(زشتہ دو ڈھائی سال کی ہنگامہ خیزی کے دوران یہ پہلا موقع ہے(سید تاثیر مصطفی

212

157زشتہ دو ڈھائی سال کی ہنگامہ خیزی کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی اخبار اور کسی پاکستانی صحافی کی خبر پر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ اس سے قبل جتنی خبروں نے پاکستانی سیاست میں تلاطم پیدا کیا وہ تمام کی تمام غیر ملکی اخبارات، چینلز یا نیوز ایجنسیوں کی جاری کردہ تھیں، اور یہ خبریں دینے والے بھی غیرملکی صحافی تھے۔ اگر کہیں کسی پاکستانی صحافی نے یہ کام کیا تو وہ بھی کسی غیرملکی میڈیا سے وابستہ تھا۔ اس دوران بہت سی خبریں آئیں، ان پر ہنگامہ برپا ہوا، مگر انجامِ کار کچھ نہیں ہوا۔ نہ کسی نے تحقیق کی، نہ کسی نے ثابت کیا کہ خبر درست تھی یا غلط۔ ایک طوفان اٹھا اور بیٹھ گیا۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہو، تاہم اِس بار اہم بات یہ ہے کہ خبر ایک پاکستانی اخبار نے دی ہے اور صحافی بھی پاکستانی ہے۔ تاہم اِس بار بھی یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اخبار انگریزی ہو اور صحافی ایسا جس کے نام سے غیر ملکی ہونے کا تاثر ابھرے۔
انگریزی روزنامہ ’ڈان‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر سرل المیڈا کی ایک کالم نما خبر یا خبر نما کالم نے جو طوفان اٹھایا تھا وہ ابھی تھما نہیں ہے۔ اگرچہ سیاسی و عسکری قیادت اس پر اپنی اپنی تشویش کا اظہار بھی کرچکی ہیں، کچھ وضاحتیں بھی دی جاچکی ہیں اور کچھ کارروائیاں بھی ہوچکی ہیں، مگر تاحال مطمئن کوئی نظر نہیں آرہا۔
6 اکتوبر کو شائع ہونے والی اس خبر، مضمون، کالم یا تبصرے کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پر پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بات ہوئی ہے اور ملک کے تقریباً تمام سیاسی قائدین نے اس پر کچھ نہ کچھ تبصرہ بھی کیا ہے۔ حکومت نے بھی کچھ وضاحت کی ہے اور کچھ کارروائی بھی کی ہے۔ وزیرداخلہ کو اس مسئلے پر پریس کانفرنس کرنا پڑی ہے اور متعلقہ صحافی سرل المیڈا کا نام پہلے ای سی ایل پر ڈالا اور پھر نکالا گیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ دو تین دوسرے افراد کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالے گئے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے نام نہیں بتائے لیکن اس حوالے سے جن ناموں کا تذکرہ آتا رہا ان میں وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، پریس سیکریٹری محی الدین وانی اور وزیر اطلاعات پرویز رشید شامل تھے، تاہم کسی ذمہ دار ذریعے نے ان ناموں کی تصدیق نہیں کی۔ شاید اتنی سیاسی و انتظامی مشق کے بعد یہ معاملہ دب جاتا، لیکن جب اس معاملے پر اعلیٰ ترین سیاسی و عسکری قیادت کی ملاقات ہوئی اور جب کور کمانڈر کانفرنس میں اس پر گفتگو ہوئی اور جب فوج کے حلقوں نے یہ کہا کہ اس خبر سے دشمن کے بیانیے کو تقویت ملی ہے تو یہ معاملہ سنگین ترین صورت اختیار کرگیا۔
پیشہ ورانہ حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات بہت اہم ہے کہ حکومتی یا عسکری حلقوں میں سے کسی نے بھی خبر کی صحت سے انکار نہیں کیا۔ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ خبر غلط ہے اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ عسکری ذرائع خبر فیڈ کرنے والوں کے حوالے سے پوچھتے ہیں کہ یہ بتایا جائے کہ خبر فیڈ کس نے کی ہے۔ یہ پنڈورا بکس کھلا تو اسے بند کرنا مشکل ہوجائے گا، کیونکہ پنجاب کی ایک اعلیٰ شخصیت اور سیکورٹی ادارے کے ایک ذمہ دار کے حوالے سے جو گفتگو اس خبر اور بعد میں ہنگامہ کا باعث بنی ہے، یہ گفتگو اِن دو افراد ہی کے درمیان تھی۔ اور غالباً اس میں بعد میں دو اور اہم شخصیات بھی شریک ہوگئی تھیں۔ اب یا تو ان میں سے کسی نے یہ خبر دی ہے یا پھر وہاں انتہائی حساس آلات لگے ہوئے تھے جن کے ذریعے یہ خبر باہر نکلی۔ اور یہ بات زیادہ پریشان کن ہے کہ اگر وہاں ایسے آلات تھے تو وہ کیوں اور کس نے لگائے تھے اور پھر وہ لیک کیسے ہوئے؟
اہم موڑ تب آیا جب ڈان کے ایڈیٹر نے اپنے خصوصی نوٹ میں یہ بات کہی کہ یہ خبر پوری چھان پھٹک کے بعد لگائی گئی ہے۔ گویا وہ خبر کی صداقت پر مُصر ہیں، اگرچہ اس کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ خبر کی صحت پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھا رہا تھا۔
اس معاملے میں ٹاک شوز میں بہت گفتگو ہوئی ہے اور صحافتی حلقوں میں بھی تاحال بحث و تمحیص جاری ہے۔ بعض صحافتی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ المیڈا ایک اچھے، محنتی اور قابل اعتماد اخبار نویس ہیں، مختلف حلقوں میں اُن کے اچھے مراسم ہیں، اس لیے انہوں نے اپنے ذرائع سے خبر حاصل کی اور اُسے فائل کردیا۔ پھر بھی اخبار کے سینئر لوگوں خصوصاً ایڈیٹر ظفرعباس نے خبر کو دیکھا ہوگا، رپورٹر سے سوال جواب کیے ہوں گے، اپنے ذرائع سے مزید تصدیق کی ہوگی اور کچھ شواہد اور ضروری معلومات کی تسلی کرنے کے بعد خبر شائع کی ہوگی۔
بعض صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ اتنی بڑی خبر اگر فیڈ کی گئی ہے تو یہ رپورٹر کو فیڈ کرنے کا رسک نہیں لیا گیا ہوگا، بلکہ یہ خبر براہِ راست ایڈیٹر ظفرعباس کو دی گئی ہوگی، انہوں نے غور و خوص اور سینئر دوستوں کی مشاورت کے بعد یہ خبر المیڈا کے حوالے کردی ہوگی اور انہیں کہا ہوگا کہ یہ خبر وہ فائل کردیں۔ دونوں صورتوں میں خبر کی صداقت سے ایڈیٹر مطمئن ہوں گے۔ اسی لیے ضیاء الدین جیسے تجربہ کار اخبار نویس یہ کہہ رہے ہیں کہ المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے اور اس پر دباؤ ڈالنے کے بجائے ایڈیٹر ظفر عباس سے پوچھا جانا چاہیے، انہوں نے یقینی شواہد اور ضروری کوائف کی تصدیق کے بعد خبر شائع کی ہوگی۔ بعض صحافتی حلقے اس حوالے سے ذرا آگے بڑھ کر اندازے لگا رہے ہیں۔ اُن کے یہ اندازے درست ہیں یا غلط، یہ دوسری بات ہے، لیکن یہ نکات صحافت کے پیشہ ور حلقوں میں زیربحث ضرور آئے ہیں۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑی خبر تھی، نہ رپورٹر اسے روک کر زندگی بھر کا پچھتاوا مول لے سکتا تھا اور نہ ایڈیٹر۔ رپورٹر تو خبر فائل کرکے فارغ ہوجاتا ہے لیکن یہاں سے زیادہ حساس ذمے داری ایڈیٹر کی شروع ہوتی ہے، وہ غیر یقینی یا خدشات کے باعث خبر روک لے تو زندگی بھر پچھتائے گا، اور اگر ہمت کرکے خبر لگادے تو اس کے مضمرات کا اسے ہی سامنا کرنا ہوگا۔ یہ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ظفر عباس نہ صرف ایک بے باک اور حوصلہ مند صحافی ہیں بلکہ اچھے برے حالات کا ادراک بھی رکھتے ہیں۔ صحافت کی دنیا میں وہ ایک بڑا نام ہیں۔ وہ کوئی بھی رسک لے سکتے ہیں جو انہوں نے لیا ہے۔ اس سلسلے میں مذکورہ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے یہ خبر اُن تک اُن کے بھائی مظہر عباس کے ذریعے پہنچی ہو، وہ بھی خبر کی تہہ تک پہنچنے والے صحافی ہیں، اور وہ چونکہ جنگ گروپ میں تھے اس لیے بھی اور اپنے ذاتی حوالے سے بھی حکومت کے قریب ہیں اور حکومتی معاملات کو جانتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی ہوسکتا ہے کہ ظفرعباس نے اپنے بھائی سے جو آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ رہے ہیں، مشورہ کیاہو یا اُن کے ذریعے بعض عسکری ذرائع سے تصدیق کرلی ہو۔ ایسی صورت میں انہوں نے یہ رسک لے لیا جس کے بارے میں بھی وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی خبر کی اشاعت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ظفر عباس کو یہ خبر دوسرے ذرائع سے بھی ملنے کا امکان ہے جس کی انہوں نے اپنے ذرائع سے چھان پھٹک کرلی ہوگی۔
اس ساری صورتِ حال میں صحافتی حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ خبر درست ہے تو یہ ہنگامہ کیوں ہے؟ اور اگر غلط ہے تو حکومت واضح تردید کرے اور کارروائی کرلے۔ دوسری بات یہ ہے کہ رپورٹر یا ایڈیٹر کسی سے بھی خبر کے ذرائع یا سورس معلوم نہیں کیے جا سکتے۔ یہ صحافتی اخلاقیات کے منافی ہے، اور صحافی عام طور پر یہ کام نہیں کرتے، کیونکہ ایسی صورت میں اُن کے خبر کے ذرائع مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔
یہ حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ ظفر عباس کو آگے بڑھ کر یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہیے، کہ بطور ایڈیٹر اخبار میں چھپنے والے ہر لفظ کے ذمہ دار وہ ہیں۔ وہ خود بھی ایڈیٹر نوٹ میں یہ ذمہ داری قبول کرچکے ہیں۔ اس لیے انہیں یہ پیش کش کرنی چاہیے کہ جو کچھ معلوم کرنا ہے رپورٹر کے بجائے ان سے کیا جائے۔
المیڈا کی اس خبر کی اشاعت کے بعد سے جو ہنگامہ برپا ہے اور سیاسی اور عسکری قیادت میں جو تناؤ آیا ہے اس میں دونوں طرف کے حمایتی حلقے متحرک ہوگئے ہیں اور اپنے اپنے مؤقف کے دفاع میں سرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور میں دو صحافتی تنظیموں کے اشتراک سے ایک سیمینار ہوا۔ منتظمین میں ایسے لوگ شامل تھے جن میں سے کچھ کو سیاسی حکومت کا ازخود ترجمان کہا جاتا ہے، اور کچھ لوگ ایسے تھے جو فوج کے حوالے سے اس طرح کی ازخود خدمات کے دعوے کرتے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوا کہ صحافتی حلقوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اپنے طور پر حکومت اپنے کیمپ کے افراد سمجھتی ہے اور فوج اپنے کیمپ کا۔۔۔ شاید یہ دونوں ہی کے کیمپ کے لوگ نہ ہوں بلکہ ان کا اپنا ہی کیمپ ہو۔ اور وہ دونوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے ہوں کہ وہ ان کے حمایتی یا خیرخواہ ہیں۔ اس سیمینار میں مقررین نے بہت کھل کر باتیں کیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جن دہشت گردوں کے نام پر یہ تنازع ہے انہیں فوج ہی نے پالا پوسا تھا۔ جب کہ بعض مقررین نے یہ بھی کہا کہ کالعدم تنظیموں کے حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ رابطوں کے الزامات زیادہ غلط نہیں ہیں، حکومت ان کا ووٹ بینک اپنے لیے استعمال کرتی ہے۔ تاہم سمینیار میں ایک مقرر کا یہ جملہ بہت زیادہ گونجا کہ کور کمانڈرز کے اجلاس میں کہا جارہا ہے کہ بتایا جائے یہ متنازع خبر فیڈ کرنے والے کون ہیں۔ اس مقرر نے کہا کہ یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ انہیں یہ سب کچھ فیڈ کرنے والے کون ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیمینار میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ اس خبر کی اشاعت یا لیکیج سے دشمن کے بیانیے کو تقویت ملی ہے یا نہیں۔ یہ سیمینار کس کے حق میں ہے اور کس کے خلاف، یہ تو معلوم نہیں، لیکن یہ بات معلوم ہوگئی کہ اب سیمیناروں اور مقررین کے ذریعے ذہن سازی کا کام ہوگا۔ کاش کہ اس بات کا احساس کیا جائے کہ قومی نوعیت کے معاملات جلسوں میں نہیں سنجیدہ فورمز پر پوری احتیاط سے زیر بحث آنے چاہئیں۔
nn

حصہ