افروز عنایت

226

رب العزت نے اِس کائنات کو اپنی خوبصورت تخلیقات کی قوس قزح سے منور کیا ہے۔ اللہ کے تمام رنگ ہی بے مثال ہیں۔ ہر رنگ قابلِ تحسین ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس حسین قوس قزح سے سجی کائنات کا حسن عورت ہے۔ سونے پہ سہاگہ دینِ اسلام نے عورت کے ہر روپ کو جِلا بخشی ہے چاہے وہ ماں ہو، بہن ہو، بیوی ہو یا ایک عام عورت۔۔۔ ہر روپ میں اسلام نے عورت کو تکریم و عزت بخشی ہے۔ عورت کو صنفِ نازک سے تشبیہ دی گئی ہے، ذرا سی ٹھیس پہنچے تو بکھر اور ٹوٹ جاتی ہے، لیکن تمام خواتین کو ہم اس زمرے میں شامل نہیں کرسکتے۔ بے شک مرد کو اللہ نے سپر پاور کا درجہ عطا کیا ہے لیکن عورت بھی اپنے اندر بے پناہ خوبیوں کی مالک ہے۔ ہمت، قوتِ مدافعت، ایثار و قربانی، عزم و استقامت کی تصویر ہے۔ وقت آنے پر پہاڑوں کی چوٹیاں بھی سر کرجاتی ہے۔ تاریخِ اسلام ان باہمت، عزم و استقلال کی خوبیوں کی مالک ازواجِ مطہراتؓ، صحابیاتؓ، اور محب وطن خواتین کے کارناموں سے روشن ہے۔ چاہے اولاد کی پرورش و تعلیم کا معاملہ ہو یا مصائبِِ عالم کا سامنا۔۔۔ غزوات و سریہ کے لمحات ہو، یا دینِ اسلام کی تبلیغ کا معاملہ۔۔۔ ہر میدان میں مسلم خواتین نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ ہاں اس بات سے بھی انکار نہیں کہ عورت اپنے منفی رویوں اور اپنی ضد، انتقام، بغض اور حسد کی بدولت گھروں کے گھر اور تخت و تاج کو بھی برباد کردیتی ہے اور خود بھی اس کی نذر ہوجاتی ہے۔ آج میں آپ سے ان سطور کے ذریعے چند ایسی خواتین کی زندگی شیئر کروں گی جنہوں نے تمام مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، دنیا کے نشیب و فراز میں اپنے دامن کو آلودگی سے بچا کر، شرم و حیا اور اسلامی حدود کے احاطے میں رہ کر مصائب کا بے جگری سے مقابلہ کیا، بلکہ ہر گھڑی اپنے رب العزت کا شکر بھی ادا کیا کہ رب نے انہیں یہ صلاحیت، سمجھ اور فہم عطا کیا جس کی بدولت نہ صرف اپنی زندگی بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی چراغ روشن کیے۔
رمشا کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ شادی کے دس، بارہ سال گزرنے کے باوجود اولاد کی محرومی کو رب کی مصلحت سمجھ کر صبر وشکر کرلیا۔ بوریت دور کرنے اور وقت گزاری کے لیے ایک اسکول میں استانی لگ گئی۔ زندگی کے دن گزر رہے تھے کہ اچانک شوہر (سکندر) کو ایک خطرناک بیماری نے جکڑلیا۔ علاج معالجہ سے جان تو بچ گئی لیکن وہ بیڈ (بستر) تک محدود ہوگیا، ملازمت بھی چلی گئی۔ کل تک جو ملازمت رمشا کے دل بہلانے کا سبب تھی وہ اب اس کی ضرورت بن گئی۔ یہ وقت اس کے لیے بڑا کڑا اور آزمائشوں والا تھا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری، ملازمت کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھانے لگی تاکہ شوہر کے علاج معالجے کے لیے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اس کی مشکلات میں اُس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب سسر کے انتقال کے بعد خاندانی گھر کا بٹوارا ہوا۔ اس نے اپنے حصے کے پیسوں سے ایک اپارٹمنٹ خرید لیا اور شوہر کے ساتھ وہاں شفٹ ہوگئی۔ اب شوہر کی مکمل ذمہ داری اس کے کندھوں پر آگئی، لیکن اس باحیا، باہمت، باوفا خاتون نے ہمت نہ ہاری۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق مریض کے لیے علاج کے علاوہ ورزش، مالش اور فزیوتھراپی بے حد ضروری تھی۔ اپنے آرام کو پس پشت ڈال کر وہ ان تمام ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہوگئی۔ رب العزت بڑا مہربان ہے، وہ اپنے بندوں کو آزماتا ضرور ہے لیکن ان کو اجر سے بھی نوازتا ہے اور احسانات بھی کرتا ہے۔ یہی کچھ رمشا کے ساتھ بھی ہوا۔ رمشا کی محنت رنگ لائی اور سکندر اس قابل ہوگیا کہ وہیل چیئر پر بیٹھ کر گھر میں اِدھر اُدھر آجا سکتا اور اپنے کچھ کام انجام دے سکتا تھا۔ اس طرح رمشا کے جانے کے بعد وہ شام تک گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی کرلیتا جس سے رمشا کو کچھ سکون مل گیا۔ رب العزت بنجر زمین کو بھی ’’کن فیکون‘‘ سے آباد کرسکتا ہے، پھول کھلا سکتا ہے۔ رمشا کی ویران گود کو بھی اس نے آباد کردیا۔ شادی کے بیس سال بعد اللہ نے اس کو ایک پیاری بیٹی کے تحفے سے نوازا تو دونوں میاں بیوی کی ’’ویران زندگی‘‘ میں جیسے ’’بہار‘‘ آگئی، دونوں دوبارہ سے جی اٹھے۔ رب کا شکر ادا کیا کہ جس نے ان کے ویران آنگن کو رونق بخشی۔ بچی کے ننھے منے قہقہوں سے گھر کی دیواریں بھی کھل اٹھیں۔ اللہ کریم ہے، آنے والے بندے کے لیے خود ہی رزق کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ رمشا کے اسکول میں سیکنڈ شفٹ شروع ہوئی تو اس نے ٹیوشن چھوڑ کر دونوں شفٹیں جوائن کرلیں۔ اس طرح آمدنی میں بھی اضافہ ہوگیا، دوسری طرف سکندر اس قابل ہوگیا تھا کہ وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے بچی کی دیکھ بھال اچھی طرح کرسکے۔ اس طرح رمشا اور سکندر ایک دوسرے کے تعاون سے بچی اور گھر کو اچھی طرح سنبھال رہے تھے۔ کچھ سالوں میں بچی اس قابل ہوگئی کہ رمشا نے اسے اپنے اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد بہت عرصے تک میری رمشا سے ملاقات نہ ہوسکی۔ اتفاقاً کچھ عرصہ پہلے میری اُس سے ملاقات ہوئی، بیس اکیس سالہ ایک پیاری سی لڑکی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے بتایا کہ یہ اس کی بیٹی ہے۔ سلام دعا کے بعد میں نے اس کے شوہر کے بارے میں پوچھا کہ اب وہ کیسے ہیں، تو کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی، اس کے بعد اُس کی آواز کہیں دور سے آتی محسوس ہوئی کہ پانچ مہینے پہلے اس کا انتقال ہوگیا ہے۔ لیکن آج بھی مجھے وہی باہمت، اور شکر گزار رمشا ہی نظر آئی۔ کہنے لگی خدا کا شکر ہے کہ اللہ نے نہ صرف جینے کا سامان مہیا کیا ہے بلکہ بڑھاپے کا سہارا بھی دیا ہے، اس نے B.A کیا ہے، اب کمپیوٹر کورس کررہی ہے۔ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ اس کی آنکھوں کی اس ٹھنڈک کو سلامت رکھے (آمین)۔
*۔۔۔۔۔۔*
ثانیہ ایک غریب اور بارہ افراد پر مشتمل خاندان کی بڑی بیٹی تھی۔ باپ کی طویل بیماری کی وجہ سے اس خاندان کی گزربسر کچھ رشتے داروں کی مالی مدد سے جیسے تیسے ہورہی تھی۔ ہوش سنبھالتے ہی ثانیہ نے باپ کی بیماری، ماں کی چڑچڑاہٹ اور غربت کو دیکھا تو سوچا کہ وہ کسی طرح کچھ پڑھ لکھ کر اپنے خاندان کا سہارا بنے گی۔ پڑھائی میں بھی اس کی کارکردگی کوئی نمایاں نہیں تھی، اس لیے اکثر وہ اپنی کزن (جو کالج میں پڑھتی تھی) سے مدد لیتی رہتی۔ کزن کی والدہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق گاہے بہ گاہے اس خاندان کی مدد بھی کرتی رہتی تھیں۔
ایک دن ثانیہ کے سرکاری اسکول میں ایک ٹیم آئی کہ ہمیں S.L.T ٹیچرز کی ضرورت ہے (یہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا دور تھا)، آٹھویں جماعت کی طالبات میں سے جو دلچسپی رکھتی ہوں وہ اپنا نام دے دیں اور ہمیں ایک ہفتے کے اندر اپنے والدین سے اجازت لے کر آگاہ کردیں۔ ثانیہ کی والدہ یہ سن کر تو بہت خوش ہوگئیں۔ ثانیہ نے اپنی کزن سے مشورہ مانگا، اُس نے بھی اسے یہی مشورہ دیا کہ اس طرح کچھ آمدنی کا بندوبست ہوجائے گا، رہی پڑھائی جاری رکھنے کی بات، تو میں تمہاری پڑھائی میں مدد کروں گی اور امتحانات کی تیاری کرواتی رہوں گی تاکہ تم اپنی تعلیم بھی جاری رکھ سکو۔ اس طرح ثانیہ اپنے پورے کنبے کے لیے ’’بیٹا‘‘ بن گئی، دال روٹی کا بندوبست بھی ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد تو اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ماہ و سال بیتتے گئے، آٹھویں جماعت کی وہ بچی جس نے اپنے آپ کو اپنے کنبے کے لیے وقف کردیا تھا جوانی کی اس دہلیز پر آپہنچی تھی جس میں لڑکیاں پیا کے گھر کے خواب دیکھتی ہیں، لیکن وہ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے بارہ افراد کے خوابوں کو چکناچور نہیں کر سکتی تھی، لہٰذا آنے والے ہر رشتے پر انکار کرتی رہی کہ جب تک بھائی کمانے کے قابل نہیں ہوجاتا وہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔ ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ وقت پر اپنی بیٹی کو عزت کے ساتھ رخصت کرے، لیکن ماں کے لیے ثانیہ ایک امید اور آسرا تھی، لہٰذا وہ بھی اس کے جواب پر خاموش ہوجاتی۔ بہت سے لوگوں نے ثانیہ کو سمجھایا کہ شادی کے بعد بھی تم اپنے گھر والوں کو سنبھال سکتی ہو، یہ وقت ہے تمہیں مناسب رشتہ مل جائے گا۔ آخر ثانیہ کسی ایسے شخص سے شادی پر راضی ہوگئی جس نے اسے شادی کے بعد اپنے بہن بھائیوں کی مکمل کفالت کی اجازت دے دی۔ شادی کے بعد تھوڑی سی رقم کے سوا وہ تمام تنخواہ ماں کے ہاتھ پہ رکھتی۔ پرائیویٹ طالبہ کی حیثیت سے اپنی کزن کی مدد سے اس نے اپنی تعلیم بھی مکمل کرلی۔ ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر پہنچنے سے نہ صرف اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوگیا تھا بلکہ ذمہ داریوں میں بھی۔ اپنے بچوں پر بھی اس نے اپنے بہن بھائیوں کی ضروریات کو ترجیح دی۔ دونوں بھائی کچھ کمانے کے لائق ہوگئے تھے لیکن اس کے باوجود اس نے اپنا ہاتھ نہیں روکا۔ بہن بھائیوں کی شادیوں کے اخراجات وغیرہ، ہر موقع پر اس نے اپنے بہن بھائیوں کی بھرپور مدد کی۔ ماں کے انتقال کے بعد بہن بھائیوں کی خبرگیری میں کوئی کوتاہی نہیں برتی، لیکن افسوس کہ جب اس کے اپنے بچوں کو اس کی ضرورت تھی اس کی زندگی کے دن ختم ہوچکے تھے۔ اللہ اُس کو اُس کی اِس نیکی کا اجرعظیم عطا کرے، آمین۔
*۔۔۔۔۔۔*
عاتکہ کی کہانی بھی ثانیہ سے مختلف نہیں۔ اس نے نہ صرف اپنی محبت، خواہش اور خوشحالی کی قربانی دی بلکہ بہت سے مسائل کا بھی سامنا کیا۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد اس نے بہت سی باتوں سے سمجھوتا کیا اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی شادیوں تک ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان بہت سے پیارے رشتوں کے لیے اگرچہ اس نے اپنی ذات سے وابستہ بہت سی خوشیوں کو قربان کردیا، لیکن آج وہ صرف اس لے مطمئن اور پُرسکون ہے کہ بے شک مجھے بہت ساری خوشیاں۔۔۔ آسائشیں مل جاتیں لیکن یہ آٹھ نفوس دربدر ہوجاتے۔ آج ان کو دیکھ کر مجھے اپنی وہ ’’خوشیاں‘‘ ہیچ لگتی ہیں۔
*۔۔۔۔۔۔*
شاہدہ کی زندگی کے اوراق میں اس لیے آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں کہ وہ بچیاں جو شادی کے بعد ’’کچھ‘‘ پریشانیوں اور مسائل پر واویلا مچاتی ہیں، اپنے آپ کو دنیا کی سب سے ’’بدنصیب عورت‘‘ تصور کرتی ہیں وہ شکر ادا کریں کہ دنیا میں عورت کو ایسے حالات و واقعات بھی پیش آتے ہیں لیکن وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں، اور عزتِ نفس کے لیے سب برداشت کرلیتی ہیں۔ اسے پڑھ کر شاید یہ احساس ہو کہ ہم سے زیادہ مظلوم کوئی اور بھی ہوسکتا ہے۔
شاہدہ جو متمول گھرانے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ برسرِ روزگار لڑکی ہے، اس کی شادی حسن سے طے ہوگئی جو بظاہر خوش گفتار، خوش شکل، برسرِ روزگار اور نارمل شخصیت کا مالک نظر آتا تھا۔ شادی کے بعد شوہر کی خامیاں اس کے سامنے آنے لگیں۔ اس کا شوہر جو بظاہر خوبیوں کا مالک نظر آرہا ہے اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ نہ صرف نفسیاتی مریض بلکہ اندر سے کمزور شخص تھا کہ ایک معمولی وزن کو اٹھانے کی بھی اس میں قوت نہ تھی، نہ اس کے ہاتھوں کی گرفت ایسی تھی کہ کچھ وزن پکڑ سکے۔ شاہدہ نے سوچا آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اب حالت یہ تھی کہ اس کی اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام امور چاہے گھر سے باہر کے ہوں یا اندر کے، خریدو فروخت، ساس سسر کی دیکھ بھال، سب اس کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ یعنی وہ شخص صرف اپنی ملازمت کی ذمہ داری خود اٹھائے ہوئے تھا۔ دو بچوں کی پیدائش کے بعد بھی عارضہ میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شاہدہ کی ذمہ داریوں میں بھی اصافہ ہوتا گیا۔ دوسری طرف حسن کی یہ حالت کہ اس نے شاہدہ کے ساتھ تمام ازدواجی تعلقات بھی منقطع کردیے، لیکن شاہدہ مجبور ہے، وہ اگر حسن سے کبھی احتجاج کرتی ہے تو وہ شخص یہ کہہ کر لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے کہ میں نے اپنے والدین سے کہا تھا کہ میری شادی نہ کروائیں، میں ذمہ داریاں نہیں اٹھا سکتا، لیکن وہ نہ مانے، اب تمہیں جو شکایت ہو میرے والدین سے رجوع کرو۔ اس کے والدین کا یہ حال ہے کہ جو ہے جیسا ہے اب ساری ذمہ داری تمہاری ہے،نبھاؤ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ سمجھو وہ بچوں کی ماں بھی ہے اور باپ بھی۔ شوہر کے ہوتے ہوئے بھی وہ تنہائی کا شکار ہے۔ دہری ذمہ داریاں اس کے نازک کاندھوں پر ہیں۔ طلاق وہ اس لیے نہیں لے رہی کہ والدین آج ہیں کل نہیں ہوں گے۔ بھائی بھاوج پر بوجھ بن کر اپنی اور بچوں کی عزتِ نفس کو مجروح نہیں کرسکتی۔ ویسے بھی طلاق یافتہ عورت کی اس معاشرے میں کوئی عزت نہیں۔ کم از کم جیسا بھی ہے ایک نام تو ہے جو میرے اور بچوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک شوہر کی چار دیواری تو میسر ہے۔
*۔۔۔۔۔۔*
یہ چند باہمت، باعزم خواتین کے واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر یقیناًاُن لوگوں کی رائے جو عورت کو کمزور، بے بس، کم ہمت سمجھتے ہیں، ضرور تبدیل ہوگی۔ یہ صرف چند خواتین کے واقعات میں نے بیان کیے ہیں، یقیناًآپ کی نظروں سے بھی بارہا ایسے واقعات گزرتے ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان واقعات کو محسوس کریں اور عبرت حاصل کریں، خود بھی سبق حاصل کریں اور اپنی بیٹیوں کو بھی احساس دلائیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ عورت ظلم برداشت کرتی جائے اور اف تک نہ کرے، یا قربانی کا بکرا بن جائے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ کو محسوس کریں اور یہ سبق بھی حاصل کریں کہ عورت اسلامی حدود کے اندر رہ کر شرم وحیا کی چادر اوڑھ کر بڑے سے بڑا کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بڑی سے بڑی چوٹی سر کرسکتی ہے۔ دوسروں کی مجبوری کے وقت، ان کی تکلیف میں، ان کے برے وقت میں معاون بھی ہوسکتی ہے۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ میری بیٹی جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی اتفاقاً ایسے شخص سے اس کی شادی ہوئی جو چار بہنوں اور والدہ کا واحد کفیل تھا۔ ان کے مالی حالات ناگفتہ بہ تھے، میری بیٹی نے اپنے شوہر کا مکمل ساتھ دیا، اپنی تنخواہ کا زیادہ حصہ اپنی ساس نندوں پر خرچ کرتی رہی، بڑی عزت سے چاروں نندوں کی شادی کرکے رخصت کیا، اب فارغ ہوکر اس نے اپنی اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف مکمل توجہ مبذول کی ہے۔
عورت پیار و محبت، ایثار اور عزم و ہمت کی چاشنی سے گندھی ہوئی وہ ہستی ہے جو وقت آنے پر رب العزت کی رضا کی خاطر اپنے آپ کو بھول کر دوسروں کے لیے جیتی ہے۔ اگر کسی خاندان میں ایسی خواتین ہیں تو ان کی قدر کریں، انہیں عزت و توقیر دیں، کیونکہ یہ ان کا حق ہے۔ ایک باعزت لیکن باہمت ماں کے بیٹے جن کی تعلیم و تربیت پر ان کی والدہ نے اپنی تمام خوشیاں نچھاور کردیں جس کی وجہ آج وہ معاشرے کے معزز اور خوشحال افراد میں شامل ہیں، ان کی یہ تمنا اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماں کو زندگی کی تمام خوشیاں اور آسائشیں اور دلی سکون مہیا کریں جس سے ماضی میں ان کی والدہ محروم رہیں۔
خدا سب کو راہِ ہدایت نصیب کرے (آمین)۔

حصہ