ڈاکٹر خالد مشتاق

241

159ریضہ صائمہ اور اس کی والدہ نے سنا اور دوا لے کر چلی گئیں۔ دو ہفتے بعد صائمہ کلینک آئی تو بہتر تھی۔ اس نے بتایا کہ ’’میرے بہت سے مسائل حل ہوگئے، لیکن ذہنی پریشانی رہتی ہے۔ میں نے ساری عمر جس طرح زندگی گزاری ہے، بولڈ زندگی۔۔۔ میں ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتی۔ یہ اسٹائل رہا ہے میرا۔ میں نے بہت سے بیانات سنے ہیں، ان کو سن کر اور درس سن کر میرا ذہن یہ بن گیا تھا کہ ’’دانت کے بدلے دانت، آنکھ کے بدلے آنکھ، اینٹ کا جواب پتھر، حق بات سے بالکل پیچھے نہیں ہٹنا۔ اب آپ یہ بتا رہے ہیں کہ غلط کام دیکھو اور چپ رہو۔ یہ بات اپنی عقل میں ہی نہیں آرہی۔ ساس، نندوں اور شوہر کی اتنی اہمیت ہوگئی کہ حق اور سچ کو چھوڑدوں!‘‘ کہنے لگی ’’صفائی نصف ایمان ہے، اس قولِ رسولؐ پر میں کس طرح سمجھوتا کرسکتی ہوں!‘‘
صائمہ سے کہا: ’’دیکھو ہمیں آنکھیں، کان اور دماغ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تمہارا یہ کہنا کہ میں نے تمہیں پیچھے ہٹنے کو کہا ہے، غلط ہے۔ دنیا میں اصل چیز ٹارگٹ ہوتی ہے۔ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے پیچھے ہٹنا بہت عام سی بات ہے۔ اللہ نے آنکھیں استعمال کرنے کا حکم دیا ہے، جو لوگ لانگ جمپ کرتے ہیں وہ چھلانگ لگانے کی مقررہ جگہ سے پیچھے ہٹ کر ہی دوڑتے ہیں اور لمبی چھلانگ لگاتے ہیں۔ تیز شاٹ لگانے کے لیے بلے باز (کرکٹر) بلا پیچھے لے جاتے ہیں اور اکثر پیچھے ہٹ کر جگہ بناکر اچھا شاٹ کھیلتے ہیں۔ باکسر، فٹ بالر اور دیگر کھیلوں کے کھلاڑی بظاہر پیچھے ہٹتے ہیں لیکن ان کا ٹارگٹ کامیابی ہوتی ہے۔ اس لیے اگر آپ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتیں استعمال کریں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے پیچھے ہٹنا بری بات نہیں ہے۔ یہ کام مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو سب کرتے ہیں، اور دنیا میں Destination‘ منزل حاصل کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اس کے لیے طریقۂ کار اور پلاننگ میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن سب کا ہدف کامیابی ہوتا ہے۔
ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عملی طور پر جو طریقہ سکھایا ہے، ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ وہی کامیابی کا طریقہ ہے۔ ابراہیمؑ کے ماننے والے دنیا میں اس وقت اربوں انسان ہیں، وہ بہت سے کام ان کے طریقے پر کررہے ہیں لیکن انہیں اس کا علم نہیں کہ ان کے آبا و اجداد نے یہ حکیمانہ کام اور اسٹائل کہاں سے سیکھا تھا۔‘‘
صائمہ کو بتایا کہ انسانی فطرت ہے کہ جب اس کے کسی کام کو غلط بتایا جائے تو اس کے ذہن میں منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں، ایسے کیمیکل پیدا ہوتے ہیں جو دماغ کے اندر سننے اور دیکھنے کی صلاحیت کم کردیتے ہیں۔ ان نفسیاتی حقائق پر حضرت ابراہیم علیہ السلام عبور رکھتے تھے۔ آپؑ نے تعلیمات دیں، اس کے مطابق جب یہ منفی خصوصیات رکھنے والے کیمیکل ذہن میں موجود ہوں تو اس وقت کسی کو صحیح بات بھی نہیں سمجھانی چاہیے کیونکہ نہ ہی اُس کے کان اسے سن سکیں گے، نہ آنکھیں دیکھ سکیں گی اور نہ ہی دماغ یہ محسوس کرسکے گا۔ اس لیے اُس وقت خاموشی اختیار کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کیمیکل میں کمی آئے گی۔ دوسرے جب وہ فرد آنکھوں سے اپنے کیے جانے والے کام کے برے نتائج دیکھے گا تو دماغ کے ان کیمیکلز میں بہت کمزوری آجائے گی، صرف اس صورت میں آپ اپنے ٹارگٹ پر عمل کرنے کے لیے بات کرسکتی ہیں۔
مریضہ بولی: وہ کیسے؟ بال اڑ رہے ہیں‘ یہ غلط ہے۔ کھانے میں آرہے ہیں‘ کیا گندا کھانا کھالوں؟‘‘
اسے بتایا کہ آپ کھانے کی میز یا دستر خوان سے اٹھ سکتی تھیں، بہانہ بنا کر (یہ ظاہر کرکے کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے‘ متلی ہورہی ہے یا کوئی اور) اپنے کمرے میں چلی جاتیں۔۔۔ کہہ دیتیں آپ لوگ کھائیں میں بعد میں کھا لوں گی۔ لیکن اس کے مقابلے میں آپ نے وہ انداز اختیار کیا، وہ جملے کہے جس سے دماغ میں منفی کیمیکل پیدا ہوئے، انہیں لگا کہ یہ پڑھی لکھی ہے، ہمیں کم تر سمجھتی ہے، ہمارے خاندان کو توڑنا چاہتی ہے۔
مریضہ سے کہا: یاد رکھیں انسان اپنے سے زیادہ اپنی روایات پر عمل کرتا ہے۔ اپنے گھر میں بنائے گئے خود ساختہ اصولوں، روایات سے۔۔۔ چاہے وہ کتنے ہی غلط کیوں نہ ہوں۔۔۔ اسے بہت محبت ہوتی ہے۔ آپ کے واقعے میں تو یہ اچھی بات تھی کہ سارا خاندان چھٹی والے دن ساتھ کھانا کھائے۔ آپ کی صحیح بات نے جو غلط وقت اور غلط انداز میں کی گئی، منفی اثرات مرتب کیے۔ آپ نے صفائی پر زور دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سب مانتے ہیں۔ اگر ان کے سامنے آپ اس طرح اپنی بات رکھیں گی کہ آپ تو اللہ والی، صفائی پسند، پڑھی لکھی ہیں اور انہیں نہ صرف جاہل، گندا بلکہ کم تر سمجھا جارہا ہے تو اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہوں گے۔
یاد رکھیں ہمیں اللہ نے بنایا، اس نے ہماری نفسیات بنائی۔ وہ نفسیات سب سے زیادہ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے تھے۔ ان کے بتائے ہوئے نفسیاتی اصولوں سے ہٹ کر اگر ہم اچھی بات بھی کہیں گے تو اس سے خیر کے بجائے شر، اچھائی کے بجائے برائی پیدا ہوگی۔ حضرت ابراہیمؑ کے طریقے پر کام کرنے سے آگ لگتی نہیں بلکہ بجھ جاتی ہے۔ آگ بجھنے کا، آگ ٹھنڈی ہونے کا حضرت ابراہیمؑ کا مشہور واقعہ ہے۔ یہ تو بڑا واقعہ ہے۔۔۔ یہ آگ سب دیکھ سکتے تھے، لیکن وہ آگ جو بات کرنے سے سینے میں لگے، دل و دماغ کا درجہ حرارت بڑھا دے، اسے دیکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔ دنیا میں فائر preventionکا یہ طریقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سکھایا ہے۔
جب آپ نے ان کی بری بات یعنی کھانے میں بال آنے والی بات کی تو آپ بالکل ٹھیک بات کررہی تھیں لیکن اس بات کو آپ نے جس وقت اور جس انداز میں کیا اس سے اُن کے دماغ میں آگ لگ گئی۔ انہوں نے جوابی حملے کیے اور آپ کے ساتھ غلط طریقہ اختیار کیا۔ ایسے الفاظ اور جملے کہے جو تکلیف دہ تھے۔ ان کے دماغ اور سینے میں جو آگ لگی وہ جوابی الفاظ کی شکل میں آپ کے دماغ اور سینے تک پہنچی اور آپ کو سینے میں جلن کی شکایت رہنے لگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر نہ چلنے کا انجام سینے کی آگ دنیا ہی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
آپ اس کلینک میں سروے کرلیں، کسی میڈیکل اسٹور والے سے پوچھ لیں کہ آج کل سینے میں جلن کی دوائیں کتنی استعمال کی جاتی ہیں، آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ روزانہ کروڑوں روپے کا کاروبار ان دواؤں کا ہے۔
ڈاکٹر اور دیگر معالجین اس آگ کو بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کا کردار ادا کررہے ہیں اور دواؤں کے ذریعے مریضوں میں لگی اس آگ کو بجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہزاروں لیبارٹریاں اس پر تحقیق کررہی ہیں، لیکن پُرسکون گھریلو زندگی، اور سینے کی جلن سے بچنے کا آسان نسخہ طریقۂ ابراہیمی کے مطابق انسانوں کے ساتھ معاملات کرنا ہے۔ (جاری ہے)

حصہ