کیا ہے، اور ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ خوشی ملٹی پلائی ہوتی رہتی ہے۔ معروف اینکرآغا مسعود حسین نے کہا کہ نسیم انجم قابلِ مبارک باد ہیں جنہوں نے فضاؔ اعظمی کے فلسفۂ خوشی کا بہت خوبصورت تجزیہ کیا۔ اس موقع پر محترمہ نسیم انجم نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی کی تحریک کو آگے بڑھانا ہے، یہ کام آسانی سے ہوسکتا ہے، بس رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے، اور تقریب میں موجود اہلِ قلم کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ فضاؔ اعظمی کا سکۂ خوشی چل چکا ہے۔ تقریب کی خوبصورت نظامت معروف شاعر اور کمپیئر راشد نور نے کی، جب کہ شرکاء میں جلیس سلاسل، رضوان صدیقی، اظہار حیدری، نیاز الدین خان، صفورہ خیری، اے خیام، فہیم السلام انصاری، اختر سعیدی، شکیل احمد ایڈووکیٹ، شاہد محی الدین، خلیل احمد ایڈووکیٹ، نسیم احمد شاہ، مجید رحمانی، پروفیسر شازیہ ناز عروجؔ ، سحر حسن، نجیب عمر، طارق عرفان، ناہید فہیم، سید سلیم احمد ایڈووکیٹ، شفیق احمد شفیق، ریحان فاروقی، شیخ محمد داؤد، حامد علی سید، قاسم بیگ، ابوبکر صمدانی اور محمد احمد کے علاوہ بڑی تعداد میں اہلِ قلم شریک ہوئے۔
خوشی کو مقصدِ انسانیت بنانا ہے
خزاں گزیدہ چمن میں بہار لانا ہے
nn