ایک تھی چڑیا، رنگ برنگ پروں والی، نہایت خوب صورت۔ اسے اپنی خوب صورتی اور دل کش نیلے پیلے رنگوں پر بڑا ناز تھا۔ جنگل میں وہ کسی جانور کو خاطر میں نہ لاتی تھی۔ جنگل کے سارے جانوروں کو چڑیا اچھی لگتی تھی، لیکن چڑیا کو کوئی بھی اچھا نہ لگتا۔ وہ جانوروں کی شکل و صورت کا مذاق اڑاتی۔ بندر سے کہتی: تمہاری تو گوبھی کی طرح شکل ہے۔ ہاتھی کا مذاق یوں اڑاتی: جسم موٹا، عقل چھوٹی۔ زرافے سے کہتی: تم تو پورا بانس ہو۔ کوّے کو یوں سناتی: تمہارا دل کالا اور رنگ بھی کالا۔ سانپ کو ’’گیلی رسّی‘‘ کہتی، تو لومڑی کو ’’کٹنی خالہ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی۔
ایک دن فاختہ نے اسے سمجھایا تو وہ تنک کر بولی: فاختہ خالہ، مجھے نصیحت نہ کرنا، میرے دل میں جو آئے گا، میں وہی کروں گی۔ فاختہ نے کہا: سوچ لو، اللہ تعالیٰ کو مغرور لوگ پسند نہیں۔
چڑیا نے سرکشی اختیار کی اور مغرور لہجے میں بولی: لگتا ہے آپ میرا حسن دیکھ کر جل گئی ہیں۔
فاختہ سمجھ گئی کہ اب اسے سمجھانا فضول ہے۔
پھر وہی ہوا جو غرور کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک دن جنگل میں آگ لگ گئی۔ چڑیا سو رہی تھی، آگ اس کے گھونسلے تک پہنچ گئی، چڑیا نے جان بچانے کے لیے اڑان بھری، لیکن شعلوں نے اس کے چہرے کو جُھلسا دیا۔ چڑیا نے پانی میں چھلانگ لگادی اور ڈوبنے لگی۔ جانوروں نے اسے پانی سے باہر نکالا تو آگ بجھ گئی، لیکن اس کا چہرہ جل کر بدصورت ہوگیا تھا، اتنا بدصورت کہ سارے جانور ڈرگئے۔
بندر نے کہا: ارے، چڑیا کی شکل کتنی خوف ناک ہوگئی ہے۔ ہاتھی نے کہا: بہت مذاق اڑاتی تھی دوسروں کا، آج اسے اللہ نے غرور کی کیسی سزا دی ہے۔ زرافہ بولا: اس کا تو حُسن ہی برباد ہوگیا۔۔۔ چڑیا سب کی سُن رہی تھی اور ندامت سے، جلنے کی تکلیف سے اور شرمندگی سے زمین میں گڑی جارہی تھی!!
nn