افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف تاریخی مزاحمت ہوئی جس کے نتیجے میں سوویت یونین اپنی تاریخی سرحدوں میں لوٹ گیا، لیکن وہ تمام خواب جو لینن اور کمیونسٹ پارٹی نے دیکھے تھے وہ جہاد کے نتیجے میں خزاں کے پتوں کی طرح بکھر گئے۔ اب کمیونزم تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان میں بدترین جارحیت کا ارتکاب کیا۔ یہ 2001ء کا سال اور اکتوبر کا مہینہ تھا۔ تاریخ کا حیرت انگیز تضاد ہے کہ جب سوویت یونین نے جارحیت کی تو مسلم دنیا اور مغربی دنیا ہم آہنگ تھیں، اور سرخ خطرے کے پیش نظر سب متحد ہوگئے تھے، لیکن ان دونوں گروہوں کے مفادات مختلف تھے، نتیجہ سوویت یونین کے خاتمے کی صورت میں نکلا۔ اس پر مغرب اور تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے سُکھ کا سانس لیا اور محوِ خواب ہوگئے۔ اس سے پہلے امریکہ اور مغرب نے ایران میں اسلامی انقلاب کے خلاف ان عرب ممالک میں جو تیل پیدا کرنے والے اور امریکہ نواز تھے، ایک خوف پیدا کیا، اور صدام کو جو روس نواز سوشلسٹ تھا، استعمال کرتے ہوئے عراق کو ایران سے متصادم کیا۔ لیکن وہ ایرانی انقلاب کا کچھ نہ بگاڑ سکا بلکہ اس جارحیت نے ایران کو مزید مضبوط کیا اور صدام اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ سوویت یونین کی افغانستان میں جارحیت اور ایران عراق جنگ نے ان تمام تیل پیدا کرنے والے ممالک کو امریکی گرفت میں دھکیل دیا۔ یہ شاطرانہ منصوبہ امریکہ اور مغرب کا تیار کردہ تھا۔ اس لیے یہ تمام ممالک امریکہ کی گرفت میں آگئے۔ اب مشرق وسطیٰ میں تمام امریکہ نواز ممالک بے بس نظر آرہے ہیں اور امریکہ ان سے منہ پھیر رہا ہے۔ اب سعودی عرب نائن الیون کے حوالے سے امریکی کردار سے پریشان ہوگیا ہے۔ ان دونوں مرحلوں میں امریکہ کامیاب رہا۔ اس کا اصل طاقتور حریف سوویت یونین ختم ہوگیا اور امریکہ کی گرفت مشرق وسطیٰ اور مسلم ممالک میں مضبوط ہوگئی۔
امریکہ کا دوسرا مرحلہ طالبان سے مڈبھیڑ تھی۔ اس کا مقصد بہت واضح تھا۔ امریکہ جہاد کے فلسفے سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا اور طالبان جنہیں پہلے اُس (امریکہ) کی اور مسلم ممالک کی تائید حاصل تھی، ان سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا اور ان کو دہشت گرد ثابت کرنا اس کے مقاصد میں شامل تھا۔ امریکہ نے طالبان کے خلاف پوری مسلم دنیا کو نائن الیون کے حوالے سے اپنے گرد جمع کیا اور افغانستان پر حملہ آور ہوا، اس مقصد کے لیے امریکہ نے پاکستان میں اپنے پروردہ جنرل پرویز مشرف کو استعمال کیا اور طالبان حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ 2001ء سے اب تک طالبان اور امریکہ مع نیٹو آمنے سامنے کھڑے ہیں اور اب امریکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ رہا ہے مگر خود موجود نہیں ہے بلکہ اپنے مہروں کو استعمال کررہا ہے۔ امریکہ اس سے قبل براہِ راست طالبان کے ساتھ مذاکرات کرچکا ہے۔ اس کا انکشاف امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنے ایک مضمون میں کیا۔ یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ (8 جون 2011ء) میں شائع ہوا تھا۔
اس میں ہنری کسنجر نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ ’’امریکہ نے جرمنی کی وساطت سے طالبان رہنماؤں سے مذاکرات کی ابتدا کردی ہے۔ جرمنی میں ملا عمر کے نمائندے سے امریکی حکام کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جن میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے باعزت اور محفوظ انخلا کی راہ ہموار کرنے سے متعلق امور پر بات چیت ہوئی ہے۔‘‘ (ہنری کسنجر1973ء سے 1977 ء تک امریکہ کے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ انہوں نے خارجہ پالیسی سمیت کئی سفارتی موضوعات پر معیاری کتب لکھی ہیں اور ON CHINA ان کی تازہ تصنیف ہے)
امریکہ نے جب طالبان کو بزور قوت اقتدار سے باہر نکالا تو جہادی تحریکیں بھی طالبان کی مخالف تھیں۔ اس سلسلے میں پاکستان امریکہ کے ساتھ برابر کا شریک تھا، اور جب امریکہ نے طالبان کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو جنرل مشرف امریکہ کے ہاتھ کی چھڑی کی طرح استعمال ہوا۔ اس نے امریکہ کو زمینی راستہ دیا، اپنے ایئرپورٹ فراہم کیے اور پسنی کے ساحل کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکی ایئرفورس کے جنرل نے کہا کہ ہم نے اس ساحل سے افغانستان پر اس قدر حملے کیے جو ویت نام کی جنگ سے بھی زیادہ تھے۔ یہ تمام کشمکش حامد کرزئی کے دورِ حکومت میں جاری تھی۔ وہ بھی طالبان کو فنا کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تھے۔ مگر طالبان ختم نہیں ہوئے بلکہ حامد کرزئی اپنا دورِ حکومت مکمل کرکے رخصت ہوگئے۔ اب ان کا تازہ بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ طالبان کو جنگ سے شکست نہیں دی جاسکتی، ان سے مذاکرات کیے جائیں۔ اب اشرف غنی کی حکومت جو امریکی آشیرباد سے اقتدار میں آئی ہے، طالبان سے مذاکرات کے لیے میز پر آگئی ہے، اور پاکستان تو امریکی لابی کا ملک ہے، اپنے آقا کے حکم کی تعمیل پر تیار ہے۔ اس کے لیے سعودی عرب اور چین بھی معاونت کررہے ہیں۔ مذاکرات کا ایک دور قطر میں ہوچکا ہے اور اب دوسرا دور پاکستان میں شروع ہورہا ہے۔ امریکہ جس طرح درپردہ یہ سارے کام کرتا ہے اس میں پاکستان کی حیثیت مجبورِ محض کی سی ہے۔ امریکہ جیسا چاہتا ہے پاکستان ویسا ہی کرتا ہے، حالانکہ پاکستان بہتر پوزیشن میں ہے، لیکن حکمران نااہل ہیں۔ پاکستان اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن ایک قابل وزیراعظم اور قابل وزیر خارجہ سے محروم ہے اس لیے خارجہ معاملات میں اس کا وزن ہلکا نظر آتا ہے۔ افغان جہاد میں حصہ لینے والی مجاہدین تنظیمیں اشرف غنی کی حکومت میں شامل ہیں اور انہیں وزارتیں بھی حاصل ہیں۔ حزبِ اسلامی کے قائد گلبدین حکمت یار باہر تھے، ان کے کئی کمانڈر اور اہم شخصیات حکومت کا حصہ ہیں اور افغان پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔ حزبِ اسلامی کے قائد تنہا ہوتے چلے جارہے تھے اس لیے انہوں نے جہاد سے پارلیمان کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔ ان کی شرائط کیا ہیں اس کی تفصیل ابھی آنا باقی ہے۔ وہ کابل سے دور ہیں، امریکہ کا گرین سگنل ملے گا تو وہ کابل میں داخل ہوں گے۔ ان مذاکرات اور معاہدے کا کریڈٹ اشرف غنی کو جاتا ہے۔ حزبِ اسلامی اور حکومتِ افغانستان کے درمیان ایک عرصے سے بات چیت کا دور چل رہا تھا لیکن نتیجہ خیز نہیں تھا، اب 2016ء میں اس کا نتیجہ سامنے آگیا اور دونوں کے درمیان معاہدہ طے پاگیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ ایک معاہدہ افغانستان کی حکومت سے کرنا چاہتا تھا، لیکن اس معاہدے پر صدرِ افغانستان دستخط کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے حالانکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مسلسل دباؤ ڈالا لیکن حامد کرزئی نے انکار کردیا۔ وہ شاید اپنے لیے کچھ مراعات حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کی مدتِ اقتدار آخری مرحلے پر آن کھڑی ہوئی تھی، اس لیے امریکہ حامد کرزئی کی کسی بھی شرط کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ اوباما نے بھی دباؤ ڈالا مگر بے اثر رہا۔ جان کیری نے کہا کہ اگر حامد کرزئی نے دستخط نہیں کیے تو کوئی بات نہیں، نئے صدر اس پر دستخط کردیں گے۔ یہ معاہدہ جو امریکہ نے تیار کیا تھا اسے پہلے مرحلے میں پارلیمنٹ سے منظور کرایا گیا، اس کے بعد اسے جرگہ نے قبول کرلیا۔ اس لیے دستوری لحاظ سے اور قبائلی رسم و رواج کے حوالے سے امریکی معاہدہ قانونی اور قبائلی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا تھا، صرف دستخط کے لیے رکا ہوا تھا، اور اشرف غنی نے صدر منتخب ہونے کے بعد اس پر دستخط کردیے اور یہ معاہدہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان ایک قانونی حیثیت اختیار کرگیا، اور افغان حکومت اس پر عمل درآمد کی پابند ہے۔
ہم اس معاہدے کی کچھ شقوں کا تجزیہ کریں گے۔ حزب اسلامی کے ترجمان نے اس معاہدے پر اپنی پارٹی کا مؤقف ایک بیانیے کی صورت میں اشاعت کے لیے جاری کیا۔
آیئے اس معاہدے پر حزب اسلامی کے مؤقف کا تجزیہ کرتے ہیں لیکن پہلے ان کے مؤقف کو دیکھتے ہیں۔
حزبِ اسلامی اپنے مؤقف کو یوں بیان کرتی ہے:
’’اشرف غنی نے انتخابات کے دوران قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مخالفین کے ساتھ مذاکرات کروں گا، لیکن عبداللہ عبداللہ کا مؤقف یہ تھا کہ پہلے مخالفین کو کمزور کیا جائے پھر ان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ حکومت سازی کا عمل مکمل ہوا اور امریکی سفارت خانے میں جان کیری کے حکم کے مطابق حکومت سازی کے متعلق فیصلہ ہوا۔ دو منہ والی ایسی روبوٹ حکومت بنائی گئی ہے جس کا ریموٹ کنٹرول امریکی سفیر کے ہاتھ میں ہے۔ انتخابات سے پہلے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ہم سے مدد کی بھیک مانگتے رہے اور یقین دہانی کراتے رہے کہ ملک میں جنگ کو صلح میں ڈھال دیں گے، ملک کو آباد کریں گے۔ اس کے بعد ایک مشترکہ حکومت تشکیل دی گئی۔ لیکن وزارتیں تقسیم نہ ہوسکیں۔ حال ہی میں ایک تقریب میں ہمارے دونوں حکمراں، امریکی سفیرکے سینے پر اس حالت میں تمغے سجاتے رہے کہ وہ تن کر سیدھا کھڑا تھا اور یہ دونوں اس کے سامنے سرجھکائے کھڑے تھے۔ ان دونوں بڑوں نے شہدا کے خون اور قربانیوں کو نظرانداز کیا اور افغانستان میں ہلاک اور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کو سراہتے رہے۔ ان دونوں نے امریکہ کی اتنی تعریفیں کیں کہ بدنام زمانہ صدر ببرک کارمل اور شاہ شجاع بھی روسیوں اور انگریزوں کی ایسی تعریف کرنا اپنی توہین سمجھتے۔ ہم سے دونوں امیدوار انتخابات میں منتیں کرتے رہے اور اعلیٰ حکومتی عہدوں کے وعدے کرتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ حزبِ اسلامی کے پاس باصلاحیت، تجربہ کار، قابل افراد موجود ہیں۔ اشرف غنی نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ حزب اسلامی کو تقسیم کرنا چاہتا ہے لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔ انتخابات کے بعد اشرف غنی نے ہمیں ایک ڈرافٹ بھیجا، ہم نے مطالعے کے بعد اس کو قبول کرلیا تاکہ اس جنگ کا خاتمہ ہو۔ اِس میں اہم تبدیلی بیرونی قوتوں کی و اپسی تھی۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ معاہدے میں افغانستان سے بیرونی قوتوں کے مکمل اخراج اور ملکی انتظام مکمل طور پر افغان عوام کے سپرد ہونے کی شرائط لازمی شامل ہونی چاہئیں، ہمارے خیال میں حالیہ بحران کی شدت و طوالت کی بڑی وجہ یہی بیرونی قوتیں ہیں۔ افسوس، غلام حکومت کا سب سے پہلا قدم امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے پر دستخط ہیں۔ ہم اسے امریکہ کے ہاتھ افغانستان کو فروخت کرنے کا سرٹیفکیٹ سمجھتے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بعض حکومتی ادارے اپنا اقتدار مضبوط ہونے تک افغانستان میں بیرونی قوتوں کی بقا کے لیے امریکہ کی منتیں کررہے ہیں۔ ہر افغان شہری اچھی طرح سمجھتا ہے کہ بیرونی قوتوں کی موجودگی کا نتیجہ جنگ کو طوالت دینے کے سوا کچھ نہیں۔
اگر مجاہدین افغانستان میں بیرونی طاقتوں کی موجودگی کو تسلیم کرتے تو 14 سال جنگی مشکلات و مصائب کیوں جھیلتے! ہم اپنے پیارے وطن کو آزاد اور خودمختار دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
یہ حزبِ اسلامی کا مؤقف ہے۔ اب حزبِ اسلامی اور حکومت ایک معاہدے کے تحت اکٹھے ہوگئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بات کس طرح آگے بڑھتی ہے۔ حکومت اور امریکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس کا کچھ تجزیہ کرتے ہیں۔ امریکہ اور اشرف غنی کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس میں 20 نکات ہیں جس پر اشرف غنی نے دستخط کیے ہیں۔ یہ معاہدہ فروری 2016ء میں ہوا۔
اس معاہدے کے آغاز میں کہا گیا ہے کہ یہ معاہدہ مئی 2012ء میں طے ہونے والے تزویراتی شراکتی معاہدے کے تسلسل میں طے کیا گیا ہے (ہنری کسنجر نے اس کا انکشاف جون 2011ء میں کیا تھا) اور اس معاہدے کی مدت 10 سال ہے، دونوں اس پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔ اس معاہدے پر کسی اور مضمون میں تفصیل سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے، فی الحال ایک دو نکات پر تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔
آرٹیکل 10: اس کے تحت یوں درج ہے کہ
امریکہ کے فوجی اور سول جہازوں کو افغانستان کی فضائی حدود کے استعمال کی پوری اجازت ہوگی۔
حدود میں پرواز، لینڈنگ، افواج کی نقل و حرکت، فضا میں ری فیولنگ کی مکمل اجازت ہوگی۔ نیز فضائی حدود کے استعمال اور جہازوں کی پارکنگ کے لیے امریکہ کسی بھی قسم کے ٹیکس یا اخراجات ادا کرنے سے مستثنیٰ ہوگا۔ اور اس میں درج ہے کہ افغانستان میں داخلے، نقل و حرکت کرنے، افغانستان سے بلاروک ٹوک اور بلا پوچھ گچھ نکلنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ تمام امریکی جہاز، کشتیاں اور گاڑیاں افغان حکام کے معائنے سے مستثنیٰ ہوں گے۔ امریکی افواج کو افغانستان میں داخلے، وہاں نقل و حرکت اور بلا روک ٹوک نکلنے کی اجازت ہوگی۔
آرٹیکل 13 میں کہا گیا ہے کہ امریکی اہلکاروں کے خلاف انضباطی کارروائیوں کا مکمل اختیار صرف امریکہ کے پاس ہوگا، اگر کسی امریکی اہلکار سے افغان سرزمین پر کوئی جرم سرزد ہوجائے تو امریکہ متعلقہ قوانین کی روشنی میں اس کا ٹرائل کرے گا، اور کسی بھی امریکی اہلکار کی گرفتاری کی صورت میں اسے امریکی حکام کے حوالے کیا جائے گا۔ اور یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کسی بھی امریکی فوجی یا سویلین کو بین الاقوامی عدالت، ادارے یا تنظیم کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔
کیا یہ معاہدہ ایک آزاد ملک کی خودمختاری پر ضربِ کاری نہیں ہے؟ کیا یہ غلامی کا معاہدہ نہیں ہے؟ اس معاہدے میں ایک آزاد ملک کی خودمختاری کو مجروح کیا گیا ہے، یہ ایک آقا اور غلام کے درمیان معاہدہ ہے۔
اس معاہدے کی حزب اسلامی نے سخت مخالفت کی ہے اور اپنے ترجمان کے ذریعے تمام نکات پر اپنا مؤقف بیان کیا ہے۔
اب طالبان اور حکومتِ افغانستان دوبارہ معاہدے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ حزبِ اسلامی نے تو مسلح جدوجہد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور حکومت سے معاہدے میں قریب آگئی ہے، لیکن اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ اب طالبان ایک طرف حکومت سے مذاکرات کی میز پر آگئے ہیں اور دوسری طرف مسلح مزاحمت بھی آب و تاب سے کررہے ہیں۔ طالبان 15 سال سے مزاحمت کررہے ہیں جس کی وجہ سے امریکہ کو لوہے کے چنے چبانے پڑے ہیں۔ اب وہ مذاکرات کی طرف آگیا ہے۔ چین کی بھی خواہش ہے کہ طالبان اور حکومت میں معاہدہ ہو اورکوئی راستہ نکل آئے۔ اس لیے کہ اس نے ہلمند میں معدنیات کے حوالے سے 3ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہوا ہے، اس کے لیے اُس کی خواہش ہے کہ معاہدہ ہوجائے اور وہ اپنی تجارت کو فروغ دے سکے۔ چین کی خواہش ہے کہ سی پیک معاہدے میں افغانستان
(باقی صفحہ 41پر)
اور ایران کو بھی شامل کرے۔ اس طرح وہ اس معاہدے کے ذریعے پاکستان، ایران اور افغانستان کو قریب کرنا چاہتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کن شرائط پر معاہدہ کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے پیچھے دراصل امریکہ ہے جو پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے اور نظر جمائے ہوئے ہے۔ طالبان کی مزاحمت کمزور نہیں ہوئی ہے۔
حزبِ اسلامی اور طالبان بے شمار نکات پر ہم آہنگ ہوسکتے ہیں۔ طالبان کے دو رہنما اس کشمکش اور جدوجہد میں اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ کیا اب تیسری شخصیت اس معاہدے کو آخری مرحلے تک پہنچاسکے گی، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کردے گا۔